ماضی مستقبل ہوجائے، مستقبل ماضی

غزل
محمد خلیل الرحمٰن
(محترمہ شبنم شکیل سے معذرت کے ساتھ)

ماضی مستقبل ہوجائے، مستقبل ماضی
شبنم کی پھر غزل کے نکلیں کیسے کیسے رنگ

جلتے ہونٹ برستی آنکھیں، تانبے جیسا رنگ
برسوں بعد جو مجھ کو دیکھا، وہ بھی رہ گیا دنگ

(سوکھے ہونٹ، سلگتی آنکھیں، سرسوں جیسا رنگ
برسوں بعد وہ مجھ کو دیکھ کے رہ جائے گا دنگ)


مستقبل کا دھڑکا جس نے ہردم خون رلایا
اکھڑی اُس کی باتیں ہوں گی، غیروں جیسے ڈھنگ

(ماضی کا وہ لمحہ مجھ کو آج بھی خون رلائے
اکھڑی اکھڑی باتیں اس کی ، غیروں جیسے ڈھنگ)


دل کو اب تو درد کی دیمک ہردم چاٹے جائے
روح کو بھی اب کھاجائے گا تنہائی کا رنگ

(دل کو تو پہلے ہی درد کی دیمک چاٹ گئی تھی
روح کو بھی اب کھاتا جائے تنہائی کا رنگ)


جن کے صدقے رب نے میری مشکل کی آسان
میرے جیسے اور بہت تھے دل کے ہاتھوں تنگ

(انہی کے صدقے یارب میری مشکل کر آسان
میرے جیسے اور بھی ہیں جو دل کے ہاتھوں تنگ)


سب کچھ دے کر ہنس دے گی اور کہے گی یوں تقدیر
کبھی نہ پوری ہوپائی ترے دل کی کوئی امنگ

( سب کچھ دے کر ہنس دی اور پھر کہنے لگی تقدیر
کبھی نہ پوری ہوگی تیرے دل ایک امنگ)


میں تو چوڑیاں اپنی فوراً کرچی کرچی کردوں
دیکھوں جب کوئی سندر ناری پیارے پی کے سنگ

(کیوں نہ اب اپنی چوڑیوں کو کرچی کرچی کرڈالوں
دیکھی آج اک سندر ناری پیاے پی کے سنگ)


شبنم جب کوئی ہم سے ہارا، جیت پہ کیا نہ مان
جیت وہی تھی ، جیتے جب بھی اپنے آپ سے جنگ

(شبنم کوئی جو تجھ سے ہارے، جیت پہ مان نہ کرنا
جیت وہ ہوگی جب جیتو گی اپنے آپ سے جنگ)
(نوٹ: قوسین میں محترمہ شبنم شکیل کی غزل کے اشعار ہیں)
 
Top