قوت اور شجاعت کی فضیلت ، بزدلی اور کمزوری کی مذمت

تینتیسواں باب
قوت اور شجاعت کی فضیلت ، بزدلی اور کمزوری کی مذمت اور ان کے علاج کے طریقے اور امت کے بعض جانبازوں کے حالات کا بیان
٭ مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : طاقتور مسلمان زیادہ بہتر اور اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے کمزور مسلمان سے اور ہر ایک میں بھلائی ہے ۔ اس چیز کی حرص کرو جو تمھیں [ دینی ] نفع پہنچائے اور اللہ تعالٰی سے مدد مانگو اور کم ہمتی نہ دکھاؤ۔ ( مسلم ۔ ابن ماجہ ۔ مسند احمد)
کئی احادیث سے ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بزدلی سے پناہ مانگا کرتے تھے۔
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ [ اپنی دعاء میں ] فرمایا کرتے تھے ۔ اے میرے پروردگار میں آپ کی پناہ میں آتا ہوں کم ہمتی اور سستی سے اور آپ کی پناہ میں آتا ہوں ، بزدلی اور زیادہ بڑھاپے سے اور آپ کی پناہ میں آتا ہوں عذاب قبر سے اور زندگی اور موت کے فتنے سے ۔ ( بخاری ۔ مسلم )
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا تھا اور میں آپ کو اکثر یہ دعاء پڑھتے ہوئے سنتا تھا ۔ اے میرے پروردگار میں آپ کی پناہ پکڑتا ہوں فکر سے اور غم سے اور کم ہمتی اور سستی سے بخل اور بزدلی سے اور قرضے کی بوجھ سے اور لوگوں کے دبا لینے سے ( بخاری ۔ ترمذی )
ان دعاؤں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جامع کلمات کا اعجاز نظر آتا ہے ۔ آپ نے ہم [ فکر] اور خزن [ غم ] کو جمع فرمایا کیونکہ فکر آئندہ آنے والے حالات سے ہوتا ہے اور غم گزشتہ حالات پر ہوتا ہے اور آپ نے عجز [ کم ہمتی یا کمزوری ] اور کسل [ سستی ] کو جمع فرمایا کیونکہ کم ہمتی اور کمزوری کا معنی یہ ہے کہ انسان جو کچھ کرنا چاہتا ہے اس پر قدرت نہیں پاتا اور سستی کا معنی یہ ہے کہ انسان کا بدن ضروری چیزوں کو اداء کرنے سے کمزوری دکھاتا ہے اسی طرح آپ نے بخل [ کنجوسی ] اور جبن [ بزدلی ] کو جمع فرمایا کیونکہ بخل نام ہے مال خرچ نہ کرنے کا اور جبن نام ہے جہاد میں جان قربان نہ کرنے کا ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضلع الدین [ قرضے کے بوجھ ] اور غلبۃ الرجال [ لوگوں کے غالب آجانے ] کو جمع فرمایا کیونکہ ان میں سے پہلی چیز انسان کے باطن کو مغلوب کرتی ہے اور جبکہ دوسری چیز اس کے ظاہر کو محکوم بنادیتی ہے ۔

٭ حضرت معصب بن سعد رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ [ ہمارے والد ] حضرت سعد رضی اللہ عنہ ہمیں پانچ دعائیں کرنے کا حکم دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کا حکم فرمایا کرتے تھے [ وہ پانچ دعائیں یہ ہیں ] اے میرے پروردگار میں آپ کی پناہ پکڑتا ہوں بخل سے اور آپ کی پناہ پکڑتا ہوں بزدلی سے اور آپ کی پناہ پکڑتا ہوں اس سے کہ میں بدترین عمر کی طرف لوٹایا جاؤں [ یعنی بہت بوڑھا ہو جاؤں ] اور آپ کی پناہ پکڑتا ہوں دنیا کے فتنے یعنی دجال کے فتنے سے اور آپ کی پناہ پکڑتا ہوں عذاب قبر سے ۔ ( بخاری ۔ مسلم )
بخاری کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ حضرت سعد ہمیں یہ دعاء اس طرح سکھاتے تھے جس طرح کتابت سکھائی جاتی ہے اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد یہ دعاء پڑھا کرتے تھے ۔ ( بخاری )
فصل
شجاعت : دل کے اپنے عزم پر پختہ رہنے کو شجاعت کہتے ہیں اور یہی ہر کمال حاصل کرنے کا اصل ذریعہ ہے اور اسی کے ذریعے انسان بلند مقام تک کامیابی کے ساتھ پہنچ سکتا ہے اور دل کا پختہ اور مضبوط ہونا تب ہی ممکن ہے جب انسان کا مزاج اور اسکی عقل درست ہو اور اس کی طبیعت میں اعتدال ہو ۔ اگر انسان کے دل کی قوت حد اعتدال سے بڑھ جائے تو پھر یہ خواہ مخواہ کا تہوار [ لاپروائی ] بن جاتا ہے اور اگر دل کی قوت کم ہو جائے تو یہی بزدلی کہلاتی ہے ۔ تہوار [ یعنی بے پروائی ] اور بزدلی دونوں ناپسندیدہ چیزیں ہیں اور ان دونوں کے درمیانی درجے کو شجاعت کہتے ہیں اس لیے کوشش کرنی چاہئے کہ انسان کا دل ہمیشہ اعتدال پر رہے اور کسی طرح کی افراط و تفریط میں مبتلا نہ ہو ۔ جہاں تک بزدلی کا تعلق ہے تو اس کا علاج کر نا چاہئے [ کیونکہ وہ ایک گندی بیماری ہے ] اور اس کا علاج اسی وقت ممکن ہے جب ان اسباب کا خاتمہ کیا جائے جن کی وجہ سے انسانی طبیعت میں اعتدال نہیں رہتا اور انسان بزدلی میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔
[ ذیل میں ان بعض اسباب کو ان کے علاج سمیت ذکر کیا جاتا ہے جن سے بزدلی پیدا ہوتی ہے ] ۔
بزدلی کی وجہ یا تو جہالت اور ناواقفیت ہوتی ہے چنانچہ مسلسل تجربے اور علم کی وجہ سے ایسی بزدلی ختم ہو جاتی ہے یا پھر کمزوری اور خوف کی وجہ سے انسان بزدل ہوجاتا ہے ایسی بزدلی کا علاج یہ ہے کہ وہ کام جس سے انسان کو خوف آتا ہو بار بار کرے اس طرح سے اس کی بزدلی دور ہوجائے گی یہ بات مشاہدے سے ثابت ہے کہ ابتداء میں امامت ، خطابت اور حکام کے سامنے بات کرنے سے خوف آتا ہے اور زبان لڑکھڑاتی ہے لیکن اگر بار بار یہ کام کئے جائیں تو کمزوری دور ہو جاتی ہے ۔ اور اس کی بجائے انسان اپنے اندر قوت محسوس کرتا ہے کیونکہ جمہور کے نزدیک انسانی اخلاق اور طبیعتیں اس قابل ہیں کہ انہیں بدلا جاسکتا ہے آپ نے جوگیوں کے بچوں کو دیکھا ہوگا کہ وہ خوفنا سے خوفناک سانپ کو آسانی سے ہاتھ میں پکڑ لیتے ہیں ۔ کیونکہ ان کی طبیعت کو اس کا عادی بنا دیا جاتا ہے ۔جبکہ ایک زبردست بہادر آدمی جس کا سانپ سے واسطہ نہ پڑا ہو اس سانپ کو ہاتھ لگانے کی بھی ہمت نہیں کرتا ۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ تھوڑی سی تربیت کے بعد وحشی جانور اور درندے بعض انسانوں کے ساتھ مانوس ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ ان کے ابتدائی فطرت اور طبیعت کے خلاف ہے اسی طرح بعض اکھٹے رہنے والے جانوروں کو جب تربیت دی جاتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے لڑنے لگ جاتے ہیں اور اپنے ہم نسل بھائیوں کو پھاڑ دیتے ہیں ۔ آپ نے مرغوں ، دنبوں اور دوسرے جانوروں کی لڑائیاں دیکھی ہوں گی حالانکہ عام فطرت و عادت کے اعتبار سے یہ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں لڑتے اسی طرح تربیت کے ذریعے دو دشمنوں کو کو دوست بنا دیا جاتا ہے جیسا کہ مداریوں کے ہاں آپ نے بلی کو چوہے پر سوار دیکھا ہو گا اور کتے اور بلی کو بھی باہم شیروشکر دیکھا ہوگا حالانکہ آپ ان کے باہمی دشمنی کو خوب جانتے ہیں تو جب جانوروں کا مزاج ، طبیعت اور عادتیں اس طرح سے بدلی جا سکتی ہیں تو انسان تو زیادہ آسانی سے شر و خیر کو قبول کر لیتا ہے کیونکہ ان دونوں چیزوں کا مادہ اس میں رکھا گیا اور اس کی طبیعت جانوروں کی بنسبت زیادہ آسانی سے کسی چیز کو قبول کر لیتی ہے ۔
ایک اہم نکتہ : فتح اور کامیابی کا یقین انسان میں قوت اور بہادری پیدا کرتا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ بڑے بہادروں کو کس طرح پچھاڑتے ہیں ارشاد فرمایا میں جب کسی سے لڑتا ہوں تو پہلے سے اندازہ لگا لیتا ہوں کہ میں اسے قتل کردوں گا ۔
بعض مجاہدین کا قول ہے کہ جنگ کے دوران اپنے دل میں جرات بھر لو کیونکہ یہی کامیابی کا سبب ہے ۔
قدماء رحمہ اللہ کا قول ہے : کہ جس نے دشمن کو مرعوب کر دیا اس نے اپنے لیے لشکر تیار کر لیا ۔ اگر ہم تجربے کی آنکھ سے دیکھیں تو ہمیں پسپائی اختیار کرنے کی وجہ سے مارے جانے والے زیادہ نظر آئیں گے ان کی بنسبت جو آگے بڑھ کر لڑتے ہوئے مارے جاتے ہیں ۔
اپنے دل سے وہم اور وسوسوں کو نکال دینے سے ہی انسان اپنی منزل کو پا سکتا ہے ۔ جبکہ پسپائی اختیار کرنا موت کا دستر خوان ہے اور اسی سے دشمنوں کی ہمت بڑھتی ہے اور ہر وہ چیز جس کا رعب انسان کے دل پر چھا چکا ہو اسے صرف شجاعت کے ذریعے سے دل سے نکالا جا سکتا ہے مثلاً آ پ کا دل چاہے کہ کسی انسان کو اپنا مال دے دیں تو ایک دم طبیعت پریشان ہو جائے گی اور دل پر کمزوری چھا جائے گی اور نفس کہے گا کہ کل تمھیں خود اس مال کی ضرورت پڑھ سکتی ہے اور شیطان فقر و فاے سے ڈرائے گا لیکن اگر آپ نے اپنے عزم کو پختہ کر لیا اور دل کو مضبوط کر لیا تو دل سے وسوسے دھل جائیں گے اور کمزوری اور بے بسی کی بجائے دل میں طاقت محسوس ہونے لگے گی اسی طرح حدیث شریف میں اس شخص کو مخلوق کا طاقتور ترین اور سب سے سخت قرار دیا گیا ہے جو چھپا کر صدقہ کرتا ہے ۔
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اللہ تعالٰی نے زمین کو پیدا کیا تو وہ ہل رہی تھی اور جھک رہی تھی چنانچہ اللہ تعالٰی نے اس پر پہاڑ روں کو گاڑ دیا تو وہ رک گئی فرشتے پہاڑوں کی طاقت دیکھ کر حیران رہ گئی اور انہوں نے پوچھا اے ہمارے رب کیا آپ نے پہاڑوں سے بھی طاقتور کوئی مخلوق پیدا فرمائی ہے ؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا : ہاں لوہا [ پہاڑوں سے زیادہ طاقتور ہے ] فرشتوں نے عرض کیا کیا لوہے سے بھی زیادہ طاقتور کوئی چیز آپ نے پیدا فرمائی ہے ؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہاں آگ ۔ فرشتوں نے عرض کیا کیا آگ سے طاقت ور بھی کوئی چیز پیدا فرمائی ہے ؟ ارشاد فرمایا پانی ۔ فرشتوں نے عرض کیا کیا پانی سے طاقتور بھی کوئی چیز بنائی ہے ؟ ارشاد فرمایا : ہوا ۔ فرشتوں نے عرض کیا کیا ہوا سے طاقت ور بھی کوئی چیز بنائی ہے ؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا وہ انسان جو دائیں ہاتھ سے صدقہ کرے اور اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو ۔ ( ترمذی )
