مختلف کتابوں سے پسندیدہ اقتباس

نیلم

محفلین
بہت زبردست بہترین....اس کوتوایک الگ سے دھاگےمیں ہونا چاہیے تھا...
تین سوال!!!!
ایک مرتبہ ایک بادشاہ نے اپنے وزیز کو آدھی سلطنت دینے کو کہا ، لیکن ساتھ میں کچھ شرائط بھی عائد کیں
وزیر نے لالچ میں آکر شرائط جاننے کی درخواست کی بادشاہ نے شرائط 3 سوالوں کی صورت میں بتائیں۔

سوال نمبر 1: دنیا کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے؟
سوال نمبر 2 : دنیا کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے؟
سوال نمبر 3 : دنیا کی سب سے میٹھی چیز کیا ہے ؟

بادشاہ نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ وہ ان تین سوالوں کے جواب ایک ہفتہ کے اندر اندر بتائے بصورت دیگر سزائے موت سنائی جائے گی۔وزیر نے سب پہلے دنیا کی بڑی سچائی جاننے کے لئے ملک کے تمام دانشوروں کو جمع کیا اور ان سے سوالات کے جواب مانگے ۔انہوں نے اپنی اپنی نیکیاں گنوائیں ۔لیکن کسی کی نیکی بڑی اور کسی کی چھوٹی نکلی لیکن سب سے بڑی سچائی کا پتہ نہ چل سکا۔اس کے بعد وزیر نے دنیا کا سب سے بڑا دھوکا جاننے کے لئے کہا تو تمام دانشور اپنے دئے ہوئے فریب کا تذکرہ کرتے ہوئے سوچنے لگے کہ کس نے کس کو سب سے بڑا دھوکا دیا لیکن وزیر اس سے بھی مطمئن نہیں ہوا اور سزائے موت کے خوف سے بھیس بدل کر وہاں سے فرار ہوگیا ۔چلتے چلتے رات ہوگئی ،اسی دوران اس کو ایک کسان نظر آیا جو کھرپی سے زمین کھود رہا تھا۔ کسان نے وزیر کو پہچان لیا ،وزیر نے اس کو اپنی مشکل بتائی جسے سن کر کسان نے اس کے سوالوں کی جواب کچھ یوں دئے

دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے ۔
دنیا کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے۔
تیسرے سوال کا جواب بتانے سے پہلے کسان نے کہا کہ میں اگر تمہارے سارے سوالوں کےجواب بتادوں تو مجھے کیا ملے گا ،سلطنت تو تمہارے ہاتھ آئے گی۔ یہ سن کر وزیر نے اسے بیس گھوڑوں کی پیشکش کی اور اسے ہی اصطبل کا نگران بنانے کی بھی پیشکش کی۔کسان نے یہ سن کر جواب دینے سے انکار کر دیا ۔وزیر نے سوچا کہ یہ تو آدھی سلطنت کا خواب دیکھ رہا ہے ۔وزیر جانے لگا تو کسان بولا کہ اگر بھاگ جاؤگے تو ساری زندگی بھاگتے رہو گے اور بادشاہ کے بندے تمہارا پیچھا کرتے رہیں گے اور اگر پلٹو گے تو جان سے مارے جاؤگے۔یہ سن کر وزیر رک گیا اور کسان کو آدھی سلطنت کی پیشکش کی لیکن کسان نے اسے لینے سے انکار کر دیا ۔اتنے میں ایک کتا آیا اور پیالے میں رکھے ہوئے دودھ میں سے آدھا پی کر چلا گیا ۔کسان نے وزیر سے کہا مجھے آدھی سلطنت نہیں چاہیے بس تم اس بچے ہوئے دودھ کو پی لوتو میں تمہارے تیسرے سوال کا جواب بتادوں گا ۔یہ سن کر وزیر تلملا گیا مگر اپنی موت اور جاسوسوں کے ڈر سے اس نے دودھ پی لیا۔وزیر نے دودھ پی کر کسان کی طرف دیکھا اور اپنے سوال کا جواب مانگا
تو کسان نے کہا کہ
دنیا کی سب سے میٹھی چیز انسان کی غرض ہے
جس کے لئے وہ ذلیل ترین کام بھی کر جاتا ہے۔

