مختلف کتابوں سے پسندیدہ اقتباس

ناعمہ عزیز

لائبریرین
دیکھیے ناں ! جو شکل و صورت ہوتی ہے میں نے تو اسے نہیں بنایا ، یا آپ نے تو اسے نہیں بنایا بلکہ اسے الله تعالیٰ نے بنایا ہے -

میری بیٹیاں بہوئیں ، جب بھی کوئی رشتہ دیکھنے جاتی ہیں تو میں ہمیشہ ایک بات سنتا ہوں کہ بابا جی !

لڑکی بڑی اچھی ہے ، لیکن اس کی " چھب " پیاری نہیں ہے - پتا نہیں یہ " چھب " کیا بلا ہوتی ہے -
وہ ان کو پسند نہیں آتیں اور انسان میں کوئی نہ کوئی نقص نکال دیتی ہیں -

میں انھیں کہا کرتا ہوں الله کا خوف کرو شکل و صورت سب الله نے بنائے ہیں - یہ کسی جوتا کمپنی نے نہیں بنائے ہے -

انسان کو تم ایسا مت کہا کرو ورنہ تمہارے نمبر کٹ جائیں گے -

اور ساری نمازیں روزے کٹ جائینگے -

کیونکہ الله کی مخلوق کو آپ نے چھوٹا کیا ہے -

از اشفاق احمد زاویہ 2 صفحہ 85
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
یہ ساری دنیا مرد کی ہے یہاں عورت ڈھور ڈنگر کی طرح ہے - ذرا پھن اٹھایا تو پتھر مار کر کچل دی جائے گی -

ذرا خدمت گزاری سے کام نہ لیا ، اطاعت نہ کی ، نیک پروین بن کر نہ دکھایا تو تھڑی تھڑی ہو جائیگی -

اسی میں عافیت ہے کہ کولہو کے بیل کی طرح آنکھوں پر اندھیاریاں پہنے اسی ڈگر پر چکر لگاتے وقت گزر جائے -

گاڑی والے کو علم نہ ہو کہ بیل اس گردش پیہم سے تھک گیا ہے - بیل کے اندر بھاگ جانے کا حوصلہ نہیں ............... اس میں کھلی فضاؤں میں اکیلے پھرنے کی سکت نہیں ورنہ وہ اس روں روں کی زندگی کو کبھی کا چھوڑ جاتا -

از بانو قدسیہ شہر بے مثال
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
جونہی آپ حصہ بٹانے لگتے ہیں، آپ بڑے ہونے لگتے ہیں،جوان ہونے لگتے ہیں.
جو شخص اپنی چیزوں میں حصہ نہیں بٹا سکتا وہ ابھی تک بچہ ہی ہے.وہ جوان نہیں ہوا. آگے نہیں بڑھا.

جو چیز آپ کسی کو دے نہیں سکتے،اس نے ابھی تک آپ کو پکڑا ہوا ہے، جکڑا ہوا ہے-
وہ آپ سے بڑی طاقتور ہے، آپ پر حاوی ہے-

وہ آپ سے ارفع ہے، اعلی ہے برتر ہے،آپ کی محبت سے زیادہ بڑی ہے.آپ کی شفقت سے زیادہ ہے-

آپ پر مکمل طور پر حاوی ہے اور یاد رکھیے حصہ بٹانے کے لئے آپ کو زیادہ چیزوں کی یا ان کے انبار کی ضرورت نہیں ہوتی. سخی ہونے کے لئے دینا ضروری ہے-
چاہے وہ دینا ایک تنکا توڑ کے دینا ہو. اس لئے گھنے سرمایے کی یا دولت کی یا بڑی جائیداد کی احتیاج نہیں ہوتی.

حضور صلی الله عليه وسلم نے فرمایا کہ مسکراہٹ بھی ایک صدقہ جاریہ ہے-
اس کو گاہے بگاہے جاری کرتے رہا کرو. یہ بھی ایک خیرات ہی ہے. کوئی غمگین ہو تو اس کو گانا سنا دو، کسی کے سامنے تھیا تھیا ناچ ہی دو. لیکن تم تو ایسے بند ہو اور گیت ہو کہ یہ کچھ بھی share نہیں کر سکتے.

از اشفاق احمد، بابا صاحبا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
اصل خیر یہ نہیں بیٹا! کہ کسی بھوکے کو دیکھ کر ایک روپے سے اس کی مدد کر دی -

بلکہ اصل خیر بھوکے کو اس وقت روپیہ دینا ہے جب تم کو بھی ویسی بھوک لگی ہو ، اور تم کو بھی اس روپے کے ویسی ہی ضرورت ہو جیسی اس کو ہے -

از اشفاق احمد بابا صاحبا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
مشہور ہے کہ حضرت لال شہباز قلندر سہون کے ایک محلے میں اکثر بیٹھا کرتے تھے - اس محلے میں ایک مشہور ہندو خاندان رہتا تھا - یہ لوگ پردے کے سخت پابند تھے -
اس خاندان کی ایک عورت حضرت لال شہباز قلندر سے بیحد عقیدت رکھتی تھی -
جب آپ اس گلی سے گزرتے تو وہ آپ کو دیکھنے کے اشتیاق میں کھڑکی میں چلی آتی تھی -
آپ ہمیشہ سر جھکا کے چلتے تھے اس لئے وہ عورت آپ کوپوری طرح دیکھنے میں ہمیشہ ناکام رہی -

