لفظ "نفرت" پر اشعار

شمشاد

لائبریرین
میں کسے سنا رہا ہوں یہ غزل محبتوں کی
کہیں آگ سازشوں کی ، کہیں آنچ نفرتوں کی
(اعتبار ساجد)
 

سپرانومی

محفلین
مجھے یادوں سے نفرت ہے

مجھے یادوں سے نفرت ہے
مجھے باتوں سے نفرت ہے
سبھی دعووں سے نفرت ہے
قسم وعدوں سے نفرت ہے
ہر اس لمحے سے نفرت ہے
جو تیری یاد میں گذرے
ہر اس خواہش سے نفرت ہے
جو تیری چاہ میں ابھرے
ہر اس آنسو سے نفرت ہے
جو تیرے غم میں بہتا ہے
مجھے اس دل سے نفرت ہے
جو تیرے درد سہتا ہے
اور
جو سارے درد سہہ کر بھی
ابھی تک کیوں دھڑکتا ہے
مجھے نفرت دلیلوں سے, جوازوں سے, حوالوں سے
مجھے نفرت مثالوں سے, جوابوں سے, سوالوں سے
ضوابط اور اصولوں سے
یہ سب جھوٹے دلاسے ہیں
یہ سب ہیں کھوٹ نیت کا
مجھے نفرت اناؤں سے, خطاؤں سے, جفاؤں سے
مجھے نفرت دعاؤں سے, وفاؤں سے, صداؤں سے
مجھے مقہور رہنا ہے, مجھے مجبور رہنا ہے
مجھے نفرت اجالوں سے, گھٹاؤں سے, ہواؤں سے
مجھے تاریکیاں دے دو, مجھے محبوس رہنا ہے,
مجھے بارش سے نفرت ہے
کہ عادت تشنگی کی ہے
بہاروں سے بھی نفرت ہے
کہ میرے دل کے آنگن میں
خزاں کےبعد پھر سے اک خزاں کا دور آتا ہے,
وہی سورج, وہی ہے چاند
میری روشن محبت کے , کبھی جو استعارے تھے
مجھے ان سب سے نفرت ہے, مجھے یوں تونے گہنایا,
مجھے نفرت ہے محفل سے, تکلم سے, تبسم سے,
مجھے تنہائیاں دے دو, مجھے خاموش رہنا ہے
مجھے نفرت بصارت سے, جو تیری دید کی پیاسی
مجھے نفرت سماعت سے, تجھے سننے کو جو ترسے
لبوں سے مجھ کو نفرت ہے, جو تیری آہ بھرتے ہیں
سبھی جذبوں سے نفرت ہے, جو تیری چاہ کرتے ہیں
مجھے نفرت ہے منزل سے, مجھے نفرت سفر سے ہے
مجھے نفرت بھٹکنے سے, تڑپنے سے, سسکنے سے,
میرا رخت سفر نفرت, مجھے پر درد رہنا ہے
مجھے آنکھوں سے نفرت ہے
یہ تیرے خواب جب دیکھیں
مجھے خوابوں سے نفرت ہے
گر ان میں تو نظر آئے
مجھے نیندوں سے نفرت ہے
تیرے سپنے یہ لاتی ہیں
بےخوابی سے بھی نفرت ہے
ترے غم جو جگاتی ہے
سبھی گیتوں سے نفرت ہے
جو تیرے سنگ گائے تھے
سبھی شعروں سے نفرت ہے
کبھی تجھ کو سنائے تھے
مجھے رنگوں سے نفرت تھے
جو تجھ سنگ جھلملائے تھے
مجھے محلوں سے نفرت ہے
جو خوابوں میں سجائے تھے
ادھورے پن سے نفرت ہے
مجھے لفظوں سےنفرت ہے
جو میرا درد کہتے ہیں
غزل, نظموں سےنفرت ہے
جو تیرا نام نہ لے کر
تیرےخاطر ہی بنتے ہیں
مجھے اب خود سے نفرت ہے
کیوں تیرا منتظر ہوں
محبت سے بھی نفرت ہے
کہ جو میں تجھ سے کر بیٹھا
مجھے جینے سے نفرت ہے
ہجر کی تلخیوں کا زہر
اب پینےسےنفرت ہے
مجھے اب خود سےنفرت ہے
مجھے جینے سے نفرت ہے
 
