مجھ کو تو ایسا لگتا ہے !!!

تفسیر

محفلین

مجھ کو تو ایسا لگتا ہے۔۔۔۔غزل ایک چارمثلث کی چوٹی ہے


محبت انسانیت کا سب سے پڑا جذبہ ہے۔غزل اس جذبہ کا اظہار ایک خوبصورتی سی کرتی ہے۔ The culture Grammar of Urdu Ghazal میں ڈاکٹر شیما رضوی لکھتی ہیں غزل ایک چارمثلث
کی چوٹی ہے جس کی پیندی کے مثلث کے تین زاویہ معشوق، عاشق اور رقیب ہیں۔ اسی لئے جگر نے کہا۔

کوئی حد ہی نہیں شاید محبت کے فسانہ کی
سنتا جارہا ہے جس کو جتنا یاد ہو

محبت کے بغیرر زندگی کی حقیقت مبہم ہے۔یہ درد کی دوا ہے لیکن اس کے درد کی کوئی دوا نہیں۔ غالب کہتے ہیں۔

عشق سے طبیت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی درد لا دوا پایا

معشوق کا تصورکی وجہ حُسن اوراس کی نمائش پر مبنی ہے۔ ایک شاعر کہتا ہے۔

حُسن ہر رنگ میں مخصوص کشش رکھتا ہے

اور جہاں کہیں بھی حُسن و محبت ہوتی ہے وہاں رقیب کی بھی موجودگی ہوتی ہے۔ شاعر اپنے جذبات اور سوچ سے اس چار مثلث میں محبت کی تصویر بناتا ہے کہ غزل کے الفاظ ایک سہ گا نا کی طرح سریلے ہو تے ہیں۔ ایک شاعر اپنی دل کی گہرائیوں سے اپنی خواہشات اور احساسات کا بغیررکاوٹ کے اظہار کرتا ہے۔ اسکو اس کی پرواہ نہیں ہوتی کہ کوئی اس کی تخلیق کو پسند کرے گا یا نہیں۔ وہ صرف اپنے جذبات کا اظہار کردیتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ غالب نے کہا۔

نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی

یہ غزل کی بصیرت ہے جو پنہاں اشارے کنائے اور استعاری علامت کھنچتی ہے۔ دلیل دینا دماغ کی زبان ہے جہاں استعارہ ، الہامِ ربانی ہے۔


زلف سا پیچدار ہے ہر شعر
ہے سخن میر کا عجب ڈھنگ کا

شاعر کی بصیرت باطنی ہے جب وہ معمولی سی بھی چیزیوں کو دیکھتا ہے تو وہ انکو اپنے رنگ میں ڈھال لیتا ہے۔

مثال کے طور پرعَندَلیپ (بلبل) کو پھولوں سے محبت ہے چنا چہ جب ایک شاعر جب بلبل اور پھول کو دیکھتا ہے تو ایک عاشق اور معشوق کا تصور کرتا ہے۔

اسکا تصو ر اسے اس خیال کی طرف لاتا ہے۔پھول کو مالی(گل چین۔ پھول توڑنے والا) سے خوف ہے اور بلبل کو شکاری (صیّاد) سے۔

اسی طرح رقیب عاشقوں کا دشمن ہے۔اس لئے وہ ان کا ملاپ پسند نہیں کرتا۔چناچہ رقیب ،گل چین اور صیّّادکے درمیان ایک لڑی بن جاتی ہے۔ عاشق کا مخالف صیّاد اور معشوق کا مخالف گل چین۔

اسطرح ان سے مطالق الفظ پروبال، بے پروبال، اَسیری (قیدی) ، پامالی(اجاڑنا)، تیر، باغ،طاقتِ پرواز ، رہائی، اور قفس شعروں میں خود بخود نازل ہوتے ہیں۔ جلیل منک پوری کہتے ہیں۔


اڑا کر بال ہ پر کیوں ہاتھ کھینچا ہم اسےروں سے
بھی تو حسر ت پرواز اے صیّاد باقی ہے


مجھے کو ایسا کیوں لگتا ہے؟

۔۔۔۔۔۔
مجھ کو تو ایسا لگتا ہے۔۔۔۔ آپ اس محفل کو لٹا کر مجھے شرمندہ بھی کریں گے؟


جون میلٹن ( ١٦٧٤۔١٦٠٨ )انگریزی زبان کا ایک بہت بڑا شاعر اورعقلمند انسان تھا۔ ١٦٥١ میں وہ اندھا ہوگیا۔ اسکی مشہور نظم رزم( epic) ١ Paradise Lost اور Paradise gained ہیں۔ہندی میں اس کی مثال شاید ما بھارت ہو اور اردو میں شاید اقبال کے شکوہ جواب کو اس سے مشاہبت ہو۔

