واجدحسین
معطل
تینتیسواں باب
کئی احادیث سے ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بزدلی سے پناہ مانگا کرتے تھے۔
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ [ اپنی دعاء میں ] فرمایا کرتے تھے ۔ اے میرے پروردگار میں آپ کی پناہ میں آتا ہوں کم ہمتی اور سستی سے اور آپ کی پناہ میں آتا ہوں ، بزدلی اور زیادہ بڑھاپے سے اور آپ کی پناہ میں آتا ہوں عذاب قبر سے اور زندگی اور موت کے فتنے سے ۔ ( بخاری ۔ مسلم )
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا تھا اور میں آپ کو اکثر یہ دعاء پڑھتے ہوئے سنتا تھا ۔ اے میرے پروردگار میں آپ کی پناہ پکڑتا ہوں فکر سے اور غم سے اور کم ہمتی اور سستی سے بخل اور بزدلی سے اور قرضے کی بوجھ سے اور لوگوں کے دبا لینے سے ( بخاری ۔ ترمذی )
ان دعاؤں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جامع کلمات کا اعجاز نظر آتا ہے ۔ آپ نے ہم [ فکر] اور خزن [ غم ] کو جمع فرمایا کیونکہ فکر آئندہ آنے والے حالات سے ہوتا ہے اور غم گزشتہ حالات پر ہوتا ہے اور آپ نے عجز [ کم ہمتی یا کمزوری ] اور کسل [ سستی ] کو جمع فرمایا کیونکہ کم ہمتی اور کمزوری کا معنی یہ ہے کہ انسان جو کچھ کرنا چاہتا ہے اس پر قدرت نہیں پاتا اور سستی کا معنی یہ ہے کہ انسان کا بدن ضروری چیزوں کو اداء کرنے سے کمزوری دکھاتا ہے اسی طرح آپ نے بخل [ کنجوسی ] اور جبن [ بزدلی ] کو جمع فرمایا کیونکہ بخل نام ہے مال خرچ نہ کرنے کا اور جبن نام ہے جہاد میں جان قربان نہ کرنے کا ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضلع الدین [ قرضے کے بوجھ ] اور غلبۃ الرجال [ لوگوں کے غالب آجانے ] کو جمع فرمایا کیونکہ ان میں سے پہلی چیز انسان کے باطن کو مغلوب کرتی ہے اور جبکہ دوسری چیز اس کے ظاہر کو محکوم بنادیتی ہے ۔
٭ حضرت معصب بن سعد رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ [ ہمارے والد ] حضرت سعد رضی اللہ عنہ ہمیں پانچ دعائیں کرنے کا حکم دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کا حکم فرمایا کرتے تھے [ وہ پانچ دعائیں یہ ہیں ] اے میرے پروردگار میں آپ کی پناہ پکڑتا ہوں بخل سے اور آپ کی پناہ پکڑتا ہوں بزدلی سے اور آپ کی پناہ پکڑتا ہوں اس سے کہ میں بدترین عمر کی طرف لوٹایا جاؤں [ یعنی بہت بوڑھا ہو جاؤں ] اور آپ کی پناہ پکڑتا ہوں دنیا کے فتنے یعنی دجال کے فتنے سے اور آپ کی پناہ پکڑتا ہوں عذاب قبر سے ۔ ( بخاری ۔ مسلم )
بخاری کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ حضرت سعد ہمیں یہ دعاء اس طرح سکھاتے تھے جس طرح کتابت سکھائی جاتی ہے اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد یہ دعاء پڑھا کرتے تھے ۔ ( بخاری )
[ ذیل میں ان بعض اسباب کو ان کے علاج سمیت ذکر کیا جاتا ہے جن سے بزدلی پیدا ہوتی ہے ] ۔
بزدلی کی وجہ یا تو جہالت اور ناواقفیت ہوتی ہے چنانچہ مسلسل تجربے اور علم کی وجہ سے ایسی بزدلی ختم ہو جاتی ہے یا پھر کمزوری اور خوف کی وجہ سے انسان بزدل ہوجاتا ہے ایسی بزدلی کا علاج یہ ہے کہ وہ کام جس سے انسان کو خوف آتا ہو بار بار کرے اس طرح سے اس کی بزدلی دور ہوجائے گی یہ بات مشاہدے سے ثابت ہے کہ ابتداء میں امامت ، خطابت اور حکام کے سامنے بات کرنے سے خوف آتا ہے اور زبان لڑکھڑاتی ہے لیکن اگر بار بار یہ کام کئے جائیں تو کمزوری دور ہو جاتی ہے ۔ اور اس کی بجائے انسان اپنے اندر قوت محسوس کرتا ہے کیونکہ جمہور کے نزدیک انسانی اخلاق اور طبیعتیں اس قابل ہیں کہ انہیں بدلا جاسکتا ہے آپ نے جوگیوں کے بچوں کو دیکھا ہوگا کہ وہ خوفنا سے خوفناک سانپ کو آسانی سے ہاتھ میں پکڑ لیتے ہیں ۔ کیونکہ ان کی طبیعت کو اس کا عادی بنا دیا جاتا ہے ۔جبکہ ایک زبردست بہادر آدمی جس کا سانپ سے واسطہ نہ پڑا ہو اس سانپ کو ہاتھ لگانے کی بھی ہمت نہیں کرتا ۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ تھوڑی سی تربیت کے بعد وحشی جانور اور درندے بعض انسانوں کے ساتھ مانوس ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ ان کے ابتدائی فطرت اور طبیعت کے خلاف ہے اسی طرح بعض اکھٹے رہنے والے جانوروں کو جب تربیت دی جاتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے لڑنے لگ جاتے ہیں اور اپنے ہم نسل بھائیوں کو پھاڑ دیتے ہیں ۔ آپ نے مرغوں ، دنبوں اور دوسرے جانوروں کی لڑائیاں دیکھی ہوں گی حالانکہ عام فطرت و عادت کے اعتبار سے یہ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں لڑتے اسی طرح تربیت کے ذریعے دو دشمنوں کو کو دوست بنا دیا جاتا ہے جیسا کہ مداریوں کے ہاں آپ نے بلی کو چوہے پر سوار دیکھا ہو گا اور کتے اور بلی کو بھی باہم شیروشکر دیکھا ہوگا حالانکہ آپ ان کے باہمی دشمنی کو خوب جانتے ہیں تو جب جانوروں کا مزاج ، طبیعت اور عادتیں اس طرح سے بدلی جا سکتی ہیں تو انسان تو زیادہ آسانی سے شر و خیر کو قبول کر لیتا ہے کیونکہ ان دونوں چیزوں کا مادہ اس میں رکھا گیا اور اس کی طبیعت جانوروں کی بنسبت زیادہ آسانی سے کسی چیز کو قبول کر لیتی ہے ۔
ایک اہم نکتہ : فتح اور کامیابی کا یقین انسان میں قوت اور بہادری پیدا کرتا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ بڑے بہادروں کو کس طرح پچھاڑتے ہیں ارشاد فرمایا میں جب کسی سے لڑتا ہوں تو پہلے سے اندازہ لگا لیتا ہوں کہ میں اسے قتل کردوں گا ۔
بعض مجاہدین کا قول ہے کہ جنگ کے دوران اپنے دل میں جرات بھر لو کیونکہ یہی کامیابی کا سبب ہے ۔
قدماء رحمہ اللہ کا قول ہے : کہ جس نے دشمن کو مرعوب کر دیا اس نے اپنے لیے لشکر تیار کر لیا ۔ اگر ہم تجربے کی آنکھ سے دیکھیں تو ہمیں پسپائی اختیار کرنے کی وجہ سے مارے جانے والے زیادہ نظر آئیں گے ان کی بنسبت جو آگے بڑھ کر لڑتے ہوئے مارے جاتے ہیں ۔
اپنے دل سے وہم اور وسوسوں کو نکال دینے سے ہی انسان اپنی منزل کو پا سکتا ہے ۔ جبکہ پسپائی اختیار کرنا موت کا دستر خوان ہے اور اسی سے دشمنوں کی ہمت بڑھتی ہے اور ہر وہ چیز جس کا رعب انسان کے دل پر چھا چکا ہو اسے صرف شجاعت کے ذریعے سے دل سے نکالا جا سکتا ہے مثلاً آ پ کا دل چاہے کہ کسی انسان کو اپنا مال دے دیں تو ایک دم طبیعت پریشان ہو جائے گی اور دل پر کمزوری چھا جائے گی اور نفس کہے گا کہ کل تمھیں خود اس مال کی ضرورت پڑھ سکتی ہے اور شیطان فقر و فاے سے ڈرائے گا لیکن اگر آپ نے اپنے عزم کو پختہ کر لیا اور دل کو مضبوط کر لیا تو دل سے وسوسے دھل جائیں گے اور کمزوری اور بے بسی کی بجائے دل میں طاقت محسوس ہونے لگے گی اسی طرح حدیث شریف میں اس شخص کو مخلوق کا طاقتور ترین اور سب سے سخت قرار دیا گیا ہے جو چھپا کر صدقہ کرتا ہے ۔
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اللہ تعالٰی نے زمین کو پیدا کیا تو وہ ہل رہی تھی اور جھک رہی تھی چنانچہ اللہ تعالٰی نے اس پر پہاڑ روں کو گاڑ دیا تو وہ رک گئی فرشتے پہاڑوں کی طاقت دیکھ کر حیران رہ گئی اور انہوں نے پوچھا اے ہمارے رب کیا آپ نے پہاڑوں سے بھی طاقتور کوئی مخلوق پیدا فرمائی ہے ؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا : ہاں لوہا [ پہاڑوں سے زیادہ طاقتور ہے ] فرشتوں نے عرض کیا کیا لوہے سے بھی زیادہ طاقتور کوئی چیز آپ نے پیدا فرمائی ہے ؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہاں آگ ۔ فرشتوں نے عرض کیا کیا آگ سے طاقت ور بھی کوئی چیز پیدا فرمائی ہے ؟ ارشاد فرمایا پانی ۔ فرشتوں نے عرض کیا کیا پانی سے طاقتور بھی کوئی چیز بنائی ہے ؟ ارشاد فرمایا : ہوا ۔ فرشتوں نے عرض کیا کیا ہوا سے طاقت ور بھی کوئی چیز بنائی ہے ؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا وہ انسان جو دائیں ہاتھ سے صدقہ کرے اور اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو ۔ ( ترمذی )
