مدح حبیب صلی اللہ علیہ و سلم

اسامہ حماد

محفلین
تحریر: مدثر جمال تونسوی

رسول اکرم ﷺ کی تعریف و توصیف ایک ایسا مبارک ،باسعادت اور مشکبار موضوع ہے جو ایمان افروز
بھی ہے اور دلآویز بھی،جس کی وسعت فرش زمین پر ہی نہیں آسمان کی بلندیوں سے بھی ماوراءہے۔ہر دور میں ان گنت انسانوں نے دربار رسالت میں پوری محبت و خلوص سے اپنی عقیدت کے گلدستے پیش کیے۔ان کی مدح سرائی کا غلغلہ بحر و بر میں بلند ہوا اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ بلند تر ہوتا چلا گیا اور آگے یہ سلسلہ مزید پھیلتا رہے گا۔تاریخ عالم شاہد ہے کہ یہ نام صبح و شام چہار دانگ عالم میں پھیلے عقیدت مندوں کے دلوں کی دھڑکن بن کر ان کےلئے باعث حیات بنا ہوا ہے۔ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق اپنے اپنے اسلوب میں عقیدت و محبت کے پھول ”دربار رسالت“کی نذر کر رہا ہے۔
یہ دےکھےے خود آقا مدنی ﷺ نے ایک معطر و مبارک مجلس قائم فرما کر سیدنا حسان بن ثابت ؓ کو ”مدح رسالت کے منبر“ پر بٹھایا تو وہ ایک وجد انگیز ،پر کیف انداز و ادا میں مدح سرا ہوتے ہیں:

واحسن منک لم ترقط عین
واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبراً من کل عیب
کانک قد خلقت کما تشاء

آپ سا حسین کسی آنکھ نے دیکھا نہیں اور آپ سا جمیل کسی عورت نے جنا نہیں۔آپ ہر عیب سے پاک پیدا کیے گئے گویا آپ اپنی دلپسند صورت کے مطابق پیدا کیے گئے۔
پیارے آقا کا حسن و جمال ایک ایسا عطیہ الہی ہے جس کی نوری کرنیں جہاں جہاں پھیلتی چلی گئیں،عقیدت مند پروانوں کی طرح جمع ہوتے اور اپنا نذرانہ پیش کرتے گئے۔نور نبوت جس دم مدینہ کے افق پر طلوع ہو رہا تھا تو انصار مدےنہ نے ایسا شاہکار دل آویز استقبال کیا جس کی گونج آج بھی اسی قوت و شان سے سنائی دے رہی اور اہل ایمان ان الفاظ کو سن کر آج بھی اپنے دل کو تڑپتا مچلتا محسوس کرتے ہیں۔وہ آواز کیا تھی؟

طلع البدر علینا من ثنیات الوداع
وجب الشکر علینا مادعا للہ داع
ایہا المبعوث فینا
جئت بالامر المطاع

پیارے آقا ﷺ کے فضائل و مناقب کا اظہار اور ان کی عظمت و شان کے تذکرے ایمانی قوت اور روحانی ترقی کا ذریعہ ہیں۔بلکہ نبی کرےم ﷺ کی عظمت و شان کا اعتقاد ایمان کی جڑ ہے۔جی ہاں!وہی تو تخلیق کائنات کا خلاصہ و سبب اور اس کائنات کا حسن و جمال ہیں۔مولنا قاسم نانوتوی ؒ فرماتے ہیں:

جو تو اسے نہ بناتا تو سارے عالم کو
نصیب ہوتی نہ دولت وجود کی زنہار
وہ فخر کون و مکاں،زبدہ زمین و زماں
امیر لشکر پیغمبراں، شہہ ابرار
جہاں کے سارے کمالات ایک تجھ میں ہیں
ترے کمال کسی میں نہیں مگر دو چار

نبی کریم ﷺ کی منور مجالس اور مبارک صحبتوں سے یاران باوفا صحابہ کرام ؓ نے تو دل بھر کر اپنی آنکھوں کو سیراب کیا تھا۔آپ کا دیدار ان کےلئے ہر غم کا مداوا اور ہر دکھ کا درماں تھا مگر بعد والوں کا کرب اور بے چینی کس طرح رونما ہوئی؟سنیے حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ کہتے ہیں:

ہو جائے کہیں سر سبز مرا نخل تمنا
آ جائے نظر گنبد خضراءکسی صورت
دیں ساقی کوثر جو مجھے بادہ الفت
چھوٹے نہ لبوں سے مرے ساغر کسی صورت