مصنف نامعلوم
بشکریہ فیس بک
 

باباجی

محفلین
تین سوال!!!!
ایک مرتبہ ایک بادشاہ نے اپنے وزیز کو آدھی سلطنت دینے کو کہا ، لیکن ساتھ میں کچھ شرائط بھی عائد کیں
وزیر نے لالچ میں آکر شرائط جاننے کی درخواست کی بادشاہ نے شرائط 3 سوالوں کی صورت میں بتائیں۔

سوال نمبر 1: دنیا کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے؟
سوال نمبر 2 : دنیا کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے؟
سوال نمبر 3 : دنیا کی سب سے میٹھی چیز کیا ہے ؟

بادشاہ نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ وہ ان تین سوالوں کے جواب ایک ہفتہ کے اندر اندر بتائے بصورت دیگر سزائے موت سنائی جائے گی۔وزیر نے سب پہلے دنیا کی بڑی سچائی جاننے کے لئے ملک کے تمام دانشوروں کو جمع کیا اور ان سے سوالات کے جواب مانگے ۔انہوں نے اپنی اپنی نیکیاں گنوائیں ۔لیکن کسی کی نیکی بڑی اور کسی کی چھوٹی نکلی لیکن سب سے بڑی سچائی کا پتہ نہ چل سکا۔اس کے بعد وزیر نے دنیا کا سب سے بڑا دھوکا جاننے کے لئے کہا تو تمام دانشور اپنے دئے ہوئے فریب کا تذکرہ کرتے ہوئے سوچنے لگے کہ کس نے کس کو سب سے بڑا دھوکا دیا لیکن وزیر اس سے بھی مطمئن نہیں ہوا اور سزائے موت کے خوف سے بھیس بدل کر وہاں سے فرار ہوگیا ۔چلتے چلتے رات ہوگئی ،اسی دوران اس کو ایک کسان نظر آیا جو کھرپی سے زمین کھود رہا تھا۔ کسان نے وزیر کو پہچان لیا ،وزیر نے اس کو اپنی مشکل بتائی جسے سن کر کسان نے اس کے سوالوں کی جواب کچھ یوں دئے

دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے ۔
دنیا کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے۔
تیسرے سوال کا جواب بتانے سے پہلے کسان نے کہا کہ میں اگر تمہارے سارے سوالوں کےجواب بتادوں تو مجھے کیا ملے گا ،سلطنت تو تمہارے ہاتھ آئے گی۔ یہ سن کر وزیر نے اسے بیس گھوڑوں کی پیشکش کی اور اسے ہی اصطبل کا نگران بنانے کی بھی پیشکش کی۔کسان نے یہ سن کر جواب دینے سے انکار کر دیا ۔وزیر نے سوچا کہ یہ تو آدھی سلطنت کا خواب دیکھ رہا ہے ۔وزیر جانے لگا تو کسان بولا کہ اگر بھاگ جاؤگے تو ساری زندگی بھاگتے رہو گے اور بادشاہ کے بندے تمہارا پیچھا کرتے رہیں گے اور اگر پلٹو گے تو جان سے مارے جاؤگے۔یہ سن کر وزیر رک گیا اور کسان کو آدھی سلطنت کی پیشکش کی لیکن کسان نے اسے لینے سے انکار کر دیا ۔اتنے میں ایک کتا آیا اور پیالے میں رکھے ہوئے دودھ میں سے آدھا پی کر چلا گیا ۔کسان نے وزیر سے کہا مجھے آدھی سلطنت نہیں چاہیے بس تم اس بچے ہوئے دودھ کو پی لوتو میں تمہارے تیسرے سوال کا جواب بتادوں گا ۔یہ سن کر وزیر تلملا گیا مگر اپنی موت اور جاسوسوں کے ڈر سے اس نے دودھ پی لیا۔وزیر نے دودھ پی کر کسان کی طرف دیکھا اور اپنے سوال کا جواب مانگا
تو کسان نے کہا کہ
دنیا کی سب سے میٹھی چیز انسان کی غرض ہے
جس کے لئے وہ ذلیل ترین کام بھی کر جاتا ہے۔