مقدمہ شعرو شاعری میں مولانا الطاف حسین حالی لکھتے ہیں۔ میلٹن کایہ کہنا ہے۔

شعر کی خوبی یہ ہے کہ وہ سادہ ہو- جوش سے بھرا ہو اور اصلیت پر مبنی ہو۔ ساد گی سے صرف لفظوں ہی کی سادگی مراد نہیں ہے بلکہ خیالات بھی ایسے نازک اور دقیق نہ ہونے چاھئیں جن کے سمجھنے کی عام ذہنوں میں گنجائش نہ ہو۔ محسوسات کے شارع پر چلنا، بےتکلفی کے سیدھے راستہ سے ادھر ادھر نہ ہو نا اور فکر کو جولانیوں (گھوڑے کی دوڑ۔ تیز بازی) سے باز رکھنا ، اسی کا نام سادگی ہے۔

میلٹن نے یہ بھی کہا کہ وزن کیضرورت نظم میں معتبر ہونی چائیے۔ لیکن شعر کا وزن پرانحصا ر نہیں ہے۔ البتہ وزن سےبلا شبہ شعر کی خوبی اور اس کی تاثیر دوبالا ہو جاتی ہے ۔قافیہ بھی نظم کے لئے ضروری ہے شعر کے لئے نہیں وزن کیطرح قافیہ بھی شعر کا حسن بڑھا دیتا ہے۔ جس سے اس کا سننا کانوں کو نہایت خوش گوار ہوتا ہے۔اور اس کے پڑھنے سے زبان زیادہ لزت پاتی ہے۔

کہنا مطلب یہ ہے کہ آپ لوگ بھی اسطرح شعر بنانے کی کوشش کریں ۔ اس محفل میں ہم بصارت والے اندھے(آپ) شاعری کریں گے۔ باقی پڑھنے والے دوست اندھے ان شعروں کو جانچیں گے۔ بھی جب پیار کیا تو ڈرنا کیا۔

شاعری کے لئے تین شرطیں ہیں۔
  • تخیل
    کائنات کا مطالحہ
    تفحص (تلاش) الفاظ

فیض کا یہ شعر ان تین شرطوں کو پورا کرتاہے۔

گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آو کہ گلشن کا کاروبار چلے۔

فیض نے گُل، بادِنوبہار ، کےالفاظ استعمال کرکےگلشن کا کاروبار چلایا ہے۔

ان الفاطوں کے اور بھی معنی ہیں۔

گل ۔ پھول ، جسم کو داغنے کا نشان ، چراغ کی بتی کا جلا ہو سرا ، معشوق ، داغ، دھبہ ،پھانسی، حقے کا جلا ہوا تمباکو ،دہ سفید دھبہ جو انکھو ن میں پڑ جاتا ہے ، آگ سے جلنے کا نشان

باد نو بہار۔ موسم بہار کا شروع ، موسم بہار ، وہ چیز جس پر نئی رونق ہو

گلشن ۔ باغ ، پھلواڑی، چمن ،گلزار

کاروبار - کام کاج، دھندا ، شغل ،لین دین ، بنج بیوپار

آپ بھی گلشن کا کروبار چلا سکتے ہیں۔
بھئی کیوں نہیں چلاتے؟
ضروری نہیں کہ آپ بھی فیض کی طرح اپنےگلشن کا کاروبار باد نو بہار سے چلائیں ۔مگر چلائیں ضرور۔

دوسری چیزیں بھی تو گلشن کا کاروبار چلا سکتی ہیں۔


ضروری نہیں کہ آپ فیض کا خیال اپنائیں۔ گلشن کو کسی اور چیز سے تشبع دی جا سکتی ہے۔

غالب نے کہا تھا

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غا لب کا اندازِ بیاں اور

دورِ مغل سے دورِ مشرف (آپ کے بادشاہ) تک اردوشاعر نے ہر عنوان اور خیال پر شعر لکھا۔ آپ ان خیالات کا اپنی زبانی اظہار کریں - اب کوئی نیا موضوع نہیں رہا - ان ہی موضوعوں کو آپ نے بار بارنکہار نا ہے۔

ہم لوگ اس مقابلہ کو شاعری کے اصولوں پر نہیں جانچیں گے، یہاں تو صرف پسند کا سوال ہے۔ آپ کے دوستوں کو کس کا شعر سب سے زیادہ پسند آیا۔ اصلاح سخن اور علمِ عروض کے لئے دوسرے سیکشن موجود ہیں۔