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ جو شخص صدقہ مخفی رکھنے پر قادر ہو گیا وہ مخلوق میں سب سے زیادہ طاقتور ہے اور اس طاقت سے مراد جسمانی طاقت نہیں بلکہ اس کے دل کی مضبوطی ہے کہ اس نے جس چیز کا عزم کیا اسے کر دکھایا بس اسی دل کی مضبوطی کو شجاعت اور بہادری کہتے ہیں۔
( 1 ) دل کی مضبوطی کے ذریعے سے ہی انسان ! اللہ کے احکام پورا کر سکتا ہے اور اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے بچ سکتا ہے
( 2) دل کی مضبوطی کے ذریعے سے ہی انسان ! ہر طرح کے فضائل کو حاصل کر سکتا ہے ۔
(3) دل کی مضبوطی کے ذریعے سے ہی انسان ! نفس کی غلامی اور گندگیوں میں لتھڑنے سے محفوظ رہ سکتا ہے
( 4 ) دل کی مضبوطی کے ذریعے سے ہی انسان ! اپنے ساتھ بیٹھنے والوں کی ایذاء کو اپنے دوست کی بے وفائی کو برداشت کر سکتا ہے ۔
( 5) دل کی مضبوطی کے ذریعے سے ہی انسان ! راز کو چھپا سکتا ہے اور ذلت سے بچ سکتا ہے۔
( 6 ) دل کی مضبوطی کے ذریعے سے ہی انسان ! مشکل کاموں میں کود سکتا ہے ۔
(7) دل کی مضبو طی کے ذریعے سے ہی انسان ! بڑے بڑے نا پسندیدہ بوجھ برداشت کرسکتاہے۔
(
دل کی مضبوطی کے ذریعےسے ہی انسان ! لوگوں کی عادتوں کو برداشت کر سکتاہے ۔
(9) دل کی مضبوطی کے ذریعے سے ہی انسان ! اپنی سوچ اور عقل کے ہر ارادے اور عزم کو پوراکرسکتاہے ۔[صرف خیا لی پلاؤنہیں پکاتار ہتا]
(10) دل کی مضبوطی کے ذریعے سے ہی انسان ! دل میں نفرت اورغصہ رکھ کر اوپر سے مسکر اسکتاہے۔
جیساکہ
حضرت ابودرداء ر رضی اللہ عنہ کافرمان ہےکہ ہم کچھ لوگوں کے سامنے مسکراتے ہیں جبکہ ہمارے دل ان پر لعنت بھیج رہے ہوتے ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ہم بعض ایسے ہاتھوں سے مصافحہ کرتے ہیں جنہیں ہم کاٹ دینا چاہتے ہیں ۔ [ جائز حالات کے تحت ایسا کرنا بے شک بہادروں کا کام ہے ۔ جبکہ بزدل آدمی اپنے اندر کا سب کچھ اگل کر دشمن کے ہاتھوں ذلیل اور کمزور ہو جاتا ہے ]
خوب جان لیجئے کہ جنگ کے دوران بہادری تین طرح کی ہے
( 1 ) جب دونوں لشکر آمنے سامنے آجائیں اور دشمنوں کے ساتھ آنکھیں چار ہو جائیں تو مجاہد کو چاہئے کہ دونوں لشکروں کے درمیان نکل کر اعلان کرے کہ " ھل من مبارز " ہے کوئی جو میرے مقابلے کی ہمت کر سکے۔
( 2 ) جب جنگ شروع ہو جائیں اور صفیں بکھر جائیں اور کسی کو علم نہ ہو کہ کدھر سے موت آئے گی اس وقت اپنے حواص پر قابو رکھے دل کو مضبوط اور عقل کو حاضر رکھے اور بد حواسی میں مبتلا نہ ہو جائے ۔
( 3 ) اگر مجاہدین پسپا ہو نے لگیں تو ان کے پیچھے جا کر انہیں واپس آنے کی ترغیب دے اور ان کے دلوں کو مضبوط کر ے اور ایمان افروز اور جذبات افزا باتیں کرکے ان کے حوصلے بڑھائے اور اپنے ساتھیوں کو سہارا دے کر پھر لڑائی پر آمادہ کرے ۔ ایسے حالات میں بہادری بہت پسندیدہ عمل ہے اسلاف کا قول ہے کہ بھاگنے والوں کے پیچھے لڑنے والا اور غافلین کے پیچھے استغفار کرنے والوں کی طرح ہے۔
خوب اچھی طرح سے جان لیجئے کہ سب سے بڑا بہادر وہ ہے جو اپنے سب سے بڑے دشمن یعنی نفس پر قابو پالے۔
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمھارا سب سے بڑا دشمن تمھارے پہلو میں ہے ۔ ( بیہقی باسناد ضعیف )