مصنف نامعلوم
بشکریہ فیس بک

حق حق حق
سچ کڑوا سچ
 

نیلم

محفلین
ایک عالی شان پلازا کے سامنے شیطان کھڑا زاروقطار رورہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ انسان بہت احسان فراموش مخلوق ہے۔ ایک راہ گیر نے شیطان کو آہ و زاری کرتے اور انسان کو برا بھلا کہتے دیکھا تو وہ رک گیا اور اس نے شیطان سے اس کی وجہ پوچھی۔ شیطان نے کہا۔ "کروڑوں روپے مالیت کا یہ پلازا دیکھ رہے ہو؟" حاجی خدا بخش نے یہ پلازا میرے مشوروں پر عمل کے نتیجے میں حاصل شدہ سرمائے سے تعمیر کیا مگر جب یہ پلازا مکمل ہوگیا تو میرا شکر ادا کرنے کی بجائے اس کی پیشانی پر موٹے لفظوں میں "ھذا من فضل ربی" لکھوایا۔
راہ گیر نے "ھذا من فضل ربی" پر ایک نگاہ ڈالی باآواز بلند پڑھا اور آگے چل دیا۔

(عطاء الحق قاسمی، ہنسنا رونا منع ہے)
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
مسلمان کو مایوس ہونے کا حکم نہیں ،، شیطان کا اور کام ہی کیا ہے بیٹا ! وہ انسان کو الله کی رحمت سے مایوس کرتا ہے ،،، آدمی کا معجزے پر یقین ختم کرتا ہے ،، نا ،، نا بیٹا مایوسی گناہ ہے گناہ ..
پر بابا جی ..؟
پر ،،،، ور کوئی نہیں بیٹا ،،، اوپر والے پر پورا ایمان رکھو ،، جن کا ایمان مضبوط ہوتا ہے ان کے لئے ستے خیراں ،،، ان کے لئے معجزے ہوتے ہیں ،،،،،

اشفاق احمد کی گفتگو سے ماخوذ
کتاب ، راہ رواں ، رائیٹر: بانو قدسیہ صاحبہ
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
اصل میں بات یہ ہے کہ جب کسی نے یہ کہا کہ یہاں غلط ہے
- اس جگہ دال میں کچھ کالا ہے تو آپ نے فوراً اسے تسلیم کر لیا - اس کے آگے سر جھکا دیا​
- جب کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ اچھا ہے - یہ خوب ہے - یہ نیکی ہے

- تو تم رک جاتے ہو - ماننے سے انکار کر دیتے ہو - خاموش ہو جاتے ہو​
- برائی پر تم کو پورا یقین ہے - سو فیصد اعتماد ہے​
- شیطان پر اور ابلیس پر پورا یقین ہے - لیکن خدا پر نہیں​
ایک محاورہ ہے کہ​
- یہ اتنی اچھی بات ہے کہ سچ ہو ہی نہیں سکتی​
- یہ کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی کہے کہ یہ اتنی بری بات ہے کہ سچ ہو ہی نہیں سکتی​
- بہت بری اور بہت خراب بات کبھی بھی غلط نہیں لگتی - ہمیشہ ٹھیک ہی لگتی ہے​
-تم نے انسانیت پر اس قدر بے اعتباری شروع کر دی ہے

- اس قدر بے اعتمادی کا اظہار کر دیا ہے کہ اب تم کو انسانوں کی طرف سے اچھی خبر ٹھیک ہی نہیں لگتی

اگر کوئی آکرآپ سے یہ کہے کہ فلاں نے معراج انسانیت حاصل کر لی ہے اور جلوہ حقیقی سے روشناس ہو گیا ہے ، تو تم
کبھی یقین نہیں کرو گے - سنو گے اور کہو گے یہ سب افسانہ ہے- گپ ہے

یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص کو جلوہ حقیقی نظر آجائے جب کہ ہم کو کبھی نظر نہیں آیا - جس چیز کا تجربہ ابھی مجھ کو نہیں ہوا وہ کسی اور کو کس طرح ہو سکتا ہے


