لال مسجد:صحافتی ’سرینڈر پوائنٹ‘
ہارون رشید
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
صحافیوں کی سہولت کے لیے لگائے گئے کیمپ درحقیقت سہولت کم اور ’سرینڈر‘ زیادہ تھا۔
حکومت کے لیے لال مسجد کا واقعہ اگر اور کسی اعتبار سے نہیں تو میڈیا
کوریج کے لحاظ سے ملکی تاریخ میں غالباً ’کنٹرولڈ‘ کوریج کی بہترین مثال تھی۔ صحافی چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا شکار ہوئے اور زیادہ تر یکطرفہ رپورٹنگ کے مرتکب ہوئے۔
تین جولائی کو لال مسجد کا معاملہ بھڑکا، ہنگامے ہوئے اور انیس افراد جان کھو بیٹھے جن میں دو صحافی بھی شامل تھے۔ تین زخمی صحافی اس کے علاوہ تھے۔ ان ہنگاموں کے دوران جس قسم کے حالات تھے اس میں صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں تھا۔ ان کی سکیورٹی صرف وہ خود اپنے طور پر لیے گئے اقدامات سے ہی یقینی بنا سکتے تھے۔
لیکن اس کے دوسرے روز ہی حکومت نے صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کو وجہ بتاتے ہوئے انہیں مسجد سے دور رہنے کی تلقین شروع کر دی۔ حکومت نے انتہائی چالاکی سے ایک ایسا نظام متعارف کرایا کہ سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی۔ صحافی بھی بظاہر خوش اور حکومت بھی۔
مسجد کے شمال مشرق میں کورڈ مارکیٹ کے قریب مدرسے سے رضاکارانہ طور پر نکلنے والوں کے لیے قائم ’سرینڈر پوائنٹ‘ پر صحافیوں کی سہولت کے لیے کیمپ لگا دیا جوکہ درحقیقت سہولت کم اور ’سرینڈر‘ زیادہ تھا۔
دیگر ممالک میں کیا ہوتا ہے؟
دنیا میں کئی طریقے رائج ہیں جو اپنی اچھائیوں اور خامیوں کے باوجود صحافیوں کی ہر چیز اپنی آنکھ سے دیکھنے کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ مغربی ممالک میں جنگی صورتحال میں پُول رپورٹنگ ایک جانا مانا طریقہ کار ہے۔ ایک صحافی رضاکارانہ طور پر حفاظتی اقدامات لیتے ہوئے سکیورٹی فورسز کے ساتھ موقع پر جاتا ہے اور چاہے تصاویر ہوں، ویڈیو ہو یا محض آوازیں یا معلومات واپس لوٹ کر تمام دیگر ساتھیوں کے ساتھ تقسیم کرتا ہے۔ ایسا یہاں کرنے کی کسی نے کوشش نہیں کی۔ خلیجی جنگوں میں یہ ہی ہوا اگرچہ یہ بھی کوئی قابل اطمینان طریقہ نہیں ہے
صحافیوں کو وہاں تک محدود کر دیا گیا۔ انہیں بہترین کھانے اور ٹیلیفون کی سہولت کے علاوہ جب حکومت کا دل چاہا اور جتنی چاہی معلومات بھی فراہم کر دیں۔ یعنی صحافیوں کی انگریزی میں جو کہتے ہیں ’سپون فیڈنگ‘ کی گئی۔
حکومت نے تو جو کیا سو کیا صحافی بھی اس صورتحال میں کافی خوش اور مطمئن دکھائی دیئے۔ اسلام آباد کے صحافی میرے خیال میں ملک کے دیگر علاقوں کے صحافیوں سے زیادہ تعلیم یافتہ اور دانشمند ہیں لیکن اس ’سپون فیڈنگ‘ پر کسی نے کوئی اعتراض نہ کیا۔
شاید زیادہ تر اخباری کانفرنسوں، پارلیمان کے اجلاسوں اور عشائیوں کی کوریج کرنے والے ان صحافیوں کی اکثریت کے لیے ایسی جنگی کیفیت میں رپورٹنگ کا یہ پہلا موقع تھا۔ جنگی رپورٹنگ کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے، طریقہ کار ہوتا ہے۔