ایک روز اس عورت کی وحشت اتنی بڑھی کہ آپ کا روئے تاباں دیکھنے کے اشتیاق میں اس نے کھڑکی سے چھلانگ لگا دی -
اس نے ایک نظر حضرت کے چہرہ مبارک کو دیکھا اور دنیا سے رخصت ہو گئی -

اس کے مرتے ہی حضرت قلندر نے اپنی چادر اس کے جسم پر ڈال دی-
ہر طرف شور مچ گیا اس عورت کے رشتےدار بھی جمع ہو گئےلوگوں نے اس کی لاش اٹھانے کی کوشش کی - لیکن لاش اتنی وزنی ہو گئی تھی کہ کوشش کے باوجود نہ اٹھ سکی -

" اگر تم پورے شہر کے ہندوؤںکو جمع کر لو گے تب بھی یہ لاش نہیں اٹھ سکے گی - " حضرت قلندر نے فرمایا !

" اس سے ایسا کیا گناہ سر زد ہو گیا ہے مائی باپ ! "
لڑکی کے رشتےداروں نے پوچھا -

" اس عورت کی قسمت میں جلنا نہیں ہے - " حضرت نے فرمایا -

" ہمارا مذھب تو جلانے کی ہی تاکید کرتا ہے - "

" اگر تم اسے دفن کرنے کا وعدہ کرو تو لاش اٹھ جائے گی " حضرت نے فرمایا -

ہندوؤں کو آپ کی یہ شرط ماننی پڑی - ہندو عورت کی ارتھی نہیں بلکہ جنازہ اٹھا اور مسلمانوں کے طریقے سے دفن کیا گیا -

آپ کی اس کرامت کو دیکھ کر اس خاندان کے بیشتر افراد آپ کے دست مبارک پر ایمان لے آئے -

عرس کے موقع پر جو مہندی اٹھتی ہے اس عورت کی قبر سے اٹھائی جاتی ہے اور مختلف علاقوں سے گزرتی ہوئی لال شہباز کی درگاہ پر آتی ہے -

حضرت لال شہباز قلندر کو دنیا سے پردہ کے ہوئی آٹھ سو سال سے زیادہ ہو گئے لیکن آپ کا فیض روحانی اب بھی جاری ہے -

آپ کی یادگاریں اب بھی تابندہ و زندہ ہیں -

اولیاء الله کی یہی شان ہوتی ہے -

از ڈاکٹر ساجد امجد (ماخذات تذکرہ صوفیہ سندھ ، سیرت پاک حضرت عثمان مروندی ، الله کے ولی ، تحفتہ الکرام )
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
اس کائنات میں دل بہت ہی خطرناک چیز ہے - خطرناک اس لئے کہ یہ اکیلا رہتا ہے ، اکیلا سوچتا ہے ، اور اکیلا ہی عمل کرتا ہے -

اور اکلاپے میں بڑا خوف ، بڑا وہم مسلسل ڈر ہوتا ہے -

دماغ ہمیشہ عقلمندی کی ، حفاظت کی باتیں سوچتا ہے - اپنے آپ کو COVER کرنے کی ، اور محفوظ رہنے کی ترکیبیں وضع کرتا ہے -

دماغ گروہ میں چلتا ہے اور اپنے ارد گرد آدمیوں کا ہجوم رکھتا ہے - اسی جلوس سے اس کو تقویت ملتی ہے ، سہارا ملتا ہے -

لیکن فقیر ہمیشہ اکیلا رہتا ہے - دل کے فیصلے کے مطابق ، خوفناک مقاموں میں -

دماغ جب بھی سوچتا ہے اپنی لیڈری ،اپنی برتری اور اپنی نمود کے بارے میں سوچتا ہے -
اپنی ذات کو مرکز بنا کر سوچتا ہے -

دل جب بھی سوچتا ہے محبوب کا گھر دکھاتا ہے - دل سے سوچنے والا ماریا تھریسا ہوتا ہے یا منشی اسپتال کا خالق یا ایدھی ..................
اس کی پہچان یہ ہے کہ یہ ہمیشہ اکیلا ہوتا ہے اور اکیلا ہی چلتا ہے -

جو کوئی دل کی طرف مائل ہوا وہ گرا ، گرفتار ہوا، پکڑا گیا - اسی لئے ہم کہتے ہیں فلاں ، فلاں کی محبّت میں گرفتار ہوا -

دماغ ہمیشہ اور ، اور ، اور کا طلبگار ہوتا ہے - ھل من مزید پکارتا رہتا ہے - یہ اس حقیقت کو بلکل نہیں جانتا کہ تمھارے پاس پہلے سے کیا کیا ہے -
اور تمہارے قبضے میں کیا کچھ ہے - یہ تو بس اور اور مزید مزید کا شکار ہے -

تم چاہے فقیر ہو ، یہ اور مانگے گا -
شہنشاہ ہو یہ اور مانگے گا-
ایک دولت مند شخص ہمیشہ غریب رہتا ہے کیونکہ وہ اور کا طلبگار ہوتا ہے -

از اشفاق احمد بابا صاحبا
 

نایاب

لائبریرین
یہ ساری دنیا مرد(شوہر) کی ہے یہاں عورت ( بیوی )ڈھور ڈنگر کی طرح (سمجھی جاتی )ہے - ذرا پھن اٹھایا تو پتھر مار کر کچل دی جائے گی -