اب تک 482 لوگ آئے صرف محمد شمیل قریشی اور وہب اعجاز خان نےشعر لکھے اور میری عزت رکھ لی - لیکن مجھے یہ پتہ چلا کہ مجھ سے غلطی ہو رہی ہے یہ تو پڑھنے والوں کی محفل ہے۔ لکھنے والوں کی نہیں۔

482 لوگوں نے شعرنہ لکھ کر مجھے افسردہ کیا ہے۔ جب کے شعر لکھنے پر کوئی شاعرانہ پابندی نہیں۔

کیا آپ اس محفل کو لٹا کر مجھے شرمندہ بھی کریں گے؟


مجھ کوایسا کیوں لگتا ہے۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔

کیا کوئ مجھے سننے گا؟

اپنے آپ کو چھپانے کی لیے دعوت ایک اچھی جگہ ہے۔ ہر شخص اس طرح بات کرتا ہے جیسے ایک ہاتھ میں تلوار ہو اور دوسرے ہاتھ میں ڈھال ۔ گفتگواس طرح ہوتی ہے جیسےالماری میں سے موسم سرما کے لیے تہہ کئے ہوئے کپڑے اس موقع کے لیےنکالے گئے ہیں ۔ گفتگوایک گِھسے ہوے ریکارڈ کی طرح ہوتی ہے۔ جس کو ایک دعوت سےدوسری دعوت میں استعمال کیا جاسکتا ہے اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔

“ ُآپ نے کل کیا کھایا تھا“۔
“ کل کس رنگ کے کپڑے پہنے تھے“۔
“ سنا ہے حامد نے شادی کرلی“۔
“ آپ ماشہ اللہ اچھی لگ رہی ہیں “۔
“ کوی نیا لطیفہ سناؤ“

یہ ایک ایسا کھیل ہے۔ ہر شخص بولتا ہے۔ مگر کوئ سنتا نہیں۔ جب تک کہ تم ذاتیات کواستعمال نہ کرو، تم ہار نہیں سکتے۔ شرآط آسان ہیں۔ کمرے میں داخل ہواور کبھی کبھی کچھ کہہ کر یہ محسوس ہونےدو کہ تم گفتگو میں موجود ہو ۔ تعجب نہیں کہ لوگ اِن کمروں کو چھوڑتے وقت ایسا محسوس کرتے جیسے وہ کہیں گے نہیں۔ وہ اپنے کمرے میں اکیلےتھے۔ دوسرے انسانوں سےمل کرانکی زندگی میں کوتبدیلی نہیں آئی۔ اُن کی روح افزا نہیں ہوئ ۔

اس سے بھی زیادہ افسردہ بات یہ ہے کہ یہ نا سننے والےخود سے بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ “ میں خود کو بھی سننا پسند نہیں کرتا“۔ اگرچہ فخر اور خود داری اس زمانہ میں گناہ سمجھے جاتے ہیں لیکن خدخُو ، خود آرائی اور خود نمائ اس سے بھی بڑے گناہ ہیں ۔ ہم سب لوگ یہ کہہ رہے ہیں ۔“ کیا اس شور و غل میں وہ مجھےدیکھ سکتے ہیں؟ کیا وہ میری اچھائیت ، صبر پسندی ، احساس پسندی اور اخلاقیات کی خوبصوریت کو تلاش کر سکتے ہیں۔ اور کیا اگران کو پتہ چل جائے تو وہ مجھ کو پسند کریں گے؟“

نفی کا جواب پاکر وہ خود کو کمتر محسوس کرتے ہیں ۔دنیا اُن کا وہ چہرہ دیکھتی ہے جوبہادر جنگ جو کا ہوتا ہے جو مردہ کی لاش پر کھڑا ہو کرسینہ پیٹتا ہے اُس سپاہی کا نہیں جو ایک مارے انسان کا سراپنی گود میں رکھ کر روتا ہے۔ یہ حیرت کی بات نہیں کہ یکتای ختم ہوگئ ہے اوراس کی جگہ یک فروی نے لے لی ہے۔ اگر میں اپنے آپ کو ایک جگہ منجمد کرلوں تو میرے چھجے کی دراڑوں سے باہر جانے والی روشنی لوگوں نظرنہیں آئےگی اور میرے گھٹنوں کے کانپنے کی آواز بلند نہ ہوگی۔

وہ نہیں جو ہم سب کو بتاتے ہیں بلکہ وہ جو ہم سب سے چھپاتے ہیں ہماری کہانی سناتا ہے۔

مجھ کوایسا لگتا ہے۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔
 
آپ کو غلط لگ رہا ہے ، ایسا نہیں ہوگا اور لوگ طبع آزمائی کریں گے ، ایک تو میں نے بھی کی تھی ، اب پھر کریں کچھ شروع تو پھر کریں گے لوگ :lol: کچھ بزم آرائی
 

