مذہبی احیائی ذہن اور تہذیب مغرب

مذہبی احیائی ذہن اور تہذیب مغرب

دور استعمار کے بعد مذہبی سیاسی ذہن ہمیشہ رد عمل کا شکار رہا ہے ہم نے آگے بڑھ کر اقدامی سطح پر نہ تو کوئی تحریک اٹھانے کی کوشش کی اور نہ ہی ہمارے پاس اس کی کوئی گنجائش موجود تھی اسی لیے ہم مستقل دفاعی پوزیشن پر رہے، عجیب بات یہ ہے کہ مسلمانوں خاص کر برصغیر کے مسلمانوں میں بیدار ہونے والی احیائی سیاسی جماعتیں کہ جن کی شناخت مذہبی تھی آج ان سے منسلک مذہبی افراد بھی مغرب اور مغربی تہذیب کی شدید تر فکری برتری کا شکار ہیں آپ کو اکثر یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ جناب یورپ نے یا مغرب نے دیکھیے کتنا شاندار نظام قائم کیا ہے درحقیقت دنیا کی امامت کا تو مغرب ہی حق دار ہے بس کلمہ پڑھنے کی دیر ہے وگرنہ تو خلافت راشدہ کا حقیقی وارث مغرب ہی ہے۔

مسلم احیائی فکر خاص کر دور استعمار کی احیائی فکر نے ایک ایسا طبقہ پیدا کردیا کہ جو خود اپنی ہی فکر و فلسفے کی بابت اس حوالے سے مخمصے کا شکار ہو گیا کہ اگر ہمارا مذہب حق ہے اور ہمارے دینی اصول آفاقی ہیں تو پھر ہم مغلوب کیوں ہیں ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلیے وہ اس حد تک گئے کہ انہوں نے ماضی کے تمام ادوار کو سیاہ ادوار شمار کرلیا اور یہ ایک انتہائی افسوس ناک رویہ تھا۔

بظاہر یہ نظریہ بہت سادہ ہے لیکن یہ ایک بہت بڑے انقطاع کی جانب اشارہ کرتا ہے یعنی آپ نے یہ تصور کرلیا کہ اسلام کا نظام بحیثیت مجموعی خلافت راشدہ میں تو قائم ہوا تھا لیکن اس کے بعد پچھلے چودہ سو سال سے یہ مکمل طور پر معطل ہے ، دراصل یہ فکر ماضی سے منسلک اپنی تمام تر اعتقادی ، فکری ، علمی ، سیاسی ، ثقافتی روایات کے حوالے سے شدید تر تشکیک کا شکار دکھائی دیتی ہے۔

لازمی امر ہے کہ ایسی کیفیت میں اگر مغرب کی امامت پر یقین نہ ہو تو اور کیا ہو۔

سونے پر سہاگہ یہ کہ اگر مغرب کی امامت کو ہر ہر اعتبار سے قبول کرلیا تو پھر احیاء کس بات کا اور اس کا اخلاقی و مذہبی جواز کیا ہوگا ؟

یہاں پر ایک جدید منظر نامہ تخلیق ہوتا ہے اور تاریخ کو ایک نئے انداز سے دیکھا جاتا ہے چونکہ دور جدید کی احیائی تحاریک کے سامنے ایک غالب مغرب تھا اور جیساکہ اوپر بیان ہوا وہ شعوری یا لاشعوری طور پر مغرب کی امامت کو قبول بھی کر چکے تھے تو اب احیاء کی بنیاد کیا ہوتی اور مسلم تفاخر کو کس طرح زندہ رکھا جاتا ایک طرف تو وہ پہلے ہی مسلم سیاسی تاریخ کو بیک جنبش قلم حرف غلط کی طرح مٹا چکے تھے اور خشت اول سے انہیں کچھ اصول ہی تو مستنبط کرنے تھے کہ جنہیں دور جدید کے پراڈائم میں فٹ کیا جا سکے مگر کھل کر یہ اعتراف درحقیقت اپنی شکست کر تسلیم کرلینا تھا کہ جناب ہم جس تہذیب کے داعی ہیں وہ تو اپنے ابتدائی دور میں یہ صاف ہو چکی ہے۔

