لیڈر ایسے ہوتے ہیں

x boy

محفلین
ہمارا ملک لیڈران کی منڈی ہے۔ ہر کوئی بیٹھا رنگ برنگا مال بیچ رہا ہے۔ ہر کوئی مسیحا ہے۔ ہر کوئی اپنے بیان کے مطابق یکتا ہے۔ مگر لیڈر اصل میں کیسے ہوتے ہیں، ہم تاریخ سے کچھ رہنمائی لے سکتے ہیں۔ 1932ء میں فرینکلن ڈی روزویلٹ نامی امریکی صدر نے معاشی دباؤ کے مارے ہوئے ملک کی باگ ڈور سنبھالی۔ دیکھتے ہی دیکھتے کرشمہ ہوگیا۔ دن رات اپنے ساتھیوں کی مدد سے روزویلٹ نے بینکوں کے شعبے میں انقلاب برپا کیا۔ 5 ہزار قابل اعتبار بینکوں نے معیشت کی فلاح کے لیے کام شروع کر دیا۔ غریبوں کے لیے کھانے، کمبلوں اور رضائیوں کے ساتھ ان کے بچوں کے نرسری اسکولز اور ان کے لیے نوکری کی اسکیموں کا اجراء کر دیا۔
25 لاکھ جوانوں کے لیے روزگار مہیا کیا۔ کسانوں کی زمینوں تک جدید آلات پہنچائے۔ ان کی محنت کا صحیح معاوضہ طے کیا۔ سڑکیں، ڈیمز، ایئر پورٹس اور اسکولوں کا جال بچھا دیا۔ مزدور اور فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کی فلاح کے متعلق فوری قانون سازی کی۔ بچوں سے مشقت لینے کو غیر قانونی قرار دیا۔ فیکٹریوں میں نوکریاں کرنے والوں کی تنخواہیں بڑھائیں تا کہ ان کی قوت خرید کی وجہ سے معیشت بحال ہو پائے۔ پانچ ریاستوں کے ساتھ ملنے والی ایک بہت بڑی وادی جو کئی دہائیوں سے درد سر بنی ہوئی تھی اس کو قومی خزانے میں تبدیل کر دیا۔ یہ وادی بارشوں میں زیر آب آجاتی تھی اور باقی مہینے خشک سالی کا شکار رہتی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کو زراعت کی آماجگاہ بنا دیا۔ امریکی صدر نے یہ سب کچھ کتنے دنوں میں کیا؟ ایک سو دن میں۔ جی ہاں! اپنے ہنی مون پریڈ میں۔

صدر روزویلٹ کے نقاد بھی تھے مگر ان میں سے چند ایک با کمال تھے۔ ایک کا نام ہوئی لونگ تھا۔ یہ شخص صدر روزویلٹ پر بے لاگ تنقید کرتا تھا اور لویزیانہ کی ریاست سے گورنر اور سینیٹر منتخب ہوا تھا۔ مگر اس کی تنقید کی بنیاد بڑی دلچسپ تھی۔ وہ صدر روزویلٹ کو سستی اور کاہلی پر ہدف تنقید بناتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ امریکی صدر 100 دنوں میں اس سے بھی کہیں زیادہ کام کر سکتے تھے جو انھوں نے نہیں کیے۔ ہوئی لونگ کی تنقید محض دل کی بھڑاس نہیں تھی نا ہی اس کے دعوے فرضی تھے۔ بطور گورنر وہ اپنی ریاست میں ایسی تبدیلیاں لاچکا تھا جنہوں نے صدر روز ویلٹ کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات کو ماند کر دیا تھا۔ اس کی ایک اسکیم کے مطابق کوئی شخص تین ملین ڈالر سے زیادہ اثاثے نہیں رکھ سکتا تھا اور نہ ہی ایک ملین ڈالر سے زیادہ تنخواہ وصول کر سکتا تھا۔ حکومت کے تمام ٹیکس عوام کی خدمت کے لیے مختص کر دیے گئے تھے۔ لونگ اور روزویلٹ میں ایک قدر مشترک تھی دونوں ہی تقریبا 24 گھنٹے کام کرتے تھے۔

اگر آ پ کو امریکا کی موجودہ انتظامیہ کی کرتوتوں کی وجہ سے وہاں کی مثال قابل قبول نہیں ہے تو اس وقت کے USSR اور آج کے روس کی تاریخ سے مثال دی جا سکتی ہے۔ فرینکلن ڈی روزویلٹ کے صدر بننے سے ایک سال پہلے اس وقت کے مرد آہن اسٹالن نے اپنے ایک خطاب میں قوم سے یہ بات کہی ’’ہر کوئی رشیا کو اس کی کمزوری کی وجہ سے شکست دیتا ہے، ہماری کمزوری عسکری اور معاشی ہے۔ لوگ ہمیں شکست دیتے ہیں اور پھر اس کی کوئی قیمت نہیں چکاتے کیوں کہ کمزور ہمیشہ غلطی پر ہوتا ہے۔ یہاں پر صرف طاقت ور کی سنی جاتی ہے۔ مجھ سے لوگ کہتے ہیں کہ ترقی کا پہیہ ذرا دھیما کر دو، یہ نہیں ہو گا۔ اگر ہم رک گئے تو گر جائیں گے۔ گر گئے تو سب ہم پر قدم رکھ کر گزر جائیں گے۔ ہم ترقی کے میدان میں دوسری قوموں سے سو سال پیچھے ہیں۔ ہمیں یہ فرق دس سالوں میں ختم کرنا ہے، اگر ہم یہ فرق نہ ختم کر پائے تو دوسری قومیں ہمیں برباد کر دیں گی‘‘۔