تفسیر

محفلین
کیا کوئ مجھے سننے گا؟

22 نومبر 2006
لاس انجلیس

کیا کوئ مجھے سننے گا؟
اپنے آپ کو چھپانے کی لیے دعوت ایک اچھی جگہ ہے۔ ہر شخص اس طرح بات کرتا ہے جیسے ایک ہاتھ میں تلوار ہو اور دوسرے ہاتھ میں ڈھال ۔ گفتگواس طرح ہوتی ہے جیسےالماری میں سے موسم سرما کے لیے تہہ کئے ہوئے کپڑے اس موقع کے لیےنکالے گئے ہیں ۔ گفتگوایک گِھسے ہوے ریکارڈ کی طرح ہوتی ہے۔ جس کو ایک دعوت سےدوسری دعوت میں استعمال کیا جاسکتا ہے اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔

“ ُآپ نے کل کیا کھایا تھا“۔
“ کل کس رنگ کے کپڑے پہنے تھے“۔
“ سنا ہے حامد نے شادی کرلی“۔
“ آپ ماشہ اللہ اچھی لگ رہی ہیں “۔
“ کوی نیا لطیفہ سناؤ“

یہ ایک ایسا کھیل ہے۔ ہر شخص بولتا ہے۔ مگر کوئ سنتا نہیں۔ جب تک کہ تم ذاتیات کواستعمال نہ کرو، تم ہار نہیں سکتے۔ شرآط آسان ہیں۔ کمرے میں داخل ہواور کبھی کبھی کچھ کہہ کر یہ محسوس ہونےدو کہ تم گفتگو میں موجود ہو ۔ تعجب نہیں کہ لوگ اِن کمروں کو چھوڑتے وقت ایسا محسوس کرتے جیسے وہ کہیں گے نہیں۔ وہ اپنے کمرے میں اکیلےتھے۔ دوسرے انسانوں سےمل کرانکی زندگی میں کوتبدیلی نہیں آئی۔ اُن کی روح افزا نہیں ہوئ ۔

اس سے بھی زیادہ افسردہ بات یہ ہے کہ یہ نا سننے والےخود سے بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ “ میں خود کو بھی سننا پسند نہیں کرتا“۔ اگرچہ فخر اور خود داری اس زمانہ میں گناہ سمجھے جاتے ہیں لیکن خدخُو ، خود آرائی اور خود نمائ اس سے بھی بڑے گناہ ہیں ۔ ہم سب لوگ یہ کہہ رہے ہیں ۔“ کیا اس شور و غل میں وہ مجھےدیکھ سکتے ہیں؟ کیا وہ میری اچھائیت ، صبر پسندی ، احساس پسندی اور اخلاقیات کی خوبصوریت کو تلاش کر سکتے ہیں۔ اور کیا اگران کو پتہ چل جائے تو وہ مجھ کو پسند کریں گے؟“

نفی کا جواب پاکر وہ خود کو کمتر محسوس کرتے ہیں ۔دنیا اُن کا وہ چہرہ دیکھتی ہے جوبہادر جنگ جو کا ہوتا ہے جو مردہ کی لاش پر کھڑا ہو کرسینہ پیٹتا ہے اُس سپاہی کا نہیں جو ایک مارے انسان کا سراپنی گود میں رکھ کر روتا ہے۔ یہ حیرت کی بات نہیں کہ یکتای ختم ہوگئ ہے اوراس کی جگہ یک فروی نے لے لی ہے۔ اگر میں اپنے آپ کو ایک جگہ منجمد کرلوں تو میرے چھجے کی دراڑوں سے باہر جانے والی روشنی لوگوں نظرنہیں آئےگی اور میرے گھٹنوں کے کانپنے کی آواز بلند نہ ہوگی۔

وہ نہیں جو ہم سب کو بتاتے ہیں بلکہ وہ جو ہم سب سے چھپاتے ہیں ہماری کہانی سناتا ہے۔

مجھ کوایسا لگتا ہے۔۔۔۔۔۔[/size]
 

تفسیر

محفلین
استاد یا مسخرہ ( نقال)

.
استاد ایک مسخرہ

بیس سال پڑھانے کے بعد بھی جب میں ایک کلاس کو تکمیل پر پہنچاتا ہوں۔ میرے آنسو بہتے ہیں۔۔۔۔