پس جس نے اپنے نفس کو شریعت کے تابع بنا دیا کہ جہاں شریعت کچھ کرنے کا حکم دے وہ کر گزرے اور جہاں روک دے وہاں رک جائے جہاں آگے بڑھائے آگے بڑھ جائے اور جہاں پیچھے ہٹائے پیچھے ہٹ جائے تو ایسا شخص سب سے بڑا بہاد ر ہے لیکن وہ شخص جو ہر حال میں کچھ کرنا ہی چاہتا ہو خواہ وہ کرنا جائز ہو یا نہ ہو تو ایسا آدمی بہادر نہیں بلکہ وہ بھیڑیئے گدھے اور خنزیر کی طرح محض ضدی اور نفس پرست ہے ۔
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : طاقتور وہ نہیں ہے جو مد مقابل کو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور تو وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھ سکے ۔ ( بخاری ، مسلم )
ابن حبان کی روایات میں الفاظ یہ ہے ۔ طاقتور وہ نہیں ہے جو لوگوں پر غالب آجائے بلکہ طاقت ور وہ ہے جو اپنے نفس پر غالب آجائے۔
بزدلی انسان کے لیے ہلاکت ہے اور بہادری اس کی ڈھال ہے اسی لیے حدیث شریف میں بزدلی کو ایک مرد کے لیے بد ترین بیماری قرار دیا گیا ہے۔
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : آدمی میں سب سے بری چیز سخت کنجوسی اور سخت بزدلی ہے ۔ ( ابوداؤد )
بزدلی درحقیقت تقدیر کے بارے میں شک اور اللہ تعالٰی سے بد گمانی کا نتیجہ ہے کیونکہ جس انسان کو یقین ہو کہ موت کا وقت مقرر ہے اور وہ آگے پیچھے نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں سچ فرمایا ہے کہ ہر شخص کے لیے موت کا وقت طے ہے ۔ تو ایسا شخص کبھی بزدلی اور فرار کو اختیار نہیں کر سکتا ۔ ہاں اگر اسے تقدیر کے بارے میں شک ہو اور اللہ تعالٰی کے کلام کو بھی سچا نہ جانتا ہو تو بزدلی اختیار کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ شاید گھر بیٹھنے سے میری موت ٹل جائےگی یا میری زندگی لمبی ہو جائے گی حالانکہ موت ایسی چیز ہے جس سے بچنے کے لیے کوئی ڈھال نہیں ہے سوائے اس کے کہ تقدیر بدل جائے اور تقدیر اٹل ہے وہ نہیں بدلتی۔
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو فرمایا : اے لڑکے اللہ تعالٰی کو یاد رکھو ۔ اللہ تمہیں یاد رکھے گا اور تم اسے اپنے سامنے پاؤ گے جب تمہیں مانگنا ہو تو صرف اللہ سے مانگو ۔ جب تمہیں مدد چاہئے ہو تو صرف اللہ سے مدد چاہو خوب اچھی طرح جان لو کہ اگر تمام لوگ تمہیں نفع پہنچانے کے لیے اکھٹے ہو جائیں تو وہ تمہیں کچھ نفع نہیں پہنچا سکتے مگر اتنا ہی جتنا اللہ تعالٰی نے لکھ دیا ہے اور اگر وہ سب ملکر تمہیں نقصان پہنچانا چاہیں تو ہرگز نہیں پہنچا سکتے مگر وہی جو اللہ تعالٰی نے تمھارے لیے لکھ دیا ہے ۔قلم اٹھا لیا گیا ہے اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں [ یعنی تقدیر لکھی جا چکی ہے ( ترمذی )
بیہقی کی روایت میں ہے :
خوب اچھی طرح جان لو جو [ نفع یا نقصان ] تمہیں پہنچنا ہے وہ پہنچ کر رہے گا اور جو [ نفع یا نقصان ] تمہیں پہنچنا وہ نہیں پہنچ سکے گا خوب جان لو کہ فتح صبر کے ساتھ اور کشادگی مصیبت کے ساتھ ہے اور ہر تنگی کے ساتھ فراخی ہے ۔ ( بیہقی )
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قوت اور شجاعت کی فضیلت ، بزدلی اور کمزوری کی مذمت اور ان کے علاج کے طریقے اور امت کے بعض جانبازوں کے حالات کا بیان
٭ مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : طاقتور مسلمان زیادہ بہتر اور اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے کمزور مسلمان سے اور ہر ایک میں بھلائی ہے ۔ اس چیز کی حرص کرو جو تمھیں [ دینی ] نفع پہنچائے اور اللہ تعالٰی سے مدد مانگو اور کم ہمتی نہ دکھاؤ۔ ( مسلم ۔ ابن ماجہ ۔ مسند احمد)کئی احادیث سے ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بزدلی سے پناہ مانگا کرتے تھے۔