صحافی تو ہر صورت اور حالات میں واقعات کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ سچائی تلاش کرتا ہے اور اپنی نظر سے دیکھی چیز پر ہی یقین کرنے اور رپورٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن سرینڈر پوائنٹ پر انہیں جو ملا خوشی خوشی وصول کیا اور دنیا بھر میں پھیلا دیا۔
ایسے حالات میں دنیا میں کئی طریقے رائج ہیں جو اپنی اچھائیوں اور خامیوں کے باوجود صحافیوں کی ہر چیز اپنی آنکھ سے دیکھنے کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ مغربی ممالک میں جنگی صورتحال میں پُول رپورٹنگ ایک جانا مانا طریقہ کار ہے۔ ایک صحافی رضاکارانہ طور پر حفاظتی اقدامات لیتے ہوئے سکیورٹی فورسز کے ساتھ موقع پر جاتا ہے اور چاہے تصاویر ہوں، ویڈیو ہو یا محض آوازیں یا معلومات واپس لوٹ کر تمام دیگر ساتھیوں کے ساتھ تقسیم کرتا ہے۔ ایسا یہاں کرنے کی کسی نے کوشش نہیں کی۔ خلیجی جنگوں میں یہ ہی ہوا اگرچہ یہ بھی کوئی قابل اطمینان طریقہ نہیں ہے۔
اکثر رپورٹنگ بھی یک طرفہ رہی۔ صرف حکومتی بیانات ہی سب کے لیے۔ عبدالرشید غازی جوکہ ٹی وی کے کافی مداح نظر آتے تھے خود اگر کسی چینل سے بات کرلیں تو کر لیں ورنہ باقی صحافیوں کے پاس تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔
اگر حکومت کہتی کہ مسجد میں غیرملکی ہیں، شدت پسندوں کے پاس ایٹم بم ہے اور وہ لاکھوں میں ہیں تو صحافیوں کے پاس کی تصدیق کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں تھا۔ صحافی جو بھی حکام کہتے اکثر ویسے ہی نشر یا شائع کر دیتے۔
صحافتی آزادی کی دعوے دار موجودہ حکومت نے ملک کی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ صحافیوں کو زخمیوں سے دور رکھنے کے لیے ہسپتالوں میں ان کے داخلے بھی بند کر دیئے جہاں سے شاید تصویر کا دوسرا رخ مل سکتا تھا۔ صحافیوں کو یہاں بھی گولی مار دینے کی دھمکیاں دے کر ہٹا دیا گیا۔
وزیر مملکت برائے اطلاعات طارق اعظم جو گزشتہ کچھ عرصے سے وزیر اطلاعات محمد علی دورانی کی جگہ آج کل زیادہ متحرک اور حکومتی پالسیوں کا دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں صحافیوں پر اس پابندی کا یہ کمزور جواز دیا کہ میڈیا کے اکٹھے ہونے سے طبی عملے کے کام میں حرج آ سکتا تھا۔
صحافیوں کو ایسے مقام پر رکھا گیا جہاں نہ تو گرفتار افراد لائے گئے اور نہ زخمی۔ انہیں جان بوجھ کر دور رکھا گیا۔ حکومت پہلے ہی واضح کر چکی تھی کہ اگر میڈیا لاشیں اور زخمی نہ دکھائے تو وہ بہت پہلے کارروائی کر دیتے۔ زخمیوں اور گرفتار کو دور رکھ کر حکومت نے یہ ہدف انتہائی آسانی سے حاصل کر لیا۔
سکیورٹی فورسز کہاں غلط ہوئیں؟ انہوں نے کس قسم کے ہتھیار استعمال کیئے؟ پکڑے جانے والوں کے ساتھ اس کا سلوک کیسا تھا؟ آیا ہلاکتوں کی تعداد تہتر سے کم ہوسکتی تھی؟ ان لوگوں پر قابو پر کر انہیں زندہ گرفتار کرنے کی کوئی صورت ہوسکتی تھی؟ ان جیسے سوالات کے جواب اب شاید کبھی نہ ملیں۔
اس آپریشن کا نام خود میڈیا نے شاید بہت سوچ بچار کے بعد انتہائی درست رکھا ہے یعنی ’آپریشن سائلنس‘۔