میں نےابھی کالج ختم کیا تھا اور دنیا کی سیر کرنے کا شوق ہوا۔ میرے دوست افضل کوبھی یہ شوق تھا۔ لیکن باہرجائیں کیسے؟ جیب میں ایک کوڑی نہیں ۔
میں نے فیصلہ کیا کیوں نہ میں کام کرکے کچھ پیسےجمع کروں ۔ لیکن کیا کام؟ ۔
افضل نے کہا۔ یار تم کلاس میں ہمیشہ اول آتے ہو۔ تم ایک سال پڑھا لو۔ اس سے کرایہ نکل آئےگا۔
میں کراچی میں چرچ میشنری سیکنڈری اسکول کا اسٹودینٹ تھا جہاں قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی پڑھا تھا۔ اس اسکول میں سائنس کےایک ٹیچر سر شکیل ہوا کرتےتھے۔ جونہ صرف اس اسکول میں پڑھاتےتھے بلکہ اس اسکول کے علاوہ ایک دوسرے اسکول میں ہیڈ ماسٹر بھی تھے۔
دوسرے دن سر شکیل کے پاس پہنچا۔ کافی دیرانتظار کرانے بعد وہ اپنے آفس میں آئے۔
“ بیٹھو۔ کہاں غائب تھے اتنےدنوں سے ۔میں نےسنا تھا کہ تمہیں ڈی - جے سائنس کالج میں داخل مل گیا تھا “۔
‘ جی ہاں میں نے فزیکس اور میتھس میں بی ایس سی کرلی ہے۔ اور اعلٰی تعلیم کرنےلئےامریکہ جانے کا ارادہ ہے“۔ میں نےآدھا سچ اور آدھا جھوٹ بولا۔
“ ھھم ۔۔۔ امریکہ میں کہاں “
“ لاس انجیلس“۔ ایک اورجھوٹ
“ مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئ۔ کلاس میں تم میرے سب سے قابل اسٹوڈینٹ تھے۔اورمجھےتم سے یہی امید تھی کہ تم ایک دن اسکول کا نام روشن کروگے۔ آمینہ یاد ہے تمہیں ، وہی میمن لڑکی جو کلاس میں ہمیشہ تم سےمقابلہ کرتی تھی۔ آمینہ ، اب میرے لیے یہاں پڑھاتی ہے“۔
“ جی ، سر“
“ کیسے آنا ہوا“۔
“ سر، مجھےامریکہ جانے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے۔ کیا آپ مجھے بھی پڑھانے کا موقع دے سکتے ہیں“۔
“ میرے ساتھ آو۔ دسویں درجہ کی کلاس شروع ہونے والی ہے۔ یہ نباتات کا پیریڈ ہے۔ تم یہ پیریڈ لواور پڑھا کربتاؤ “۔
سرشکیل اور میں کلاس میں ایک ساتھ داخل ہوئے۔
“ یہ تفسیر ہیں ۔تمہارے نئے ٹیچر“۔ سر شکیل نے کلاس سے میرا تعارف کرایا۔
میں نے ’ پھول ‘ پر لیکچر شروع کیا۔ پودوں میں پھول کی تجنیس کی اہمیت کا ذکر کیا۔ کارل وان لینے کے ’ پودوں کا نظام تسمیہ ‘ کو پیش کیا۔ جوکہ تولیدی حصوں پرمشتعمل ہے۔ تولیدی حصوں کی ساخت بتائ۔ ہرخیال پیش کرنے کےبعد طالب علموں سے یہ معلوم کرنے لے لیے کہ کیا وہ میری بات کوسمجھ پارہے ہیں، سوالات کیے ۔ کلاس ختم ہونے پرمیں ساتویں آسمان پرتھا۔ مجھے اپنے آپ پر بہت فخر تھا۔ جب ہم واپس آفس میں پہونچے تو سرشکیل نے کہا۔
“ to be a teacher is to become a clown and you are not a clown “
میں تمہیں یہاں نہیں استعمال کرسکتا۔ میں تم کو نثار کے پاس بھیج رہا ہوں۔ اس کی مشین شاپ میں کام کرو اور تین ماہ میں تمہارے پاس اتنا پیسہ ہوگا کہ تم اس سےامریکہ میں تین ماہ گزار سکوگے۔ میری دوسری کلاس شروع ہونے والی ہے ۔ “ Good Luck . Listen, be a scientist not a teacher “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج میری کلاس کا آخری دن تھا۔ میں آتشدان کےسامنے بیٹھا ہوں ۔بیگم مارش میلو بھون رہی ہیں ہوں اور میں eval پڑھ رہا ہوں۔
کورس ختم ہونے کہ بعد طالب علم میرے لیےایک feedback فارم بھرتے ہیں ۔یہ ٹیچر کا eval کہلاتا ہے۔

Teacher's Evaluation
کلاس: فن شعرو شاعری

پیمانہ ؛ ایک سے دس - ایک کم تر اور دس بہتر
1- کورس کا تیاری - دس
2 - کورس کا مواد - دس
3 - مواد کی پیشگی - دس
3 - فہم علم - دس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
4 - سروے مکمل کرنے والوں کی تعداد = سب
5 - کیا آپ اس ٹیچر سے پھر کلاس لیں گے؟ سب

ہمیشہ کی طرح میرے آنسو فرش پرگر کر بکھرجاتے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح بیگم میرے آنسو پونچھ کر کہتی ہیں۔
“ You are a teacher, you are not a clown"

میں استاد ہوں مسخرہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔
مجھ کو تو ایسا کیوں لگتا ہے۔۔۔۔۔۔

.
 