اس نظریاتی مخمصے نے ایک منطقی محال کو تخلیق کیا اور یہ انتہائی عجیب تھا یہ ایک بہت بڑا اوکسی مورون تھا ہوا یہ کہ اس طبقے نے اپنی معصومیت میں ہماری خشت اول کو جدید غالب تہذیب سے جوڑنے کی کوشش کی اور اس کی ایک خود ساختہ فکری و نظریاتی تاریخ بھی رقم کرلی۔

جی ہاں کیا یہ عجیب بات نہیں مگر ستم ظریقی قسمت ایسا ہی ہوا ، ہمیں ان احیائی تحاریک کے حلقوں میں ان چند جملوں کی بازگشت سنائی دینے لگی۔

مغرب نے تو یہ تمام اصول اسلام سے ہی لیے ہیں۔
مغرب میں تو درحقیقت عمر لاز نافظ ہیں (جس کا کوئی تاریخی یا علمی حوالہ موجود نہیں)۔
مغرب کے تمام تر اصول اسلامی اخلاقیات سے مستعار ہیں۔
مغربی قوانین درحقیقت اسلامی ہی تو ہیں۔
مغرب کو تو بس کلمہ پڑھنے کی ضرورت ہے باقی حقیقی اسلام تو وہیں ہے۔
جدید مغرب کا سیاسی نظام درحقیقت اسلامی خلافت کی حقیقی شکل ہے۔

اب لاکھ سمجھائیے کہ جناب مغرب اور مغربیت اتنی بھی خوبصورت نہیں کہ جتنی آپ کو دکھائی دیتی ہے مگر یہ طبقہ سمجھنے کو تیار ہی نہیں اور جب یہ نکتہ انہیں سمجھانے کی کوشش کیجیے کہ مغرب کی اپنی ایک الگ فکری و نظریاتی تاریخ ہے اور مغرب نے آپ سے کچھ نہیں لیا تو یہ بات بھی ان کو سمجھ نہیں آتی اب یہ طبقہ ایک نئی تاریخ کی تلاش کرتا ہے یا ایک نئی تاریخ تراشتا ہے۔

جب کہ حقیقت میں جدید مغرب کے دو بنیادی ادوار ہیں ایک دور ہے جدید مغرب کی تشکیل سے پہلے یعنی کروسیڈز کا دور اور دوسرا دور تنویری دور ہے کہ جس میں انہوں نے صلیبی تعصبات کو استعمال کرکے استعمار کی راہ ہموار کی یہ الحاد اور مسیحی توسیع پسندی کا ایک شاندار گٹھ جوڑ تھا ، اس کے بعد آتا ہے استعمار نو یعنی عالمگیریت کا دور۔
سچائی تو یہ ہے کہ مغرب میں چاہے وہ ڈارون کا نظریہ بقاء ہو یا پھر مالتھس کا نظریہ آبادی ہو یا پھر تھامس ہابز کا عفریت یعنی لیوائیتھون ہو یا پھر تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ سب کا مقصود یہی تو ہے کہ طاقت کے بلبوتے پر ایک عالمگیری تصور حیات قائم ہو اور اس کیلئے انہوں بے شمار بار اندھی طاقت کا استعمال کیا ہے۔
اسلام کیسے پھیلا مغرب اخلاقی طور پر یہ سوال ہم سے کرنے کی اوقات ہی نہیں رکھتا کہ ناصرف اس کا تسلط بلکہ اس کی سیاسی ، سماجی ، معاشی ، معاشرتی فکر طاقت کے گرد گھومتی ہے بلکہ اس کی اخلاقی و تہذیبی زندگی بھی خون میں رنگی ہوئی ہے۔

