محمد یعقوب آسی کی شعری اور نثری کاوشیں

ہوا لے گئی مجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طارق اقبال بٹ کی ’’صداے موسمِ گل‘‘ کے تعاقب میں​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندوستان میں انگریز راج کا رسمی ہی سہی خاتمہ ہوتا ہے۔ کروڑوں اسلامیانِ ہند کے دلوں کی دھڑکنیں روح و بدن میں سنسنا اٹھتی ہیں، قافلوں کے قافلے آرزوؤں اور امنگوں کا زادِ سفر لئے اپنے کھیتوں، حویلیوں، کارخانوں کو تج کر سرزمینِ پاکستان کی طرف نکل پڑتے ہیں، یہ جانے سوچے بغیر کہ وہاں پہنچ کر جانے کیسے حالات پیش ہوں، کن لوگوں سے پالا پڑے۔ پاکستان کا مطلب کیا؛ لاالٰہ الا اللہ! یہی حدی ہے یہی بانگِ رحیلِ کارواں ہے اور نگاہوں میں اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کی روشنیاں ہزار رنگ دکھا رہی ہیں۔ یک بہ یک حدی آہ و بکا میں بدل جاتی ہے۔ عورتوں، بچوں، گائیوں، بھینسوں، بھیڑ بکریوں اور ان کے میمنوں پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ ایک اور رنگ غالب آ جاتا ہے؛لہو کا رنگ جو ان معصوموں کی کٹی پھٹی میتوں کو ہیبت ناک بنا دیتا ہے۔ آزادی کی لکیر لہو کی لکیر بن جاتی ہے۔ جہاں ننھے منے بچوں کی جانیں اور امت کی جوان بیٹیوں کی عصمتوں کے لاکھوں پھول وحشت و بربریت کے پاؤں تلے کچلے جاتے ہیں؛ کلیوں کے رنگ اور نمایاں ہو جاتے ہیں اور خوشبوئیں حواس پر چھانے لگتی ہیں۔ لیل ونہار کے بنائے ہوئے اس خاروں بھرے چمن کا نظارہ کرنے اور کانٹوں کی چبھن روح تک محسوس کرنے والوں میں ایک شخص حاجی گلزار محمد بھی ہے۔ حاجی صاحب جموں سے چلے تو ایک بھرا پرا خاندان ان کے ہمراہ تھا۔ خونیں لکیر کو پاٹ کر سیالکوٹ پہنچے تو ان میں سے آدھے راہِ گلستان کی خاک کو رنگین کر گئے تھے۔ بارہ تیرہ برس کے زرد رُو لڑکے یعقوب کا دکھ اُس دکھ کے مقابلے میں شاید کچھ بھی نہیں جو حاجی گلزار محمد اپنے ساتھ لے کر سرزمینِ پاک پر اترے تھے۔ اس دھرتی پر اترنے کے بعد پہلا بڑا سانحہ حاجی صاحب کی ماں کا دھرتی ماں کی گود میں چھپ جانا تھا۔ بزرگ خاتون ایک ہجرت کا دکھ نہ سہہ پائیں اور ہمیشہ کے لئے ہجرت کر گئیں! دوسری ہجرت ان کی پہلوٹی کی ننھی سی معصوم بیٹی کی عالمِ بالا کی طرف ہجرت تھی۔

وقت کا تیز پہیہ کبھی رکا ہے بھلا! حاجی صاحب کو تلاشِ رزق کے لئے یکے بعد دیگرے کئی ہجرتیں کرنی پڑیں۔ وہ اپنے پیاروں کی یادوں کے سدا بہار لہو رنگ گلاب اور دھیرے دھیرے پگھلتی مومی شمعیں اٹھائے، پھرتے پھراتے روشنیوں کے شہر میں جا آباد ہوئے۔ یہ ۱۹۵۰ء میں جاتی سردیوں کے دن تھے جب حاجی گلزار محمد کے چمن میں بہاروں کا پہلا پھول کھلا ۔ طارق اقبال بٹ کی آمد بجائے خود بادِ بہاری کا پیغام تھی جوپھولوں کے ڈھیر لئے ان کے تعاقب میں چلی آئی تھی۔ یہاں مجھے علامہ اقبال کی نظم ’’گل نخستیں‘‘ بے اختیار یاد آ گئی۔
ہنوز ہم نفسے در چمن نمی بینم
بہار می رسد و من گلِ نخستینم
بہ آبجوی نگرم خویش را نظارہ کنم
باین بہانہ مگر روی دیگری بینم
بخامہ ای کہ خطِ زندگی رقم زدہ است
نوشتہ اند پیامی یہ برگِ رنگینم
دلم بہ دوش و نگاہم نہ عبرتِ امروز
شہیدِ جلوہِ فردا و تازہ آئینم
ز تیرہ خاک دمیدم قبای گل بستم
وگرنہ اخترِ وا ماندہ ای ز پروینم

جیسا کہ طارق اقبال بٹ اپنے والد گرامی کے بارے میں خود بتاتے ہیں: ’’کتابیں پڑھنے کا انہیں بھی شوق تھا گو اس کے لئے انہیں بہت کم وقت میسر آتا۔ صبح سے شام تک اور اکثر رات میں بھی روزگار کے مسائل سے نبرد آزما رہتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ان کے سرہانے کی میز پر دیوانِ غالب اکثر و بیشتر رکھا رہتا تھا‘‘۔ لفظ سے رشتہ بھی عجیب رشتہ ہے اور اس کا سفر عجیب تر! بہت سارے معلوم اور نامعلوم ٹیڑھے میڑھے راستوں کا یہ مسافر نہ جانے کہاں جا کر کس کے لہو میں شامل ہو جاتا ہے! یہ قلم تخلیق کرنے والے کی عطا ہے، جسے نواز دے۔

ایک سوال جس کے جواب میں طارق بٹ کی ساری جد وجہد کا مطمع کھل کر سامنے آتا ہے، یہ ہے کہ آپ شعر کیوں کہتے ہیں؟ ہمارے دوست کا جواب بہت سیدھا ہے: ’’ہر وہ لفظ جو مجھ پر معانی کے نئے اسرار کھولتا ہے میرے لئے اسی طرح ہے جیسے ایک بچے کے لئے نیا کھلونا، جس سے کھیل کھیل کر جب اس کا جی بھر جاتا ہے تو اس کا تجسس اس کو اسے توڑ کر دیکھنے پر اکساتا ہے۔ اور جب توڑ کر دوبارہ نہ جوڑ پائے تو کسی شے کے کھو جانے کا مغموم احساس اور بڑوں کی ڈانٹ کا خوف دل میں لے کر اداس ہو جاتا ہے اور اگر توڑ کر دوبارہ جوڑ لے تو ایک فاتحانہ غرور سے سر اٹھا کر دیکھتا ہے کہ ہے کوئی دیکھنے والا؟‘‘ اور یہ کہ ’’شعر میرے لئے تکمیلِ احساس و جذبات کا نام ہے‘‘۔ وہ کہتے ہیں: ’’کتاب اور خواب ہمیشہ میری تنہائیوں کے رفیق رہے ہیں۔ بچپن میں جنوں، پریوں، ڈاکو لٹیروں، شہزادوں اور شہزادیوں کی چھوٹی چھوٹی کہانیاں ہوتیں اور ان جیسے چھوٹے چھوٹے کبھی خوش کن اور کبھی ڈراؤنے خواب۔ خواب میں آج بھی دیکھتا ہوں؛ امن و دوستی، صلح و آشتی، سماجی نا انصافی کے خاتمے اور انسانی برادری کی یک جہتی و خوش حالی کے، محبتوں اور پر خلوص رفاقتوں کے اور وطنِ عزیز پاکستان کی ترقی، امن، خوش حالی اور پائندگی کے۔ کتابیں آج بھی میری دوست اور دل دار ہیں‘‘۔