حضور ﷺ کی مدح سرائی تو پروردگار نے خود فرمائی ہے۔قرآن مجید کا ہر صفحہ اس کا گواہ ہے۔تب کسی انسان کےلئے ان کی مدح سرائی کہاں حق اداءکر سکتی ہے۔اسی لئے مولانا محمد یعقوب نانوتوی ؒ فرماتے ہیں:

خدا ہے عارف و مداح ذات عالی کا
جو کوئی مدح کا دعویٰ کرے خیال ہے خام

قرآن مجید بار بار بتلاتا ہے کہ نبی کی اطاعت درحقیقت اللہ کی اطاعت ہے اور نبی کا انکار،اللہ کا انکار ہے۔مولنا نانوتوی ؒ فرماتے ہیں:

اطاعت آپ ﷺ کی،بالکل اطاعت حق ہے
”ومن ےطع“میں نہیں کسی نوع کا ابہام
کہا نہ آپ کا مانیں وہ کیوں نہ ہو کافر
کلام آپ کا ہے وحی اور خدا کا کلام

نبی کریم ﷺ کی سیادت وقیادت اور برتری و بلند مرتبی آپ کی شان میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔کیوں نہ ہو جبکہ حضور تمام بنی آدم کے سردار ہیں۔آپ خود فرماتے ہیں:” انا سید ولد آدم و لا فخر“میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور یہ محض فخریہ بات نہیں ہے۔´
اسی بات کو مولانا حبیب الرحمن عثمانی نے دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا تو زبان مچل گئی اور یوں الفاظ ڈھل گئے:

سید السادات فخر الانبیاء
مکمل التوحید،محاءالملل
منہ فی الکونین نور ساطع
واقتباس للتوالی والاول

وہ تمام سرداروں کے سردار اور تمام انبیاءکےلئے باعث فخر ہیں۔وہ توحید کو کامل کرنے والے اور تمام ادیان باطلہ کو مٹانے والے ہیں۔
دونوں جہانوں میں ان ہی کا نور چمکتا ہے اور اولین و آخرین ان ہی سے نور حاصل کرتے ہیں۔
میرے حضور ﷺ کی سیرت کا ہر گوشہ چمکدار اور مشکبار ہے۔کائنات عالم کی رنگینیاں آپ کے وجود مسعود کا پر تو ہیں۔مرحوم احسان دانش فرماتے ہیں:

روح گل آپ سے ہے،رنگ چمن آپ سے ہے
شاہ بطحاءیہ عناصر کا چلن آپ سے ہے

قرآن کریم نے شہدان حق کو ایک ایسی عظیم و منفرد خوشخبری دی ہے جس کے لئے خود نبی کریم ﷺ نے بھی تمنا فرمائی:
لوددت ان اقتل فی سبیل اللہ ثم احیی ثم اقتل ثم احیی ثم اقتل
قرآن کریم کی یہ خوشخبری ہمارے پیغمبر ہی کے واسطے اور فیض سے امت کو ملی اور اعلان ہوا:ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ امواتا....شاعر نے اسے سنا تو مدح رسالت میں پکار اٹھا:

موت کو آپ نے بخشی ہے حیات جاوید
چادر نور،شہیدوں کا کفن آپ سے ہے

نبی کریم ﷺ معراج کے سفر پر تشریف لے گئے تو عرش و فرش کی وسعتیں سمٹ گئیں۔حضور کی پرواز سے جبرائیل بھی عاجز ہو گئے۔ہمارے حضور کی صحبت میں جنت کی خوشبو مہکتی تھی۔عشاق رسالت اپنی بے چینیاں دور کرنے کے لئے آپ کا دیدار کر لیا کرتے تو ہر غم دور ہو جاتا۔آپ کو دیکھنے والے ،جب چاند کی رات کو دیکھتے تب چاند کی رعنائیاں بھی پھیکی پڑ جاتی تھیں۔چڑھتا سورج آپ کا چہرہ دیکھتا تو حسرت سے ہاتھ ملتا رہ جاتا۔قاضی عبد المقتدر اس حسن و جمال کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

لہ الجمال اذا ماالشمس قد نظرت
الیہ قالت الا یا لیت ذلک لی

ہمارے آقا ﷺ حسن و جمال کا ایسا پیکر ہیں کہ جب سورج ان پر نظر ڈالتا تو حسرت بھری نگاہوں سے کہتا اے کاش!یہ حسن مجھے عطا ہوتا۔
حسن و جمال ،اوصاف و کمالات کا یہی تذکرہ سید نفیس شاہ صاحب کے کلام میں جڑا تو الفاظ یوں سنور گئے:

دست قدرت نے ایسا بنایا تجھے
جملہ اوصاف سے خود سجایا تجھے
اے ازل کے حسیں ،اے ابد کے حسیں
تجھ سا کوئی نہیں ،تجھ سا کوئی نہیں

نبی کریم ﷺ کے ایک فرمان مبارک کا مفہوم یہ ہے کہ:اللہ کی قسم !کوئی کچا پکا گھر نہیں رہے گا مگر یہ کہ اس میں اسلام ضرور داخل ہو گا۔چودہ سو سالہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ امت مسلمہ کو مٹانے کےلئے کافروں نے کوئی حربہ نہیں چھوڑا مگر اسلام ہر دور میں ابھرتا رہا اور ہمارے پیغمبر ﷺ کا فرمان سچ ہوتا رہا اور قیامت تک ایسا ہی رہے گا۔سید نفیس شاہ صاحب ؒفرماتے ہیں:

تیرا سکہ رواں کل جہاں میں ہوا
اس زمیں میں ہوا،آسماں میں ہوا
کیا عرب،کیا عجم سب ہیں زیر نگیں
تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

حضور اکرم ﷺ دنیا سے دار آخرت کی طرف منتقل ہو گئے مگر قیامت تک آنےوالے امتیوں کےلئے آپ کا روضہ اطہر آنکھوں کا نور اور دلوں کا قرار ہے۔علماءدیوبند کا عقیدہ ہے کہ روضہ اطہر کا وہ حصہ جو نبی کریم ﷺ کے جسم اطہر سے پیوست ہے وہ پوری کائنات کا افضل ترین ٹکڑا ہے جہاں رحمت الہی ہر دم سایہ کئے رہتی ہے۔بقول حضرت زکی کیفی مرحوم :

وہ روضہ اطہر پر برستی ہوئی رحمت
آتی ہے نظر،فطرت سرشار کی دنیا
فردوس کو بھی رشک ہے جس فرش زمیں پر
وہ ہے مرے آقا،مرے سرکار کی دنیا

ہمارے حضور کو ختم نبوت کا وہ تاج ملا جس پر دیگر تمام انبیاءبھی رشک کرتے ہیں۔انہیں صحابہ کرام کی ایسی جماعت ملی جو خود رب تعالیٰ کی انتخاب کردہ تھی۔سید امین گیلانی مرحوم بڑے پر شکوہ انداز میں یوں لب کشائی کرتے ہیں:

فرما گئے یہ ختم نبوت کے تاجدار
تاحشر میرے بعد نبوت نہ آئے گی

نیز صحابہ کرام ؓ کے بارے میں فرماتے ہیں:

اصحاب ہیں جو میرے ستاروں کی مثل ہیں
اب ان سے بڑھ کر کوئی جماعت نہ آئے گی

اور پھر حضور کے فیضان سے اس امت کو جو عظیم فضائل و امتیازات ملے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

امت مری ہے آخری امت جہان کی
کوئی نیا نبی،نئی امت نہ آئے گی

الغرض حضور اکرم ﷺ کے اوصاف وکمالات اور ان سے عقیدت کے پھول نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے اس لئے ہر مدح سرا یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے:

لا یمکن الثناءکما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

اور کسی کے دل سے صدائے مضطر یوں بلند ہوتی ہے:

کوئی بتلائے کیسے سراپا لکھوں
کوئی ہے وہ کہ میں جس کو تجھ سا کہوں
توبہ ،توبہ نہیں ، کوئی تجھ سا نہیں
تجھ سا کوئی نہیں ، تجھ سا کوئی نہیں

مضمون ختم ہو رہا ہے اور آخری صدا دل سے یہی نکل رہی ہے:

یہ دل میں ارماں ہے اپنے طیب
مزار اقدس پہ جا کے اک دن
سناوں ان کو میں حال دل کا
کہوں میں ان سے سلام لے لو

اور ہاں بزبان شورش مرحوم یوں بھی تمنا ہے!

شورش ہم آشفتہ سروں کا
اس دنیا میں کوئی نہیں
ان کا بھروسہ ،ان کا سہارا
صلی اللہ علیہ وسلم
صلی اللہ علیہ وسلم
 
Top