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ جو شخص صدقہ مخفی رکھنے پر قادر ہو گیا وہ مخلوق میں سب سے زیادہ طاقتور ہے اور اس طاقت سے مراد جسمانی طاقت نہیں بلکہ اس کے دل کی مضبوطی ہے کہ اس نے جس چیز کا عزم کیا اسے کر دکھایا بس اسی دل کی مضبوطی کو شجاعت اور بہادری کہتے ہیں۔
امام ابو بکر طر طوشی فرماتے ہیں

( 1 ) دل کی مضبوطی کے ذریعے سے ہی انسان ! اللہ کے احکام پورا کر سکتا ہے اور اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے بچ سکتا ہے
( 2) دل کی مضبوطی کے ذریعے سے ہی انسان ! ہر طرح کے فضائل کو حاصل کر سکتا ہے ۔
(3) دل کی مضبوطی کے ذریعے سے ہی انسان ! نفس کی غلامی اور گندگیوں میں لتھڑنے سے محفوظ رہ سکتا ہے
( 4 ) دل کی مضبوطی کے ذریعے سے ہی انسان ! اپنے ساتھ بیٹھنے والوں کی ایذاء کو اپنے دوست کی بے وفائی کو برداشت کر سکتا ہے ۔
( 5) دل کی مضبوطی کے ذریعے سے ہی انسان ! راز کو چھپا سکتا ہے اور ذلت سے بچ سکتا ہے۔
( 6 ) دل کی مضبوطی کے ذریعے سے ہی انسان ! مشکل کاموں میں کود سکتا ہے ۔
(7) دل کی مضبو طی کے ذریعے سے ہی انسان ! بڑے بڑے نا پسندیدہ بوجھ برداشت کرسکتاہے۔
(8) دل کی مضبوطی کے ذریعےسے ہی انسان ! لوگوں کی عادتوں کو برداشت کر سکتاہے ۔
(9) دل کی مضبوطی کے ذریعے سے ہی انسان ! اپنی سوچ اور عقل کے ہر ارادے اور عزم کو پوراکرسکتاہے ۔[صرف خیا لی پلاؤنہیں پکاتار ہتا]
(10) دل کی مضبوطی کے ذریعے سے ہی انسان ! دل میں نفرت اورغصہ رکھ کر اوپر سے مسکر اسکتاہے۔
جیساکہ
حضرت ابودرداء ر رضی اللہ عنہ کافرمان ہےکہ ہم کچھ لوگوں کے سامنے مسکراتے ہیں جبکہ ہمارے دل ان پر لعنت بھیج رہے ہوتے ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ہم بعض ایسے ہاتھوں سے مصافحہ کرتے ہیں جنہیں ہم کاٹ دینا چاہتے ہیں ۔ [ جائز حالات کے تحت ایسا کرنا بے شک بہادروں کا کام ہے ۔ جبکہ بزدل آدمی اپنے اندر کا سب کچھ اگل کر دشمن کے ہاتھوں ذلیل اور کمزور ہو جاتا ہے ]
خوب جان لیجئے کہ جنگ کے دوران بہادری تین طرح کی ہے
( 1 ) جب دونوں لشکر آمنے سامنے آجائیں اور دشمنوں کے ساتھ آنکھیں چار ہو جائیں تو مجاہد کو چاہئے کہ دونوں لشکروں کے درمیان نکل کر اعلان کرے کہ " ھل من مبارز " ہے کوئی جو میرے مقابلے کی ہمت کر سکے۔
( 2 ) جب جنگ شروع ہو جائیں اور صفیں بکھر جائیں اور کسی کو علم نہ ہو کہ کدھر سے موت آئے گی اس وقت اپنے حواص پر قابو رکھے دل کو مضبوط اور عقل کو حاضر رکھے اور بد حواسی میں مبتلا نہ ہو جائے ۔
( 3 ) اگر مجاہدین پسپا ہو نے لگیں تو ان کے پیچھے جا کر انہیں واپس آنے کی ترغیب دے اور ان کے دلوں کو مضبوط کر ے اور ایمان افروز اور جذبات افزا باتیں کرکے ان کے حوصلے بڑھائے اور اپنے ساتھیوں کو سہارا دے کر پھر لڑائی پر آمادہ کرے ۔ ایسے حالات میں بہادری بہت پسندیدہ عمل ہے اسلاف کا قول ہے کہ بھاگنے والوں کے پیچھے لڑنے والا اور غافلین کے پیچھے استغفار کرنے والوں کی طرح ہے۔
خوب اچھی طرح سے جان لیجئے کہ سب سے بڑا بہادر وہ ہے جو اپنے سب سے بڑے دشمن یعنی نفس پر قابو پالے۔
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمھارا سب سے بڑا دشمن تمھارے پہلو میں ہے ۔ ( بیہقی باسناد ضعیف )
پس جس نے اپنے نفس کو شریعت کے تابع بنا دیا کہ جہاں شریعت کچھ کرنے کا حکم دے وہ کر گزرے اور جہاں روک دے وہاں رک جائے جہاں آگے بڑھائے آگے بڑھ جائے اور جہاں پیچھے ہٹائے پیچھے ہٹ جائے تو ایسا شخص سب سے بڑا بہاد ر ہے لیکن وہ شخص جو ہر حال میں کچھ کرنا ہی چاہتا ہو خواہ وہ کرنا جائز ہو یا نہ ہو تو ایسا آدمی بہادر نہیں بلکہ وہ بھیڑیئے گدھے اور خنزیر کی طرح محض ضدی اور نفس پرست ہے ۔
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : طاقتور وہ نہیں ہے جو مد مقابل کو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور تو وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھ سکے ۔ ( بخاری ، مسلم )
ابن حبان کی روایات میں الفاظ یہ ہے ۔ طاقتور وہ نہیں ہے جو لوگوں پر غالب آجائے بلکہ طاقت ور وہ ہے جو اپنے نفس پر غالب آجائے۔
بزدلی انسان کے لیے ہلاکت ہے اور بہادری اس کی ڈھال ہے اسی لیے حدیث شریف میں بزدلی کو ایک مرد کے لیے بد ترین بیماری قرار دیا گیا ہے۔
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : آدمی میں سب سے بری چیز سخت کنجوسی اور سخت بزدلی ہے ۔ ( ابوداؤد )
بزدلی درحقیقت تقدیر کے بارے میں شک اور اللہ تعالٰی سے بد گمانی کا نتیجہ ہے کیونکہ جس انسان کو یقین ہو کہ موت کا وقت مقرر ہے اور وہ آگے پیچھے نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں سچ فرمایا ہے کہ ہر شخص کے لیے موت کا وقت طے ہے ۔ تو ایسا شخص کبھی بزدلی اور فرار کو اختیار نہیں کر سکتا ۔ ہاں اگر اسے تقدیر کے بارے میں شک ہو اور اللہ تعالٰی کے کلام کو بھی سچا نہ جانتا ہو تو بزدلی اختیار کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ شاید گھر بیٹھنے سے میری موت ٹل جائےگی یا میری زندگی لمبی ہو جائے گی حالانکہ موت ایسی چیز ہے جس سے بچنے کے لیے کوئی ڈھال نہیں ہے سوائے اس کے کہ تقدیر بدل جائے اور تقدیر اٹل ہے وہ نہیں بدلتی۔
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو فرمایا : اے لڑکے اللہ تعالٰی کو یاد رکھو ۔ اللہ تمہیں یاد رکھے گا اور تم اسے اپنے سامنے پاؤ گے جب تمہیں مانگنا ہو تو صرف اللہ سے مانگو ۔ جب تمہیں مدد چاہئے ہو تو صرف اللہ سے مدد چاہو خوب اچھی طرح جان لو کہ اگر تمام لوگ تمہیں نفع پہنچانے کے لیے اکھٹے ہو جائیں تو وہ تمہیں کچھ نفع نہیں پہنچا سکتے مگر اتنا ہی جتنا اللہ تعالٰی نے لکھ دیا ہے اور اگر وہ سب ملکر تمہیں نقصان پہنچانا چاہیں تو ہرگز نہیں پہنچا سکتے مگر وہی جو اللہ تعالٰی نے تمھارے لیے لکھ دیا ہے ۔قلم اٹھا لیا گیا ہے اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں [ یعنی تقدیر لکھی جا چکی ہے ( ترمذی )
بیہقی کی روایت میں ہے :
خوب اچھی طرح جان لو جو [ نفع یا نقصان ] تمہیں پہنچنا ہے وہ پہنچ کر رہے گا اور جو [ نفع یا نقصان ] تمہیں پہنچنا وہ نہیں پہنچ سکے گا خوب جان لو کہ فتح صبر کے ساتھ اور کشادگی مصیبت کے ساتھ ہے اور ہر تنگی کے ساتھ فراخی ہے ۔ ( بیہقی )

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
فصل
سید الکونین والثقلین صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت و بہادری
سب سے بہادر اور سب سے مضبوط دل والے انسان ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں آپ نے بہت مشکل مقامات پر اس وقت ثابت قدمی کا مظاہرہ فرمایا جب بڑے بڑے بہادر میدان چھوڑ جاتے تھے مگر آپ ان خوفناک اور خون آشام مقامات پر ڈٹے رہے ، آگے بڑھتے رہے اور آپ کے عزم اور آپ کی یلغار میں ذرہ برابر کمی نہ آئی دنیا کا ہر بہادر کہیں نہ کہیں فرار یا کمزوری کا شکار ہوا مگر آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا تصور تک نہیں فرمایا ۔ بے شک سچ فرمایا اللہ تعالی نے : [arabic]اِنَّکَ لَعَلٰی خُلِقٍ عَظِیۡمٍ [/arabic]۔ ( القلم ۔ 4 )
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ حسین، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ شجاع تھے ایک رات اہل مدینہ نے کوئی خوفناک آواز سنی لوگ اس آواز کی طرف دوڑے تو انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں سے واپس آتے ہوئے پایا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پہلے اس آواز کی طرف تشریف لے گئے تھے [ واپسی پر دیکھا کہ ] کہ آپ حضرت ابو طلحہ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر تشریف فرما ہیں اور آپ کے گلے میں تلوار لٹک رہی ہے اور آپ فرما رہے ہیں ڈرنے کی کوئی بات نہیں ڈرنے کی کوئی بات نہیں ۔ ( بخاری ۔ مسلم )
٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ شجاع ، زیادہ دلیر ، زیادہ سخی اور زیادہ راضی ہونے والا کسی کو نہیں دیکھا ۔ ( نسائی )
٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب گھمسان کی لڑائی ہوئی تھی اور میدان کار زار گرم ہو جاتا تھا تو ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ لیا کرتے تھے اور ہم میں سے کوئی بھی آپ کی بنسبت دشمن کے زیادہ قریب نہیں ہوتا تھا بدر کے دن ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آڑ لیے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سب سے زیادہ دشمن کے قریب تھے اور آپ نے اس دن سب سے زیادہ سخت جنگ فرمائی۔ اور کہا جاتا تھا کہ بہادر وہی ہے جو جنگ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہو کیونکہ آپ دشمن کے قریب ترین ہوتے تھے ۔ ( صحیح مسلم )