طارق اقبال بٹ کے لہو میں بسے لفظ کے اس رچاؤ کا اظہار بھی وقتاً فوقتاً ہوتا رہا۔’’ یادوں اور خوابوں کے درمیان‘‘ میں انہوں نے مختصر طور پر اپنے شعری سفر کا احوال لکھا ہے۔ میٹرک کے دوران لفظ جوڑا کرتے تھے جو اہتماماً ایک سے دوسری ڈائری میں منتقل ہوتے رہے۔ کالج میں ’’چند ایک مشاعروں‘‘ اور شبنم رومانی کے ’’حلقۂ اربابِ قلم‘‘ کی ’’چند نشستوں‘‘ کا ذکر انہوں نے کیا ہے۔ سعودی عرب کے قیام کے دوران ۱۹۹۱ء میں پہلی بار پاکستانی رائٹرز فورم (الخبر) سعودی عرب کے مشاعرے میں شریک ہوئے اور ’’پھر یہ سلسلہ چل نکلا‘‘۔ یہاں انہیں پروفیسر ذکاء صدیقی جیسا استاد میسر آ گیا، جن کے ذکر میں بٹ صاحب کا ایک ایک لفظ سراپا عجز و نیاز بن جاتا ہے۔ کہتے ہیں: ’’رائٹرز فورم کی بدولت مجھے استاذیپروفیسر ذکاء صدیقی صاحب سے شرفِ تلمذ حاصل ہوا جن کی ادب نوازی، علمی تبحر اور خلوص و محبت مجھ جیسے بے مایہ اور خارج از وزن شعر گو کو اس مقام تک پہنچا دیا کہ آج میں اپنے پریشان خواب و خیال کے موتی سلکِ غزل میں کسی ڈھب سے پرونے کے قابل ہو سکا ہوں۔‘‘

یہاں ایک عجیب اتفاق سامنے آتا ہے۔ چالیس برس کی عمر تک انہوں نے جو کچھ بھی لکھا واضح طور پر کہیں منقول نہیں۔ شاید یہ وہی چلہ ہے جس کی جھلکیاں انسانی فطرت میں ہزار مقامات پر نظر آتی ہیں اور قدرت کے انعامات کے لئے بھی شاید چالیس برس کی عمر ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔

پروفیسر ذکاء صدیقی کا طویل اور تجزیاتی مضمون ’’آشنا صدا‘‘ (تحریر: سہ شنبہ ۲۷؍ مئی ۱۹۹۷ء) بھی کتاب میں شامل ہے۔ یہ ایک پیراگراف نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں، پروفیسر صاحب لکھتے ہیں: ’’میری ان سے پہلی ملاقات ایک مشاعرے میں ہوئی تھی جہاں وہ سامع کی حیثیت سے آئے تھے۔ مشاعرے کے کچھ عرصے بعد ان کا ایک فیکس مجھے ملا۔ لکھا تھا: شعر گوئی کا مجھے بھی شوق ہے۔ چند شعر شعر ملاحظہ کیجئے اور بلا رو رعایت بتائیے کہ کیا اس مشغلے کو جاری رکھوں؟ وہ پہلی غزل (جو اس مجموعے میں شامل نہیں ہے) آج سے پانچ سال پہلے کی تھی۔‘‘ ازاں بعد پروفیسر صاحب نے طارق بٹ اور ان کے شعر کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے اور اپنے شاگردِ رشید کی محنت، لگن، جاں فشانی، ذوق و شوق اور دل جمعی سے شعر کہنے کے اوصاف کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔

صنفِ غزل کے بارے میں پروفیسر صاحب کے الفاظ یاد رکھنے کے قابل ہیں: ’’غزل کی جان ایمائیت اور علامت ہے۔ نازک احساسات اور لطیف جذبات کی ترجمانی کے لئے الفاظ کی صناعی ہو یا رمز و علامت کی پرکاری، اس وقت تک بے قیمت ہیں جب تک شاعر مرصع سازی کا ہنر نہ جانتا ہو۔ اور یہ ظاہر ہے کہ مرصع سازی کا تعلق زور زبردستی اور توڑ پھوڑ سے نہیں ہے۔ اگر علامات اپنا فرضِ منصبی ادا کرنے میں ناکام ہیں تو خواہ وہ جدید ہوں (سایہ، لاش، دھوپ، زرد پتا) یا قدیم (بادہ و ساغر، شمع و پروانہ وغیرہ)، حشو و زوائد سے زیادہ اہم نہیں۔‘‘

زیرِ نظر مجموعۂ غزل ’’صداے موسمِ گل‘‘ ستمبر ۱۹۹۷ء میں اشاعت پذیر ہوا، اور کوئی چودہ برس بعد مجھے اس نوٹ کے ساتھ ملا (چودہ برس اس لئے کہ میری ان سے شناسائی ہی بہت بعد میں ہوئی تھی):
برادرم محمد یعقوب آسی کے لئے بڑی محبت کے ساتھ۔ طارق بٹ : ۱۵؍ اپریل ۲۰۱۱ء

اس بات کو بھی چار برس سے زیادہ بیت گئے۔ بارہا سوچا کہ اپنے مطالعے میں دوستوں کو شریک کروں مگر خود کو اس قابل نہ پا کر خاموش ہو رہا۔ وہ تو پچھلے دنوں اقبال طارق سے بات ہو رہی تھی تو میں نے کہا میں کچھ لکھنا چاہ رہا ہوں مگر ....۔ کہنے لگے: ’’آپ لکھ سکتے ہیں! بلکہ لکھئے!‘‘۔ میں نے طارق بٹ صاحب سے کہا کہ ان دنوں کچھ جسارت آمادہ ہوں، اجازت مرحمت فرمائیے۔ اپنے مخصوص مربیانہ انداز میں بولے: ’’تم اس گھاس پھوس میں کیا ڈھونڈ رہے ہو؟‘‘ فی البدیہہ عرض کیا: ’’مجھے اس میں زعفران کی شاخوں کا سراغ ملا ہے، تلاش تو کروں گا ہی‘‘۔ انہوں نے ہمیشہ کی طرح بہت جان دار قہقہ لگایا۔ گویا جسارت کی اجازت مل گئی!

میرے سامنے مشکل یہ بھی آن کھڑی ہوئی کہ کتاب کو شائع ہوئے اٹھارہ برس ہو گئے۔ اس پر کہاں کہاں کس کس نے کن کن پہلوؤں سے گفتگو کی ہو گی، مجھے کوئی اندازہ نہیں۔ پروفیسر ذکاء صدیقی نے نہ صرف یہ کہ شعر، اس کی فنیات اور فکر کے عناصر اور طارق بٹ کی چابک دستی کا تفصیلی ذکر کر دیا ہے۔ بلکہ متداول تنقیدی رویوں کے حوالے سے بھی طارق بٹ کے شعر کو دیکھا ہے اور گراں قدر مشورے بھی دیے ہیں۔ پروفیسر صاحب لکھتے ہیں: ’’طارق کی آواز آج کے جدید تر شاعروں میں اپنی پہچان بنا کر رہے گی کیوں کہ یہ آواز نہ تو ایک چیخ ہے کہ سمع خراشی کر، نہ اتنی مدھم ہے کہ سنائی ہی نہ دے۔ ان کا شعر جمالیاتی ہو یا فسلفیانہ، رومانی ہوں یا حقیقت پسندانہ، تجرباتی ہو یا عاشقانہ، اپنے قائم سر میں الگ سنائی دیتا ہے۔ مندر سپتک کی گہری اور رچی ہوئی، خود میں ڈوبی ہوئی، شائستہ اور کڑھی ہوئی یہ آواز سارے رسوں کے تمام امرت اور تمام زہر پی کر سچے سر میں ہماری سماعت تک پہنچا رہی ہے۔ یہ وہ صدا ہے جس سے ہمارے کان آشنا ہیں، جس نے تین سو سال پرانی ہوتے ہوئے بھی نئی حسیت اور نئے تجربے کے امکانات کو جمالیاتی اور کلاسیکی انداز میں بیان کرنے کی توفیق پائی ہے‘‘۔ انہوں نے طارق بٹ کو مشورہ دینے کے لئے نظیری کا کیسا بے نظیر شعر منتخب کیا ہے:
شکر لِلہّٰ در سَرَت از عشق است اندیشہ اے
اندک اندک مشقِ ایں سودا کن و دیوانہ باش