ذرا خدمت گزاری سے کام نہ لیا ، اطاعت نہ کی ، نیک پروین بن کر نہ دکھایا تو تھڑی تھڑی ہو جائیگی -

اسی میں عافیت ہے کہ کولہو کے بیل کی طرح آنکھوں پر اندھیاریاں پہنے اسی ڈگر پر چکر لگاتے وقت گزر جائے -

گاڑی والے کو علم نہ ہو کہ بیل اس گردش پیہم سے تھک گیا ہے - بیل کے اندر بھاگ جانے کا حوصلہ نہیں ............... اس میں کھلی فضاؤں میں اکیلے پھرنے کی سکت نہیں ورنہ وہ اس روں روں کی زندگی کو کبھی کا چھوڑ جاتا -

از بانو قدسیہ شہر بے مثال
عورت ماں بھی ہے بہن بھی ہے اور بیٹی بھی
بہر صورت یہ سب رشتےعورت کو طاقتور ثابت کرتے ہیں ۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
وہ سب بابا جی کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے - ان میں سے ایک بڑی عمر کا آدمی ہاتھ باندھ کر بولا

" حضور! ہم لیہ سے آئے ہیں اور سرکار کی چوکی بھرنا چاہتے ہیں ، ہم اپنے علاقے کے مشہور قوال ہیں - لیکن اب وہاں کوئی کام نہیں رہا - حضور سے دعا کرانے آئے ہیں - "

دوسرے نے کہا ، " حضور ہمارے چھوٹے چھوٹے بال بچے ہیں ............! " وہ آگے بھی کچھ کہنا کھاتا تھا مگر اس کا گلہ بند ہوگیا اور رگیں پھول سے گئیں -

ڈیرے پر موجود ایک صاحب نے کہا " اوئےاول تو لیہ میں قوال نہیں ہوتے ، دوسرے تمہاری شکلیں اور وجود ایسے ناقص ہیں کہ کم از کم تم قوال نہیں ہو سکتے - "

اتنے میں بابا جلال لنگر کے سامان کی چنگیر لے کر پہنچ گیا - قوالوں کے پیشوا نے کہا ، " حضور کھانا تو ہم کھا کے آئے ہیں - "

بابا جی نے کہا ، " تم جان کار ہو بھائی ڈیروں پر کھانا کھا کے آیا نہیں کرتے - آ کے کھایا کرتے ہیں - اب کچھ نہ کچھ تو چکھنا پڑیگا - ورنہ ہماری ریت ٹوٹ جائیگی - "

ان سب نے بسم الله ! بسم الله !! کہ کر سالن کے کٹورے اپنے سامنے رکھ لئے اور روٹیاں ہاتھ میں پکڑ کر بیٹھ گئے -

صاف دکھائی دیتا تھا کہ وہ بھوکے ہیں - آج کے نہیں ، اس دن کے جب سے انھوں نے سفر شروع کیا تھا -

کھانا کھا چکنے کے بعد بابا جی نے ان سے کہا " لو بھئی ابھی چوکی بھر لو ، پھر سب کو اپنے اپنے کام پر جانا ہے - حاضری کم ہوگئی تو تم لوگوں کو مزہ نہیں آئے گا - "

قوالی کا ٹیک آف شروع ہو گیا - بابا جی نے جھوم کر اور سر ہلا کر انھیں داد دی وہ شہ پر کر اور بھی گرم ہوگئے -

سیکریٹری صاحب نے جیب سے ایک روپیہ نکل کر اور ہاتھوں کے کٹورے میں رکھ کر بابا جی کے سامنے پیش کیا ، پیشتر اس کے کہ بابا جی اسے اچھی طرح ہاتھوں کے تصرف میں کرتے ہیڈ قوال اسے اچک کر سلام کرتا ہوا پچھلے پاؤں اپنی صف میں پہنچ گیا -

پھر بابا جی نے اپنی گودڑی سے پانچ روپے کا نوٹ نکال کر اپنی چٹکی میں پکڑا اور ہیڈ قوال اسے چٹکی سے کھینچا مار کے لے گیا -

بابا جلال نے بھی حضور کی وساطت سے ایک روپیہ دیا ، لیکن زیادہ تر بابا جی ہی رقم لاتے اور اڑاتے رہے -

بابا جی پھر اندر گئے اور نوٹوں سے جیبوں کو بھر لائے -

میں نے اور ڈاکٹر صاحب نے انھیں کچھ کہا تو نہیں ، البتہ ایک دوسرے سے نگاہیں ملا کر بابا جے کے اس فعل پر خاموش تنقید ضرور کی -

میں جب بھی ان قوالوں کی آواز ، ادائیگی ، یا کلام پر ناک بھوں چڑھاتا (صاف ظاہر تھا انھیں قوالی نہیں آتی تھی )

بابا جے روپے کا ، پانچ کا یا دس کا نوٹ میری طرف بڑھا کر سر سے اثبات کا اشارہ کر کے فرماتے " جاؤ اور جا کر انھیں دے آؤ " میں طوعاً و کرہاً اپنی جگہ سے اٹھتا ، اور ہیڈ قوال صاحب کی جھولی میں نوٹ پھینک کر واپس آجاتا -

جب سارے سامعین نے اور خاص طور پر ڈیرے کے سارے اسٹاف نے لیہ سے آنے والے ان مصنوئی قوالوں کی کارکردگی پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور ایک دوسرے سے نظریں ملا کر ناراض سے چہرے بنائے تو میں نے بابا جی کی طرف جھک کر کہا ! " سماع مذھب میں جائز ہے ؟"

بابا جے نے میری طرف غور سے دیکھا اور اپنا بھاری بھرکم ہاتھ میری کلائی پر رکھ کر بولے !