ہارون رشید
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
صحافیوں کی سہولت کے لیے لگائے گئے کیمپ درحقیقت سہولت کم اور ’سرینڈر‘ زیادہ تھا۔
حکومت کے لیے لال مسجد کا واقعہ اگر اور کسی اعتبار سے نہیں تو میڈیا
کوریج کے لحاظ سے ملکی تاریخ میں غالباً ’کنٹرولڈ‘ کوریج کی بہترین مثال تھی۔ صحافی چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا شکار ہوئے اور زیادہ تر یکطرفہ رپورٹنگ کے مرتکب ہوئے۔
تین جولائی کو لال مسجد کا معاملہ بھڑکا، ہنگامے ہوئے اور انیس افراد جان کھو بیٹھے جن میں دو صحافی بھی شامل تھے۔ تین زخمی صحافی اس کے علاوہ تھے۔ ان ہنگاموں کے دوران جس قسم کے حالات تھے اس میں صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں تھا۔ ان کی سکیورٹی صرف وہ خود اپنے طور پر لیے گئے اقدامات سے ہی یقینی بنا سکتے تھے۔
لیکن اس کے دوسرے روز ہی حکومت نے صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کو وجہ بتاتے ہوئے انہیں مسجد سے دور رہنے کی تلقین شروع کر دی۔ حکومت نے انتہائی چالاکی سے ایک ایسا نظام متعارف کرایا کہ سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی۔ صحافی بھی بظاہر خوش اور حکومت بھی۔
مسجد کے شمال مشرق میں کورڈ مارکیٹ کے قریب مدرسے سے رضاکارانہ طور پر نکلنے والوں کے لیے قائم ’سرینڈر پوائنٹ‘ پر صحافیوں کی سہولت کے لیے کیمپ لگا دیا جوکہ درحقیقت سہولت کم اور ’سرینڈر‘ زیادہ تھا۔
دیگر ممالک میں کیا ہوتا ہے؟
دنیا میں کئی طریقے رائج ہیں جو اپنی اچھائیوں اور خامیوں کے باوجود صحافیوں کی ہر چیز اپنی آنکھ سے دیکھنے کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ مغربی ممالک میں جنگی صورتحال میں پُول رپورٹنگ ایک جانا مانا طریقہ کار ہے۔ ایک صحافی رضاکارانہ طور پر حفاظتی اقدامات لیتے ہوئے سکیورٹی فورسز کے ساتھ موقع پر جاتا ہے اور چاہے تصاویر ہوں، ویڈیو ہو یا محض آوازیں یا معلومات واپس لوٹ کر تمام دیگر ساتھیوں کے ساتھ تقسیم کرتا ہے۔ ایسا یہاں کرنے کی کسی نے کوشش نہیں کی۔ خلیجی جنگوں میں یہ ہی ہوا اگرچہ یہ بھی کوئی قابل اطمینان طریقہ نہیں ہے
صحافیوں کو وہاں تک محدود کر دیا گیا۔ انہیں بہترین کھانے اور ٹیلیفون کی سہولت کے علاوہ جب حکومت کا دل چاہا اور جتنی چاہی معلومات بھی فراہم کر دیں۔ یعنی صحافیوں کی انگریزی میں جو کہتے ہیں ’سپون فیڈنگ‘ کی گئی۔
حکومت نے تو جو کیا سو کیا صحافی بھی اس صورتحال میں کافی خوش اور مطمئن دکھائی دیئے۔ اسلام آباد کے صحافی میرے خیال میں ملک کے دیگر علاقوں کے صحافیوں سے زیادہ تعلیم یافتہ اور دانشمند ہیں لیکن اس ’سپون فیڈنگ‘ پر کسی نے کوئی اعتراض نہ کیا۔
شاید زیادہ تر اخباری کانفرنسوں، پارلیمان کے اجلاسوں اور عشائیوں کی کوریج کرنے والے ان صحافیوں کی اکثریت کے لیے ایسی جنگی کیفیت میں رپورٹنگ کا یہ پہلا موقع تھا۔ جنگی رپورٹنگ کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے، طریقہ کار ہوتا ہے۔