٭ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب دشمنوں سے ٹکراؤ ہوتا تھا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم [ اپنے لشکر میں سے ] سب سے پہلے جنگ شروع فرماتے تھے۔
٭ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے قیس قبیلے کے ایک شخص نے کہا کیا آپ لوگ حنین کے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو [ میدان جنگ میں ] چھوڑ کر بھاگ گئے تھے حضرت براء رضی اللہ عنہ نے فرمایا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرار اختیار نہیں فرمایا ۔ قبیلہ ہوازن کے لوگ اس دن تیر برسا رہے تھے ہم نے جب ان پر حملہ کیا تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے ہم لوگ غنیمت جمع کرنے میں لگ گئے تو انہوں نے ہمیں تیروں پر لے لیا میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو [ تیروں کی اس بوچھاڑ میں ] اپنے سفید خچر پر دیکھا اور ابو سفیان بن حارث رضی اللہ عنہ نے اس خچر کی لگام پکڑ رکھی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے :
انا النبی لا کذب انا بن عبدالمطلب
میں سچا نبی ہوں میں عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہوں۔
( بخاری ۔ مسلم )
٭ ایک روایت میں ہے کہ حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ کی قسم جب سخت لڑائی ہوتی تھی تو ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ میں آجاتے تھے اور ہم زیادہ بھادر وہی ہوتا تھا جو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہ کر لڑتا تھا ۔ اور جب ابی بن خلف [ مشرک ] نے احد کے دن دیکھا تو کہنے لگا اگر یہ بچ گئے تو میں نہیں بچوں گا اور وہ [ پہلے ] حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کرتا تھا کہ میرے پاس ایک گھوڑا ہے جسے میں روزانہ ایک فرق مکئی کھلاتا ہوں میں اسی پر بیٹھ کر آپ کو قتل کروں گا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ان شاء اللہ میں تمہیں قتل کروں گا غزوہ احد کے دن ابی خلف نے اسی گھوڑے پر بیٹھ کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کیا کچھ مسلمان اسے روکنے کے لیے آگے بڑھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے آنے دو اور راستہ چھوڑ دو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حارث بن صمہ سے برچھی لے لی اور اسے تول کر ابی بن خلف کو گردن میں دے ماری جس کے بعد وہ کئی بار اپنے گھوڑے سے گرا ۔۔۔۔۔۔۔ ایک روایت یہ ہے کہ یہ برچھی اس کی پسلی پر لگی تھی جب وہ زخمی ہو کر واپس لوٹا تو کہنے لگا مجھے محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] نے قتل کر دیا ۔ مشرکین نے کہا کہ تمہیں زیادہ زخم نہیں آیا ۔ کہنے لگا اگر میرا یہ زخم سب لوگوں میں بانٹ دیا جائے تو سب مارے جائیں گے کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ محمد نے کہا تھا کہ وہ مجھے قتل کریں گے ۔ اللہ کی قسم اگر وہ مجھ پر تھوک بھی دیتے تو میں مر جاتا ۔ یہ ملعون مکہ واپس جاتے ہوئے مقام سرف پر مر گیا ۔
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکانہ پہلوان سے کشتی فرمائی اور اسے پچھاڑ دیا ۔ ( ابوداؤد )
٭ حافظ مزی کی روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکانہ کو دو یا تین بار پچھاڑ دیا اور ایک روایت کے مطابق یہی واقعہ ان کے اسلام لانے کا سبب بنا ۔ ( تہذیب الکمال للمزی )
٭ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رکانہ جنہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھاڑ ا تھا لوگوں میں سب سے طاقتور تھا۔
حضور اکرم صلی اللہ کی شجاعت کسی بیان کی مختاج نہیں ہے ۔ ہم نے یہاں اس کا مختصر تذکرہ کر دیا ہے ۔ جو مزید تفصیلات دیکھنا چاہتا ہے وہ سیرت اور معازی کی کتب کا مطالعہ کرے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ کی شجاعت اور دل کی مضبوطی سمجھنے کے لیے تھوڑاسا معراج کے واقعے پر غور کیجئے آپ کو خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مضبوط دل اور ناقابل شکست حواس کا اندازہ ہو جائے گا حصوصاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ رب العزت کے سامنے کھڑے ہونا اور نور ربانی کو بر داشت کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہم آپ کی امت میں سے کچھ بھادروں کا تذ کرہ کرتے ہیں اگرچہ ان کی تعداد بے شمار ہے لیکن ہم حضور اکرم صلی علیہ وسلم کے بعض صحابہ کرام سمیت کچھ حضرات کا تذکرہ کریں گے۔
 
خلیفہ رسول ، یار غار ، افضل الخلائق بعد الانبیاء علیہم السلام
سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ
٭ محمد بن عقیل سے روایت ہے کہ ایک بار حضرت علی رضی اللہ عنہ کچھ لوگوں کے درمیان تشریف فرماتھے آپ نے پوچھا لوگوں میں سب سے بہادر ہے حاضرین مجلس نے عرض کیا اے امیر المؤمن آپ سب سے بہادر ہیں حضر ت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں جسے بھی مقابلے کی دعوت دی اس کو پورا حساب چکایا لیکن لوگوں میں سب سے بہادر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے جب غزوہ بدر کا دن تھا تو ہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک عریش [ جبوترہ ] بنادیا تھا اور ہم نے کہا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کون رہے گا جو مشرکوں کو آپ تک نہ پہنچنے دے ۔ اللہ کی قسم اس دن یہ سعادت صرف ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہی حاصل کی اور وہ اپنی کھلی تلوار لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کے پاس کھڑے رہے۔
مکہ میں ایک بار مشرک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے ان میں سے کوئی آپ کو گھسیٹ رہا تھا کوئی دھکے دے رہا تھا اوروہ کہہ رہے تھے کیا تم ہی سارے خداؤں کو چھوڑ کر ایک خدا کی دعوت دیتے ہو ۔ اللہ کی قسم ! اس دن ہم میں سے صرف ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی آگے بڑھے وہ کسی مشرک کو مار کر ہٹاتے تھے کسی کو گھسیٹتے تھے اور کسی کو دھکے دیکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دور کرتے تھے اور کہتے تھے اے مشرکو ! ہلاک ہو جاؤ کیا تم انہیں اس لیے مارتے کہ یہ کہتے ہیں میرا رب اللہ ہے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شرکاء مجلس سے فرمایا میں تمہیں اللہ کی قسم دیکر پوچھتا ہوں کہ کیا آل فرعون میں سے [ خفیہ ] ایمان لانے والا افضل ہے یا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ؟ شرکاء مجلس خاموش رہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم جواب کیوں نہیں دیتے ۔ اللہ کی قسم ابو بکر رضی اللہ عنہ کی زندگی کی ایک گھڑی آل فرعون میں سے ایمان والے شخص کے زمین بھر اعمال سے افضل ہے وہ مؤمن تو ایمان چھپاتا تھا جبکہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے ایمان کا کھلم کھلا اعلان کیا ۔ ( مجمع الزوائد )
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بے شک حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سچ فرمایا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہادر تھے آپ کے دل کی مضبوطی ، عزم کی پختگی اور حواص کی قوت کا اندازہ غزوہ بدر ، غزوہ احد ، غزوہ خندق اور صلح حدیبیہ سے لگایا جا سکتا ہے ۔ [ ہجرت کا پورا واقعہ بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بہادری شجاعت اور قوت قلبی کا بھرپور ثبوت ہے ]
اور آپ نے سب سے زیادہ قوت کا مظاہرہ اس وقت کیا جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے وصال فرما گئے اس زلزلہ خیز موقع پر جبکہ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے حواس کھو بیٹھے تھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے امت مسلمہ کو سنبھالا۔ بے شک اگر اس دن آپ مثالی ہمت کا مظاہرہ نہ فرماتے تو نہ معلوم امت کا کیا حال ہوتا ۔
اسی طرح اپنے دور خلافت میں آپ نے مرتدین ، مدعیان نبوت کے مانعین زکوٰۃ سے بھی جہاد کا جو فیصلہ فرمایا وہ آپ کی قوت قلبی اور فراست ایمانی کا منہ بولتا ثبوت ہے یہ ان کی شجاعت ہی تو تھی کہ اسلام کی عمارت جس جگہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ کر گئے تھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسے وہاں سے ذرہ برابر نہیں ہلانے دیا اور دین میں ایک شوشہ برابر کمی برداشت نہیں فرمائی ۔ آ پ پر اللہ تعالٰی کی کروڑوں رحمتیں ہوں ۔

عزت اسلام امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شجاعت اور ایمانی قوت کو سمجھنے کے لیے اتناہی کافی ہے کہ سابقہ آسمانی کتابوں میں آپ کو لوہے کا پہاڑ قرار دیا گیا ہے ۔
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سے یہ فرمانا [بھی ان کی فضیلت کا اندازہ لگانے کے کافی ہے ] کہ اے ابن خطاب اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے شیطان جس گلی میں آپ کو دیکھتا ہے اس گلی کو چھوڑ کر دوسری گلی میں چلا جاتا ہے ( بخاری ۔ مسلم )