" ان لوگوں کے چھوٹے چھوٹے بال بچے ہیں ، اور یہ بڑی دور سے بڑی آس لے کر آئے ہیں ، اگر تو اس قوالی سے ان کے اہل و عیال کا کچھ بن جائے تو جائز ہے ورنہ ناجائز ہے - "

از اشفاق احمد بابا صاحبا
 

یوسف-2

محفلین
یہ ساری دنیا مرد کی ہے یہاں عورت ڈھور ڈنگر کی طرح ہے - ذرا پھن اٹھایا تو پتھر مار کر کچل دی جائے گی - ذرا خدمت گزاری سے کام نہ لیا ، اطاعت نہ کی ، نیک پروین بن کر نہ دکھایا تو تھڑی تھڑی ہو جائیگی -اسی میں عافیت ہے کہ کولہو کے بیل کی طرح آنکھوں پر اندھیاریاں پہنے اسی ڈگر پر چکر لگاتے وقت گزر جائے -گاڑی والے کو علم نہ ہو کہ بیل اس گردش پیہم سے تھک گیا ہے - بیل کے اندر بھاگ جانے کا حوصلہ نہیں ............... اس میں کھلی فضاؤں میں اکیلے پھرنے کی سکت نہیں ورنہ وہ اس روں روں کی زندگی کو کبھی کا چھوڑ جاتا -از بانو قدسیہ شہر بے مثال
بانو آپا کی تحریروں کے تین ارتقائی مراحل ہیں۔ پہلا دور جگن ناتھ آزاد کے اس مصرع اولیٰ کی عملی تفسیر تھا ع
ابتدا یہ تھی کہ میں تھا اور دعویٰ علم کا
اس عہد میں موصوفہ نے علم کے تکبر اور آزادئ نسواں سے متاثر ہوکرمرد کو عورت کا ازلی دشمن قرار دیتے ہوئے مندرجہ بالا تحریر سمیت صنفی تعصب پر مبنی ایسے شدید مکالمے بھی لکھے ہیں، جو یہاں نقل بھی نہیں کئے جاسکتے۔ واضح رہے کہ وہ ایک عیسائی گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اور انہوں نے اشفاق احمد سے محبت کی شادی کی تھی۔ اور جو اسلام محبت کے زیر اثر قبول کیا جائے، وہ اتنا مؤثر نہیں ہوتا۔ تاہم ان کی تحریروں میں بتدریج یہ صنفی تعصب کم ہوتا چلا گیا جو ان کا دوسرا ارتقائی دور تھا۔ اب الحمد للہ وہ صنفی تعصب سے تقریباً پاک ہوچکی ہیں۔ آج مرد و زن سے متعلق ان کے نظریات فطرت سے بہت زیادہ قریب ہیں۔ اور اب وہ عورت کی دنیوی و اُخروی کامیابی اسی میں سمجھتی ہیں کہ عورت بیوی بن کر شوہر کے ماتحت زندگی گذارے۔ آپا کے متعدد انٹرویو اور تازہ تحریریں اس بات کی گواہ ہیں۔ یہ آپ کا تیسرا ارتقائی مرحلہ ہے جو جگن ناتھ آزاد کے مذکورہ بالا شعر کے مصرعہ ثانی کی عملی تصویر ہے ع
انتہا یہ کہ اس دعویٰ پہ شرمایا بہت
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
مشرق کے لوگ اور مشرق کے ملک بڑے خوش قسمت ہیں کہ رات کی تاریکی اور رات کے اندھیرے کے بعد سب سے پہلے ان کو روشنی نصیب ہوتی ہے -
سب سے پہلے مشرق میں اجالا ہوتا ہے. جب بھی روشنی ہو جانے کا حکم ہوتا ہے تو سب سے پہلے مشرق روشن ہوتا ہے -
مشرق اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہے کہ اس کے دامن میں سارے پیغمبر پیدا ہوئے ہیں. انہی پیغمبروں نے ساری دنیا کو دین دھرم، خدا اور اس کی کائنات کا تصور دیا ہے -

پنجاب بھی مشرق کا ایک حصہ ہے اور چونکہ یہ علاقہ سپاٹ ہے،میدان ہے،چٹیل ہے اس لئے اس پر روشنی آسانی سے اور خوبی سے پھیلتی ہے. اس روشنی نے پنجاب کو بڑے صوفی، بڑے سنت سادھ، بڑے بزرگ اور بڑے مرشد دیے ہیں. ان لوگوں کی تعلیم سے نہ صرف یہاں کے لوگوں کی روحانی اور ایمانی زندگی تروتازہ رہی ہے بلکہ ان کو دنیا اور دنیا کے کاروبار میں بھی بڑی بلند یاں ملی ہیں.

صوفی عالم فاضل، فلسفی ،منطقی نہیں-
وہ مذہب اور دین کی باریکیوں اور خدا کے وجود اور اس کے ہونے اور نہ ہونے کے بارے میں تعلیم نہیں دیتے. وہ اس کے ساتھ عشق کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں اور ساتھ ساتھ ترکیب بھی بتاتے ہیں.