تفسیر

محفلین
.
شیشہ کا دل

اپنے کمرے سے نکلتے، میں نے باورچی خانے سے کانچ کے بکھرنے کی آواز سنی اور اس کے بعد ایک زبردست چیغ، پھر رونے کی آواز۔ میں دوڑتا ہوں وہاں پہونچا۔ سادیہ باورچی خانے کے درمیان کھڑی رو رہی تھی۔ ماں اور اباجان بھی وہاں پہونچ چکے تھے۔
اماجان نے سادیہ کو اپنی باہوں میں لے کر کہا۔ “بیٹا یہ تو صرف شیشہ تھا۔ ٹوٹنا تو اس کی قسمت میں ہوتا ہے۔ تم کیوں رو رہی ہو“ ۔
“ ماں مجھے یہ گلاس بہت پیارا تھا۔ جب میں دس سال کی تھی تو بھائ جان نےاس پرگلاب کا پھول بنوا کردیا مجھےدیا تھا۔ آپ کو تو یاد ہے نا “۔ سادیہ نے اپنے آنسو خشک کرتے ہوئے کہا۔
“ بیٹا ، بھیا کادل شیشہ کا نہیں ہے کہ ٹوٹ کر بکھر جائےگا“۔ ماں نے ہنس کر کہا۔
“ اس دل میں تمہارے لیے شادابی اور ترو تازگی ہے۔ یہ وہ چمن ہے جس میں بہن کے لیے ہمیشہ پھول کھلیں گے“۔
میں نے کہا۔ “ پاگل بہن “۔
سادیہ نے چیغ کے کہا۔ “ بدھو بھیا“۔

٭٭٭
میرا بالا خانہ پرانے بکسوں سے بھرا ہے۔ میں کوئ چیز نہیں پھینکتا۔ جب وہ پرانی ہوجاتی ہے میں اسے ایک بکس میں رکھ کر بالا خانہ میں رکھ دیتا ہوں۔ باہر بارش ہو رہی تھی اور کچھ کرنے کو نہ تھا۔ میں نے ایک کاغذات کا پلندہ دیکھا۔ میں پلندہ اٹھا کر وہیں زمین پر بیٹھ گیا۔ یہ خط ماں نے اباجان کو لکھے تھے۔

میں نے ایک خط کھولا۔ ایک جگہ لکھا تھا۔

“ تم نہیں جانتے کہ تمہارا آنا میرے دل کو باغ باغ کر دیتا ہے۔ جب تم چلےگئے تو مجھے ایسا لگا جیسے سورج نے چمکنا چھوڑ دیا ہے۔“

“ جس ہمت سے تم اپنی مشکلات کو سہہ رہے ہو۔ یہ ہمارے لیے ایک سبق ہے۔ آخیر میں تم کامیاب ہو گے“۔

“ تم کتے اچھے ہو۔ کیا مجھے یہ کہے ایک دن سے زیادہ ہوگیا؟ یہ کھبی مت بھولنا کہ تمہارے دوست و احباب اورگھر میں سب تم سے محبت کرتے ہیں“

“تم کتنے اچھے ہو؟“ میں اس فقرہ پر رُک گیا۔

ہر انسان میں کچھ نہ کچھ ایسی چیز ہوتی ہے جس پر تنقید کی جاسکتی ہے۔ لیکن اگر ہم اس بات کوبھول کر ان مواقعات کو یاد کرتے ہیں جب ہمیں اس شخص کے ساتھ خوشیاں ملی تھیں تو ہمارا دل ان کی یاد میں خوشوں سے بھر جاتا ہے۔

تم اداس تھے اور ان کے ایک جملے نے تمہارے لبوں پر مسکرایٹ بکھیر دی تھی۔

یہ رہا۔ یقین اور دلاسا، بڑھاوا، دل دہی، تسلی، ڈھارس، ترغیب، تحریک، تقویت، حوصلہ افزائی، دل بڑھانا یہی تاگے خاطر جمع ہیں جو ایک دوسرے کا ضرورت میں ساتھ دیتے ہیں۔ رفیق کے ساتھ انسان مشکلات کا سامنا کر سکتا ہے۔