مجھے یادوں سے نفرت ہے

مجھے یادوں سے نفرت ہے
مجھے باتوں سے نفرت ہے
سبھی دعووں سے نفرت ہے
قسم وعدوں سے نفرت ہے
ہر اس لمحے سے نفرت ہے
جو تیری یاد میں گذرے
ہر اس خواہش سے نفرت ہے
جو تیری چاہ میں ابھرے
ہر اس آنسو سے نفرت ہے
جو تیرے غم میں بہتا ہے
مجھے اس دل سے نفرت ہے
جو تیرے درد سہتا ہے
اور
جو سارے درد سہہ کر بھی
ابھی تک کیوں دھڑکتا ہے
مجھے نفرت دلیلوں سے, جوازوں سے, حوالوں سے
مجھے نفرت مثالوں سے, جوابوں سے, سوالوں سے
ضوابط اور اصولوں سے
یہ سب جھوٹے دلاسے ہیں
یہ سب ہیں کھوٹ نیت کا
مجھے نفرت اناؤں سے, خطاؤں سے, جفاؤں سے
مجھے نفرت دعاؤں سے, وفاؤں سے, صداؤں سے
مجھے مقہور رہنا ہے, مجھے مجبور رہنا ہے
مجھے نفرت اجالوں سے, گھٹاؤں سے, ہواؤں سے
مجھے تاریکیاں دے دو, مجھے محبوس رہنا ہے,
مجھے بارش سے نفرت ہے
کہ عادت تشنگی کی ہے
بہاروں سے بھی نفرت ہے
کہ میرے دل کے آنگن میں
خزاں کےبعد پھر سے اک خزاں کا دور آتا ہے,
وہی سورج, وہی ہے چاند
میری روشن محبت کے , کبھی جو استعارے تھے
مجھے ان سب سے نفرت ہے, مجھے یوں تونے گہنایا,
مجھے نفرت ہے محفل سے, تکلم سے, تبسم سے,
مجھے تنہائیاں دے دو, مجھے خاموش رہنا ہے
مجھے نفرت بصارت سے, جو تیری دید کی پیاسی
مجھے نفرت سماعت سے, تجھے سننے کو جو ترسے
لبوں سے مجھ کو نفرت ہے, جو تیری آہ بھرتے ہیں
سبھی جذبوں سے نفرت ہے, جو تیری چاہ کرتے ہیں
مجھے نفرت ہے منزل سے, مجھے نفرت سفر سے ہے
مجھے نفرت بھٹکنے سے, تڑپنے سے, سسکنے سے,
میرا رخت سفر نفرت, مجھے پر درد رہنا ہے
مجھے آنکھوں سے نفرت ہے
یہ تیرے خواب جب دیکھیں
مجھے خوابوں سے نفرت ہے
گر ان میں تو نظر آئے
مجھے نیندوں سے نفرت ہے
تیرے سپنے یہ لاتی ہیں
بےخوابی سے بھی نفرت ہے
ترے غم جو جگاتی ہے
سبھی گیتوں سے نفرت ہے
جو تیرے سنگ گائے تھے
سبھی شعروں سے نفرت ہے
کبھی تجھ کو سنائے تھے
مجھے رنگوں سے نفرت تھے
جو تجھ سنگ جھلملائے تھے
مجھے محلوں سے نفرت ہے
جو خوابوں میں سجائے تھے
ادھورے پن سے نفرت ہے
مجھے لفظوں سےنفرت ہے
جو میرا درد کہتے ہیں
غزل, نظموں سےنفرت ہے
جو تیرا نام نہ لے کر
تیرےخاطر ہی بنتے ہیں
مجھے اب خود سے نفرت ہے
کیوں تیرا منتظر ہوں
محبت سے بھی نفرت ہے
کہ جو میں تجھ سے کر بیٹھا
مجھے جینے سے نفرت ہے
ہجر کی تلخیوں کا زہر
اب پینےسےنفرت ہے
مجھے اب خود سےنفرت ہے
مجھے جینے سے نفرت ہے
تیری نفرت کے مینارے
یہ مایوسی کے انگارے
محبت کے سمندر میں
الٹ کر ڈوب جائیں گے
جنہیں تم نفرتیں سمجھو
وہی ہیں خواہشیں تیری
انہی چاہت کی لہروں میں
تمہاری نفرتیں لہروں میں مل کر ڈوب جائیں گی
 

طاہر شیخ

محفلین
نفرت آدھا کر دیتی ہے
چاہت اس کو بھر دیتی ہے
نفرت ایک ادھورا پن ہے
جسے مکمل کر دیتی ہے
تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ :)

تو کسے سنا رہا ہے یہ غزل محبتوں کی
کہیں آگ سازشوں کی ، کہیں آنچ نفرتوں کی



اس شعر کچھ یوں ہے

میں کسے سنا رہا ہوں یہ غزل محبتوں کی
کہیں آگ سازشوں کی ، کہیں آنچ نفرتوں کی
(اعتبار ساجد)
 
تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ :)

تو کسے سنا رہا ہے یہ غزل محبتوں کی
کہیں آگ سازشوں کی ، کہیں آنچ نفرتوں کی




اس شعر کچھ یوں ہے

میں کسے سنا رہا ہوں یہ غزل محبتوں کی
کہیں آگ سازشوں کی ، کہیں آنچ نفرتوں کی
(اعتبار ساجد)
رہے آنچ نفرتوں کی جلے آگ سازشوں کی
میرا رقص چاہتیں ہیں یہی فاتح زمانہ
 
Top