٭ اور اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعاء فرمانا کہ اے میرے پروردگار عمر بن خطاب کے ذریعے دین کو عزت بخشئے ۔ ( مجمع الزوائد )
٭ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے وقت سے ہم عزت مند [ اور قوت والے ] چلے آتے ہیں۔ ( بخاری )
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کے اسلام لانے سے پہلے ہم کعبہ میں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لے آئے تو انہوں نے قریش کے ساتھ لڑائی کرکے کعبہ میں نماز اداء فرمائی اور ہم نے بھی ان کے ساتھ نماز اداء کی ۔ ( سیرۃ ابن ہشام )
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو مشرکین نے کہا آج مسلمانوں نے ہم سے بدلہ لے لیا ہے ۔ ( الریاض النضرہ لمحب الدین طبری )
حضرت عمر رضی اللہ عنہ بہت اعلٰی درجے کے شجاع تھے ۔ اسلام کی عظمت کی خاطر آپ کے بہادرانہ کارنامے بے شمار ہیں جنہیں ہم طوالت کے خوف سے چھوڑ رہے ہیں ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک جن کے ساتھ کشتی کی اور اسے تین بار پچھاڑ دیا۔ ( الریاض النضرہ )
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارا خیال یہ تھا کہ شیطان اس بات سے بھی ڈرتا ہے کہ وہ حضرت عمر کو کسی برائی کی ترغیب دے سکے ۔ ( الریاض النضرہ )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : شیطان عمر رضی اللہ عنہ کے قدموں کی آہٹ سن کر بھاگ جاتا ہے ۔
امام قرطبی نے تاریخ میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے دائیں ہاتھ سے اپنا بایاں کا پکڑ کر چھلانگ لگاتے تھے اور بغیر کسی چیز کو پکڑے گھوڑے کی پیٹھ پر جا بیٹھتے تھے۔

مثال حیاء ذوالنورین ، امیرالمؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ
مکہ مکرمہ میں اپنے مالدار گھرانے کی سختیاں جھیلنا ، حبشہ اور مدینہ کی طرف دو ہجرتیں کرنا غزوہ حدیبیہ کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سفیر بن کر جانا یہ سارے واقعات آپ کی بے پناہ شجاعت کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہیں ہم نے پیچھے حدیث شریف کے حوالے سے پڑھ لیا کہ جو شخص خفیہ صدقہ دینے پر قادر ہو وہ اللہ کی مخلوق میں سب سے مضبوط اور طاقتور ہے ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی تو کوئی صبح اور کوئی شام خفیہ اور اعلانیہ صدقات سے خالی نہیں تھی ۔ اسلام کی خاطر ان کا بے دریغ مال لٹا دینا ان کی قوت قلبی اور مضبوط ایمان کا ثبوت ہے اپنی زندگی کے آخری آیام میں آپ نے شجاعت کی جو مثال قائم کی وہ بلا شبہہ بے مثال کارنامہ ہے ۔ آپ نے ایک طرف تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت اور حکم پر عمل کرتے ہوئے قمیص خلافت نہیں اتارا اور دوسری طرف باوجود قوت اور طاقت کے اپنی جان بچانے کے لیے مسلمانوں کو آپس میں نہیں لڑایا ۔ [ بلکہ آدھی دنیا سے زائد کا یہ عظیم حکمران نہایت مظلومیت کے ساتھ شہید کر دیا گیا ۔ ]
اسداللہ الغالب امیر شجاعت امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں آپ کی بہادری کی ایک امتیازی شان تھی غزوہ بدر کے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو لشکر اسلام کا جھنڈا دیا تو آپ کی عمر بیس سال تھی۔
ابن عبدالبر لکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر لڑائی میں شریک رہے سوائے غزوہ تبوک کے کہ اس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود آپ کو مدینہ میں اپنا قائم مقام بنایا اور ارشاد فرمایا اے علی آپ میرے لیے اسی طرح ہیں جس طرح موسٰی علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے
٭ غزوہ خیبر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج میں جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔ وہ شخص میدان سے بھاگنے والا نہیں ہے اللہ تعالٰی اس کے ہاتھ پر [ اس قلعےکو ] فتح فرمائے گا ۔ پھر آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آنکھیں دکھ رہی تھیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب مبارک ڈالا تو آنکھیں ٹھیک ہو گئیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جھنڈا عطاء فرمایا اور اللہ تعالٰی نے فتح عطاء فرما دی ۔ ( بخاری ۔ مسلم و جملہ اصحاب الصحاح و السنن)
مصعب بن ثابت فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بہت مہارت کے ساتھ جنگ کرتے تھے اور اپنے مدمقابل کو سخت غلطی میں ڈالتے تھے جب آپ حملہ کرتے تھے تو ہر طرف سے زیادہ چوکنا رہتے تھے اس لیے کوئی آپ پر قابو نہیں پا سکتا تھا آپ کی زرہ صرف آپ کے سینے کو ڈھانپتی تھی پیٹھ کو نہیں ۔کسی نے پوچھا کہ کیا آپ کو پشت کی طرف سے حملے کا خطرہ نہیں ہوتا ؟ فرمانے لگے اگر دشمن میری پیٹھ پر وار کرنے کی جگہ پالے پھر بھی اگر علی بچ جائے تو اللہ دشمن کو باقی رکھے ۔ ( ابن عساکر )
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب غزوہ خیبر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دے دیا تو ہم بھی ان کے ساتھ گئے جب قلعے کے قریب پہنچے تو قلعے کے یہودیوں نے مقابلہ کیا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان سے لڑتے رہے اس لڑائی میں آپ کی ڈھال آپ کے ہاتھ سے گر گئی تو آپ نے ایک دروازہ بطور ڈھال کے ہاتھ میں لے لیا اور قلعہ فتح ہونے تک آپ اسے ہاتھ میں لے کر لڑتے رہے ۔ فتح کے بعد آپ نے اسے پھینک دیا ۔ اس کے بعد ہم ساتھ آدمیوں نے زور لگا کر اس دروازے کو الٹنا چاہا تو نہ الٹ سکے ۔ ( سیرۃ ابن ہشام )
 
مبشر بالجنہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ
٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جب بھی غزوہ احد کا تذکرہ فرماتے تھے تو کہتے تھے وہ دن تو سارا کا سارا طلحہ کے نام رہا ۔ میں جب سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ کی طرف لوٹا تو میں نے آپ کے سامنے ایک شخص کو لڑتے دیکھا میں کہا یہ طلحہ ہی ہوں گے جو اس شرف کو حاصل کر گئے جسے میں حاصل نہ کر سکا اور فرمایا کہ اس دن طلحہ رضی اللہ عنہ کو ستر سے اوپر تیر ، تلوار اور نیزوں کے زخم لگے ۔ ( کتاب الجہاد لابن المبارک)
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ احد کے دن مسلمان [ اچانک حملے سے بوکھلا کر ] پیچھے ہٹ گئے ۔ صرف ابو طلحہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اور وہ اپنی ڈھال کے ذریعے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کر رہے تھے ۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ بہت زبردست تیر انداز تھے انہوں نے اس دن دو تین کمانیں توڑیں اور جو مسلمان بھی اپنے ترکش میں تیر لے کر گزرتا تھا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ یہ تیر ابوطلحہ کو دے دو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں کو دیکھنے کے لیے سر مبارک اوپر اٹھاتے تھے تو حضرت طلحہ عرض کرتے میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اے اللہ کے نبی آپ کو تیر نہ لگ جائے میری گردن آپ کی گردن کے لیے بطور ڈھال حاضر ہے ۔ اس دن [ اللہ تعالٰی کی طرف سے بطور نعمت آنے والی ] اونگھ کی وجہ سے حضرت طلحۃ کے ہاتھ سے دو یا تین بار تلوار چھوٹ کر گر گئی۔
قیس بن حازم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت طلحہ کے ہاتھ کو دیکھا کہ وہ شل ہو چکا تھا۔ انہوں نے اسی ہاتھ پر [تیر سہ کر ] حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچاؤ کیا تھا ۔ غزوہ احد کے دن حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی اسی جانثاری کے اعتراف میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جیسے حضرات نے بھی حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی شان میں اشعار کہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرنے پر انہیں خراج تحسین پیش کیا اور ان کی شجاعت کی تعریف کرتے ہوئے انہیں جنت اور حوروں کی دعائیں دیں اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بھی خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت طلحہ کی شان میں اشعار کہے اور انہیں اسلام کی چکی کا محافظ اور حضور اکرم صلی اللہ کے بعد لوگوں کو امام قرار دیا۔
مبشر بالجنہ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ

اسلام کے لیے سب سے پہلے اٹھانے والے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی پوری زندگی شجاعت اور دلیری سے عبارت ہے مکہ مکرمہ میں ایک بار جب شیطان نے افواہ اڑا دی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ لیا گیا ہے تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اپنی تلوار لے کر نکل کھڑے ہوئے اس واقعے پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اور ان کی تلوار کو دعائیں دیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر سے پوچھا کہ اگر واقعی مجھے پکڑ لیا گیا ہوتا تو تم کیا کرتے ؟ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ جن کی عمر اس وقت بارہ سال تھی کہنے لگے اگر ایسا ہوتا تو میں اہل مکہ کو اتنا قتل کرتا کہ ان کے خون کی نہر چلا دیتا اور ان میں سے کسی کو زندہ نہیں چھوڑتا یہ سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر حضرت زبیر کو پہنا دی ۔ اس وقت حضرت جبرئیل امین علیہ السلام تشریف لائے اور فرمانے لگے یا رسول اللہ ! اللہ تعالٰی نے آپ کو سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ ہمارا سلام زبیر کو پہنچا دیجئے اور انہیں خوشخبری دے دیجئے کہ آپ کی بعث سے قیامت قائم ہونے تک جتنے لوگ بھی اللہ کے راستے میں تلوار اٹھائیں ان سب کا ثواب اللہ تعالٰی حضرت زبیر کو عطاء فرمائیں گے اور ان کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں کی جائےگی کیونکہ زبیر نے سب سے پہلے اللہ کے راستے میں تلوار اٹھائی ہے ۔
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن میرا سامنا عبیدہ بن سعید سے ہوا جو لوہے میں غرق تھا اور اس کی آنکھوں کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا میں نے اس پر نیزے سے حملہ کیا اور سیدھا اس کی آنکھ کو نشانہ بنایا وہ مردار ہو کر گر گیا میں نے اس پر پاؤں رکھ کر کافی زور لگایا اور اپنا نیزہ اس کے جسم سے نکال لیا مگر وہ نیزہ ٹیرھا ہو گیا ( بخاری )
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے پورے جسم پر زخموں کے نشان تھے اور یہ سارے زخم انہیں جہاد کرتے ہوئے لگے تھے ۔ ان کے بیٹے عروہ کہتے ہیں کہ بچپن میں میں ان کے بعض زخموں میں ہاتھ ڈال کر کھیلتا رہتا تھا یعنی وہ زخم بہت گہرے تھے ۔ ( الریاض النضرۃ )
عروہ کہتے ہیں کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ لمبے قد کے تھے جب وہ گھوڑے پر بیٹھتے تھے تو ان کے پاؤں زمین پر لگتے تھے اور وہ بڑے بالوں والے تھے ۔ بچپن میں بعض دفعہ میں ان کے بال پکڑ کر کھڑا ہو جاتا تھا ۔ ( الریاض النضرۃ )
جنگ جمل میں جب ابن جر موز نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا اور ان کی تلوار حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس لایا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس تلوار نے کتنے عرصے تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غموں کو دور کیا ۔ ( الریاض النضرۃ )

مبشر بالجنہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو دعاء دی تھی کہ اے میرے پروردگار ان کے نشانے کو درست کر دے اور ان کی دعائیں قبول کر لے [ یعنی انہیں درست نشانے والا تیر انداز اور مستجاب الدعوات بنا دے ] مجمع الزوائد )
حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں سنا کہ آپ نے کسی کے لیے اپنے ماں باپ کو جمع فرمایا ہو سوائے حضرت سعد کے ۔ میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں فرما رہے تھے اے سعد تیر مارو میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں ۔ ( الریاض النضرۃ )
ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ قریش کے ان مشہور اور بہادر شہسواروں میں سے تھے جو جنگ کے دوران حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محافظ ہوتے تھے ۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ہی کوفہ آباد کیا اور کافروں کو مار بھگایا اور اہل فارس کے ساتھ جنگیں کیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں اہل فارس کے ساتھ جنگ میں امیر بنایا اور اللہ تعالٰی نے فارس کے اکثر شہروں کو فتح ان کے ہاتھ پر فرمائی۔ ( الاستیعاب)
٭ حضرت سعید بن مسیّب کی روایت ہے کہ غزوہ احد کے دن حضرت سعد نے سب سے زیادہ سخت جنگ فرمائی ( مصنف ابن ابی شیبہ )
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ نے فرمایا : سعد بن ابی وقاص ایک ہزار گھڑ سواروں کے برابر ہیں۔ ( الریاض النضرۃ )
زہری رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا آخری وقت آیا تو انہوں نے ایک پرانا اونی جبہ منگوایا اور فرمایا مجھے اسی میں کفن دینا کیونکہ غزوہ بدر کے دن میں یہی پہن کر مشرکین کا مقابلہ کیاتھا اور یہ میں نے آج کے دن لیے چھپا رکھا تھا ۔ (صفوۃ الصفوۃ )
امین الامہ حضرت ابو عبیدہ عامر بن عبداللہ جراح رضی اللہ عنہ
زبیر بن بکار رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ بدر سمیت تمام غزوات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے ۔ غزوہ احد کے دن خود [ جنگی ٹوپی ] کی دو کڑیاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے میں گھس گئی تھی ۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے اپنے دانتوں سے کھینچ کر وہ کڑیاں نکالیں تو ان کے اگلے دانٹ ٹوٹ گئے اور اس سے ان کے چہرے کا حسن بڑھ گیا بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ ابو عبیدہ رضی عنہ جیسا خوبصورت منہ کسی کا نہیں ہے اور لوگ کہتے تھے کہ قریش کے دو زیرک مرد ابو بکر رضی اللہ عنہ اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں شام کا والی بنایا اور انہی کی قیادت میں اللہ تعالیٰ نے یرموک اور جابیہ کی فتوحات عطاء فرمائیں ۔
ابن اثیر کی روایت ہےکہ غزوہ بدر کے دن حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے مشرک والد آپ کے پیچھے لگے ہوئے تھے حضرت ابو عبیدہ ان سے بچتے پھر رہے تھے لیکن جب ان کے والد ان کے پیچھے پڑے رہے تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے [ اللہ کی رضا کے لیے ] انہیں قتل کر دیا ۔ اس پر قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی۔
[arabic]لا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الإيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [/arabic]( سورہ المجادلہ ۔ 22)
جو لوگ اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں آپ ان کو نہیں دیکھیں گے کہ وہ ایسے لوگوں سے دوستی رکھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کے بر خلاف ہیں خواہ وہ ( مخالفین ) ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا اپنے گھرانے کے لوگ ہی کیوں نہ ہوں ان لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالٰی نے ایمان کو پکا کر دیا ہے او ر ان کو اپنی غیبی فیض سے مدد فرمائی ہے اور ان کو وہ ایسے باغات میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اللہ تعالٰی ان سے راضی اور وہ اللہ تعالٰی سے راضی ، یہ لوگ اللہ تعالٰی کا لشکر ہیں ( یعنی اللہ کا جماعت اور اس کا گروہ ہیں ) اور اللہ کا لشکر ہی فلاح پانے والا ہے ۔
سید الشہداء حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ

علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ احد کے دن حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے اکتیس مشرک قتل فرمائے پھر آپ پیٹھ کے بل گر پڑے اور زرہ آپ کے پیٹ سے ہٹ گئی تو اس پر ایک مشرک نے برجھی مار دی پھر ہندہ نے آپ کا پیٹ چاک کیا اور جگر کو نکال کر چبا لیا مگر نگل نہ سکی۔ اس پر حضور اکرم صلی اللہ نے فرمایا اگر حمزہ کا جگر اس کے پیٹ میں چلا جاتا تو دوزخ کی آگ اسے نہ چھوتی ۔ شہادت کے بعد جب آپ صلی اللہ نے انہیں دیکھا تو آپ کو شدید صدمہ پہنچا اور آپ نے فرمایا کہ میں بھی ان مشرکوں میں سے ستر کو مار کر ان کا اسی طرح حلیہ بگاڑوں گا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی :
[arabic]وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ [/arabic] ( سورہ النخل ۔ 126)
اور اگر تم ان کو تکلیف دینا چاہو تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی اور اگر صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے لیے بہت اچھا ہے ۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امیہ بن خلف نے ان سے پوچھا کہ [ غزوہ بدر کے دن ] تم میں سے کون شخص تھا جس کے سینے پر شتر مرغ کے پر تھے میں کہا وہ حمزہ رضی اللہ عنہ تھے امیہ نے کہا انہوں نے ہمارا بہت برا حشر کیا ۔ غزوہ بدر کے دن حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ دو تلواریں لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے لڑ رہے تھے ۔ ( بحوالہ ابن اسحاق)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو مقتول پایا تو آپ روپڑے اور جب آپ نے ان کے ناک اور کان کٹے دیکھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سسکیاں لینے لگے اور آپ نے فرمایا : اگر صفیہ رضی اللہ عنہا برا نہ مناتیں تو میں حمزہ کو اسی حالت میں چھوڑ دیتا تاکہ قیامت کے دن ان حشر پرندوں اور درندوں کے پیٹ سے ہوتا ۔ صفیہ رضی اللہ عنہا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بہن ہیں ۔
ذوالجناحین حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ
آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دس سال بڑے تھے غزوہ موتہ کے دن آپ شہید ہوئے آپ نےجھنڈا تھاما تو آپ کا دایاں ہاتھ کٹ گیا تو آپ نےجھنڈا بائیں ہاتھ میں لے لیا جب وہ بھی کٹ گیا تو جھنڈے کو سینے سے لگا لیا یہاں تک کہ آپ آگے بڑھتے ہوئے شہید ہو گئے اور آپ کے جسم پر نوے سے زائد زخم تھے۔
بطل اسلام حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ
آپ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے اور شہسوار اور بہادری میں آپ کا نام بطور مثال پیش کیا جاتا ہے ۔ علامہ ابن اثیر فرماتے ہیں کہ تستر کی لڑائی میں آپ نے ایک سو کافروں کو مقابلے کی دعوت دے کر قتل کیا جبکہ عمومی لڑائی میں آپ کے ہاتھ سے قتل ہونے والے ان کے علاوہ ہیں ۔ ( اسد الغابہ )
ایک لڑائی میں آپ اپنی ڈھال پر بیٹھ گئے اور آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ تم اپنے نیزوں کے ذریعے اس ڈھال کو اٹھا کر مجھے دیوار کے اس طرف کافروں میں پھینک دو ۔ ان کے ساتھیوں نے ایسا ہی کیا ۔ جب ان کے ساتھی ان تک پہنچے تو اس وقت تک حضرت براء رضی اللہ عنہ دس کافروں کو قتل کر چکے تھے اور ان کے جسم پر اسی سے زائد زخم تھے ۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ایک مہینہ تک ان کی تیمار داری کی یہاں تک کہ وہ ٹھیک ہوگئے ۔
بطل اسلام حضرت معاذ بن عمرو بن جموع رضی اللہ عنہ
ان کے ابو جہل پر حملہ کرنے اور اپنے لٹکے ہوئے بازو کو توڑ کر پھینک دینے اور اسی حالت میں بھی لڑائی میں جمے رہنے کا قصہ پیچھے گزر چکا ہے ۔
بطل اسلام حضرت ابو دجانہ سماک بن خرشہ رضی اللہ عنہ
یہ وہ سعادت مند بہادر مجاہد ہیں جنہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احد کے دن اپنی تلوار مبارک عطاء فرمائی ۔ اس دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ اس تلوار کا حق کون اداء کرے گا ایک شخص کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تلوار نہیں دی بالآخر حضرت ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس تلوار کا حق کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کا حق یہ ہے کہ اس سے کافروں کو اتنا مارا جائے کہ یہ ٹیڑھی ہوجائے ۔ حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں اس کا حق اداء کروں گا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تلوار انہیں عطاء فرما دی وہ ایک مرد بہادر تھے اور جنگ کے وقت دشمنوں کے سامنے اکڑ کر چلتے تھے۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے دل میں یہ بات کھٹک رہی تھی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے مانگنے پر مجھے تلوار عطاء نہیں فرمائی اور ابو دجانہ کو عطاء فرما دی ۔ اب میں دیکھتا ہوں کہ ابو دجانہ کیا کرتے ہیں چنانچہ میں ان کے پیچھے ہو لیا ۔ انہوں نے ایک سرخ رنگ کی پٹی نکالی اور اسے اپنے سر پر باندھ لیا ۔ انصاری صحابہ کہنے لگے ابودجانہ نے موت کی پٹی باندھ لی ہے ۔ حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ اکڑتے ہوئے میدان جنگ میں نکلے اور آپ یہ اشعار پڑھ رہے تھے۔ [ مفہوم ]
میں وہی ہوں جس سے میرے محبوب دوست نے عہد لیا ہے
اس حال میں جب پہاڑ کے دامن میں نخلستان کے قریب تھے
وہ عہد یہ ہے کہ کبھی پیچھے کی صف میں کھڑے نہ ہوں گا
اور اللہ اور اس کے رسول کی تلوار سے اللہ کے دشمنوں کو مارتا رہوں گا
حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ صفوں کو چیرتے ہوئے ہر سامنے آنے والے مشرک کو قتل کرتے چلے گئے ۔ آپ جنگ یمامہ میں پاؤں ٹوٹنے کے باوجود لڑتے رہے اور شہید ہوئے رضی اللہ عنہ۔
بطل اسلام حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ
آپ کا اسم گرامی زید بن سہل رضی اللہ عنہ ہے غزوہ احد کے دن آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور اپنے ترکش کو پھیلا لیا اور کہنے لگے میرا چہرہ آپ کے چہرے کا ڈھال اور میری جان آپ کی جان کے لیے قربان ہے ۔ حنین کے دن آپ نے بیس مشرک قتل فرمائے۔
٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لشکر میں ابوطلحہ کی آواز سو آدمیوں سے بہتر ہے اور ایک روایت میں ہے ۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لشکر میں ابو طلحہ کی آواز ہزار آدمیوں سے بہتر ہے ۔ ( سیر اعلام النبلاء)
سیف اللہ المسلول حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
آپ بہادروں کے سردار اور جنگوں کے امام ہیں جب سے آپ اسلام لائے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو گھوڑے کی لگام تھماکر جہاد میں نکالا اور آپ بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیتے رہے پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کو مرتدین کے ساتھ جہاد کی کمان سونپی جس کا آپ نے حق اداء کر دیا ۔ آپ نے روم و فارس کے ایوانوں کو اپنی قوت ایمانی ، شجاعت اور مردانگی سے ہلا کر رکھ دیا ان جنگو میں آپ کے کارنامے بہت عجیب اور حیرت انگیز ہیں آپ ساٹھ سال کی عمر میں اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے تو آپ کے جسم پر کوئی ایک بالشت برابر جگہ ایسی نہیں تھی جس پر شہداء کی مہر یعنی اللہ کے راستے کا زخم نہ ہو۔
قیس بن ابی حازم کہتے ہیں کہ ایک بار حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس زہر لایا گیا ۔ انہوں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ زہر ہے ۔ آپ نے بسم اللہ پڑھ کر اسے پی لیا اور آپ کو کچھ بھی نہیں ہوا ۔ اس سے پہلے آپ کے ساتھی کہا کرتے تھے کہ آپ احتیاط کیجئے کہیں کافر آپ کو زہر نہ دے دیں ۔ آپ کی شجاعت کے واقعات اور آپ کے فضائل بے شمار ہیں ۔
بطل اسلام حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ
آپ کی شجاعت اور دلیری اور جانبازی کے واقعات پیچھے گزر چکے ہیں کہ آپ نے کس طرح سے اکیلے ایک پورے لشکر کو شکست فاش دی آپ نے ایک سریئے میں سات مشرک قتل فرمائے ۔
بطل اسلام حضرت ہشام بن عاص رضی اللہ عنہ
آپ کی مکہ سے روانگی ، شہادت کی تمنا اور میدان جنگ میں شجاعت و ایثار کا واقعہ پہلے گزر چکا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا آپ کے لیے خراج تحسین بھی بیان ہو چکا ہے ۔
بطل اسلام حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ
آپ کی بہادری مشہور و معروف ہے ابن اسحاق نے آپ کے واقعات میں لکھا ہے کہ غابہ کی لڑائی میں انہوں نے ایک مشرک اوبار اور اسکے بیٹے عمر بن اوبار کو ایک ہی اونٹ پر دیکھا تو ان دونوں کو اکٹھا اپنے نیزے میں پروکر قتل کر دیا اور کچھ اونٹنیوں کو چھڑالیا۔
بطل اسلام حضرت خوات بن جبیر رضی اللہ عنہ
ان کی بہادری کے بھی عجیب و غریب واقعات مشہور ہیں واقدی رحمہ اللہ کی روایت ہے کہ حضرت خوات فرماتے ہیں کہ تین کام میں نے ایسے کئے جو کسی نے نہیں کئے ہوں گے میں ایک ایسی جگہ ہنسا جہاں کوئی نہیں ہنسا میں نے ایک ایسی جگہ بخل کیا ، جہاں کوئی بھی بخل نہیں کرتا اور میں ایک ایسی جگہ سویا جہاں کوئی بھی نہیں سو سکتا ، غزوہ احد میں میرے بھائی شہید ہو گئے میں کسی طرح ان تک پہنچ گیا دیکھا کہ ان کا پیٹ چاک کر دیا گیا ہے اور ان کی آنتیں باہر نکل پڑی ہیں میں نے ایک مسلمان سے مدد چاہی اور بھائی کی آنتیں پیٹ میں ڈال کر اسے اپنے عمامے سے باندھ دیا اور ہم دونوں مشرکین کے درمیان سے انہیں اٹھا کر لا رہے تھے اچانک شہید کے پیٹ سے ان کی آنتوں کی آواز آئی تو میرا ساتھی ڈر گیا اور اس نے شہید کو چھوڑ دیا اس پر مجھے ہنسی آگئی پھر ہم چل پڑے ایک جگہ پہنچ کر میں نے اپنی کمان کی ایک طرف سے زمین کھودنا شروع کی چونکہ کمان پر تانت تھی اور میں نے اس بات سے بخل کیا کہ وہ ٹوٹ جائے ۔ زمین کھود کر میں نے بھائی کو دفن کر دیا اور میدان کی طرف آیا تو ایک گھڑ سوار کو دیکھا جو اپنا نیزہ میری طرف سیدھا کر چکا تھا اور امجھے قتل کرنا چاہتا تھا اس وقت مجھے نیند آگئی جب میں بیدار ہوا تو وہ گھڑ وار وہاں نہیں تھا۔
بطل اسلام حضرت عمرو بن معدی کرب رضی اللہ عنہ
آپ مضبوط ، طاقتور ، تنومند گھڑ سوار تھے آپ کی آواز میں بلاکی کڑک تھی ۔ جب آپ جنگ صفین میں شریک ہوئے تو آپ کی عمر ایک سو پچاس سال تھی آپ کی بہادری کے واقعات بے حد مشہور ہیں ۔
علامہ طرطوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حضرت عمرو بن معدی کرب رضی اللہ عنہ نے قادسیہ کے دن اہل فارس کے سردار رستم پر حملہ کیا رستم ایک بڑے ہاتھی پر سوار تھا حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے ہاتھی کی کونچیں پکڑ کر کھینچیں تو رستم نیچے گر گیا اور اس کے اوپر ہاتھی اگرا ۔ اس دن رستم کے پاس ایک تھیلی تھی جس میں چالیس ہزار دینا ر تھے ۔ رستم کے قتل ہونے کے بعد ہونے کے بعد اہل فارس کو سخت ہزیمیت ہوئی۔
بطل اسلام حضرت عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ
آپ زمانہ جاہلیت میں جانبازوں کے سردار تھے پھر جب اسلام لائے تو آپ بہت اچھے مسلمان ثابت ہوئے اور آپ نے بڑے کارنامے سر انجام دیئے یرموک کے دن سخت جنگ کے بعد شہید ہوگئے اس دن آپ کے جسم پر ستر سے زائد زخم آئے تھے۔