سب سے آسان طریقہ سادہ اور موٹی موٹی زبان میں انہوں نے اپنے علاقے کے لوگوں کو یہ بتائی ہے کہ تم جیسے کیسے بھی ہو، جس حالت میں بھی ہو، جتنے گندے بھی ہو اس کی پرواہ نہ کرو بس خدا کے ساتھ لگ جاؤ. اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے پہلو کے بل لیٹے ہوئے اس کے نام کا ذکر کرو اور اس کو اپنے ساتھ سمجھو. وہ تمہاری خرابیاں اور تمھارے گند اور برائیاں خود دور کرے گا اور تمھارے لئے خود ہی کوئی راہ مقرر کرے گا.

مولوی،پنڈت، پادری ، پریچر Pastor صوفی کے الٹ تعلیم دیتے ہیں. وہ کہتے ہیں کہ پہلے پاک صاف بنو،نیک بنو، با اخلاق بنو، Be a Good Boby بنو . شریف بنو اس کے بعد تم اس قابل ہو گے کہ تم خدا کے حضور میں جا سکو اور اس کے ساتھ ملاپ کر سکو .

آپ نے دیکھا ہو گا کہ نیک اور شریف بننے کی کوشش میں انسان ساری زندگی گذار دیتا ہے لیکن اپنی مرضی اور پریچر کی کسوٹی Touch Stone کے مطابق کبھی بھی نیک نہیں بن سکتا. اس کے اپنے خالق سے دوری ہی رہتی ہے اور وہ اس راز کو پانے کے لئے آگے نہیں بڑھ سکتا جس کے لئے اس کی روح بے قرار ہے. وہ اس کے درشنوں سے دور رہتا ہے جس کے لئے اس کا دل ہر وقت دھڑکتا رہتا ہے.

از اشفاق احمد، بابا صاحبا،
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
جو رزق، پانی ، تعلق تصرف ، صحبت محبت ، حرکت و عمل ،علم پیشہ تجارت آپ کو اطمینان قلب سلامتی و صالحیت ، ذوق عبادت اور شوق شرافت سے آشنا کرائے وہی الله کی مشیت و رضا ، اس کا اجر و انعام اور فضل و کرم ہے -

اور جو مشاغل حیات اور اعمال ذات آپ کے اندر تکدر وتکبر اور تفاخر پیدا کریں ، الله اور اللہ کی مخلوق سے دور اور بیگانہ کر دیں ، چہرے کا نور دل کا سکون چھین لیں ، خوف خدا اور شرم و حیا سے بے بہرہ کر دیں وہ سب خدا کا قہر اور عذاب ہیں -

از بابا محمد یحییٰ خان پیا رنگ کالا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
عورت اس لئے شادی کرتی ہے کہ تعریف کرنے کے لئے ایک بندہ مل جائے -
اور مرد اس لئے شادی کرتا ہے کہ تعریف کے بغیر عورت مل جائے -

بڑی عمر کی عورت سے شادی کر کے آپ دنیاکے ان خوش نصیب خاوندوں میں سے ہونگے جن کی ساس نہیں ہوتی -
ورنہ جب تک سانس تب تک ساس !

پھر آپ کو بیوی کا حکم مانتے ہوئی شرم بھی نہیں آئے گی کیونکہ حکم ہے بڑوں کی حکم عدولی نہ کرو -
وہ صبح جلدی اٹھی گی کہیں آپ اسے بغیر میک اپ کے نہ دیکھ لیں -

وہ اگر آپ کا مقابلہ کریگی بھی تو سابقہ شوہر سے ، جب کہ چھوٹی عمر کی بیوی تو آئندہ شوہر سے کرے گی -

دنیا کی وہ عورت جسے آپ ساری زندگی متاثر نہیں کر سکتے وہ بیوی ہے - اور وہ عورت جسے آپ چند منٹوں میں متاثر کر سکتے ہیں وہ بھی بیوی ہے مگر دوسرے کی -

ویسے شاعروں کو ضرور شادی کرنی چاہیے اگر بیوی اچھی مل گئی تو زندگی اچھی ہو جائے گی اور بیوی اچھی نہ ملی تو شاعری اچھی ہو جائے گی -

شادی ضرور کریں اور بڑی عمر کی عورت سے کریں یا تو وہ گھر کو جنت بنا دیگی یا آپ کو جنتی -

از ڈاکٹر یونس بٹ " شیطانیاں "
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
میں جب بھی آسمان کی طرف دیکھتا ہوں - مجھے وہ بہت بڑی نیلی سی آنکھ لگتا ہے جو مسلسل زمین پر لگی ہوئی ہے -

جب یہ آنکھ بخارات سے اٹ جاتی ہے تو اس میں آنسو آجاتے ہیں -

پھر یہ اس قدر روتی ہے کہ اس کے پورے بدن پر نیل پڑ جاتے ہیں -

یہ آنکھ وہ تماشائی ہے جس نے زمین پر نیکی بدی کو لڑا رکھا ہے -

اس آنکھ کا نور اس لڑائی کا باعث ہے -

جس دن یہ لڑائی ختم ہو گئی، یہ آنکھ بند ہو جائیگی اور قیامت آ جائیگی -

از ڈاکٹر یونس بٹ " شیطانیاں "
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
بدی کا بھی اپنا مقام اہے اور اونچا مقام ہے - اس دنیا میں ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے لئے حسد ، رقابت ، مقابلہ ، انتقام ، قتل ، جنس ، اور ظلم کی بڑی ضرورت ہے -