ظاہر ہے جو کچھ اتنے اچھے انداز میں بیان ہو چکا، اس پر میرا لکھا میرا اپنا قد کوئی ایک آدھ انچ بڑھا دے تو بڑھا دے، طارق بٹ کے قاری کو مکرر مطالعہ سے زیادہ شاید کچھ نہ دے سکے۔ طارق بٹ بالکل حق بجانب ہو گا اگر وہ مجھے کہے کہ میاں! یہ چونسٹھ غزلوں اور دیگر مندرجات پر مشتمل یہ کتاب طارق بٹ کی پانچ یا چھ برس (۱۹۹۱ء تا ۱۹۹۷ء) کے دوران کی گئی شاعری کا انتخاب ہے اور تم ساڑھے تین دہائیاں گلا کر کل دو کم اسی غزلیں لا سکے ہو، اگر انتخاب کرتے تو کیا نکلتا! کتاب کو چھپے اٹھارہ برس بیت گئے اور تم تک پہنچے چار برس سے اوپر ہو چکے۔ کہنے والے تو اور بھی بہت کچھ کہہ چکے ہوں گے جو تمہارے علم میں نہیں۔ تو، تمہارے دماغ میں وہ کون سا کیڑا آن سمایا ہے جو تمہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا؟در اصل مجھے اکسانے والی وہ غزل ہے جو ’’صدائے موسمِ گل‘‘ میں غزلوں کی فہرست کے آخر میں ہے۔
جس قدر دیوانے سے پتھر کھلے
اتنے ہی سربستہ راز اس پر کھلے
اعتبارِ ہستئ نا اعتبار
یاں کسے ہے، ہاں مگر جس پر کھلے
واپسی کے سارے رستے بند ہیں
اے رفیقو! تم کہاں آ کر کھلے

یہ غزل مجھے ایک بار پھر جموں سے ہجرت کرتے قافلے میں لے گئی جو اپنے افراد کی جانوں اور عصمتوں کی قربانیاں دیتا اپنے خوابوں کی سرزمین کی طرف رواں تھا۔ مجھے یوں لگا کہ وہ سفر تو کسی طور تمام ہوا، مگر مجھ جیسے اور طارق بٹ جیسے عشق اندیش سروں کو جہاں ایک عجیب دکھ سے دو چار کر گیا؛ اپنی گمشدگی اور بے چہرگی کا دکھ، وہیں ایک لامتناہی سفر کی راہ بھی دکھا گیا؛ اپنی ذات کی تلاش، اپنے آپ کی تلاش۔ میں کون ہوں؟ مجھے جانا کہاں ہے؟ اور کیوں جانا ہے؟ میرے ساتھی کون ہیں؟ اور وہ کیا وہ میرے ہم سفر بھی ہیں؟ ہماری کوئی منزل بھی ہے؟ یا ہمارا سفر بے سمت راستوں کا سفر ہے جس پر میں گھسٹتا جا رہا ہوں؟ وہ منزل کیا ہوئی جس کی طرف ہزاروں حاجی گلزار محمد رواں تھے؟
یہ پیش و پس ہے غبار کیسا، یہ دھُند کا ہے حصار کیسا
یہ کس طرف جا رہی ہیں راہیں، یہ منزلیں بے نشان کیوں ہیں

میں نے ان سوالوں کی تلاش میں اپنے اور طارق بٹ کے بیچ اشتراک کی تلاش میں موسمِ گل کی صدا کا تعاقب کیا ہے۔ قدم اٹھ گئے ہیں اب یہ صدا جدھر لے جائے! میرے ساتھ رہئے گا، ممکن ہے ہم اسی بہانے ایک دوسرے کو بھی شناخت کر لیں۔
یہیں لٹا تھا کبھی قافلہ بہاروں کا
یہیں سے ہو تو ہو پھر ابتدائے موسمِ گل

کرب اور امید کے امتزاج سے شروع ہونے والے سفر کی ابتدا جو اُس خونین لکیر سے ہوئی تھی، وہ طارق بٹ کی ذات میں ایسی بے چینی اور بے قراری بھر گئی جس کا اظہار نہ ہو تو انسان کو اندر ہی اندر کھا جائے۔ فطرت جہاں غم و آلام کے تحفے عطا کرتی ہے وہاں ان سے نبرد آزمان ہونے کے وسیلوں سے بھی نوازتی ہے۔ اظہار کی قوت انہیں وسائل میں سے ایک ہے۔ پندرہ سولہ سال کی عمر امنگوں کی عمر ہوتی ہے، پختگی آنے سے پہلے کے اس دور کی بے تابیاں ہزاروں رنگ اختیار کرتی ہیں۔ تاہم جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کی فطری ضرورت امنگوں پر غالب آ جاتی ہے اور جوں جوں انسان حالات کا ادراک کرتا جاتا ہے، عمل اور اظہار کے انداز بدلتے جاتے ہیں۔

وقت نے طارق بٹ کے لئے ایک بہت لمبا سفر تیار کر رکھا تھا۔ تیس برس کے عرصے پر محیط اس سفر کے متعدد پہلو ہیں۔ غمِ نانِ جویں تو سب کے ساتھ لگا ہے، طارق بٹ کے سامنے ایک اور سفر بھی تھا؛ اپنی ذات کی طرف سفر۔ قدرت نے ہمارے دوست کو اظہار کی جس قوت سے نوازا ہے اس کے نکھار اور تربیت کا سامان بھی کر دیا۔ یوں میرا اور بٹ صاحب کا سفر فاصلوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور میں بخوبی محسوس کر سکتا ہوں کہ قلبی اور فکری سطح پر ہماری سمتوں میں کوئی نمایاں فرق ہے نہ زادِ راہ کے حوالے سے۔
چلو آؤ چلتے ہیں بے ساز و ساماں
قلم کا سفر خود ہی زادِ سفر ہے

یادوں اور خوابوں کے درمیان جاری تلاش کے سلسلوں میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنا دکھ پوری انسانیت کا دکھ لگتا ہے اور کسی بھی دوسرے کا دکھ اپنے اوپر گزرتا محسوس ہوتا ہے۔ یہاں شاعر ایک فرد نہیں رہ جاتا، اس کی اپنی حیثیت علامت اور استعارے کی ہو جاتی ہے۔ اس کے مشاہدات اور محسوسات اس پر ہر آن ایک نئی کیفیت آشکار کرتے ہیں اور بدلتی رتوں کی یہ حیرت اسے تماشائی ہی نہیں، کبھی کبھی تماشا بھی بنا دیتی ہے۔
گھر سے چلے تو ہم بھی بڑے کج کلاہ تھے
راہوں کے پیچ و تاب نے ہموار کر دیا
فسونِ آگہی طارق تمہیں پتھر بنا دے گا
تم اس کے توڑ کا بھی کوئی منتر سوچتے رہنا
ہم نے آواز دی بہت دل کو
جانے وہ کس سے تھا خطاب میں گم
دل میں کھلا تھا پیار کسی پھول کی طرح
مہکا جو میں تو ایک ہوا لے گئی مجھے

