محمد مجید مہر کی خوبصورت غزل


عجب نہیں ہے یہ کوئی کہ تُو نے رقص کیا
مرے کلام پہ میرے عدو نے رقص کیا

کہا جو میں نے شبِ رفتہ وجد میں اللّہ
تو صبح تک مرے کمرے میں " ہو " نے رقص کیا

ملی جو چہرہِ انور کے لمس کی دولت
تو کیف و مستی میں آبِ وضو نے رقص کیا

کچھ ایسی شان سے پہنچے تھے آج مقتل میں
ہوئے جو قتل ، ہمارے لہو نے رقص کیا

کہو سکندری کیا ہے ؟ کہا فقیری ہے
مرے جواب پہ میرے گُرو نے رقص کیا

غزال آنکھ اٹھی یوں شراب خانے میں
کیے ہیں جام نے سجدے ، سبو نے رقص کیا

کھنکتی مہر وہ پازیب ، مخملی پاوٴں
میں سوچتا تھا کہ کیوں آبجو نے رقص کیا​
 
Top