یہ سب نہیں ہونگے تو دنیا ترقی نہیں کریگی -

ان چیزوں کے ہونے سے دنیا بہت ترقی کرتی ہے -

گو انسان نیچے کو جاتا ہے -

اسفل السافلین کہلاتا ہے -

اخلاقی اقدار پر پورا نہیں اترتا - لیکن اس کی دنیا مندرجہ بالا (evil) کے سہارے ہی اوپر کی منزلیں طے کرتی ہے -

از اشفاق احمد بابا صاحبا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ہم جس جگہ بھی رہتے ہیں ہماری یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ ہ جگہ بڑی صاف ہو - اچھی اور خوبصورت ہو -

تو میری یہ آرزو ہے اور یہ آرزو چند ماہ سے بڑی شدت اختیار کر گئی ہے -
کہ جب کبھی نماز پڑھنے کا موقع ملتا ہے اور الله تعالیٰ کو اپنے گھر بلانے کا موقع ملتا ہے اور پھر جس جگہ میں اسے بلاتا ہوں وہ میرے دل کا گوشہ ہے ، وہ نہایت تاریک ، بدبودار ، سڑا ہوا ہے -

اس میں ہر قسم کی گندگیاں اور کثافتیں بھری پڑی ہیں - اور ہر قسم کی غلاظت وہاں موجود ہے -

میں کسی ایسے Detergent کی تلاش میں ہوں جو کہ میرے دل کے اندر ویسی صفائی کر دے جیسی صفائی مجھے ان اشتہاروں میں نظر آتی ہے اور میں خوش ہوتا ہوں -

ہم باہر کی یا بدنی صفائی کی طرف متوجہ ہیں -

لیکن میں جانتا ہوں کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے دل نہایت پاک و صاف اور پاکیزہ خوشبودار اور وسعت پذیر ہیں -

ان میں الله تعالیٰ کو آتے ہوئے واقعی کوئی ججھک محسوس نہیں ہوتی -

الله تعالیٰ بڑے رحیم و کریم ہیں -

وہ جیسی کسی بھی جگہ ہو کوئی بلائے تو وہاں تشریف لے آتے ہیں -

انھوں نے کبھی اعتراض نہیں کیا -

لیکن ہم نے اور خاص طور پر میں نے اس بات کا نوٹس نہیں لیا اور کبھی اس بابت پروگرام نہیں بنایا کہ اس جگہ کی صفائی ستھرائی کے بارے میں سوچا جائے ، اور اس پر عمل کیا جائے -

ہم نے کبھی ایسی کوشش کی ہی نہیں -

ہم گھاس پھوس، ٹوٹے زینوں ، بکھرے برتنوں ، ٹوٹے اور پچکے ہوئے کنستروں ، ادھڑی چارپائیوں ، صندوقوں ، نفرتوں تکالیف ، کدورت ، گھمنڈ ، اور اناؤں سے بھرے گھر کو محبّت پیار اور عاجزی کی چاشنی سے اور خوشبو سے مہکا دیں -
ہم سے ایسا ہوتا نہیں ہے -

از اشفاق احمد زاویہ ٣ الله تعالیٰ کی لالٹین
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
یہاں پہ حضرت علی کرم اللہ وجہہُ کی وہ حکایت یاد آتی ہے۔۔۔ ایک لا دین شخص حاضر ہوا، کہنے لگا۔
“یا علی ابن ابو طالب! میں اللہ کو واحدہ لا شریک نہیں مانتا۔۔۔ جبکہ آپ رضی اللہ تعالی عنہہ مانتے ہیں۔ اب یہ آپ رضی اللہ تعالی عنہہ یہ بتائیے کہ مجھ اور آپ رضی اللہ تعالی عنہہ میں کیا فرق ہے۔۔۔ کھانا، پینا، پہننا آپ رضی اللہ تعالی عنہہ کے ساتھ بھی لگا ہوا ہے اور میرے ساتھ بھی۔۔۔میں بھی خوش ہوں، آپ رضی اللہ تعالی عنہہ بھی۔۔۔ پھر مجھے آپ رضی اللہ تعالی عنہہ کے اللہ کو ماننے یا کلمہ پڑھنے کی کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی؟”
آپ رضی اللہ تعالی عنہہ مسکرا دیئے بڑی نرمی سے فرمایا۔
“فرض کرو کہ میدان حشر بپا ہے۔۔۔ خدا اور اس کی خدائی وہاں پہ موجود ہے۔ نہ ماننے والوں کو جہنم میں اور ماننے والوں کو جنت میں داخل کیا جا رہا ہے، اب تم صرف ہاں اور ناں میں جواب دو۔۔۔ وہاں گھاٹے میں تم یا میں۔۔۔؟
وہ بلا تامل بولا۔
“یقیناً میں گھاٹے میں ہوں کہ اللہ کو نہیں مانتا۔۔۔”
اب آپ رضی اللہ تعالی عنہہ پھر فرمانے لگے۔
“اب فرض کرو کہ بقول تمہارے کہ اللہ کا وجود نہیں۔۔۔ تو پھر کیا صورت ہوئی۔۔۔ یعنی کوئی نہ تمہیں نقصان اور نہ مجھے کوئی گھاٹا۔۔۔”
وہ بلا تامل بولا۔
“بالکل درست۔۔۔”
آپ رضی اللہ تعالی عنہہ مسکرائے اور فرمانے لگے۔
“پہلی صورت میں تم گھاٹے میں تھے۔۔۔ دوسری صورت میں ہم دونوں برابر۔۔۔ تو کیا یہ نفع کا سودا نہیں کہ ہم مان لیں کہ اللہ وحدہُ لا شریک ہے۔۔۔ تاکہ کسی کو بھی نقصان گھاٹے کا احتمال ہی نہ رہے۔”
وہ مشرک یہ کھلی دلیل سن کر ایمان لے آیا۔

