لگتا ہے جب کہ رات کا کٹنا محال ہے

عظیم

محفلین
السلام علیکم، کل رات ایک غزل کہنے کی کوشش کی ہے، آپ احباب سے گزارش ہے کہ اپنی رائے سے نوازیں، شکریہ




لگتا ہے جب کہ رات کا کٹنا محال ہے
لیجے کہ پھر سے دوست کا اپنے خیال ہے

اک التجا ہے لب پہ کہ جب سے ہے رسم و راہ
ہر بار مجھ فقیر کا اک ہی سوال ہے

سنتا ہوں سخت موت کی گھڑیاں ہیں لیکن ایک
اس دل ربا کے واسطے جینا کمال ہے

دیکھے تو کوئی معجزہ صیاد کا مرے
پاؤں میں بیڑیاں ہیں نہ تن پر ہی جال ہے

ہوتا بھی کوئی دوسرا ہونا اسی کو تھا
وہ اس لیے کہ آپ ہی اپنی مثال ہے

جب سے ہوں اس کی راہ میں اڑتا میں خاک سا
گلشن کی ہر کلی پہ غضب کا جمال ہے

جلتا ہوں اس کو دیکھ کے جس کو بھی شہر میں
اس جان جاں کے ہجر کا رنج و ملال ہے

اس مشت خاک پر بھی فدا ہے کوئی بہت
کیسے کہوں کہ اس کے جو مجنوں کا حال ہے

جی بھر کے زندگی کا مزا لیجیے عظیم
کیا عمر آدمی کی فقط چند سال ہے​
 
Top