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ [ اپنی دعاء میں ] فرمایا کرتے تھے ۔ اے میرے پروردگار میں آپ کی پناہ میں آتا ہوں کم ہمتی اور سستی سے اور آپ کی پناہ میں آتا ہوں ، بزدلی اور زیادہ بڑھاپے سے اور آپ کی پناہ میں آتا ہوں عذاب قبر سے اور زندگی اور موت کے فتنے سے ۔ ( بخاری ۔ مسلم )
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا تھا اور میں آپ کو اکثر یہ دعاء پڑھتے ہوئے سنتا تھا ۔ اے میرے پروردگار میں آپ کی پناہ پکڑتا ہوں فکر سے اور غم سے اور کم ہمتی اور سستی سے بخل اور بزدلی سے اور قرضے کی بوجھ سے اور لوگوں کے دبا لینے سے ( بخاری ۔ ترمذی )
ان دعاؤں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جامع کلمات کا اعجاز نظر آتا ہے ۔ آپ نے ہم [ فکر] اور خزن [ غم ] کو جمع فرمایا کیونکہ فکر آئندہ آنے والے حالات سے ہوتا ہے اور غم گزشتہ حالات پر ہوتا ہے اور آپ نے عجز [ کم ہمتی یا کمزوری ] اور کسل [ سستی ] کو جمع فرمایا کیونکہ کم ہمتی اور کمزوری کا معنی یہ ہے کہ انسان جو کچھ کرنا چاہتا ہے اس پر قدرت نہیں پاتا اور سستی کا معنی یہ ہے کہ انسان کا بدن ضروری چیزوں کو اداء کرنے سے کمزوری دکھاتا ہے اسی طرح آپ نے بخل [ کنجوسی ] اور جبن [ بزدلی ] کو جمع فرمایا کیونکہ بخل نام ہے مال خرچ نہ کرنے کا اور جبن نام ہے جہاد میں جان قربان نہ کرنے کا ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضلع الدین [ قرضے کے بوجھ ] اور غلبۃ الرجال [ لوگوں کے غالب آجانے ] کو جمع فرمایا کیونکہ ان میں سے پہلی چیز انسان کے باطن کو مغلوب کرتی ہے اور جبکہ دوسری چیز اس کے ظاہر کو محکوم بنادیتی ہے ۔
٭ حضرت معصب بن سعد رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ [ ہمارے والد ] حضرت سعد رضی اللہ عنہ ہمیں پانچ دعائیں کرنے کا حکم دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کا حکم فرمایا کرتے تھے [ وہ پانچ دعائیں یہ ہیں ] اے میرے پروردگار میں آپ کی پناہ پکڑتا ہوں بخل سے اور آپ کی پناہ پکڑتا ہوں بزدلی سے اور آپ کی پناہ پکڑتا ہوں اس سے کہ میں بدترین عمر کی طرف لوٹایا جاؤں [ یعنی بہت بوڑھا ہو جاؤں ] اور آپ کی پناہ پکڑتا ہوں دنیا کے فتنے یعنی دجال کے فتنے سے اور آپ کی پناہ پکڑتا ہوں عذاب قبر سے ۔ ( بخاری ۔ مسلم )
بخاری کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ حضرت سعد ہمیں یہ دعاء اس طرح سکھاتے تھے جس طرح کتابت سکھائی جاتی ہے اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد یہ دعاء پڑھا کرتے تھے ۔ ( بخاری )
فصل
شجاعت : دل کے اپنے عزم پر پختہ رہنے کو شجاعت کہتے ہیں اور یہی ہر کمال حاصل کرنے کا اصل ذریعہ ہے اور اسی کے ذریعے انسان بلند مقام تک کامیابی کے ساتھ پہنچ سکتا ہے اور دل کا پختہ اور مضبوط ہونا تب ہی ممکن ہے جب انسان کا مزاج اور اسکی عقل درست ہو اور اس کی طبیعت میں اعتدال ہو ۔ اگر انسان کے دل کی قوت حد اعتدال سے بڑھ جائے تو پھر یہ خواہ مخواہ کا تہوار [ لاپروائی ] بن جاتا ہے اور اگر دل کی قوت کم ہو جائے تو یہی بزدلی کہلاتی ہے ۔ تہوار [ یعنی بے پروائی ] اور بزدلی دونوں ناپسندیدہ چیزیں ہیں اور ان دونوں کے درمیانی درجے کو شجاعت کہتے ہیں اس لیے کوشش کرنی چاہئے کہ انسان کا دل ہمیشہ اعتدال پر رہے اور کسی طرح کی افراط و تفریط میں مبتلا نہ ہو ۔ جہاں تک بزدلی کا تعلق ہے تو اس کا علاج کر نا چاہئے [ کیونکہ وہ ایک گندی بیماری ہے ] اور اس کا علاج اسی وقت ممکن ہے جب ان اسباب کا خاتمہ کیا جائے جن کی وجہ سے انسانی طبیعت میں اعتدال نہیں رہتا اور انسان بزدلی میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔[ ذیل میں ان بعض اسباب کو ان کے علاج سمیت ذکر کیا جاتا ہے جن سے بزدلی پیدا ہوتی ہے ] ۔