-تم لوگوں کے بارے میں مثبت سوچ ہی نہیں سکتے

- کتنی بھی کوشش کرو تم لوگوں کے بارے میں شک میں ہی مبتلا رہو گے


از اشفاق احمد بابا صاحبا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
جو شخص اپنے اندر ہی اندر گہرا چلا جاتا ہے، وہی اوپر کو اٹھتا ہے اور وہی رفعت حاصل کرتا ہے۔ یہی قدرت کا اصول ہے۔ جو درخت جس قدر گہرا زمین کے اندر جائیگا، اسی قدر اوپر و جا سکے گا، اور اسی قدر تناور ہو گا۔​
ہم اپنی ساری زندگی اوپر ہی اوپر، اپنے خول کو، اور اپنے باہر کو جاننے پر لگا دیتے ہیں۔ اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اصل​
انسان ہمارے اندر رہتا ہے۔​
جب میں اپنے اندر نگاہ مارتا ہوں تو اس کے اندر کچھ الفاظ، کچھ تصورات، کچھ خیال، کچھ یادیں، کچھ شکلیں اور کچھ خواب پاتا ہوں۔​
زاویہ: 3، باب "علم فہم اور ہوش"، صفحہ 295 سے اقتباس​
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ہمارے بابا سائیں نور والے فرماتے ہیں کہ اللہ کی آواز سننے کی پریکٹس کرنی چاہئے، جو شخض اللہ کی آواز کے ساتھ اپنا دل ملا لیتا ہے، اسے کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں رہتی۔ کسی نے بابا جی سے پوچھا کہ ”اللہ کی آواز کے ساتھ اپنا دل ملانا بھلا کیسے ممکن ہے؟“ تو جواب ملا کہ ”انار کلی بازار جاؤ، جس وقت وہاں خوب رش ہو اس وقت جیب سے ایک روپے کا بڑا سکہ (جسے اس زمانے میں ٹھیپہ کہا جاتا تھا) نکالو اور اسے ہوا میں اچھال کر زمین پر گراؤ۔ جونہی سکہ زمین پر گرے گا، تم دیکھنا کہ اس کی چھن کی آواز سے پاس سے گزرنے والے تمام لوگ متوجہ ہوں گے اور پلٹ کر زمین کی طرف دیکھیں گے، کیوں؟ اس لئے کہ ان سب کے دل اس سکے کی چھن کی آواز کے ساتھ ”ٹیون اپ“ ہوئے ہیں۔ لہٰذا اب یہ تمہاری مرضی ہے کہ یا تو تم بھی اپنا دل اس سکے کی آواز کے ساتھ ”ٹیون اپ“ کر لو یا پھر اپنے خدا کی آواز کے ساتھ ملا لو“​
بابا جی کا بیان ختم ہوا تو نوجوانوں کے گروہ نے ان کو گھیر لیا اور سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ کسی نے پوچھا ” سر! ہمیں سمجھائیں کہ ہم کیسے اپنا دل خدا کے ساتھ ”ٹیون اپ“ کریں کیونکہ ہمیں یہ کام نہیں آتا؟“ اشفاق صاحب نے اس بات کا بھی بے حد خوبصورت جواب دیا، فرمانے لگے”یار ایک بات تو بتاؤ، تم سب جوان لوگ ہو، جب تمہیں کوئی لڑکی پسند آ جائے تو تم کیا کرتے ہو؟ کیا اس وقت تم کسی سے پوچھتے ہو کہ تمہیں کیا کرنا چاہئے؟ نہیں، اس وقت تمہیں سارے آئیڈیاز خود ہی سوجھتے ہیں، ان سب باتوں کے لئے تمہیں کسی گائڈینس کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ اس میں تمہاری اپنی مرضی شامل ہوتی ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ جب خدا کی بات آتی ہے تو تمہیں وہاں رہنمائی بھی چاہئے اور تمہیں یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ خدا کے ساتھ اپنے آپ کو” ٹیون اپ “کیسے کرنا ہے؟​
از اشفاق احمد​
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
یہ ٹھیک ہے کہ تم ایک گلاب نہیں بن سکتے، مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ تم ایک کانٹا بن جاؤ۔​
یہاں ایک راز کی بات ہے، اور وہ میں تمھیں بتا ہی دیتا ہوں کہ جو شخص کانٹا نہیں بنتا، وہ بالآخر گلاب بن جاتا ہے۔

زاویہ: 3، "علم فہم اور ہوش"، صفحہ 295 سے اقتباس​
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صوفی اور درویش صبر اس لئے اختیار کرتے ہیں کہ حق تعالیٰ کو اپنے ساتھ کر لیں کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص اپنا انتقام خود لے لیتا ہے تو حق تعالیٰ سارا معاملہ اس کے سپرد کر دیتے ہیں -

اور جو صبر کرتا ہے اس کی طرف سےحق تعالیٰ خود انتقام لیتے ہیں -

از اشفاق احمد بابا صاحبا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ہمارے بابا جی محبّت کے معاملے پر بہت زور دیتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ہمارے مسائل کا واحد آسان حل یہ ہے کہ ہم سب ایک دوسرے سے محبّت کریں -

ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کریں -

اور باہمی بھائی چارے کی وہ راہ اپنائیں جس کا درس حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے مکے سے ہجرت کر کے مدینے میں دیا تھا -