ایک روایت میں ہے کہ یرموک کے دن حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے ہر میدان میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں جنگ لڑی اور آج میں تم سے بھاگ رہا ہوں پھر آپ نے اعلان فرمایا کہ کون ہے جو آج موت پر بیعت کرے یہ سن کر حضرت حارث بن ہشام ، حضرت ضرار بن ازور رضی اللہ عنہ نے چار سو مسلمان گھڑ سواروں سمیت بیعت کی اور یہ سب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے خیمے کے سامنے ڈٹ کر لڑٹے رہے یہاں تک کہ سارے زخمی ہو کر گر پڑے بعض ان میں سے بعد میں شفایاب ہوگئے ۔ جبکہ باقی وہی شہید ہوگئے ۔ ( ابن عساکر)
زہری کی روایت میں ہے کہ اس لڑائی میں حضرت عکرمہ آگے بڑھ بڑھ کر نیزوں میں کود رہے تھے اور ان کا سینہ اور چہرہ زخمی ہو چکا تھا کسی نے انہیں کہا اللہ سے ڈریئے اور اپنے ساتھ نرمی کا معاملہ کیجئے ۔ فرمانے لگے کل تک میں لات اور عزی بتوں کے لیے خود کو مشقت میں ڈالتا تھا اب تو میں اللہ اور اس کے رسول کے لیے لڑ رہا ہوں ۔ نہیں اللہ کی قسم نہیں ۔ اب میں اپنی جان لگا کر ہی چھوڑوں گا چنانچہ آگے بڑھتے ہوئے شہید ہوگئے۔
بطل اسلام حضرت طلیحہ بن خویلد رضی اللہ عنہ
آپ مرد شجاع اور عظیم جانباز تھے قادسیہ کی لڑائی میں آپ نے عظیم الشان کارنامے سر انجام دیئے اور نہاوند کی لڑائی میں آپ شہید ہوئے ۔
ابن سعد لکھتے ہیں کہ حضرت طلیحہ اپنی بہادری اور قوت کی وجہ سے ایک ہزار گھڑ سواروں کے برابر شمار کئے جاتے تھے ۔
طبرانی کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ میں آپ کی طرف دو ہزار آدمیوں کی مدد بھیج رہا ہوں یہ ہیں عمرو بن معدی کرب رضی اللہ عنہ اور طلیحہ بن خویلد رضی اللہ عنہ [ یعنی دونوں دو ہزار کے برابر ہیں ] آپ ان دونوں سے جنگ کے بارے میں مشورہ کریں البتہ انہیں امیر نہ بنائیں ۔ ( مجمع الزوائد)
امیر بنانے سے غالباً اس لیے منع فرمایا کہ یہ دونوں حضرات بہت زیادہ بہادر تھے اور لشکر کو زیادہ آگے لے جاکر لڑاتے تھے ۔
مشہور واقعہ ہے کہ ایک بار حضرت طلیحہ رضی اللہ عنہ جنگ قادسیہ کے دنوں میں رستم کے لشکر میں گھس گئے اور رات کو ان کی نگرانی کرتے رہے۔ رات کے آخری حصے میں آپ نے اس لشکر میں بندھے ہوئے سب سے قیمتی گھوڑے کی رسی کاٹی اور اسے اپنے گھوڑے کے ساتھ باندھ کر اپنے گھوڑے کو دوڑایا اس گھوڑے کے مالک اور دوسرے اہل لشکر کو جب علم ہوا تو وہ گھوڑوں پر آپ کے پیچھے نکلے اور ایک گھڑ سوار آپ تک پہنچ گیا ۔ حضرت طلیحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے نیزے کے ذریعے اس گھڑ سوار کی کمر توڑ دی اور اس کا گھوڑا بھی اپنے ساتھ لے لیا اس کے بعد ایک اور گھڑ سوار آپ تک پہنچا تو حضرت طلیحہ نے اسے بھی قتل کر دیا پھر جب تیسرا گھڑ سوار آپ کے قریب پہنچا تو آپ نے اسے گھیر کر خود سپردگی کی دعوت دی وہ گھڑ سوار ڈر گیا اور اس نے ہتھیار ڈال دیئے اور حضرت طلیحۃ رضی اللہ عنہ نے اسے گرفتار کرلیا مال غنیمت کے گھوڑے اور اس قیدی کو لیکر حضرت طلیحہ رضی اللہ عنہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے وہاں اس قیدی سے گفتگو کے لیے کہا گیا تو اس نے کہا میں نے بہت جنگیں لڑی ہیں اور بڑے بڑے بہادر دیکھے ہیں اور ان سے پنجہ آزمایا ہے لیکن میں نے ان [ حضرت طلیحہ ] جیسا بہادر نہ دیکھا ہے اور نہ سنا ہے انہوں نے دو لشکر عبور کئے اور ایک ایسے لشکر میں رات گزاری جس میں ستر ہزار مسلح [ ان کے ] دشمن موجود تھے ۔ پھر وہاں سے خالی ہاتھ آنا گوارہ نہیں کیا بلکہ لشکر کے بہترین شہسوار کا گھوڑا بھی چھین لیا پھر ہم نے ان کا پیچھا کیا اور ہم میں سے وہ شہسوار ان تک پہنچا جو ہمارے درمیان ہزار گھڑ سواروں کے برابر سمجھا جاتا تھا ۔ انہوں نے اسے قتل کر دیا پھر پہلے بہادر جیسا ایک اور شہسوار ان تک پہنچا مگر وہ بھی مارا گیا پھر میں ان تک پہنچا اور میرے خیال میں ہمارے لشکر میں مجھ جیسا کوئی بہادر نہیں ہے لیکن جب میں نے موت کو دیکھا تو گرفتاری دینے پر راضی ہو گیا پھر یہ قیدی مسلمان ہوگیا اور اس نے مسلمانوں کے لیے اہم کارنامے سرانجام دیئے۔
بطل اسلام حضرت عبداللہ بن زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ
آپ خود بھی بے مثال بہادر تھے اور بے مثال بہادر باپ کے صاحبزادے تھے آپ جانبازوں کے بھی سردار تھے اور عابدوں کے بھی ۔ آپ اس بات کو عیب سمجھتے تھے کہ تلوار کا وار خطا ہو یا ٹیڑھا پڑے ۔ آپ نے افریقہ کی لڑائی میں کافروں کے سردار جرجیر کو قتل فرمایا ۔
عثمان ابن ابی طلحہ فرماتے ہیں کہ تین چیزوں میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ ( 1 ) شجاعت میں ( 2 ) عبادت میں ( 3 ) بلاغت میں ۔
عمرو بن دینار فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زبیر نماز پڑھ رہے ہوتے تھے اور منجنیق کے پتھر آپ کے کپڑوں کے کناروں پر لگ رہے ہوتے تھے مگر آپ کی توجہ نماز ہی میں رہتی تھی ۔
بطل اسلام حضرت عبداللہ بن زبیر بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ
یہ اس نام کے ایک دوسرے جانباز اور شجاع صحابی ہیں جو ان لوگوں میں سے ہیں جو حنین کے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ڈٹے رہے ۔ آپ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں میں جنگ اجنادین میں شہید ہوئے ۔ ابوالحویرث فرماتے ہیں کہ اجنادین کے دن کافروں میں سے ایک شخص نے نکل کر مقابلے کی دعوت دی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر مقابلہ کیا اور اسے مار گرایا پھر ایک اور کافر نکلا اس نے بھی مقابلے کی دعوت دی حضرت عبداللہ بن زبیر مقابلے کے نکلے دونوں نے نیزوں سے مقابلہ کیا پھر تلواریں لے لیں ، حضرت عبداللہ بن زبیر نے اس کے کندھے پر وار کیا اور فرمایا میں عبدالمطلب کا پوتا ہوں آپ کی تلوار اس اس کی زرہ کو کاٹتی ہوئی اس کے کندھے کو لگی اور وہ زخمی ہو کر واپس دوڑا حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو قسم دی کہ اب وہ مقابلے کے لیے نہ نکلیں تو انہوں نے کہا کہ میں رک نہیں سکتا جب جنگ شروع ہوئی تو حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے گرد دس رومی پڑے تھے جن سب کو آپ نے قتل کیا تھا ۔ اور آپ اپنی تلوار ہاتھ میں لئے ان کے درمیان شہید پڑے تھے ، آپ کو تیس زخم لگے تھے اور اس وقت آپ کی عمر بھی تیس سال تھی ۔
بطل اسلام حضرت عبداللہ بن حنظلہ انصاری رضی اللہ عنہ
آپ غسیل الملائکہ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے تھے اور مسلمانوں میں اپنی شجاعت اور عبادت سے پہچانے جاتے تھے آپ نے یزید کے حالات سے ناخوش ہو کر حضرت عبداللہ بن زبیر سے موت پر بیعت کر لی تھی اور حرہ کی لڑائی میں آپ اپنے آٹھ بیٹوں سمیت شہید ہوئے ۔ علامہ ابن اثیر نے لکھا ہے کہ عبداللہ بن ابی سفیان فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن حنظلہ کو خواب میں بہت اچھی حالت میں دیکھا تو میں نے پوچھا آپ تو شہید ہوگئے تھے فرمانے لگے ہاں میں اپنے رب کے پاس ہوں اس نے مجھے جنت میں داخل کر دیا ہے میں جہاں سے چاہتا ہوں جنت کے پھل کھاتا ہوں اور میرے ساتھی بھی میرے جھنڈے کے گرد میرے ساتھ ہیں ۔ ( اسد الغابہ )
بطل اسلام حضرت ضحاک بن سفیان بن عوف غامری رضی اللہ عنہ
ابن اثیر کی روایت ہے کہ حضرت ضحاک اپنی تلوار سونت کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کے پاس کھڑے رہتے تھے اور آپ بہادری میں ممتاز مقام رکھتے تھے اور آپ کا شمار سو گھڑ سواروں کے برابر کیا جاتا تھا ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے لیے روانہ ہوئے تو آپ نے حضرت ضحاک کو بنو سلیم کا امیر بنایا ان کی تعداد نو سو تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمھیں ایسا شخص نہ دوں جو ایک سو کے برابر ہے تاکہ تم ایک ہزار ہو جاؤ پھر آپ نے حضرت ضحاک کو ان پر مقرر فرما دیا ۔
بطل اسلام حضرت ضرار بن ازور رضی اللہ عنہ
آپ مشہور و معروف شہسوار اور ممتاز جانباز تھے یمامہ کی لڑائی میں مسیلمہ کذاب کے خلاف آپ نے عجیب جانبازی کا مظاہرہ کیا اور پاؤں زخمی ہونے کے بعد گھٹنوں کے بل لڑتے رہے ۔ ایک قول یہ ہے کہ آپ جنگ یمامہ میں شہید ہوگئے جبکہ دوسرا قول یہ ہے کہ آپ جنگ یرموک میں بھی شریک تھے اور آپ دمشق کی فتح میں بھی پیش پیش تھے ۔ فتوح الشام میں علامہ واقدی نے ان کی بہادری کے عجیب و غریب اور حیرت انگیز حالات لکھے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔
بطل اسلام حضرت ضرار بن خطاب رضی اللہ عنہ
آپ قریش کے شہسواروں اور مشہور جانبازوں میں سے تھے تاریخ دمشق میں مذکور ہے کہ آپ اس لڑائی میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔
ابن اثیر کی روایت ہے کہ ایک بار انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا ہم قریشی لوگ تم میں اچھے رہے ہم تمھیں جنت میں پہنچاتے رہے اور تم لوگ ان کو دوزخ میں ڈالتے رہے ۔ مقصد ان کا یہ تھا کہ ہم نے جاہلیت میں مسلمانوں کو قتل کیا وہ جنت میں چلے گئے جبکہ آپ لوگوں نے مشرکوں کوقتل کیا ۔ ایک بار آپ نے قبیلہ اوس اور خزرج کے لوگوں کو فرمایا غزوہ احد کے دن میں نے تمھارے گیارہ آدمیوں کو حور عین سے شادی کرائی تھی ۔ ( اسد الغابہ )
