محبت کے سائینسی اُصول

شمشاد

لائبریرین
خلیل بھائی میں بھی کہوں کہ یہ تو میرا پڑھا ہوا لگتا ہے۔ وہ تو ربط سے معلوم ہوا کہ جڑ کہاں ہے۔

بہت شکریہ جناب۔
 

رانا

محفلین
بہت دلچسپ۔ سائنسی قوانین کی اسطرح ایسی تیسی ہوتے دیکھ کر مجھے بہت مزا آتا ہے۔:)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کیا بات ہے آپ کی۔ زبردست لکھا ہے۔ سبحان اللہ
آپ تو محفل کے سفیرِ ًھبت ہیں۔

ویسے محبت کا کولمب لاء کسی کو نہیں بھولنا چاہیے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
وہ آپ تحریر فرما دیں۔

محبت کا کولمب لاء، نظریہِ محبت کے پہلے قانون سے کچھ کچھ مماثلت رکھتا ہے، پیشِ خدمت ہے:

دو محبت کرنے والوں کے درمیان قوتِ کششِ محبت اس وقت تک بڑھتی رہتی ہے جب تک بیچ میں کوئی ڈائی ایلیکٹرک (یعنی کوئی رقیب یا ناصح) نہ آ جائے اور وہ ڈائی ایلیکٹرک قوتِ کششِ محبت پہ قوتِ کششِ نفرت کی مدد سے غالب آنے کی کوشش نہ کرے۔
 
بہت عمدہ جناب ، اب تو آئن سٹائن کے نظریہ اضافت کی بھی ایسی تشریح درکار ہے۔

نیوٹن کے نظریہ کشش ثقل پر بھی کچھ روشنی ڈالیں۔


نیوٹن کا ’’عالمی نظریہ تجازبِ محبت‘‘
از: محمد خلیل الرحمٰن
محبت یا عشق کی کشش وہ قوت ہے جس سے دو دِل رکھنے والے اجسام ایک دوسرے کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔اس سلسلے میں بے شمار نظریات ملتے ہیں لیکن سائینس میں دو شخصیات یعنی نیوٹن اور آئن اسٹائن نے محبت کے سفلی نظریات ثقلی نظریات پیش کرکے اہلِ دنیا کو بہت پریشان کیا۔
نیوٹن کا ’’عالمی نظریہ تجازبِ محبت‘‘ اور آئن اسٹائن کا ’’نظریہ اضافی محبت‘‘ نے قبولِ عام کا درجہ حاصل کیا ؛
وجہ :محبت کے ان نظریات کو سمجھنا انسانی ذہن کے لیے اتنا ہی مشکل تھا جتنا کہ اہلِ تصوف کے سوقیانہ (یا صوفیانہ) عشقِ حقیقی و مجازی اور فرائڈ کے نظریہِ نفسیاتی محبت کو سمجھنا۔
عام زندگی میں اس قوت کا حساس ہمیں عاشقوں کے گھڑمس اور حسن والوں کے غرور سے ہوتا ہے۔ جناب خالد مسعود صاحب اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں
ہیر کے بوئے اگے ویکھ کے عاشقوں کا گھڑمس
رانجھا تخت ہزارے ٹُر گیا، پھڑ کے پہلی بس
ادھر یہی قوتِ عشق وہ قوت ہے جس کے بارے میں کسی منچلے نے علامہ صاحب کے شعر کا کیا خوب بتنگڑ بنایا ہے۔
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں عشق کی طاقت سے اُجالا کردے
جتنے عاشق ہیں زمانے میں مرادیں پاجائیں
اور منہ ان کے رقیبوں کا تو کالا کردے
نیوٹن کا قانون عالمی محبت (Newton's law of universal Love )
ایک طبیعی قانون ہے جو دو اجسام کے درمیان کششِ عشق کی وضاحت کرتا ہے.
یہ قانون نیوٹن سال 1687ء میں پیش نہ کرسکے اور باقی ساری عمر پچھتایا کیے،
یہاں تک کہ آئن اسٹائن نے آکر ان کے پیش کردہ قوانین کا تیا پانچا کردیا۔
اِس قانون کے مطابق:
"کائنات میں ہر نقطۂ محبت دوسرے نقطۂ محبت کو ایک قوت سے کھینچتا ہے، یہ قوت دونوں اجسام کے درمیان سیدھے خط میں عمل کرتی ہے اور دونوں محبتوں کے حاصل ضرب کے راست متناسب اور ان کے مراکز کے درمیانی فاصلے کے مربع کے بالعکس متناسب ہوتی ہے۔"
حسابی طور پر اِسے یوں لکھا جاتا ہے:
محبّت m1m2/ r2
یا محبت= Gm1m2/ r2
محبتدونوں نقاطی محبتوں کے درمیان کششِ عشق کی مقدار ہے,
§G ثقلی دائم ہے, جسے عرفِ عام میں رقیب کہتے ہیں
§m1پہلے محبتی نقطہ کی کشش,
§m2دوسرے محبتی نقطہ کی کشش
§rدونوں محبت کرنے والوں کا درمیانی فاصلہ.
 

شمشاد

لائبریرین
بڑے مشکل قوانین بتا دیئے ہیں خلیل بھائی۔
ان قوانین کو اپناتے ہوئے محبت کرنا بہت مشکل ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
جس کو پہلے یہ اصول سمجھ نہیں بھی آتے تھے،اب وہ بھی بہ آسانی سمجھ سکے گا۔ آپ نے طالب علموں پہ احسانِ عظیم کیاہے:D
 
Top