درونِ ذات کا سفر ہر کس و ناکس کے بس کا روگ ہے۔ خود اپنی یہ کیفیت رہی کہ رشتہء جسم و جاں قائم رکھنے کی سعی میں فکر جامد ہو کر رہ گئی؛ اور یہ سوچنے کی ہمت ہی نہیں کہ آدمی ہے کیا۔ اس سفر کی منزلیں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ کبھی خود فراموشی کی سی کیفیت طاری ہوتی ہے اور کبھی کوئی ایسا خوف آن لیتا ہے جس کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ اور کچھ واہمے بھی کہ ذرا رکے تو پھر جانئے پتھر کے ہو گئے۔ بہ این ہمہ کچھ نہ کچھ قوتیں ایسی ہوتی ضرور ہیں جو طارق بٹ جیسے پختہ پا مسافر کے قدموں کو رواں رکھتی ہیں۔ کچھ اظہاریے دیکھتے ہیں۔
تنہائیاں پکارتی رہتی ہیں آؤ آؤ
اے بے کسی بتا، کہیں ان سے مفر بھی ہے؟
ہمیشہ اک نیا چہرہ لگائے ملتی ہے دنیا
اسے پہچاننا اور پھر نیا ڈر سوچتے رہنا
کچھ دور تک تو اس کی صدا لے گئی مجھے
پھر میرے من کی موج اڑا لے گئی مجھے
عجب جادو اثر آواز تھی وہ
کہ سنتے ہی وہیں پتھرا گیا میں

زادِ سفر کی ایک صورت تو وہ ہے کہ جتنی منازل سر کر لیں، وہ زادِ راہ بن گئیں۔ بٹ صاحب نے زندگی کی تین دہائیاں تپتے صحراؤں میں گزاری ہیں، وہ بھی جانتے ہیں کہ نور اور نار کا مادہ ایک ہی ہوتا ہے۔ فرق اتنا سا ہے کہ اپنے اندر کے وحشی انسان کی تہذیب کرنی پڑتی ہے، اسے ’’عملوا الصٰلحات‘‘ سے شناسائی کرانی ہوتی ہے نہیں تو وہ ’’اسفل السافلین‘‘ کی کھائی میں جا گرے۔
اپنے اندر خود اک جنگل ہے ہر آدم زاد
کیسے کیسے وحشی جذبے پھرتے ہیں آزاد
راہ کی ایک اک ٹھوکر کھولے منزل کے اسرار
رستے کا ہر پتھر گویا ہوتا ہے استاد

جنوں بھی چالاک ہو جائے تو جانئے حدی کا کام کر گیا۔ دل کے قریں رہنے والوں کا ساتھ ایک اعلیٰ سرمایہ ہے، وہ دور بھی ہوں تو ان کا تصور جہاں جان افزائی کا کام کرتا ہے وہیں بے شجر صحرا کی ریگِ تپاں میں روح پرور ہوا کا جھونکا بھی بنتا ہے۔ تاہم ایک ہوک سی ضرور اٹھتی ہے کہ:
ترس نہ جائے سماعت کسی کے لہجے کو
جواب دیتے رہو آشنا صداؤں کا
خود میں ہی نہ کیوں پاؤں کی زنجیر ہلا دوں
تنہائی کے زنداں میں صدا کوئی نہیں ہے
یہ جو آوازیں ہیں پتھر کا بنا دیتی ہیں
گھر سے نکلے ہو تو پیچھے نہ پلٹ کر دیکھو

وہ تعلق جسے سید علی مطہر اشعر نے ’’تعلق خاطر‘‘ کا نام دیا ہے، انسان کا زندگی کی رعنائیوں کے ساتھ تعلق ہے ۔ دلِ زندہ جہاں بھی ہو، اس کے رومان کے رشتے اس کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور جینے کا حوصلہ بخشتے ہیں۔ کسی کے خیال ہی سے تنہائی لو دے اٹھتی ہے، خمارِ زندہ دار کی کیفیات مختلف ہوا کرتی ہیں تاہم ایک دیدہ وران سے نکل کر بھی اپنے اندر نیا ولولہ پاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی کیفیات کا تذکرہ بٹ صاحب کے الفاظ میں ہو جائے۔
ہر خار زلیخائی پہ اترا ہے چمن کا
یاں تار بھی دامن میں بچا کوئی نہیں ہے
وہ میری ذات کی تنہائیوں سے واقف ہے
مرے خطوں سے وہ کیسے بہل گیا ہو گا
یاد اس کی مرے تعاقب میں
دیر تک آئی، دور تک آئی

یہی رشتے تو ہوتے ہیں جو ہمیں اپنے ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں، ہمیں اپنی اہمیت کا شعور بخشتے ہیں اور چشمِ بینا کو نئے مناظر اور نئی جہتوں میں جھانکنے پر اکساتے ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یہی تعلقِ خاطر انسان کو زندہ رکھتا ہے، یہ نہ رہے تو ہم زندگی ہی سے بیزار ہو جائیں؛ تلاش وَلاش کی تو بات ہی زندگی سے مشروط ہے۔ حوادث صرف بیرونی ہی نہیں ہوتے اندرونی بھی ہوتے ہیں۔ وقت عظیم مرہم ہے تاہم کچھ محرومیوں کے زخم کبھی نہیں بھرتے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ گہرے گھاؤ بن جاتے ہیں۔ طارق بٹ کو ذکاء صدیقی جیسے شجرِ سایہ دار کی چھاؤں اور ’’اپنے اقبال احمد قمر‘‘ کی ہم قدمی بھی میسر رہی،اور بہت سارے حوادث بھی پیش آئے ہیں۔

کراچی کا دکھ اکیلے طارق بٹ کا دکھ نہیں ہے یا یوں کہئے کہ یہاں اقبال طارق کی ذات ایک فرد سے ایک شہر، شہر سے وطنِ عزیز اور وطن سے ملت تک پھیل جاتی ہے۔ یہ شہر جو کبھی روشنیوں کا شہر ہوتا تھا اب بھی روشنیوں کا شہر ہے، مگر روشنی کی نوعیت بدل گئی ہے۔ انسان کے اندر بسے وحشی درندوں نے نور کو نار میں بدل دیا ہے۔ ہمارا فاضل شاعر بھی اس پر ملول ہے بلکہ مجھ سے شاید کئی گنا زیادہ ملول ہے کہ اس کا رشتہ میرے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط اور صدمے کہیں زیادہ گہرے ہیں۔ ایسی کیفیت میں وہ چیخ اٹھتا ہے:
یا رب، ہو عطا اب تو کوئی اسم مجھے بھی
مقبول مرا حرفِ دعا کوئی نہیں ہے
ہم مقامِ آگہی کی جستجو میں تھے مگن
یہ نہ سوچا تھا کہ یوں تنہا کھڑے رہ جائیں گے

تاہم اس کا عزم اسے یہاں بھی مایوس نہیں ہونے دیتا، اس کی نگاہِ پر امید کی روشنی سمندر کی نسبت سے جوار بھاٹے کی طرح سکڑتی سمٹتی ہے مگر بجھتی نہیں؛ اور اسے بجا طور پر ادراک ہوتا ہے کہ:
تمام راہیں گلستاں کی بند ہوں جن پر
وہ خاک ہو کے جلو میں صبا کے چلتے ہیں
بتا رہی ہے جھجکتے پروں کی بست و کشاد
کہ اب شعورِ فضا بال و پر میں جاگا ہے