اب ہم سوچتے ہیں کہ ہماری مالی مشکلات حل ہونگی تو نماز بھی پڑہیں گے -

انسانیت سے محبّت بھی کر
یں گے -

یہ حقیقت میں میرے جیسے لوگوں کا بہانہ ہے -

لوگوں کو توقیر بخشنے اور محبّت کرنے میں تو کوئی رسید نہیں دینا پڑتی -

نہ کوئی اکاؤنٹ کھلوانا پڑتا ہے -

بس آپ نے چند میٹھے الفاظ بولنے ہیں -

اور ماتھے سے شکنیں ختم کرنی ہیں -

از اشفاق احمد زاویہ ٣ کارڈیک اریسٹ
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
قائد اعظم محمد علی جناح کے چونسٹھ ویں یوم وفات کے موقع پر خصوصی اقتباس

میں آپ ور ہمارا ملک اس لئے پسماندہ ہے کہ ہم میں ڈسسپلن نہیں - ہم منظم نہیں -

یوری انڈریو نامی ایک انائونسر ٹورنٹو ریڈیو کی بہت خوبصورت آواز - وہ مسلمان ہوگیا -

جب میں کینیڈا میں تھا تو اس کا ایک انٹرویو سنا وہ کہتا ہے کہ وہ سوره روم سن کر مسلمان ہوا ہے -

جس میں یہ ہے کہ دنیا نے کہا ایران فتح ہوگیا اور ایران فتح بھی
ہوگیا تھا-

لیکن الله کہتا ہے یہ غلط ہے - رومی ہارے نہیں فتح یاب ہوئے اور تاریخ بتاتی ہے کہ چھہ دن کے بعد ہی پانسا پلٹ گیا اور رومی فتح یاب ہوئے -

یوری کی دل پر کچھ ایسی گزری کہ وہ یہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا -

خیر ! میں یوری سے ملنے گیا اور اس سے پوچھا کہ تم اسلام کو کیسے دیکھتے ہو ؟

کہنے لگا ، " the future of world is islm - it belongs to islam "

میں نے کہا کہ کیسی بات کرتے ہو ؟ اس کی کوئی بنیاد کوئی منطق نہیں ہے -

یوری نے کہا اسلام ایک اور طرح کا مذہب ہے - تم لوگ اس کو نہیں سمجھو گے - تم نے پتا نہیں کیوں یہ مذھب اختیار کر رکھا ہے -

وہ کہنے لگا ، جب امریکا کے دو ہزار گورے ، ایک ہزار کینیڈین ، چھہ سو سیکنڈے نیوین لوگ مسلمان ہو جائیں گے تو ہمارا قافلہ چل نکلے گا -

اور ہم لوگوں کو بتا دیں گے کہ اسلام کیا ہے -

میں نے کہا کہ ہماری تعداد تو ماشاءالله اکیلے ہی تقریباً بیس کروڑ ہے -

اس نے کہا نہیں sorry آپ غیر منظم ہیں - اور ایسے غیر منظم لوگ اتنا بڑا بوجھ نہیں اٹھا سکتے -

تم سے ہونا تو کچھ نہیں - ڈسسیپلین تم میں نہیں -

تم ناچ سکتے ہو -

یا رو سکتے ہو -

قتل کر سکتے ہو یا ہو سکتے ہو اور کچھ نہیں -

از اشفاق احمد زاویہ ١ صبر ڈسسیپلین اور آزادی کشمیر
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
میں نے اس سے پوچھا کہ بنارس خان تم شکوہ نہوں کرتے ؟
کہنے لگا صاحب ، ہم بہت شکوہ کرتا تھا ، یہ تو ہماری زندگی کا ایک حصہ تھا -

اپنا گھر چھوڑ کے ہم ادھر آیا تو شکوہ کرتا کہ ادھر تو کوارٹر میں کچھ نہیں ہے -
ہم ادھر آیا تھا سکون کی تلاش میں بڑا پر باش رہنا چاہتا تھا -

بڑی کوششیں کیں ، بڑے لوگوں سے ملا -

بڑے پیروں فقیروں کے پاس گیا کہ جناب ہم سکون کی تلاش میں ہے ، تو نہیں ملا -

ایک دن شام کو کھانا کھاتے کھاتے میں نے فیصلہ کیا - میرے ہاتھ میں لقمہ تھا ، رکھ دیا -