کاجل کوٹھا از بابا محمد یحییٰ خان سے اقتباس
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
  • ایک بادشاہ تھے ان کے ایک پیر تھے - اور ان کے بہت بہت پیروکار اور مرید تھے -
    بادشاہ نے بہت خوش ہو کر اپنے مرشد سے کہا کہ آپ بہت خوش نصیب آدمی ہیں آپ کے معتقدین کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انھیں گنا بھی نہیں جا سکتا -
    مرشد نے کہا ان میں سے صرف ڈیڑھ شخص ایسا ہے جو میری عقیدت والا ہے اور مجھ پر جاں نثاری کر سکتا ہے ، اور مجھ کو مانتا ہے اور باقی کے ایسے ہی ہیں -
    بادشاہ بہت حیران ہوا کہ یہ پچاس ہزار میں سے صرف ڈیڑھ کیسے کہ رہا ہے -
    مرشد نے کہا کہ ان کے نفس کا ٹیسٹ کرتے ہیں تب آپ کو پتا چلے گا -

    تو انھوں نے کہا کہ اس میدان کے اوپر ایک ٹیلہ ہے اور اس ٹیلہ کے اوپر آپ مجھے ایک جھونپڑی بنوادیں فوراً رات کی رات میں بنوا دیں - بادشاہ نے جھونپڑی بنوا دی -

    اس جھونپڑی میں اس بزرگ نے دو بکرے باندھ دیے - اور کسی کو پتا نہیں کہ اس میں دو بکرے باندھے گئے ہیں -

    اور پھر وہ جھونپڑی سے باہر نکلا اور اونچی آواز میں کہا -

    ہے کوئی میرے سارے مریدین میں سے جو مجھ پر جان چھڑکتا ہو ؟
    میری بات دل کی گہرائیوں سے مانتا ہو ؟ بری اچھی میں ساتھ دینے والا ہو -
    اور جو قربانی میں اس سے مانگوں وہ دے - اگر کوئی ایسا ہے تو میرے پاس آئے -

    اب اس پچاس ہزار کے جم غفیر میں سے صرف ایک آدمی اٹھا ، وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا ،ڈھیلے پاؤں رکھتا ہوا اس کے پاس گیا

    مرشد نے کہا تجھ میں یہ دم خم ہے ؟
    اس نے کہا ، ہاں ہے -

    کہا ، آ میرے ساتھ -

    اس نے اس کی کلائی پکڑی اس کو جھگی کے اندر لے گیا اور وہاں کھڑا کر دیا -

    اور کہا خاموشی کے ساتھ کھڑا رہ -

    پھر اس نے ایک بکرے کو لٹایا ، چھری نکالی اور اسے ذبح کر دیا ، جھونپڑی کی نالی کے پاس -

    اور جب وہ خون نکلا تو پچاس ہزار کے گروہ نے دیکھا اور وہ خون آلود چھری لے کر باہر نکلا اور کہا قربانی دینے والے شخص نے قربانی دے دی -
    میں اس سے پوری طرح مطمئن ہوں اس نے بہت اچھا فعل کیا- جب لوگوں نے یہ دیکھا تو حیران اور پریشان ہو گئے -

    اب ان میں سے لوگ آہستہ آہستہ کھسکنے لگے - کچھ جوتیاں پہن کر کچھ جوتیا چھوڑ کر -

    تو انھوں نے کہا اے لوگو ! قول کے آدمی نہ بننا صرف مضبوطی اور استقامت کے ساتھ کھڑے رہنے کی کوشش کرنا -

    اب میں پھر ایک اور صاحب سے کہتا ہوں وہ بھی اپنے آپ کو قربانی دینے کے لئے پیش کرے ، اور میرے پاس آئے کیونکہ یہ اس کے نفس کا ٹیسٹ ہے -

    تو سناٹا چھایا ہوا تھا - کوئی آگے نہ بڑھا - اس دوران ایک عورت کھڑی ہوئی تو اس نے کہا !
    " اے آقا میں تیار ہوں -"

    اس نے کہا ، بیبی آ -

    چنانچہ وہ بیبی چلتے چلتے جھگی میں گئی ، اس بیچاری کے ساتھ بھی وہی ہوا جو پہلے کے ساتھ ہوا -
    اندر اسے کھڑا کیا اور دوسرا بکرا ذبح کر دیا ، اور اس کے پرنالے سے خون کے فوارے چھوٹے -

    جب یہ واقعہ ہو چکا تو بادشاہ نے کہا آپ صحیح کہتے تھے ، کیونکہ وہ میدان سارا خالی ہوگیا تھا -
    پچاس ہزار آدمی ان میں سے سے ایک بھی نہیں ہے -

    انھوں نے کہا میں نے کہا تھا میرے ماننے والوں میں سے صرف ڈیڑھ شخص ہے ، جو مانتا ہے -
    بادشاہ نے کہا ہاں میں بھی مان گیا ، اور سمجھ بھی گیا ، اور وہ شخص تھا وہ مرد تھا وہ پورا تھا - جب کہ وہ عورت جو تھی وہ آدھی تھی -

