مروہ شربینی کا قتل / مکالمہ بین المذاہب ۔۔۔ ؟!

باذوق

محفلین
السلام علیکم۔

مغربی ممالک میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب کے واقعات ایک معمول بن چکے ہیں۔
سب سے گھناؤنا واقعہ جرمنی کی ایک عدالت میں اس وقت پیش آیا جب ایک جرمن انتہا پسند نے مصر کی مروہ الشربینی کو ججوں اور عدالتی عہدیداروں کے سامنے قاتلانہ حملہ کر کے ہلاک کر دیا۔ خاتون کے شوہر اور بیٹے جب دفاع کے لیے آگے بڑھے تو قاتل نے انہیں بھی لہولہان کر دیا۔ قتل کی وجہ صرف اتنی تھی کہ خاتون حجاب کی پابند تھیں۔

ایسے ماحول میں جب کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغرب دشمنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے ، کیا "مکالمہ بین المذاہب" جاری رکھا جا سکتا ہے؟
اور دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ آیا اسلام سے بغض رکھنے والے عناصر کے ساتھ پرامن بقائے باہم کا کوئی جواز بنتا ہے؟

اس موضوع پر اسلامک اکیڈمی کے رکن اور "کلیہ اصول الدین الاظہر" کے سابق ڈین ڈاکٹر عبدالمعطی بیومی اپنا نقطۂ نظر کچھ یوں پیش کرتے ہیں ۔۔۔۔۔

******
مسلمان ، نسل پرستی کے انفرادی واقعات پر مغربی اقوام کا مواخذہ نہ کریں !
انفرادی واقعات کو اسلام اور مغربی ممالک میں آسمانی مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان مکالمے کو معطل کرنے سے گریز کریں۔ یہ پہلو ہمیشہ یپش نظر رکھیں کہ مغربی ممالک کے لاکھوں عوام نے عراق اور افغانستان میں جنگ پر امریکہ کی سابق حکومت کے خلاف طوفانی مظاہرے کئے تھے۔ اسی طرح غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام پر مغربی دنیا نے صدائے احتجاج بلند کی تھی۔
عربوں اور مسلمانوں کے انسانی مسائل پر ساتھ دینے والوں کے خلاف نسل پرستی کے انفرادی واقعے کی وجہ سے آگ بگولہ ہو جانا انصاف کے منافی ہے۔

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر مغربی دنیا میں کوئی مسلمان کسی مغربی شہری پر حملہ آور ہو جاتا یا اسے قتل کر دیتا تو ایسی صورت میں مسلمانوں کا ردّ عمل کیا ہوتا؟
خدانخواستہ اگر مغربی دنیا کا ایک طبقہ اس قسم کے انفرادی واقعے کو اساس بنا کر مسلمانوں کو اجتماعی سزا دینے کی باتیں کرتا تو ہمیں کیسا لگتا ؟
ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ مغربی دنیا کے تمام عوام اسلام اور مسلم دشمن نہیں۔
ہزاروں مغربی شہری مسلم ممالک میں مختلف حوالوں سے زندگی بسر کر رہے ہیں، ان کے خلاف عام طور پر عملی تعصب کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آتا تاہم کبھی کبھار مغربی ممالک کے بعض شہریوں کو مسلم ممالک میں تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح لاکھوں مسلمان مغربی ممالک میں بسے ہوئے ہیں ، یہ مغربی عوام کے ساتھ پرامن بقائے باہم کے اصول پر عمل کرتے ہوئے چین سکون کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ کبھی مغربی معاشرے کے نظام کو درہم برہم نہیں کرتے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ مغربی دنیا انتہا پسندوں سے پاک ہے۔ انتہا پسندی تمام معاشروں میں موجود ہے۔ مغربی دنیا میں بھی پردیسیوں کے خلاف نسل پرستی کے واقعات ہوتے ہیں لیکن یہ مغربی معاشرے کی پہچان نہیں۔ خود مسلمان تعصب کا مظاہرہ کرتے ہیں، کبھی کبھی تو مسلمانوں کے بعض گروہ دیگر مسلم جماعتوں کے خلاف تعصب کے برملا اظہار سے نہیں چوکتے۔