شعور اور اظہار؛ میرے نزدیک یہ دو الگ الگ مظاہر نہیں بلکہ یک جان ہیں۔ شعور پیدا ہوتا ہے تو پھر مقید نہیں رہ سکتا۔ نہاں خانہء ذات میں پیدا ہونے والی اتھل پتھل اور اپنے آپ سے معرکہ آرائی خود ہی اپنے اظہار کا وسیلہ بن جاتی ہے۔
اک اپنی ذات سے بس معرکہ نہ ہو درپیش
تو زندگی میں کوئی معرکہ نہیں دشوار
مرا سینہ ہی مجھ کو آئنہ ہو
مرا مقصود جامِ جم نہیں ہے

یادوں اور خوابوں کے درمیان سے شروع ہونے والا سفر جب ذات کی تلاش کا سفر بن جائے تو کبھی تکمیل پذیر نہیں ہوتا۔ یہ ہم ہیں کہ کسی ایک اہم پڑاؤ کو منزل سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ تاہم نظر میں شعور بسا ہو تو یہ واہمہ جلد ہی رفع ہو جاتا ہے اور صاحبِ شعورراہرو اپنے خوابوں، ان کی پختہ اور نیم پختہ تعبیروں پر رنج و غم یا سرور و انبساط کا اظہار اس سلیقے سے کر جاتا ہے کہ اس کے محسوسات اس کے قاری کو اپنے محسوسات لگتے ہیں؛ تقریر کی یہ لذت کوئی معمولی بات بھی نہیں ہے۔ وہ خود بھی جانتا ہے کہ اس کا قاری اس کے ساتھ شریک ہے اور اس کی اپنی ذات کی طرح اس پر کھل رہا ہے۔
آنسوؤں میں دل کی بستی بہہ گئی
اک کھنڈر سی یاد باقی رہ گئی
کون آئے گا کسے فرصتِ غم خواری ہے
آج خود اپنی ہی بانہوں میں سمٹ کر دیکھو
جس قدر دیوانے سے پتھر کھلے
اتنے ہی سربستہ راز اس پر کھلے
واپسی کے سارے رستے بند ہیں
اے رفیقو! تم کہاں آ کر کھلے

عرفانِ ذات اتنی بڑی نعمت ہے کہ جسے خود اپنا پتہ چل گیا وہ کائنات کے اسرار پا گیا۔ یہ پتہ بھی تو ایک دم نہیں چل جاتا، ایسا لگتا ضرور ہے کہ میں خود کو جان گیا، لو اَب جان گیا! مگر جلد ہی یہ کھل جاتا ہے کہ وہ تو ایک پرتو ہے، بلکہ ایک نہیں کئی پرتو ہیں جیسے بہت سے مناظر ایک دوجے میں گڈمڈ ہو رہے ہوں۔نظر ایک لمحے میں تین سو ساٹھ درجے کا چکر پورا کر لیتی ہے؛ ماضی، حال اور مستقبل کی لکیریں بھی جیسے مدھم پڑ جاتی ہیں۔ صاحبِ نظر خود کو زمانے سے آزاد بھی پاتا ہے اور لمحوں کی قید میں بھی دیکھتا ہے۔ مثال کے طور پر:
بھولی ہوئی راہوں کا سفر کیسا لگے گا
اب لوٹ کے جائیں گے تو گھر کیسا لگے گا
اک بار اس کو دیکھ کے اٹھی نہ پھر نگاہ
وہ حسن تھا کہ آپ ہی اپنا حجاب تھا

حاصل ایک ایسی لازوال کسک ہوتی ہے جو آنے والی مسافتوں میں زادِ راہ ہوگی۔ مسافر اپنے احوال کا حاصل اپنے سفرنامے میں رقم کر دیتا ہے کہ دوسروں کے لئے مشعلِ راہ ہو۔
دشتِ دل میں ڈھونڈتے ہو کیا سراغِ رفتگاں
جانے والے اپنے قدموں کے نشاں تک لے گئے
کچھ اداسی ہی سے مزاج ملا
اپنے جیسا کوئی ملا بھی نہیں
جب نہ کوئی مدعا باقی رہا
ایک کے بعد ایک، کتنے در کھلے

تب وہ ایک پکار جو سینے کے غار اور گلے کے تار سے اٹھتی ہے، لب بہ لب، حرف بہ حرف، ورق بہ ورق، نقطہ بہ نقطہ پھیلتی چلی جاتی ہے:
دار فریادی ہے اے اہلِ قلم سنتے ہو؟
ہاتھ کٹوا دیے شانوں پہ سروں کے ہوتے

یہاں کتنی ہی تازہ حیرتیں انتظار میں ہوتی ہیں۔ سفر جاری رہتا ہے اور بدلتی رتوں کا تسلسل ان نو بہ نو تحیرات کی آبیاری میں مصروف رہتا ہے۔ طارق بٹ کے دوسرے شعری مجموعے ’’بدلتی رتوں کی حیرت‘‘ (اشاعت: ۲۰۰۸ء) سے یہ دو شعر دیکھئے، اور مجھے اجازت دیجئے:
سفر ہی ختم ہوا اور نہ راستہ ٹھہرا
کہاں پہ تھی مری منزل کہاں میں آ ٹھہرا
عجیب وہم سا رہتا ہے ہر سفر میں مجھے
رواں ہوں جس پہ، مرا راستہ نہیں ہے وہ
*****
فقط محمد یعقوب آسیؔ
جمعرات: 11 جون 2015 ء​
 
شعر فارسی ۔۔ از: سید نظام الدین محمود داعی شیرازی
عشق دردیست بہ نزدیک طبیبان لیکن
درد مندان ہمہ دانند کہ آن درمانست

ترجمہ در شعر پنجابی ۔۔ از: محمد یعقوب آسی
پِیڑ نرالی عشقے والی، کہن طبیب سیانے
جس دل اندر عشق سمانا، دارُو اِس نوں جانے

20 جون 2015 ء
 
شعر فارسی ۔۔ از: سید نظام الدین محمود داعی شیرازی
عشق دردیست بہ نزدیک طبیبان لیکن
درد مندان ہمہ دانند کہ آن درمانست

ترجمہ در شعر پنجابی ۔۔ از: محمد یعقوب آسی
پِیڑ نرالی عشقے والی، کہن طبیب سیانے
جس دل اندر عشق سمانا، دارُو اِس نوں جانے

20 جون 2015 ء
بہت خوب استادِ محترم کیا کہنے ۔۔۔اعلی۔۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
شعر فارسی ۔۔ از: سید نظام الدین محمود داعی شیرازی
عشق دردیست بہ نزدیک طبیبان لیکن
درد مندان ہمہ دانند کہ آن درمانست

ترجمہ در شعر پنجابی ۔۔ از: محمد یعقوب آسی
پِیڑ نرالی عشقے والی، کہن طبیب سیانے
جس دل اندر عشق سمانا، دارُو اِس نوں جانے

20 جون 2015 ء
بہت خوبصورت۔۔۔۔
 
پنجابی شعری ترجمہ (فی البدیہہ) از محمد یعقوب آسیؔ

داستانِ عشق یک افسانہ نبود بیش لیک
ہر کسے طورِ دگر می گوید ایں افسانہ را
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حاجی علی اکبر بسمل شیرازی
لوکی کہندے عشق دا جھیڑا نری کہانی ہوندا اے
ہر کوئی اپنے اپنے رنگ چ پڑھدا ایس کہانی نوں
۔۔۔۔۔
یک قصه بیش نیست غمِ عشق وین عجب
کز هر زبان که می‌شنوم نامکرر است
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حافظ شیرازی
روگ پریم دا نری کہانی، پر اک گل انوکھی
بھانویں جس دے مونہوں سنئے، دوجے نال نہ رَلدی
۔۔۔۔
بہ شکریہ جناب محمد وارث