میں نے کہا ، یار دفع کرو سکون کو -

ہم نے اس کو لے کر کیا کرنا ہے

ہم سکون کے بغیر ہی زندگی بسر کریگا -

اس دن سے مجھے سکون ملنا شروع ہو گیا -

تو میں نے کہا تم نے یہ کمال کی بات کی ہے ، تم نے یہ کیسے سوچا ؟

کہنے لگا ، بس یہ الله کی طرف سے میرے ذہن میں آیا -

میں نے کہا وہ ٹھیک ہے آپ نے سکون کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دیا اور اپنے آپ کے ساتھ ایک مصالحت کر لی لیکن یہ خوشدلی آپ میں کیسے آئی ہے میں یہ جاننا چاہتا ہوں -

کہنے لگا ، جی یہ بھی بڑا مشکل کام تھا

ہر شخص جو دنیا کا سوتا ہے ، اور صبح اٹھتا ہے - تو اپنا پیر چارپائی سے نیچے اتارنے سے پہلے ، میں نے کہا کہ یارا بنارس خان !
قدم تو نیچے اتارنا ہی ہے تو کلفت میں کیوں اتاریں ، خوشی میں کیوں نہ دن گزاریں ، تو سارے دن میں جب کبھی جس مقام پر بھی میں جاتا ، تنور پر روٹی کھانے ، دوستوں سے ملنے ، یا کسی مصیبت میں گزرنے تو مجھ کو یہ بات یاد آجاتی کہ آج میں نے فیصلہ کیا ہے کہ " کلفت " میں یہ دن نہیں گزارنا -

آرام کرنا ہے ، خوشی سے ہر چیز قبول کرنی ہے -

اس کے بعد صاحب عادت پڑ گئی -
اگر انسان یہ فیصلہ کر لے ، اور اس کا تہیہ کر لے ، اور اس پر قائم ہو جائے تو یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں -

میں نے کہا، یار ہم سے تو اس پر قائم نہیں رہا گیا تھا -

کہنے لگا ، آپ نے یہ فیصلہ کیا ہی نہیں - وہ تہیہ کرنے کی بات کر رہا تھا -

از اشفاق احمد زاویہ ١ الله کا نظام صفحہ
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
نوجوان پود کو یہ معلوم نہیں کہ اگر واقعی روح کی آزادی مطلوب ہو تو مذھب کی کشتی درکار ہوتی ہے -

یہ کشتی سفید ہو نیلی ہو پیلی ہو اس میں شک و گمان کے سوراخ نہیں ہونے چاہییں -

اگر پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر کھلے آسمان سے رابطہ قائم کرنا ہے تو کسی ایک راستے کا انتخاب ضروری ہوگا -

جو لوگ بار بار پگڈنڈی ، کشتی یا مسلک بدلتے رہتے ہیں ان کی روح کی آزادی ممکن نہیں رہتی -

اگر آپ کو روح کی آزادی چاہئے او
ر آپ دنیاوی منفعت کے لئے جان کھپا دیں تو بھی مذہب آپ کو مایوس کرتا رہیگا -

آزادی انعام ہے ............ حق نہیں .................
آزادی منزل ہے ........... راستہ نہیں ..............

آزادی سکون ، طمانیت اور شکر کا مقام ہے ................متلاطم کیفیت کا نہیں ---------

از بانو قدسیہ راہ رواں
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ہر آنے والی نسل اپنے سے اگلی نسل کو طعنے دیتی رہتی ہے کہ تم اپنے علم کی حفاظت نہ کر سکے، اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے اور گورے کو دیکھو جو کافر ،یہودی ،نصرانی ہوتے ہوئے بھی ہمارے علم کو کس طرح سینے سے لگاے بیٹھا ہے اور کس طرح اس کی حفاظت کر رہا ہے، کس طرح اس کا کیٹلاگ بناتا ہے، کس طرح اس کی فیومی گیشن کرتا ہے، کیسے کیسے اس کی لیمی نیشن کرتا ہے-"

باچا بیگم کو ان الفاظ کی وجہ سے جلال خان کی بات خاک بھی
سمجھ نہ آئی- لیکن جلال خان اپنی لہر میں بولتا گیا کہ،

"جس طرح بیوی سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے نوجوان کو اپنے ماں باپ کی بجائے بیوی کے والدین اور اس کے گھر والے اچھے لگنے لگتے ہیں اسی طرح پس ماندہ قوموں میں علم سے محبت کرنے والی نسل کو گورا اور اس کے گھر والے اور ان کے ملک اور ان کے انداز اور ان کی ادائیں اچھی لگنے لگتی ہیں............ اپنے ملک ،اپنے ملک کے لوگ، اپنے گھر ، اپنی مائیں بری لگنے لگتی ہیں-"