بزدلی کی وجہ یا تو جہالت اور ناواقفیت ہوتی ہے چنانچہ مسلسل تجربے اور علم کی وجہ سے ایسی بزدلی ختم ہو جاتی ہے یا پھر کمزوری اور خوف کی وجہ سے انسان بزدل ہوجاتا ہے ایسی بزدلی کا علاج یہ ہے کہ وہ کام جس سے انسان کو خوف آتا ہو بار بار کرے اس طرح سے اس کی بزدلی دور ہوجائے گی یہ بات مشاہدے سے ثابت ہے کہ ابتداء میں امامت ، خطابت اور حکام کے سامنے بات کرنے سے خوف آتا ہے اور زبان لڑکھڑاتی ہے لیکن اگر بار بار یہ کام کئے جائیں تو کمزوری دور ہو جاتی ہے ۔ اور اس کی بجائے انسان اپنے اندر قوت محسوس کرتا ہے کیونکہ جمہور کے نزدیک انسانی اخلاق اور طبیعتیں اس قابل ہیں کہ انہیں بدلا جاسکتا ہے آپ نے جوگیوں کے بچوں کو دیکھا ہوگا کہ وہ خوفنا سے خوفناک سانپ کو آسانی سے ہاتھ میں پکڑ لیتے ہیں ۔ کیونکہ ان کی طبیعت کو اس کا عادی بنا دیا جاتا ہے ۔جبکہ ایک زبردست بہادر آدمی جس کا سانپ سے واسطہ نہ پڑا ہو اس سانپ کو ہاتھ لگانے کی بھی ہمت نہیں کرتا ۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ تھوڑی سی تربیت کے بعد وحشی جانور اور درندے بعض انسانوں کے ساتھ مانوس ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ ان کے ابتدائی فطرت اور طبیعت کے خلاف ہے اسی طرح بعض اکھٹے رہنے والے جانوروں کو جب تربیت دی جاتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے لڑنے لگ جاتے ہیں اور اپنے ہم نسل بھائیوں کو پھاڑ دیتے ہیں ۔ آپ نے مرغوں ، دنبوں اور دوسرے جانوروں کی لڑائیاں دیکھی ہوں گی حالانکہ عام فطرت و عادت کے اعتبار سے یہ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں لڑتے اسی طرح تربیت کے ذریعے دو دشمنوں کو کو دوست بنا دیا جاتا ہے جیسا کہ مداریوں کے ہاں آپ نے بلی کو چوہے پر سوار دیکھا ہو گا اور کتے اور بلی کو بھی باہم شیروشکر دیکھا ہوگا حالانکہ آپ ان کے باہمی دشمنی کو خوب جانتے ہیں تو جب جانوروں کا مزاج ، طبیعت اور عادتیں اس طرح سے بدلی جا سکتی ہیں تو انسان تو زیادہ آسانی سے شر و خیر کو قبول کر لیتا ہے کیونکہ ان دونوں چیزوں کا مادہ اس میں رکھا گیا اور اس کی طبیعت جانوروں کی بنسبت زیادہ آسانی سے کسی چیز کو قبول کر لیتی ہے ۔
ایک اہم نکتہ : فتح اور کامیابی کا یقین انسان میں قوت اور بہادری پیدا کرتا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ بڑے بہادروں کو کس طرح پچھاڑتے ہیں ارشاد فرمایا میں جب کسی سے لڑتا ہوں تو پہلے سے اندازہ لگا لیتا ہوں کہ میں اسے قتل کردوں گا ۔
بعض مجاہدین کا قول ہے کہ جنگ کے دوران اپنے دل میں جرات بھر لو کیونکہ یہی کامیابی کا سبب ہے ۔
قدماء رحمہ اللہ کا قول ہے : کہ جس نے دشمن کو مرعوب کر دیا اس نے اپنے لیے لشکر تیار کر لیا ۔ اگر ہم تجربے کی آنکھ سے دیکھیں تو ہمیں پسپائی اختیار کرنے کی وجہ سے مارے جانے والے زیادہ نظر آئیں گے ان کی بنسبت جو آگے بڑھ کر لڑتے ہوئے مارے جاتے ہیں ۔
اپنے دل سے وہم اور وسوسوں کو نکال دینے سے ہی انسان اپنی منزل کو پا سکتا ہے ۔ جبکہ پسپائی اختیار کرنا موت کا دستر خوان ہے اور اسی سے دشمنوں کی ہمت بڑھتی ہے اور ہر وہ چیز جس کا رعب انسان کے دل پر چھا چکا ہو اسے صرف شجاعت کے ذریعے سے دل سے نکالا جا سکتا ہے مثلاً آ پ کا دل چاہے کہ کسی انسان کو اپنا مال دے دیں تو ایک دم طبیعت پریشان ہو جائے گی اور دل پر کمزوری چھا جائے گی اور نفس کہے گا کہ کل تمھیں خود اس مال کی ضرورت پڑھ سکتی ہے اور شیطان فقر و فاے سے ڈرائے گا لیکن اگر آپ نے اپنے عزم کو پختہ کر لیا اور دل کو مضبوط کر لیا تو دل سے وسوسے دھل جائیں گے اور کمزوری اور بے بسی کی بجائے دل میں طاقت محسوس ہونے لگے گی اسی طرح حدیث شریف میں اس شخص کو مخلوق کا طاقتور ترین اور سب سے سخت قرار دیا گیا ہے جو چھپا کر صدقہ کرتا ہے ۔