اسلامی دنیا کو مغرب سے کوئی چڑ نہیں !
مغربی استعمار کا دور ختم ہو چکا ہے ، مسلمان جانتے ہیں کہ مسلم اور عرب ملکوں سے مغربی دنیا کے مفادات جڑے ہوئے ہیں۔ ہم مغربی ممالک کے ساتھ مفادات کے تبادلے اور مفادات کے احترام پر مبنی تعلقات استوار کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔
بعض لوگوں کا یہ دعویٰ کہ اسلام مغرب کے خلاف ہے ، سراسر غلط ہے۔
اسلام مغربی ممالک کی مخصوص پالیسیوں اور رویوں کے خلاف ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام مغربی دنیا کا دشمن ہے۔
اختلاف اور عداوت کا فرق پیش نظر رہنا ضروری ہے۔

یہ بھی ناقابل انکار حقیقت ہے کہ مغربی ممالک میں کچھ ایسی قوتیں سرگرم عمل ہیں جو اسلام کے خلاف گھات لگائے بیٹھی ہیں۔ وہ مخصوص مقاصد کے تحت اسلام اور مسلمانوں کو اپنا ہدف بناتی رہتی ہیں۔ دیکھا جا رہا ہے کہ اسلام کے خلاف دنیا بھر میں مخصوص لابی ابلاغی مہم چلائے ہوئے ہے۔ یہ اسلام کے خلاف ثقافتی سے کہیں زیادہ سیاسی لڑائی ہے۔ مسلمانوں اور عربوں کے مسائل کو اسی ضمن میں اچھالا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کو نکو بنانے کے لیے اسلامی تصورات کو غلط شکل میں پیش کرنے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔
یہ مسلمانانِ عالم کے لیے چیلنج ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ مغربی دنیا کو اسلام کی صاف شفاف ، جامع اور حقیقی تصویر سے متعارف کرائیں۔ ہمیں یہ بتانا اور سمجھانا ہوگا کہ اسلام ، دہشت گردی کا مذہب نہیں ، اس حوالے سے اسلام کے خلاف کیا جانے والا پروپیگنڈہ غلط ہے۔
ہمیں یہ واضح کرنا ہوگا کہ اسلام ، عالمی ، انسانی اور سماجی اقدار کا علمبردار مذہب ہے۔ یہ تمام انسانوں کے درمیان اخوت و مفاہمت کی تعلیم دیتا ہے۔ آسمانی مذاہب کی تعلیمات اور اقدار مشترک ہیں ، اسلام نے سابقہ آسمانی مذاہب کی اقدار کو مزید مثالی بنانے کی جدو جہد کی ہے۔
مغربی ممالک میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پائے جانے والے تصورات کی اصلاح مثبت انداز میں کی جانی ضروری ہے !
---
"اردو نیوز (سعودی عرب)" کے ہفتہ وار مذہبی سپلیمنٹ "روشنی" سے اقتباس۔ جولائی 31 ، 2009ء

*********
ڈاکٹر عبدالمعطی بیومی نے کہا:
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر مغربی دنیا میں کوئی مسلمان کسی مغربی شہری پر حملہ آور ہو جاتا یا اسے قتل کر دیتا تو ایسی صورت میں مسلمانوں کا ردّ عمل کیا ہوتا؟
خدانخواستہ اگر مغربی دنیا کا ایک طبقہ اس قسم کے انفرادی واقعے کو اساس بنا کر مسلمانوں کو اجتماعی سزا دینے کی باتیں کرتا تو ہمیں کیسا لگتا ؟
---
مسلمانوں کے کسی بھی سنجیدہ اور باشعور طبقہ نے کبھی ایسا مطالبہ نہیں کیا کسی ایک انفرادی واقعے پر مغرب کے غیرمسلم طبقے کو اجتماعی سزا دینی چاہئے یا اس تمام غیرمسلم طبقے کا معاشی اور ہر قسم کا بائیکاٹ کرنا چاہئے یا ان سے افہام تفہیم کے تمام دروازے بند کر لینا چاہئے۔