    اس نے کہا نہیں بادشاہ سلامت یہ مرد آدھا تھا اور عورت پوری تھی -
    پہلا جو آیا تھا اس نے کوئی خون نہیں دیکھا تھا -
    اس بیبی نے دیکھا جو واقعہ گزرا پھر بھی اٹھ کر آنے کے لئے تیار ہوئی تھی اس لیے وہ خاتون سالم Entity پر ہے - اور آدھا وہ مرد ہے -

    میرے ماننے والوں میں ڈیڑھ لوگ ہیں باقی سارے نفس کے بندے ہیں -

    از اشفاق احمد زاویہ ١ قول اور نفس
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
لاہور میں جب میں نے ایک بابا سے کہا کہ میں صوفی بننا چاہتا ہوں. تو انہوں نے پوچھا کس لئے؟ میں نے کہا کہ "اس لئے کہ یہ مجھے پسند ہے"
آپ نے کہا مشکل کام ہے سوچ لو"
میں نے عرض کیا. " اب مشکل نہیں رہا کیوں کہ اس کی پرائمری اور مڈل پاس کر چکا ہوں. پاس انفاس نفی اثبات کا ورد کر لیتا ہوں. اسم ذات کے محل کی بھی پریکٹس ہے . آگے کے راستے معلوم نہیں.وہ آپ سے پوچھنے آیا ہوں اور آپ کی گائیڈینس چاہتا ہوں."

بابا نے ہنس کر کہا تو پھر تم روحانی طاقت حاصل کرنا چاہتے ہو،صوفی بننا نہیں چاہتے ہو. میں نے کہا کہ ان دونوں میں کیا فرق ہے؟

کہنے لگے روحانی طاقت حاصل کرنے کا مقصد صرف خرق عادات یعنی کرامات کا حصول ہے.اور یہ طاقت چند مشقوں اور ریاضتوں سے پیدا ہو سکتی ہے، لیکن تصوف کا مقصد کچھ اور ہے؟

وہ کیا؟ میں نے پوچھا تو بابا نے کہا تصوف کا مقصد خدمت خلق اور مخلوق خدا کی بہتری میں لگے رہنا ہے. مخلوق الله سے دور رہنا رہبانیت ہے ،اور الله کی مخلوق میں الله کے لئے رہنا یہ پاکی ہے اور دین ہے - مجھے اس بابا کی یہ بات اچھی نہ لگی، بیچارہ پینڈو بابا تھا اور اس کا علم محدود تھا .

میں اٹھ کر آنے لگا تو کہنے لگا روٹی کھا کر جانا. میں نے کہا " جی کوئی بات نہیں ،میں ساہیوال پہنچ کر کر کھا لوں گا.
کہنے لگا،خدمت سعادت ہے، ہمیں اس سے محروم نہ کرو، "
میں طوعا و کرہا بیٹھ گیا.بابا اندر سے رکابی اور پیالی لے آیا. پھر اس نے دیگچے سے شوربہ نکل کر پیالی میں ڈالا اور دال رکابی میں ،چنگیر سے مجھے ایک روٹی نکال کر دی جسے میں ہاتھ میں پکڑ کر کھانے لگا. وہاں مکھیاں کافی تھیں. بار بار ڈائیو لگا کر حملے کرتی تھیں.
بابا میرے سامنے بیٹھ کر مکھیاں اڑانے کے لئے کندوری ہلانے لگا اور میں روٹی کھاتا رہا.

اتنے میں مغرب کی اذان ہوئی. کونے میں اس کے مریدوں اور چیلوں نے تھوڑی سی جگا لیپ پوت کر کے ایک مسجد سی بنا رکھی تھی. وہاں دس بارہ آدمیوں کی جماعت کھڑی ہو گئی.

مجھے یہ دیکھ کر بڑی ندامت ہوئی کہ میں روٹی کھا رہا ہوں اور پیر مکھیاں جھل رہا ہے. میں نے کہا بابا جی آپ نماز پڑھیں.
کہنے لگے آپ کھائیں.
میں نے کہا ،جی مجھے بڑی شرمندگی ہو رہی ہے آپ جا کر نماز پڑھیں.
مسکرا کر بولے ، کوئی بات نہیں آپ کھانا کھائیں .

تھوڑی دیر بعد میں نے پھر کہا .جناب عالی، انہوں نے نیت بھی باندھ لی ہے آپ نماز ادا کر لیں قضا ہو جائے گی.

بابا ہنس کر بولا ." نماز کی قضا ہے بیٹا. خدمت کی کوئی قضا نہیں.
آپ آرام سے روٹی کھائیں..."

از اشفاق احمد، سفر در سفر،
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
انسان کیا ہے ؟

دیکھنے کو تو دوسرے جانوروں جیسا جانور ہے -
لیکن اس کو ذہن اور شعور کی دولت عطا ہوئی ہے اور اس دولت نے اسے جانوروں سے الگ کر دیا ہے -

اب اس کو سچ ،حق ، جمال ، اور خوب کا سامنا ہوتا ہے ، اس کا شعور اس کو فیس کرتا ہے اور اپناتا ہے -

وہ اخلاق کا اور اخلاقی اصولوں کا پابند ہو جاتا ہے ، اور جب تک انسان ان چیزوں کا پابند ہے ، وہ انسان ہے -

جب ان سے باہر نکل جاتا ہے تو پھر حیوان بن جاتا ہے -

از اشفاق احمد بابا صاحبا
 
Top