“ تم اکیلے نہیں ہو“۔

یہ خیرخواہی، پیار و محبت ہمیشہ میرے دوست و احباب اور خاندان میں متضمن ہیں - ہاں مجھے پتہ ہے کہ ہم اس کا اظہار نہیں کرتے۔ ہم ایسا کرتے ہوئے اپنے آپ کو کم تر سمجھتے ہیں۔ میں یہ یقین سے کہوں گا، کہ انسان کی سب سے بڑی خواہش اور ضرورت اس کی دوسروں سے پسندیدگی اور قبولیت ہے۔ یہ جاننا کہ لوگ اسے پسند کرتے ہیں اس کو احساس دلاتا ہے کہ اس کو قبولیت کی فکر نہیں ہونی چاہیے۔ یہ اُس کو حاصل ہے۔ سراہت اسکے اعتماد میں اضافہ کرتی ہے۔۔۔

الفت اور محبت کی قوت پزار ہا سال پرانی ہے۔ لیکن جب تک یہ نہ کہا جائے“ مجھےتم سے محبت ہے“ اس کا اثر غائب ہے۔ اظہار کے بغیر محبت سکھڑ جاتی ہے۔ اپنے جذبات کو الفاظ میں لانا ان کو زنذگی بخشنا ہے۔ جذبات بغیر کہے اثر نہیں رکھتے۔۔۔

محبت کا اظہار دو طرفہ ہے جو لوگ محبت سے پیش آتے ہیں اور یہ برجستہ اور سچی ہے انہیں بھی دوسروں سے محبت ملتی ہے۔ لوگ بغیر مزحمت کے ان زندہ دل اور پرجوش لوگوں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ اس قسم کی پرجوشی وبائ ہے۔۔۔

٭٭٭
آج جب میں ایک سرجن کی چھری کے نیچے ہوں۔ اُس کی آنکھیں ممسکراتی ہیں۔ “ بھیا تم ہمیشہ کے بدھو ہو۔ میں تمہارے پاس ہوں میں تمہارے دل میں ہوں اور یہ میری ہی آنکھیں ہیں جن کو تم دیکھ رہے ہو“۔

یادہے نا ماں نے کہا تھا۔“ بیٹا ، بھیا کادل شیشہ کا نہیں ہے تو ٹوٹ کر بکھر جائےگا۔ دیکھو نا آج میں تمہارا دل ہوں“

مجھ کو ایسا لگتا ہے۔۔۔
.
 

اجنبی

محفلین
تفسیر صاحب آپ کی اس تحریر میں کئی ایسی باتیں ہیں جن کی تفسیر بیان کی جا سکتی ہے ۔ مگر آپ کی تصویر دیکھ کر پاسِ ادب غالب آ گیا ۔ اگر اجازت ہو تو کچھ میں بھی عرض کروں؟
:roll:
 

بدتمیز

محفلین
قدیر احمد نے کہا:
تفسیر صاحب آپ کی اس تحریر میں کئی ایسی باتیں ہیں جن کی تفسیر بیان کی جا سکتی ہے ۔ مگر آپ کی تصویر دیکھ کر پاسِ ادب غالب آ گیا ۔ اگر اجازت ہو تو کچھ میں بھی عرض کروں؟
:roll:

قدیر تم کبھی اپنی تصویر دیکھو خاص طور پر وہ جو چیٹ کے وقت سائیڈ پوز لگا کر بیٹھے ہوتے ہو اس کو دیکھو پھر مجھ سے پوچھنا کونسا کونسا ادب غالب آیا۔
 