جدید مغرب کی علمی و فکری میراث

مغرب خاص کر جدید مغرب کی بنیاد درحقیقت تحریک احیاء یعنی ریناساں ، تحریک تنویر اور تحریک جدیدیت میں رکھی گئی اس کے مراکز فرانس ، اطالیہ اور برطانیہ تھے قدیم مغرب کہ جو اپنے دور استعمار میں صلیبیت کا پروردہ تھا اور کسی حد تک اب بھی ہے جدید مغرب اس سے یکسر مخالف سمت میں قدیم یونانی افکار پر استوار ہوا۔
روم کے بورگیاز سے اٹلی کے مڈیچی خانوادے تک رومن کیتھولسزم سے جدید پروٹیسٹنٹ فکری اپروچ تک مغرب کی سیاست چند بنیادی اصولوں پر کھڑی تھی اگر ان میں سے چند بڑے اصول الگ کیے جائیں تو وہ یہ ہیں۔
قدیم یونانی سیاسی افکار (قومیت ، جمہوریت ، اشرافیہ)
مذہب بیزاری (تشکیک ، الحاد ، دہریت)
مادیت پرستی (نیچر ازم ، ڈی ازم ، مشینزم)
روایت گریزی (ماڈرن ازم)
مذہب اور ریاست کی علیحدگی (سیکولرزم)
مذہب اور معاشرے کی دوری (لبرل ازم)
آزاد فکری اور آزادی اظہار (فری تھنکنگ، فریڈم آف سپیچ)
انسان پرستی (ہیومنزم)
اشتراکیت اور سرمایہ داری
بقاء کی فطری تقسیم یعنی سروائیول آف دا فٹیسٹ۔

اب وہ جدید مغرب جو ان افکار پر استوار تھا جس کی بنیاد میں میکیا ولی ، تھامس ہابز ، جان لاک ، روسو ، جیریمی بنتھم ، چارلس ڈارون ، تھامس ہینری ہگسلے ، سپنوزا ، دیکارت ، نطشے ، فرائیڈ ، کارل مارکس ، ایڈم سمتھ ، تھامس مالتھس ، جان ڈیوی ، کانٹ ، رسل ، سارتر ۔۔۔
اور نجانے کون کون سے مفکرین کی فکر کار فرما تھی اس مغرب کا قبلہ اسلامی تاریخ سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔
یعنی اس نئی تاریخ کی روشنی میں ایک طرف تو جدید مغرب کی غالب تہذیب کا ٹانکا اسلام کی خشت اول سے جوڑا گیا تو دوسری جانب مغرب کی حقیقی سیاسی فکری علمی تاریخ کو یکسر نظر اندا کردیا گیا۔

اس خود سپردگی اور مغلوبیت کی کیفیت کو شاعر نے کیا خوب بیان کیا ہے۔

آشیاں جل گیا، گلستاں لٹ گیا، ہم قفس سے نکل کر کدھر جائیں گے
اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے، اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے

جب یہ دو متضاد تصویریں آج کی امت کے سامنے پیش کی گئیں تو اس کا منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ نہ تو ان کے پاس پیچھے جانے کا کوئی راستہ بچا اور نہ ہی آگے بڑھنے کی کوئی راہ یعنی

نَہ پائے رَفتَن ، نَہ جائے ماندَن
نَہ جائے مانْدَن، نَہ پائے رَفتَن

کی حقیقی شکل نمودار ہو گئی ، اسی مخمصے کی وجہ سے دور جدید کی احیائی تحاریک کا سفر ایک دائرے میں مقید ہر کر رہ گیا اور وہ اسی میں چکرا رہی ہیں مفاہمت در مفاہمت نے انہیں ایک ایسی تنگ وادی میں لا پھنسایا ہے کہ نکلنے کی کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی۔

کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ اپنی تہذیب اپنی تاریخ اپنی ثقافت اور اپنی میراث پر اعتماد پیدا کیا جائے اور مغرب کے شدید تر فکری غلبے سے جان چھڑائی جائے۔

ڈاکٹر حسیب احمد خان
 

علی وقار

محفلین
کئی باتیں سیدھی دل پر لگیں۔
یہ الگ بات کہ کچھ باتیں کم علمی کے سبب سمجھ نہ پایا۔
حسیب بھائی، بلا شبہ یہ ایک عمدہ اور معلوماتی آرٹیکل ہے۔
 
Top