10304567_716467888496672_5402575594515795981_n.jpg
 
آخری تدوین:
علامہ اقبال
فارسی غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صورت نہ پرستم من بت خانہ شکستم من
آن سیلِ سبک سیرم ہر بند گسستم من

در بود و بنودِ من اندیشہ گمانہا داشت
از عشق ہویدا شد این نکتہ کہ ہستم من

در دَیر نیازِ من، در کعبہ نمازِ من
زنّار بدوشم من، تسبیح بدستم من

سرمایۂ دردِ تو غارت نتوان کردن
اشکی کہ زِ دل خیزد، در دیدہ شکستم من

فرزانہ بہ گفتارم، دیوانہ بہ کردارم
از بادۂ شوقِ تو ہشیارم و مستم من

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیامِ مشرق

پنجابی ترجمہ

میں صورت چھڈی پوجنی، بت خانہ دتا بھَنّ
میں کانگ چڑھے دریا دی، جس روڑھے سارے بَنھ

مت وجی سوچیں ڈبیاں، کیہ میرا ہون نہ ہون
مینوں عشق سیانے دسیا، اوئے اپنے ہون نوں مَنّ

کدے جا بتاں نوں پوجیا، کدے کعبے پڑھی نماز
کدے گلمے جنجو پا لیا، کدے تسبیح ونوں وَنّ

تیری پیڑ کمائی عشق دی، میں کیویں گواواں دس
جیہڑے اتھر دل چوں پنگرے، اوہ نیناں دے لئی دھَنّ

میں پھردا وانگ سودائیاں، میری عقل بھری گفتار
تیرے پیار سکھائیاں مستیاں، تیری پریت چکائے کَنّ

محمد یعقوب آسی ۔۔۔ منگل ۲۱؍ جولائی ۲۰۱۵ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
اگر خواہی حیات اندر خطر زی
نظم از علامہ اقبال (پیامِ مشرق)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزالی با غزالی دردِ دل گفت
ازین پس در حرم گیرم کنامی
بصحرا صید بندان در کمین اند
بکامِ آہوان صبحی نہ شامی
امان از فتنۂ صیاد خواہم
دلی زِ اندیشہ ہا آزاد خواہم

رفیقش گفت اے یارِ خرد مند
اگر خواہی حیات اندر خطر زی
دما دم خویشتن را بر فسان زن
ز تیغِ پاک گوہر تیز تر زی
خطر تاب و توان را امتحان است
عیارِ ممکناتِ جسم و جان است​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دھُڑکو نہیں اُو جانا
ترجمہ از محمد یعقوب آسیؔ منگل ۲۱؍ جولائی ۲۰۱۵ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو ہرناں دیاں گلاں سنیاں، اک دوجے نوں آکھے
ڈیرہ لاواں جا کعبے وچ، خوف خطر نہیں جتھے
جنگل صحرا تاڑ شکاری پھاہیاں لائی بیٹھے
سانوں شام سویرے بھاجڑ، گھاء دا ککھ نہ لبھے
ہن تے چتر شکاریاں کولوں جا کدھرے لُک جاواں
دل وچ ڈر نہ ہووے کوئی سوکھیاں ہوون ساہواں

بیلی اس نوں آکھن لگا، چنگا ایں یار، سیانا
جیندے جی حیاتی اندر دھُڑکو نہیں اُو جانا
ہر دم لازم گھس وٹی تے اپنا آپ گھسانا
تیکھا ہو تلواروں ودھ کے سُکھ جے تینوں بھانا
دھُڑکو دی آزمائش سانوں بخشے تاب توانی
دھُڑکو دَسے کیہڑا کنا تگڑا جیندے جانی​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 
آخری تدوین:

شزہ مغل

محفلین
9 مارچ 1986 کی یہ تحریر پتہ نہیں افسانہ ہے یا کہانی ہے یا مکالمہ ہے یا خود کلامی ہے، تاہم جو کچھ بھی ہے، حاضر ہے۔
عزیزہ مدیحہ گیلانی کی خواہش کے احترام میں
آخری جزیرہ
ہاں بھیا! میں اب یہاں نہیں رکوں گا، اسے میرا فیصلہ کہہ لیں یا مجبوری، بہر حال .... یہ جو زندگی ہے نا، بھیا! سمندر کی طرح ہے جس کے دھاروں پر ہم سب بہہ رہے ہیں، ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں اور بھیا، اس سمندر میں جزیرے بھی ہیں جن پر محبت، پیار، خلوص، نفرت ، منافقت کی اور پتہ نہیں کون کون سی ہوائیں چلتی ہیں۔ اور دھارے ہمیں ان جزیروں پر لا پھینکتے ہیں ... مجھے بھی تو ایک ایسے ہی دھارے نے یہاں لا پھینکا ہے۔ میں خود بھی یہی چاہتا تھا شاید۔ اس لئے کہ... مجھے امید تھی! یہاں محبت اور خلوص کی بارشیں ہوں گی، مگر ...خیر! میں ابھی مایوس نہیں ہوا ۔ میں کسی اور جزیرے کی طرف سفر کروں گا، میں ڈھونڈوں گا کوئی اور جزیرہ! یہاں نہیں رکوں گا۔ یہاں بھی بیگانگی کے چھینٹے پڑتے ہیں اور گیلی زمین پر میرے پاؤں پھسل رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ کوئی بے رحم موج مجھے گھسیٹ کر لے جائے، میں خود ہی سمندر میں کود پڑوں گا۔
آپ کو پتہ ہے بھیا، جب بابا مرے تھے تو اماں کتنا روئی تھیں! بابا تو ایک برِاعظم تھے بھیا ، سبھی بابا برِ اعظم ہوتے ہیں۔ اس برِاعظم پر اماں نے گھنی چھاؤں کر رکھی تھی اور اسی چھاؤں میں پل کر ہم سب جوان ہوئے۔ اماں نے مجھ سے کہا تھا ’’نہ رو، میرے چاند! نہ رو۔ مَردوں پر آزمائشیں آیا کرتی ہیں۔ تُو روئے گا تو مجھے کون چپ کرائے گا؟ اور پگلے، تیرا بھائی بھی تو ہے، وہ تجھے باپ کا سایہ فراہم کرے گا۔ وہ میرا بیٹا ہے، میں اسے جانتی ہوں، میرے چندا! میرا بیٹا تجھے باپ کی یاد نہیں آنے دے گا‘‘۔ مگر، میں اماں کو کیا کہتا! وہ تو خود رو رہی تھیں۔ لیکن بھیا! ہچکیوں کے درمیان جو باتیں اماں نے کہی تھیں وہ کیا ہوئیں؟ کیا اماں وہ باتیں بھی ساتھ لے گئیں؟
جب اماں مریں تو میں شہر میں تھا۔ مجھے ٹیلیفون پر اطلاع ملی تھی کہ جزیرہ، براعظم، گھنی چھاؤں، سب کچھ سمندر میں ڈوب گیا ! میرے پاؤں تلے زمین نہیں تھی، سمندر کی بپھری ہوئی موجیں تھیں۔ اماں نے آپ سے کچھ تو کہا ہو گا، کم از کم میرے بارے میں ضرور کہا ہو گا! آپ ہی کہا کرتے تھے ’’اماں! یہ تمہیں بہت پیارا ہے، کیا میں تمہارا بیٹا نہیں ؟‘‘ اماں نے میرا ذکر موت کے منہ میںآ کر بھی کیا ہو گا۔ آپ کو نصیحت کی ہو گی کہ اپنے چھوٹے بھائی کا خیال رکھنا! کیوں بھیا، انہوں نے اسی طرح کہا تھا، نا؟
اماں کے مرنے سے تین دن پہلے کی بات ہے، میں شہر سے مچھلی لایا تھا۔ بانو مچھلی پکانے لگی تو میں نے کہا ’میں خود پکاؤں گا‘۔ اماں نے مجھے کیا کچھ نہیں سکھا دیا تھا! پتہ نہیں بھیا، کیا بات تھی اس مچھلی میں! میں نے بھی چکھا تھا اُسے، اتنی مزے دار چیز میں نے آج تک نہیں کھائی۔ اماں کو کوئی شے حلق سے نیچے نہیں اترتی تھی مگر وہ ساری مچھلی کھا گئیں، بھیا! مجھے جو سرور اس وقت ملا، وہ حاصلِ زندگی ہے، میرے لئے۔تو بھیا! سمندر کی ان سرکش موجوں کے بیچوں بیچ میں نے ایک جزیرہ دیکھا تھا، گھنی چھاؤں والا جزیرہ۔ میں موجوں سے لڑتا ہوا اس جزیرے کی طرف بڑھا چلا آیا۔ مجھے یاد ہے، ایک دفعہ آپ نے مجھے گالی دی تھی۔ میں برداشت نہ کر سکا اور گالی پلٹ دی۔ میں نے بہت برا کیا تھا، بھیا! میں آج بھی شرمندہ ہوں۔ میں نے بہت برا کیا تھا، میری آنکھیں شرم سے جھک گئی تھیں مگر گالی میرے منہ سے نکل چکی تھی۔ پھر ... ایک، دو، تین، چار، پانچ ... میرے دونوں گالوں پر تھپڑوں کی بارش شروع ہو گئی۔ وہ ہاتھ آپ کے تھے، محنت اور مشقت کے عادی، پختہ ہاتھ۔ مجھے معلوم تھا آپ ماریں گے، اس لئے تکلیف کے باوجود مجھے رونا نہیں آیا مگر میں اماں کی بات سن کر رو دیا تھا ’’اے ہے، پھول سے بچے کو مار مار کر ہلکان کر دیا! جا، باہر دفع ہو جا بے رحم کہیں کے! شرم نہیں آتی چھوٹے بھائی کو مارتا ہے؟ کل اسے سنبھالنا پڑ گیا تو جانے کیا کرے گا!‘‘میں اپنے کئے پر نادم ہو کر روتا رہا، یا شاید کسی ان جانے خدشے سے۔ اماں سمجھ رہی تھیں بچہ تکلیف کی وجہ سے روتا ہے۔ مجھے آپ کی محبت اور خلوص پر اس وقت بھی کوئی شک نہیں تھا۔
پھر آپ باہر چلے گئے اور جب وطن واپس لوٹے تو میری شادی ہو چکی تھی۔ میں آپ کا انتظار کرنا چاہتا تھا مگر آپ ہی نے تو لکھا تھا کہ شادی فوراً کر لو۔ مجھے آپ کے حکم کی تعمیل کرنا پڑی، با دلِ ناخواستہ! آپ کی آمد کی اطلاع کچھ دن پہلے ملی، بانو میکے گئی ہوئی تھی میں اسے لینے گیا تھا ۔ آپ پروگرام سے پہلے آ گئے پھرڈھکے چھپے لفظوں میں اس بات کا گلا بھی کیا، حالانکہ میں بانو سمیت آپ کا استقبال کرنا چاہ رہا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ تب سے آپ نے مجھے جھڑکنا چھوڑ دیا اور نظر انداز کرنے لگے، پتہ نہیں کیوں! کتنے سال ہو گئے ہیں اس بات کو، مگر بھیا! یہ باتیں میں آپ سے کر رہا ہوں یا اپنے آپ سے؟ آپ سے یہ سب کچھ میں کیسے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کا احترام آڑے آتا ہے۔
میں آج صبح یہاں آیا تھا کہ چلو بھائی نظر انداز کر بھی دے تو بھابی سے ملوں گا، بچوں سے مل کر ’’اوٹنا لگوٹنا‘‘ اور’’ لُکن میٹی‘‘ کھیلوں گا۔مگر یہاں تو سب کچھ بدل گیا ہے۔ اسی لئے میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ یہاں نہیں رکوں گا۔ اس جزیرے پر بھی سیلن آ گئی ہے اور میرا دم گھٹتا ہے۔ بھیا! میں تو آپ کا بھائی ہوں، وہی چھوٹا بھائی۔ بھابی سے مجھے توقع تھی کہ میرے سر پر ہاتھ پھیریں گی ’وِیر کیا حال ہے تیرا، وِیر تو اتنی دیر بعد آیا ہے ..‘ مگر ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنے لہجے میں مٹھاس ڈالنے کی کوشش تو کی، لیکن چہرہ ساتھ نہ دے سکا۔ بچے، البتہ، مجھے اچھے لگے۔ بہتی ناکیں، گنے کی سفیدی سے لتھڑے گال، مٹی میں اٹے پاؤں مگر دل شیشے سے بڑھ کر شفاف، اور آئینے سے زیادہ سچے۔ بھیا! بچے سچے ہوتے ہیں! شاید اسی لئے میں اب تک یہاں ہوں۔
آپ کو یاد ہو گا، جب بڑی آپا نے بیٹی کی ڈولی اٹھوائی تھی، میں نے بھی دبے لفظوں میں آپ سے کچھ کہا تھا۔ بھلا آپ بھول سکتے ہیں وہ بات؟میں نے کہا تھا کہ آخر میری اپنی ایک شخصیت ہے۔ مجھے برادری میں اپنی شناخت خود کروانے دیں اور...۔ آپ برا مان گئے تھے اور پھر مجھ سے نہیں بڑی آپا سے کہا تھا ’وہ مجھ سے چھوٹا ہے، میں اس کا کہنا ماننے کا پابند نہیں ہوں، بڑا میں ہوں، وہ نہیں‘۔ آپ بڑے ہیں بھیا، اس سے انکار نہیں مگر آپ نے بھی تو بڑا ہونے کا حق ادا نہیں کیا۔ جانتا ہوں کہ یہ بات آپ کو پسند نہیں آئے گی۔ اتنا ضرور ہوا کہ رعب اور پڑے پن کی جگہ اجنبیت آ گئی۔ میں چولھے کے پاس بیٹھ کر بھابی سے چھین کر روٹی کھانا چاہتا ہوں، بچوں کی چٹکیاں لینا چاہتا ہوں مگر آپ نے میرے لئے یہاں بیٹھک میں گاؤ تکیہ لگا دیا ہے۔ میرے سامنے پندرہ برتنوں میں سات قسم کا کھانا آیا ہے، مگر میں جو کھانا چاہتا ہوں وہ اس میں نہیں ہے۔ یہ قورمہ، یہ بھنا ہوا گوشت ہزار لذیذ ہو، اس میں اپنائیت کا رس نہیں ، تکلف کی مرچیں بھری ہوئی ہیں۔ یہ برف والا پانی میرے گلے میں پھانس بن رہا ہے۔ مجھے لسی چاہئے،گھر کی وہی ’’کھٹّی‘‘ لسّی جو آپ نے واپس کرا دی ہے۔مکئی کی ’’چھلیاں‘‘ خود چولھے پر بھون کر کھانے کو جی للچاتا ہے۔ لیکن آپ کا پر تکلف رویّہ مجھے اظہار کی اجازت نہیں دیتا۔
’’اوئے نِکُّو! جا، چاچا کے لئے ہٹی سے سگرٹ لے آ‘‘ آپ نے ابھی بچے کو بھیج دیا ہے۔ بھیا! حقہ کدھر ہے؟ میں خود اس کی چلم بھروں گا، مجھے بتائیے یہ سب کچھ کہاں رکھا ہے۔ میں نے بچے کو اندر بھیجا کہ اپنی امی کو یہاں بلا لائے تو اس خدا کی بندی نے وہیں بیٹھے آواز دی’ ’کیا ہے! یہاں آ جاؤ۔‘‘ احمق کہیں کی! میں آپ کی مرضی کے بغیر اس بے تکلف ماحول میں کیسے جا سکتا ہوں۔ میں نے ننھی بھتیجی کو گود میں لے لیا تو آپ نے بچی کو جھڑک دیا! ’’چل! چاچا کے کپڑے گندے نہ کر!‘‘ یہ آپ نے کیا کر دیا بھیا! یہ رویہ کیوں اپنا لیا آپ نے؟ میں نے پھر بانو کو آواز دی تو اسے میری بات سننے کے لئے آنا پڑا۔
’’چلو، تیار ہو جاؤ۔ بچوں کو بھی تیار کرو، واپس چلتے ہیں‘‘ وہ ہکا بکا رہ گئی
’’ایں؟ آپ کو یکا یک یہ کیا ہوا؟ ابھی تو آئے ہیں، اور...‘‘
’’بس! میں نے کہا نا! تیار ہو جاؤ، چلو!‘‘
’’پھر بھی! کوئی بات ہو، تو!‘‘
’’میں یہاں نہیں .... ‘‘ اور عین وقت پر میری زبان رک گئی۔ اچھا ہوا لفظ مر گئے ورنہ وہ سمجھتی کہ میں اپنے بھیا سے متنفر ہو گیا ہوں۔ مجھے تو اس لفظ سے بھی خوف آتا ہے، بھیا! مجھے بیگانگی سے وحشت ہوتی ہے۔ مگر یہ اجنبیوں کا سا سلوک بھی مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔
اور اب .. وہ دوسرے دروازے سے باہر جا رہی ہے، میری بچی آ رہی ہے ’آئیے ابو، چلیں‘ مگر اس کا چہرہ کیوں سُتا ہوا ہے؟ کوئی سوچ اس کے ذہن میں بھی آئی ہو گی، میری طرح۔ ... لائیے بھیا، اپنا دایاں ہاتھ بڑھائیے مصافحہ کے لئے، ہاں! صرف مصافحہ کے لئے! اور میں اپنی آنکھیں آپ سے چھپا لوں گا، منہ پھیر کر، تا کہ آپ ان میں اترے سمندر کو نہ دیکھ سکیں۔ میں اس سمندر میں کسی جزیرے کی تلاش میں نظریں دوڑاتا ہوں۔ ایک بھیگا سا عکس ابھرتا ہے۔ ایک اور جزیرہ! کچھ بچے اس جزیرے پر کھیل میں مگن ہیں۔ میں جنگل بن کر اس جزیرے پر چھا جاتا ہوں اور میری نظریں تناور درختوں کی جڑوں کی طرح اس کی مٹی میں کھب جاتی ہیں۔ وہ سرزمین مجھ سے مخاطب ہوتی ہے ’’یہ، یہ آپ کس طرح دیکھ رہے ہیں، مجھے؟‘‘ میں چونک پڑتا ہوں۔ یہ تو بانو کی آواز ہے۔ میں بات بنانے کے لئے کہتا ہوں: ’’لگتا ہے آج پہلی بار دیکھا ہے تجھے‘‘ چھ بچوں کی ماں کسی نئی نویلی دلہن کی طرح شرما جاتی ہے: ’’بڑے وہ ہیں آپ‘‘ اور میں بے اختیار مسکرا دیتا ہوں۔ ابھی ایک جزیرہ باقی ہے!