تفسیر

محفلین
ریت کی پُتلیاں

کہاں ہے وہ؟
وہ آج بھی نہیں آئ۔
کیا میری چھوٹی بہن بیمار ہے؟۔
ایک ہفتہ گزرگیا۔ کیسی کو اس کی فکر نہیں۔ اس کی بہنیں کہتی ہیں کہ آجائے گی پریشان کیوں ہوتےہو۔ کبھی کبھی ہم سب اپنی اصلی زندگی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
اصلی زندگی، وہ کیا ہوتی ہے؟۔ کیا ہماری زندگی حصوں میں بٹی ھوئ ہے۔ ایک اصلی اور دوسری خیالی۔
ہاں۔ ایک بہن کہتی ہے۔
یہ ایک کھیل ہے۔ ہم سب اس کو کھیلتے ہیں ۔
ِ۔۔۔۔۔
ایک چھوٹے کمرے میں ایک دوسری بہن چلاتی ہے ۔
ماں۔ میں پڑ ھ رہی ہوں اور کمرے کی روشنی کم کردیتی ہے۔ کمپیوٹر کا اسکرین جھلملاتا ہے۔
ریت کی پتلی میں جان آجاتی ہے۔ اس کی انگلیاں اپنی اصلی زندگی کےصفحات کوانٹرنیٹ فورم میں بکھردیتی ہیں۔ ایک نام دار لڑکی ایک گمنام بن لڑکی جاتی ہے۔ ایک خیالی زندگی، اصلی بن جاتی ہے ۔
وہ کہتی تم جان لو کہ میں کون ہوں۔ کیا ہوں ؟ کیوں سانس لیتی ہوں۔ میرا احساس کیا ہے؟ میرا دل کیوں ڈھڑکتا ہے؟۔ کس کی آواز مجھے سہما دیتی ہے کس کی یاد مجھے تڑپا دیتی ہے؟ مجھے کیا پسند ہے؟ کیا نہیں؟ اس لمحہ تم میرے ہو۔ تم سب میرے راز داں ہو، تم میرے گمنام بھائ اور بہن ہو۔ تم میرا سب کچھ ہو۔
مگر دیکھو اگر میری ماں کو پتہ چل گیا تو میرا کمپیوٹر چھن جائےگا اورمجھ کواصلی دنیا میں رہنا پڑےگا۔ اور میرا دم گھٹ جائےگا۔
اگر میرے اصلی بھائ کو پتہ چل گیا۔ تو مجھےجان سےمار دے گا۔
اگرمیرے باپ کو پتہ چل گیا تو ۔۔۔۔۔۔
٭٭٭
وہ آج بھی نہیں آئ۔
کیوں نہیں آئ؟
کیا اسکا ننھا دل دکھ رہا ہے؟
کیا دروازہ کُھل گیا اور ماں نے کمپیوٹر چھن لیا؟
کیا بھائ نےاسکا گلا گُھوٹ دیا؟
کیا باپ کو پتہ چل گیا۔۔۔۔۔
٭٭٭
بہن جی کیا آپ اس کو خط لکھیں گی؟
میں نے کہا نا وہ آجائےگی۔ ہم سب واپس آتے ہیں۔ یہ دنیا بہت پیاری ہے ۔ یہاں سب کچھ ہے، یہاں ہنسی ہے، مذاق ہے ، شوق ہے، جذبہ و ولولہ ہے اور محبت و پیار ہے۔ وہاں ایک اندھیرے کمرے کے باہر کیا ہے۔ کیا ہے؟ اندھیرا ہی ہے نا؟
مگر شاید۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے میں بھیج دوں۔۔۔۔۔
مگر یاد رکھو!
ہم سب ریت کی پتلیاں ہیں اگر تم نے ہم کو چُھوا تو ہم بکھرجائیں گے۔
اور میرادل ڈُوب جاتا ہے۔

مجھ کو ایسا لگتا ہے۔۔۔۔۔
 

تیشہ

محفلین
ان قدموں کے نیچے شاید یہ میرا دل ہے ۔ ۔۔ ۔
:D دیکھو تو کیا ایسی ہی بات ہے ۔


ارے ارے ٹھہرو ، دیکھتی ہوں نہ جانے شیشہ ہے کہ دل ہے ۔
کچھ پیروں کے نیچے تو ہے ۔ :laugh:


:chalo:
 

تیشہ

محفلین
اچھا تو آپکے پاس گڑیا بھی ہے بڑے بھیا ؟ :p
آپ ابھی تک گڑیوں سے کھیلتے ہیں :chalo: بچپن گیا نہیں کیا ؟ :D
 

تیشہ

محفلین
آپ کس لئے ہنسے :roll: :D لگتا ہے آپ بھی گڈے گڈیوں سے کھلتے رہے ہیں اور آپکواپنا زمانہ وقت یاد آگیا ۔ :lol: :lol:


یا بڑے بھیا کی گڑیا پر ہنسی آگئی ۔ :D

:chalo:
 

رضوان

محفلین
تفسیر صاحب کمال کا لکھا ہے بلکہ دھرایا ہے۔
اس تحریر نے ہمیں پھر سے اپنے اندر جھانکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ جو تحریر سوچنے پر مجبور کرے وہی یاد رہ جاتی ہے۔
بلاشبہ آپ ایک عمدہ استاد ہیں جو زندگیوں کو تبدیل کرنے کا فن جانتا ہے۔
 

تفسیر

محفلین
تفسیر صاحب کمال کا لکھا ہے بلکہ دھرایا ہے۔
اس تحریر نے ہمیں پھر سے اپنے اندر جھانکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ جو تحریر سوچنے پر مجبور کرے وہی یاد رہ جاتی ہے۔
بلاشبہ آپ ایک عمدہ استاد ہیں جو زندگیوں کو تبدیل کرنے کا فن جانتا ہے۔
شکریہ رضوان ۔ہمت افزائی کا :)
 
Top