" کیوں؟" باچا بیگم نے زور سے پوچھا-

"اپنا علم گنوا بیٹھنے کی وجہ سے ! "

از اشفاق احمد، صبحانے فسانے ، عنوان: "بےغیرت مدت خان"،
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
میں سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہوں چونکہ ہمارے اندر گندا اور صاف خون اکٹھا رواں دواں ہے اور دل کی ساخت کچھ ایسی ہے کہ یہ دونوں لہو قلب میں مل نہیں پاتے -

سنا ہے ایسے ہی جنت میں دو دریا جاری ہیں ، جو ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ بہتے ہیں -

پر ان میں ایک قدرتی آڑ ہے -

گویا اس دوئی یا تضاد نے انسان کی ساری زندگی کو الجھاؤ کے حوالے کر دیا ہے -

وہ مکمل طور پر فرشتہ بن جائے یہ ممکن نہیں .......
.....

مجسم ابلیس بن کر اترائے ، اور تکبر کی صورت زندگی بسر کرے یہ بھی یقینی نہیں -

الله نے اسے آزاد چھوڑ رکھا ہے -

اگر ہدایت کا خواستگار ہوا تو بدی کا سفر نیکی میں منتقل ہو جائیگا .........

اور بدی کے سفر سے چھٹکارا حاصل نہ کرنا چاہے تو بھی فیصلہ صرف اس کا اپنا ہے -

غیبی طاقت اسے تبدیلی پر آمادہ تو کر سکتی ہے لیکن تھانیداری نہیں کر سکتی

از بانو قدسیہ راہ رواں
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
( پاکپتن میں ) ، میں نے بابا صاحب کے مزار پر اک فقیر کو دیکھا کہ ہاتھ میں روٹی رکھے کھا رہا تھا ،،اور اس کے کچلوندے کبوتروں کو ڈال رہا تھا ، میں نے کہا '' بابا ! اس درگاہ میں تم کیا کرتے ہو ؟ کہنے لگا ..'' صاحب ! ہم گرتے ہیں اور پھر اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں ،، پھر گرتے ہیں اور پھر اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں ،، ہمیں ہمارے بابوں نے مومن کی یہی شان بتلائی ہے کہ گرے تو پھر اٹھ کر کھڑا ہو جائے ،، پھسلے تو پھر سنبھل جائے ،، مومن وہ نہیں ہوتا کے ٹھوکر ہی نہ کھائے ،، مومن وہ ہوتا ہے کے ٹھوکر کھائے تو ترنت اپنی جگہ پر قائم ہو جائے ،،،،

ڈرامہ :: من چلے کا سودا
بابا اشفاق احمد صاحب
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
خان صاحب کے بر عکس مجھے دوسروں کی دنیا سدھارنے کا اتنا
شوق ہے ، دوسروں کو ٹھیک کرنے کا ایسا چسکا ہے کہ اپنے آپ کو ٹھیک کیے بغیر میں مجبور لوگوں کو مشورے دیے چلی جاتی ہوں -

میری نیت ہوتی ہے کہ لوگ مجھے سراہیں ، میری تعریف کریں اور میری دانش کے قائل ہوں -

مجھے خان صاحب کے ساتھ ایک گلہ ہے جو اب وقت کے ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے جہاں انھوں نے پڑھنے لکھنے میں میری مدد کی ،

میری تربیت میں اتنی تگ و د
و کی وہاں مجھ سے ایک راز چھپا گئے کہ نیت کے قطب نما کو کیسے سیدھا رکھا جاتا ہے -

اتنی بات مجھ پر عیاں ہو گئی ہے کہ نیت کی صفائی ہی سے ان میں محبّت کا چشمہ اندر ہی اندر بہنے لگا تھا -

وہ نہ تو اس محبّت کا اعلان کرتے اور نہ ہی پرچار کرتے -

ان کا رابطہ اپنے چاہنے والوں کے ساتھ بڑی خاموشی سے پروان چڑھتا اور قائم رہتا -

ان کے چلے جانے کے بعد مجھ پر یہ بھید کھلا کہ ان کے قارئین ، ناظرین ، مداحین کی چاہت بھی کسی طور ان سے وقت کے ساتھ کم نہیں ہوئی -

از بانو قدسیہ راہ رواں
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو کسی عمل سے وابستہ نہیں ہوتا -