یہ کس کس کو ٹیگ کرنا ہے عزیزہ مدیحہ گیلانی !
یہ کہانی نہیں ہے نہ افسانہ ہے۔
یہ دل کی نرم زمین میں مضبوطی سے دھنسے وہ کانٹے ہیں جو بدلتے وقت نے اپنوں کے ہاتھوں گاڑھے ہیں۔
یہ خاموشی کے لحاف میں لپٹے جذبات ہیں جو لب اظہار تک آنا تو چاہتے ہیں مگر آ نہیں سکتے۔
۔
۔
۔
۔۔۔،
 

شزہ مغل

محفلین
یہ کہانی کی ابتدا ہے، صاحبو! کون جانے؟ یہی ناآسودہ خواب ہوں اور اظہار کو ترس رہے ہوں اور لفظ سے میرے تعلق کا سبب بنے ہوں۔ ایک تھا بادشاہ، اس کے سات بیٹے تھے ... ایک تھا بادشاہ، اس کی سات ملکائیں تھیں، ہر ایک سے ایک ایک لڑکی تھی ... ایسے جملوں سے شروع ہونے والی داستانیں بڑے بوڑھوں میں بہت مقبول تھیں۔ ہر داستان میں کبھی ایک اور کبھی زیادہ اخلاقی درس ہوتے۔ سردیوں کی طویل اورگرمیوں کی مختصر راتوں میں کسی زمیندار کے ڈیرے پر محفل جمتی۔ ایک شخص داستان شروع کرتا: ایک تھا فقیر، وہ بستی سے دور جنگل میں ایک کٹیا میں رہتا تھا ..... اور پھر رات گزر جاتی داستان جاری ہوتی۔ اگلی رات جہاں پر بات رکی تھی، وہاں سے آگے چلتی اور یوں کئی ہفتوں بعد اپنے اختتام کو پہنچ جاتی۔ میں کہانی کی ایسی محفلوں میں بڑے شوق سے بیٹھا کرتا اور ہر کہانی کو اس قدر توجہ سے سنتا جیسے وہ میرا سکول کا سبق رہا ہو۔
والدہ مرحومہ رسمی تعلیم کے لحاظ سے تو اَن پڑھ تھیں تاہم قرآن مجیدکے علاوہ چیدہ چیدہ دینی کتابیں جو عموماً پنجابی شاعری تھی خواتین کی محفلوں میں پڑھا کرتی تھیں۔ میں پہلے پہل تو والدہ کے پاس بیٹھ کر انہیں سنا کرتا اور کرتے کرتے ان کتابوں کو روانی سے پڑھنے لگا۔ لفظ کے ساتھ میرا تعلق شاید اُن داستانوں کی بدولت قائم ہوا اور شعر کا چسکا اُن دینی کتابوں کی برکت سے پڑا۔ مجھے شعر کو درست پڑھناآ گیا تھا۔ سو میرے مہربان استاد نے مجھے سکول کی بزم ادب میں شامل کر لیا۔ پھر تو ہر جمعے کو بزمِ ادب کے اجلاس کی نظامت مجھے کرنا پڑتی اور ہیڈماسٹر صاحب صدرِ بزم ہوتے۔ یہ سلسلہ ہائی سکول سے میری فراغت تک جاری رہا۔ ۱۹۶۷ء میں جب میں دسویں جماعت میں تھا، لفظ اور مصرعے سیدھے کرنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔ مگر غم روزگار غالب آ گیا اور میری تخلیقی صلاحیتیں کم عمری کی ملازمت میں پسنے لگیں۔




جناب
محمد وارث
، جناب
الف عین
، جناب
مزمل شیخ بسمل
، جناب
شاہد شاہنواز
، جناب
محب علوی
، عزیزہ
مدیحہ گیلانی
!
۔۔۔ ۔۔ کہانی کی ابتدا ہو گئی۔ مجھے اہلِ محفل کے بے لاگ تبصروں اور تاثرات کا انتظار رہے گا۔​
کہانی نہیں۔ آپ بیتی کہیئے
 

شزہ مغل

محفلین
سر اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کی 'ذرا سی بات' کے سلسلے کو اپنے الفاظ دینا چاہتی ہوں
 
Top