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اللہ تعالٰی نے زمین کو پیدا کیا تو وہ ہل رہی تھی اور جھک رہی تھی چنانچہ اللہ تعالٰی نے اس پر پہاڑ روں کو گاڑ دیا تو وہ رک گئی فرشتے پہاڑوں کی طاقت دیکھ کر حیران رہ گئی اور انہوں نے پوچھا اے ہمارے رب کیا آپ نے پہاڑوں سے بھی طاقتور کوئی مخلوق پیدا فرمائی ہے ؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا : ہاں لوہا [ پہاڑوں سے زیادہ طاقتور ہے ] فرشتوں نے عرض کیا کیا لوہے سے بھی زیادہ طاقتور کوئی چیز آپ نے پیدا فرمائی ہے ؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہاں آگ ۔ فرشتوں نے عرض کیا کیا آگ سے طاقت ور بھی کوئی چیز پیدا فرمائی ہے ؟ ارشاد فرمایا پانی ۔ فرشتوں نے عرض کیا کیا پانی سے طاقتور بھی کوئی چیز بنائی ہے ؟ ارشاد فرمایا : ہوا ۔ فرشتوں نے عرض کیا کیا ہوا سے طاقت ور بھی کوئی چیز بنائی ہے ؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا وہ انسان جو دائیں ہاتھ سے صدقہ کرے اور اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو ۔ ( ترمذی )
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ جو شخص صدقہ مخفی رکھنے پر قادر ہو گیا وہ مخلوق میں سب سے زیادہ طاقتور ہے اور اس طاقت سے مراد جسمانی طاقت نہیں بلکہ اس کے دل کی مضبوطی ہے کہ اس نے جس چیز کا عزم کیا اسے کر دکھایا بس اسی دل کی مضبوطی کو شجاعت اور بہادری کہتے ہیں۔
امام ابو بکر طر طوشی فرماتے ہیں
( 1 ) دل کی مضبوطی کے ذریعے سے ہی انسان ! اللہ کے احکام پورا کر سکتا ہے اور اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے بچ سکتا ہے
( 2) دل کی مضبوطی کے ذریعے سے ہی انسان ! ہر طرح کے فضائل کو حاصل کر سکتا ہے ۔
(3) دل کی مضبوطی کے ذریعے سے ہی انسان ! نفس کی غلامی اور گندگیوں میں لتھڑنے سے محفوظ رہ سکتا ہے
( 4 ) دل کی مضبوطی کے ذریعے سے ہی انسان ! اپنے ساتھ بیٹھنے والوں کی ایذاء کو اپنے دوست کی بے وفائی کو برداشت کر سکتا ہے ۔
( 5) دل کی مضبوطی کے ذریعے سے ہی انسان ! راز کو چھپا سکتا ہے اور ذلت سے بچ سکتا ہے۔
( 6 ) دل کی مضبوطی کے ذریعے سے ہی انسان ! مشکل کاموں میں کود سکتا ہے ۔
(7) دل کی مضبو طی کے ذریعے سے ہی انسان ! بڑے بڑے نا پسندیدہ بوجھ برداشت کرسکتاہے۔
(

(9) دل کی مضبوطی کے ذریعے سے ہی انسان ! اپنی سوچ اور عقل کے ہر ارادے اور عزم کو پوراکرسکتاہے ۔[صرف خیا لی پلاؤنہیں پکاتار ہتا]
(10) دل کی مضبوطی کے ذریعے سے ہی انسان ! دل میں نفرت اورغصہ رکھ کر اوپر سے مسکر اسکتاہے۔
جیساکہ
حضرت ابودرداء ر رضی اللہ عنہ کافرمان ہےکہ ہم کچھ لوگوں کے سامنے مسکراتے ہیں جبکہ ہمارے دل ان پر لعنت بھیج رہے ہوتے ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ہم بعض ایسے ہاتھوں سے مصافحہ کرتے ہیں جنہیں ہم کاٹ دینا چاہتے ہیں ۔ [ جائز حالات کے تحت ایسا کرنا بے شک بہادروں کا کام ہے ۔ جبکہ بزدل آدمی اپنے اندر کا سب کچھ اگل کر دشمن کے ہاتھوں ذلیل اور کمزور ہو جاتا ہے ]
خوب جان لیجئے کہ جنگ کے دوران بہادری تین طرح کی ہے
( 1 ) جب دونوں لشکر آمنے سامنے آجائیں اور دشمنوں کے ساتھ آنکھیں چار ہو جائیں تو مجاہد کو چاہئے کہ دونوں لشکروں کے درمیان نکل کر اعلان کرے کہ " ھل من مبارز " ہے کوئی جو میرے مقابلے کی ہمت کر سکے۔
( 2 ) جب جنگ شروع ہو جائیں اور صفیں بکھر جائیں اور کسی کو علم نہ ہو کہ کدھر سے موت آئے گی اس وقت اپنے حواص پر قابو رکھے دل کو مضبوط اور عقل کو حاضر رکھے اور بد حواسی میں مبتلا نہ ہو جائے ۔