اسٹالن نے وہ کر دکھایا جو اس نے کہا۔ بجلی کی پیداوار میں سیکڑوں گنا اضافہ کیا۔ کوئلہ، تیل، لوہا، اسٹیل زمین سے کھود کر ایک صنعتی جال کی صورت میں ہر طرف پھیلا دیا۔ ایسے ایسے علاقوں میں صنعت لگا دی جن کا کوئی رُخ نہیں کرتا تھا۔ درجنوں نئے شہر آباد کر دیے۔ سائبیریا کے سرد جہنم میں سے وہ خزانے نکالے جو مدتوں سے زمین میں دبے ہوئے تھے۔ دنیا کی لمبی ترین اور بہترین ٹرینیں بنائیں اور ہر طرف چلائیں۔ ایک نہیں درجنوں ڈیم بنائے۔ دیکھتے ہی دیکھتے رشیا میں بے روزگاری ختم ہو گئی۔ صحت کے شعبے میں وہ برطانیہ سے آگے نکل گیا۔ تعلیم مفت اور لازمی قرار دے دی گئی۔ اور اس وسیع ملک کے طول و عرض میں تکنیکی اداروں نے عوام کی روزگار کمانے کی صلاحیت میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ اسٹالن بھی تقریبا 24 گھنٹے کام کرتا تھا۔

میں آپ کو ہٹلر کی مثال بھی دے دیتا ہوں۔ چونکہ جمہوری کانوں پر یہ نام ہتھوڑے کی طرح لگتا ہے۔ لہذا اس کا تذکرہ نہیں کرتے۔ اگرچہ تاریخی طور پر ملعون قرار دیے جانے والے ہٹلر نے جرمنی کے لیے جو کچھ کیا اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ میں یہاں قائد اعظم کی مثال بھی نہیں دینا چاہوں گا کیوں کہ ان کی شخصیت، کردار اور مصمم ارادہ بطور مثال تو استعمال ہو سکتا ہے لیکن اس پر عمل درآمد کرنا ناکارہ اور نامکمل انسانوں کے بس کی بات نہیں۔ دس سال میں بر صغیر کی سیاسی بساط پلٹ دینا اور بد ترین قوانین کے پیرائے میں رہتے ہوئے زیرک اور انتہائی طاقتور مخالفین کی چالوں کے باوجود ایک ملک بنا دینا صرف محمد علی جناحؒ ہی ایسا کرسکتے تھے ۔ کام وہ بھی 24 گھنٹے ہی کیا کرتے تھے۔

قائد اعظم کی صحت زیادہ کام نے خراب کی تھی۔ بعض مورخین کے مطابق اسٹالن کا ایک بازو چھوٹا تھا، امریکی صدر روز ویلٹ پولیو وائرس کی وجہ سے معذور تھا۔ تاریخ ساز شخصیات کام کرتی ہیں۔ ان کی صحت، ان کا وقت اور ان کی جان سب کچھ قوم پر قربان ہوجاتا ہے، وہ دو گھنٹے کھانے نہیں کھاتے اور تین گھنٹے خود ستائشی کے لیے ورزش نہیں کرتے۔ وہ اپنے ملک میں رہتے ہیں۔ غریبوں کا سوچتے ہیں۔ ان کے ہاتھ سے کیا ہوا کام نظر آتا ہے۔ ان کے لیے سو دن بھی بہت ہوتے ہیں۔ لیڈر ایسے ہوتے ہیں اور ہمارے یہاں کیسے ہیں؟ چھوڑیں، رہنے دیں۔ اگر میں نے لکھ دیا تو آپ سب سے ناراض ہو جائیں گے۔
از: طلعت حسین
جمع۔ء 6 دسمبر 2013
ایکپریس نیوز
 

شمشاد

لائبریرین
ہمارے ملک کی یہی تو بدقسمتی ہے کہ کوئی مخلص رہنما ہی نہیں ملتا۔ اگر کوئی ایمانداری سے کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اسے کرنے نہیں دیا جاتا۔

سب کے سب اپنی اپنی ڈفلی پر اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں۔
 

x boy

محفلین
کتا شہید کیسے ہوسکتا ہے مرنے سے پہلے باہر بھاگ جاتے ہیں پھر وہاں سے بھونگتے ہیں ، ہاؤ ہاؤ ہاؤ
 
Top