سوال یہ نہیں ہے ۔۔۔۔ بلکہ یہ ہے کہ ایسے واقعات پر کیا ہمیں مناسب و موزوں دائرہ عمل میں بھی احتجاج کا حق حاصل نہیں؟ اور کیا انصاف کی دہائی دینے والے ہمارے احتجاج پر غیرمسلم طبقہ ہماری اخلاقی تائید بھی نہیں کرے گا؟ کیا ہمارے ایسے المیے بین الاقوامی میڈیا میں نمایاں کوریج نہیں پائیں گے؟

جب جانوروں یا پرندوں کے حقوق کی کچھ معمولی سی خلاف ورزی ہوتی ہے تو ان حقوق کی حفاظت کی پاسداری کرنے والے ادارے حرکت میں آ جاتے ہیں اور میڈیا میں ایسا شور مچا دیتے ہیں کہ گویا کسی ملک کی آبادی پر ظلمِ عظیم برپا ہو گیا۔ پھر اس خبر کو دنیا بھر کا پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا اپنے دامن میں جگہ دینے کو خوش نصیبی سمجھنے لگتا ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ خود مسلم اردو اخبارات میں بھی ایسی خبروں کو جگہ دی جاتی ہے۔
اس کی ایک سادہ سی مثال وہ واقعہ ہے جب صدر اوبامہ نے ایک انٹرویو کے دوران مکھی کو "شہید" کیا۔ اور ادارہ پیٹا(Peta) دہائی دیتے ہوئے سامنے آ گیا۔
اب کیا ہم مسلمان ایک قیمتی انسانی جان کے زیاں پر احتجاج بھی نہ کریں؟

شائد یہی سبب ہے کہ "مکالمہ بین المذاہب" کے اسی موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کنگ سعود یونیورسٹی (سعودی عرب) کے پروفیسر اسلامی تاریخ ، ڈاکٹر سعد الغامدی نے بجا طور پر کہا ہے :
۔۔۔۔ افسوس کی بات ہے کہ الشربینی کا قتل عدالتی حکام کے سامنے انتہائی بےدردی سے کیا گیا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ مغربی ممالک کے سرکردہ افراد ، مسلم ممالک میں کسی بھی غیر ذمہ دارانہ واقعہ کے وقوع پذیر ہونے پر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ ایران میں صحافی خاتون کے قتل کے سلسلے میں جو مطالبات کئے گئے ہیں وہ اس کا زندہ ثبوت ہیں۔
ہو یہ رہا ہے کہ مغربی ممالک والے اپنے جرائم سے آنکھیں موندے رکھتے ہیں اور مسلمانوں کے المیوں کو یکسر نظرانداز کئے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کے ردّعمل کو اچھالنے میں ادنیٰ فروگزاشت سے کام نہیں لیتے۔
غزہ ، بلکہ پورے فلسطین ، لبنان ، افغانستان اور عراق میں مسلمانوں کا قتلِ عام پوری دنیا کے سامنے ہو رہا ہے۔ یہ رویہ نیا نہیں بلکہ کئی عشروں سے چل رہا ہے۔
سچ بات تو یہی ہے کہ ان کے دلوں میں مسلمانوں کے حوالے سے نفرت بیٹھی ہوئی ہے ، ایسا اس وجہ سے بھی ہے کہ مسلمان حکام اس قسم کی مغربی پالیسیوں کے خلاف مطلوبہ انداز میں آواز نہیں اٹھاتے۔

بحوالہ : روشنی سپلیمنٹ ، جولائی 31 ، 2009ء
 
Top