( 3 ) اگر مجاہدین پسپا ہو نے لگیں تو ان کے پیچھے جا کر انہیں واپس آنے کی ترغیب دے اور ان کے دلوں کو مضبوط کر ے اور ایمان افروز اور جذبات افزا باتیں کرکے ان کے حوصلے بڑھائے اور اپنے ساتھیوں کو سہارا دے کر پھر لڑائی پر آمادہ کرے ۔ ایسے حالات میں بہادری بہت پسندیدہ عمل ہے اسلاف کا قول ہے کہ بھاگنے والوں کے پیچھے لڑنے والا اور غافلین کے پیچھے استغفار کرنے والوں کی طرح ہے۔
خوب اچھی طرح سے جان لیجئے کہ سب سے بڑا بہادر وہ ہے جو اپنے سب سے بڑے دشمن یعنی نفس پر قابو پالے۔
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمھارا سب سے بڑا دشمن تمھارے پہلو میں ہے ۔ ( بیہقی باسناد ضعیف )
پس جس نے اپنے نفس کو شریعت کے تابع بنا دیا کہ جہاں شریعت کچھ کرنے کا حکم دے وہ کر گزرے اور جہاں روک دے وہاں رک جائے جہاں آگے بڑھائے آگے بڑھ جائے اور جہاں پیچھے ہٹائے پیچھے ہٹ جائے تو ایسا شخص سب سے بڑا بہاد ر ہے لیکن وہ شخص جو ہر حال میں کچھ کرنا ہی چاہتا ہو خواہ وہ کرنا جائز ہو یا نہ ہو تو ایسا آدمی بہادر نہیں بلکہ وہ بھیڑیئے گدھے اور خنزیر کی طرح محض ضدی اور نفس پرست ہے ۔
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : طاقتور وہ نہیں ہے جو مد مقابل کو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور تو وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھ سکے ۔ ( بخاری ، مسلم )
ابن حبان کی روایات میں الفاظ یہ ہے ۔ طاقتور وہ نہیں ہے جو لوگوں پر غالب آجائے بلکہ طاقت ور وہ ہے جو اپنے نفس پر غالب آجائے۔
بزدلی انسان کے لیے ہلاکت ہے اور بہادری اس کی ڈھال ہے اسی لیے حدیث شریف میں بزدلی کو ایک مرد کے لیے بد ترین بیماری قرار دیا گیا ہے۔
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : آدمی میں سب سے بری چیز سخت کنجوسی اور سخت بزدلی ہے ۔ ( ابوداؤد )
بزدلی درحقیقت تقدیر کے بارے میں شک اور اللہ تعالٰی سے بد گمانی کا نتیجہ ہے کیونکہ جس انسان کو یقین ہو کہ موت کا وقت مقرر ہے اور وہ آگے پیچھے نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں سچ فرمایا ہے کہ ہر شخص کے لیے موت کا وقت طے ہے ۔ تو ایسا شخص کبھی بزدلی اور فرار کو اختیار نہیں کر سکتا ۔ ہاں اگر اسے تقدیر کے بارے میں شک ہو اور اللہ تعالٰی کے کلام کو بھی سچا نہ جانتا ہو تو بزدلی اختیار کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ شاید گھر بیٹھنے سے میری موت ٹل جائےگی یا میری زندگی لمبی ہو جائے گی حالانکہ موت ایسی چیز ہے جس سے بچنے کے لیے کوئی ڈھال نہیں ہے سوائے اس کے کہ تقدیر بدل جائے اور تقدیر اٹل ہے وہ نہیں بدلتی۔
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو فرمایا : اے لڑکے اللہ تعالٰی کو یاد رکھو ۔ اللہ تمہیں یاد رکھے گا اور تم اسے اپنے سامنے پاؤ گے جب تمہیں مانگنا ہو تو صرف اللہ سے مانگو ۔ جب تمہیں مدد چاہئے ہو تو صرف اللہ سے مدد چاہو خوب اچھی طرح جان لو کہ اگر تمام لوگ تمہیں نفع پہنچانے کے لیے اکھٹے ہو جائیں تو وہ تمہیں کچھ نفع نہیں پہنچا سکتے مگر اتنا ہی جتنا اللہ تعالٰی نے لکھ دیا ہے اور اگر وہ سب ملکر تمہیں نقصان پہنچانا چاہیں تو ہرگز نہیں پہنچا سکتے مگر وہی جو اللہ تعالٰی نے تمھارے لیے لکھ دیا ہے ۔قلم اٹھا لیا گیا ہے اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں [ یعنی تقدیر لکھی جا چکی ہے ( ترمذی )
بیہقی کی روایت میں ہے :
خوب اچھی طرح جان لو جو [ نفع یا نقصان ] تمہیں پہنچنا ہے وہ پہنچ کر رہے گا اور جو [ نفع یا نقصان ] تمہیں پہنچنا وہ نہیں پہنچ سکے گا خوب جان لو کہ فتح صبر کے ساتھ اور کشادگی مصیبت کے ساتھ ہے اور ہر تنگی کے ساتھ فراخی ہے ۔ ( بیہقی )
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