صحافی تو ہر صورت اور حالات میں واقعات کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ سچائی تلاش کرتا ہے اور اپنی نظر سے دیکھی چیز پر ہی یقین کرنے اور رپورٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن سرینڈر پوائنٹ پر انہیں جو ملا خوشی خوشی وصول کیا اور دنیا بھر میں پھیلا دیا۔
ایسے حالات میں دنیا میں کئی طریقے رائج ہیں جو اپنی اچھائیوں اور خامیوں کے باوجود صحافیوں کی ہر چیز اپنی آنکھ سے دیکھنے کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ مغربی ممالک میں جنگی صورتحال میں پُول رپورٹنگ ایک جانا مانا طریقہ کار ہے۔ ایک صحافی رضاکارانہ طور پر حفاظتی اقدامات لیتے ہوئے سکیورٹی فورسز کے ساتھ موقع پر جاتا ہے اور چاہے تصاویر ہوں، ویڈیو ہو یا محض آوازیں یا معلومات واپس لوٹ کر تمام دیگر ساتھیوں کے ساتھ تقسیم کرتا ہے۔ ایسا یہاں کرنے کی کسی نے کوشش نہیں کی۔ خلیجی جنگوں میں یہ ہی ہوا اگرچہ یہ بھی کوئی قابل اطمینان طریقہ نہیں ہے۔
اکثر رپورٹنگ بھی یک طرفہ رہی۔ صرف حکومتی بیانات ہی سب کے لیے۔ عبدالرشید غازی جوکہ ٹی وی کے کافی مداح نظر آتے تھے خود اگر کسی چینل سے بات کرلیں تو کر لیں ورنہ باقی صحافیوں کے پاس تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔
اگر حکومت کہتی کہ مسجد میں غیرملکی ہیں، شدت پسندوں کے پاس ایٹم بم ہے اور وہ لاکھوں میں ہیں تو صحافیوں کے پاس کی تصدیق کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں تھا۔ صحافی جو بھی حکام کہتے اکثر ویسے ہی نشر یا شائع کر دیتے۔
صحافتی آزادی کی دعوے دار موجودہ حکومت نے ملک کی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ صحافیوں کو زخمیوں سے دور رکھنے کے لیے ہسپتالوں میں ان کے داخلے بھی بند کر دیئے جہاں سے شاید تصویر کا دوسرا رخ مل سکتا تھا۔ صحافیوں کو یہاں بھی گولی مار دینے کی دھمکیاں دے کر ہٹا دیا گیا۔
وزیر مملکت برائے اطلاعات طارق اعظم جو گزشتہ کچھ عرصے سے وزیر اطلاعات محمد علی دورانی کی جگہ آج کل زیادہ متحرک اور حکومتی پالسیوں کا دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں صحافیوں پر اس پابندی کا یہ کمزور جواز دیا کہ میڈیا کے اکٹھے ہونے سے طبی عملے کے کام میں حرج آ سکتا تھا۔
صحافیوں کو ایسے مقام پر رکھا گیا جہاں نہ تو گرفتار افراد لائے گئے اور نہ زخمی۔ انہیں جان بوجھ کر دور رکھا گیا۔ حکومت پہلے ہی واضح کر چکی تھی کہ اگر میڈیا لاشیں اور زخمی نہ دکھائے تو وہ بہت پہلے کارروائی کر دیتے۔ زخمیوں اور گرفتار کو دور رکھ کر حکومت نے یہ ہدف انتہائی آسانی سے حاصل کر لیا۔
سکیورٹی فورسز کہاں غلط ہوئیں؟ انہوں نے کس قسم کے ہتھیار استعمال کیئے؟ پکڑے جانے والوں کے ساتھ اس کا سلوک کیسا تھا؟ آیا ہلاکتوں کی تعداد تہتر سے کم ہوسکتی تھی؟ ان لوگوں پر قابو پر کر انہیں زندہ گرفتار کرنے کی کوئی صورت ہوسکتی تھی؟ ان جیسے سوالات کے جواب اب شاید کبھی نہ ملیں۔
اس آپریشن کا نام خود میڈیا نے شاید بہت سوچ بچار کے بعد انتہائی درست رکھا ہے یعنی ’آپریشن سائلنس‘۔