اچھائی برائی ، کمی بیشی ، اونچ نیچ محبّت کے سامنے یہ سب بیکار کی باتیں ہیں -

محبّت کرنے والا محبوب کی خوبیاں خرابیاں نہیں دیکھ پاتا ، بلکہ محبوب کی خرابیوں کو اپنی کج ادائیوں کی طرح قبول کر لیتا ہے -

ڈیروں پر اسی محبّت کا مظہر نظر آتا ہے اور غالباً اسی محبّت کی تلاش خلق کو بابوں کے پاس لے جاتی رہی -

مشکل یہ ہے کہ کچھ لوگ محبّت کے اہل
نہیں ہوتے -

انھیں اپنی ذہانت پر اس قدر مان ہوتا ہے کہ وہ دوسروں میں کیڑے نکال کر ، کسی اور کا قد چھوٹا کر کے ، کسی دوسری کی خوبیوں میں خرابی کا پہلو نکل کر اپنی عظمت کی کلا جگاتے ہیں -

میں یہ نہیں کہ رہی کہ خان صاحب فرشتہ تھے -

ان میں انسان ہونے کے ناطے خوبی اور خرابی کے دریا ساتھ ساتھ بہتے ہونگے -

ان میں بھی حب جاہ کی طلب ہوگی -

لیکن ان کے چاہنے والوں کی توجہ کبھی ادھر نہیں گئی -

وہ کبھی ان کی بشریت کی طرف دھیان نہ دے پائے -

اور انھیں ایک بہت بڑا آدمی ، برگزیدہ صوفی ، اور انمول ادیب سمجھتے رہے -

لیکن سوسائٹی میں کچھ نکتہ چیں قسم کے لوگ رہتے ہیں جو محبتی طریقہ نہیں اپنا سکتے -

اور پکڑ پکڑ کر سینت سینت کے خان صاحب کی غلطیاں نکالنے کے درپے رہتے ہیں -

دونوں قسم کے لوگوں میں صرف رویے کا فرق ہے -

مہربان لوگوں کا رویہ ماں کی طرح ستر پوشی کا ہے اور عیب ڈھونڈھنے والے اپنے سچ پر اپنی ذہانت پر اعتماد کرتے ہیں -

از بانو قدسیہ راہ رواں
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
اشفاق احمد نے بڑے کرب کی زندگی گزاری ، اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ وہ کسی کی دل آزاری کو سب سے بڑا گناہ سمجھتے تھے -

ان پر یہ حقیقت نہ کھلی کہ دل شکنی زندگی کا ایک وصف ہے -

الله تعالیٰ کبھی کسی انسان کو دوسرے انسان پر آفت بنا کر نازل کر دیتا ہے ، اور کبھی رحمت بنا دیتا ہے یہ سب اس کے کھیل ہیں -

اس حقیقت کو طائف کے واقعے یا رحمت دو عالم پر کوڑا پھینکنی والی مائی کے حوالے سے سمجھنا چاہیے کہ
ہمارے نبی نے کبھی ان لوگوں کو مورد الزام نہ سمجھا -

بلکہ یہی جانا کہ بیچارے لوگ مشیت کے ہاتھ میں اس آشوب کا ہتھیار بنے ہوئے ہیں -

اس کو کیا کیا جائے کہ قدم قدم پر ، ہر لمحہ ہر موسم اور ہرمقام پر دل ٹوٹتے ہیں -

کبھی کسی غلط فہمی کے تحت کبھی خوش فہمی کے باعث دل شکنی ہو ہی جاتی ہے -

کبھی حسد حق تلفی کا باعث بنتا ہے اور کبھی طیش -

از بانو قدسیہ راہ رواں
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
مسلمان کو مایوس ہونے کا حکم نہیں ،، شیطان کا اور کام ہی کیا ہے بیٹا ! وہ انسان کو الله کی رحمت سے مایوس کرتا ہے ،،، آدمی کا معجزے پر یقین ختم کرتا ہے ،، نا ،، نا بیٹا مایوسی گناہ ہے گناہ ..
پر بابا جی ..؟
پر ،،،، ور کوئی نہیں بیٹا ،،، اوپر والے پر پورا ایمان رکھو ،، جن کا ایمان مضبوط ہوتا ہے ان کے لئے ستے خیراں ،،، ان کے لئے معجزے ہوتے ہیں ،،،،،

اشفاق احمد کی گفتگو سے ماخوذ
کتاب ، راہ رواں ، رائیٹر: بانو قدسیہ صاحبہ
 
Top