بطل اسلام حضرت جلیبیب رضی اللہ عنہ
آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جانبازوں میں سے تھے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک جہاد میں تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح عطا فرمائی آپ نے اپنے صحابہ کرام سے پوچھا کیا تم کسی کو مفقود پاتے ہو[یعنی کسی کو شہید پاتے ہو] انہوں نے عرض کیا جی ہاں فلاں فلاں اور فلاں کو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوپوچھا کیا تم کسی کو مفقود پاتے ہو ۔ انہوں نے عرض کیا جی ہاں فلاں فلاں اور فلاں کو ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم کسی کو مفقود پاتے ہو ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میں جلیبیب کو نہیں پا رہا ۔ انہیں تلاش کرو ۔ جب انہیں مقتولین میں تلاش کیاگیا تو آپ ان ساتھ کافروں کے پہلو میں پڑے تھے جنہیں آپ نے قتل فرمایا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور ان پر کھڑے ہوئے اور فرمایا جلیبیب نے سات کافر مارے۔ پھر کافروں نے انہیں شہید کر دیا یہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں ۔ پھر آپ نے انہیں اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیا اور زمین کھود کر ان کے لیے قبر بنائی اور خود انہیں قبر میں رکھا ۔ رضی اللہ عنہ ۔
بطل اسلام حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ​
آپ بہادر ، سرفروش ، جانباز اور بہت عقلمند تھے آپ نے مغرب کی طرف کئی حملے فرمائے آپ نے افریقہ پر بھی حملہ کیا اور اس لڑائی میں اہل افریقہ کا سردار جرجیر مارا گیا ۔ آپ نے ذات الصوریٰ میں ایک ہزار کشتیوں پر مشتمل رومی بیڑے کو بری طرح سے تہ تیغ کر ڈالا آپ فاتح افریقہ تھے آپ کی دعاء تھی کہ آپ کا آخری عمل نماز ہو چنانچہ آخری دن آپ نے فجر کی نماز پڑھی دائیں طرف سلام پھیر لیا اور بائیں طرف سلام پھیرتے ہوئے انتقال فرما گئے آپ کا انتقال رملہ میں ہوا ۔
بطل اسلام حضرت قعقاع بن عمرو تیمی رضی اللہ عنہ
قادسیہ اور دوسری لڑائیوں میں آپ نے اہل فارس کے خلاف بے مثال کارنامے سرانجام دیئے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ قعقاع رضی اللہ عنہ کی آواز لشکر میں ایک ہزار آدمیوں سےبہتر ہے قادسیہ کی لڑائی میں اغواث کے دن آپ نے تیس حملے فرمائے اور ہر حملے میں ایک کافر کو قتل کیا ۔
بطل اسلام حکیم بن جبلہ رضی اللہ عنہ
یہ بھی بہت بہادر صحابی ہیں اور آپ کی بہادری اور دینداری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں معروف تھی جنگ جمل کے دن شہید ہوئے اور اس دن بھی نہایت بہادری سے لڑے۔
 
بطل اسلام حضرت سوید بن غفلہ الجعفی رحمہ اللہ
آپ عام الفیل [ ہاتھیوں کے حملے والے سال ] میں پیدا ہوئے مگر آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہیں کی ۔ قادسیہ کی لڑائی میں آپ شریک تھے ۔ اسی لڑائی میں لوگوں نے ایک بار پکارا کہ شیر آگیا شیر آگیا ۔ حضرت سوید بن غفلہ رحمہ اللہ اس شیر کی طرف بڑھے اور اس کی سر پر ایسی تلوار ماری جو اس کی ریڑھ کی ہڈی سے گزرتی ہوئی دم کے پاس جاکر نکلی آپ نے ایک سو بیس سال کی عمر میں ایک کنواری لڑکی سے شادی کی آپ نے ایک سو اٹھائیس سال یا ایک سو ستائیس سال کی عمر میں وصال فرمایا ۔
بطل اسلام حضرت ابو محمد بطال رحمہ اللہ
ان کے واقعات پیچھے گزر چکے ہیں۔
بطل اسلام حضرت ابو فادیہ رحمہ اللہ
آپ بہترین تیر انداز تھے ان کا یہ واقعہ مشہور ہے کہ ایک بار بحری لڑائی میں رومیوں نے مسلمانوں پر آتش گیر مادہ پھینکنا شروع کیا ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ اگر دشمن ایسا کرے تو تم بھی یہی کچھ کر سکتے ہو ۔ ایک رومی نے اپنی کشتی سے پیتل کی ہانڈی میں آتشگیر مادہ بھر کر اسے حضرت ابوالفادیہ کی کشتی پر پھینکنے کی تیاری کی تو حضرت ابو الفادیہ نے اسے تیر مار کر قتل کر دیا اور وہ ہانڈی اسی کشتی میں گرگئی اور پوری کشتی اور اس کے تین سو سوار جل مرے چنانچہ لوگ کہتے تھے کہ ابو فادیہ کے ایک تیر نے تین سو کافر مار دیئے۔
بطل اسلام حضرت ابن جزری
ہارون الرشید رحمہ اللہ ایک بار رومیوں کے مقابلے کے لیے نکلے اور آپ نے ایک قلعے کا محاصرہ کر لیا مگر طویل محاصرے کے باوجود قلعہ فتح نہیں ہو رہا تھا ایک دن سخت لڑائی کے بعد امیر المؤمنین ہارون الرشید دوپہر کو قیلولے کے لیے لیٹ گئے ۔ اسی وقت رومیوں کے قلعے کا دروازہ کھلا اور اس میں سے ایک طاقتور شہسوار مکمل اسلحہ پہن کر اعلٰی نسل کے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلا اور اس نے نہایت فصاحت کے ساتھ اعلان کیا کہ اے اہل عرب میرے مقابلے بیس شہسواروں کو نکالو۔ چونکہ ہارون الرشید رحمہ اللہ سو رہے تھے اس لیے کوئی مسلمان اس کے مقابلے کے لیے نہ نکلا ۔ وہ رومی فخر کے ساتھ اکڑتا پھر رہاتھا اور مسلمان سخت غم اور پریشانی کے عالم میں تھے کیونکہ بغیر امیر کی اجازت کے وہ کوئی کام نہیں کر سکتے تھے ۔ تھوڑی دیر تک چیلنج کرنے کے بعد وہ رومی ہنستا ہوا واپس چلا گیا اور اس کے ساتھی بھی قہقہے لگانے لگے۔ جس سے مسلمانوں کا صدمہ اور بڑھ گیا ۔ جب ہارون الرشید بیدار ہوئے اور انہیں یہ واقعہ معلوم ہوا تو وہ بھی بہت غمگین ہوئے اور کہنے لگے تم لوگوں نے مجھے بیدار کیوں نہیں کیا اور تم میں سے کوئی اس کے مقابلے میں کیوں نہیں نکلا ؟ حاضرین مجلس میں سے بعض نے کہا کہ اس شخص کا غرور اسے ضرور دوبارہ لائے گا مگر ہارون الرشید پوری رات نہ سو سکے صبح کے وقت وہ رومی پھر نکلا اور اس نے اپنے گذشتہ چیلنج کو دھرایا ہارون الرشید رحمہ اللہ نے حکم دیا کہ اس کے مقابلے کے لیے بیس شہسوار نکل پڑیں ۔ یہ سن کر ابن خلد نے فرمایا امیر المؤمنین ایسا نہ کیجئے بلکہ ہم میں سے بھی صرف ایک آدمی کو نکلنا چاہئے اگر وہ کامیاب ہوگیا تو الحمد للہ اور اگر مارا گیا تو شہید ہوگا لیکن رومی تو یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ ہمارے ایک آدمی کے مقابلے میں بیس مسلمان نکلے تھے ہارون الرشید رحمہ اللہ نے کہا تم نے درست کہا ہے ۔ مسلمانوں کے لشکر میں ابن جزری نام کے مشہور و معروف بہادر شخص موجود تھے انہوں نے کہا امیر المؤمنین میں اس کے مقابلے میں جاتا ہوں اور اللہ تعالٰی سے اس کے مقابلے کی مدد مانگتا ہوں ۔ ہارون الرشید نے انہیں اچھا گھوڑا اور اسلحہ دینے کا حکم دیا تو انہوں نے کہا مجھے کچھ نہیں چاہئے ۔ ہارون الرشید رحمہ اللہ نے دعائیں دے کر انہیں رخصت کیا اور ان کو آگے تک چھوڑنے کے لیے بیس گھڑ سوار ساتھ بھیجے ۔ جب یہ لوگ میدان مقابلہ تک پہنچے تو رومی نے کہا مسلمانوں تم نے دھوکہ دیا ہے میں نے بیس آدمی کہے تھے جبکہ تم اکیس ہو ۔ مسلمانوں نے کہا ہم میں سے صرف ایک ہی تمھارا مقابلہ کرے گا ہم تو اس ایک کو رخصت کرنے آئے ہیں ۔ رومی نے ابن جزری سے کہا میں تمہیں خدا کا واسطہ دیکر پوچھتا ہوں کیا تم ابن جزری ہو ؟ ۔ انہوں نے کہا ہاں ۔ رومی نے کہا پھر تو تم برابر کے معزز آدمی ہو پس مسلمان لوٹ آئے اور رومی اور ابن جزری کا مقابلہ سخت سے سخت تر ہوتا گیا دونوں لشکر اپنے جانباز کو دیکھ رہے تھے اچانک ابن جزری پسپا ہو کر پیچھے ہٹنے لگے یہ دیکھ کر رومیوں نے خوشی سے شور مچا دیا اور مسلمان سخت غمزدہ ہوگئے ۔ ابن جزری پیچھے ہٹ رہے تھے اور رومی ان کا پیچھا کر رہاتھا اچانک ابن جزری رومی کی طرف مڑے اور اسے اس کی زین سے اچک کر اٹھا لیا اور اس کا سر کاٹ کر اس کے دھڑ کو زمین پر پھینک دیا ۔ اس پر مسلمانوں نے تکبیر کا ایسا نعرہ لگایا کہ پہاڑ گونج اٹھے اس کے بعد مسلمانوں نے قلعے پر زور دار حملہ کیا اور پورا قلعہ فتح کیا اور رومیوں کو خوب قتل اور قید کیا۔
بطل اسلام موسیٰ بن نصیر رحمہ اللہ
آپ لنگڑے تھے مگر بہت رعب والے صاحب الرائے جانباز بہادر تھے ایک بار سیلمان بن عبدالملک نے ان سے پوچھا کہ لڑائی کے وقت آپ کس چیز کی پناہ لیتے ہیں ۔ انہوں نے فرمایا دعاء اور صبر کی ۔ پھر پوچھا کہ کونسا گھوڑا آپ نے ڈٹ کر لڑنے والا پایا ۔ انہوں نے کہا اشقر [ یعنی بھورے رنگ والا گھوڑا ] پھر پوچھا کہ آپ نے کس قوم کو زیادہ سخت لڑنے والا دیکھا انہوں نے کہا ہر قوم کا اپنا انداز ہے ، میں کس کس کا تذکرہ کروں ۔ سلیمان رحمہ اللہ نے کہا مجھے رومیوں کے بارے میں بتاؤ ، فرمایا وہ اپنے قلعوں میں شیر ہوتے ہیں اور اپنے گھوڑوں پر عقاب ہوتے ہیں اور اپنی کشتیوں میں عورتیں بن جاتے ہیں ۔ جب بھی موقع پاتے ہیں اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور جب مدمقابل کو غالب ہوتا دیکھتے ہیں تو پہاڑوں میں جا چھپتے ہیں اور پسپائی کو عار نہیں سمجھتے ۔ پوچھا بربر کیسے ہیں ؟ موسیٰ نے فرمایا وہ لڑنے میں ، بہادر ی میں ، ثابت قدمی اور گھڑ سواری میں عربوں کے مشابہ ہیں لیکن وہ لوگوں میں سب سے زیادہ دھوکے باز [ یعنی عہد توڑنے والے ] ہیں ۔ سلیمان رحمہ اللہ نے پوچھا اندلس والے کیسے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا وہ ناز و نعمت میں پلے ہوئے شہزادے اور بزدلی نہ کرنے والے شہسوار ہیں ۔ سلیمان رحمہ اللہ نے پوچھا فرنگی کیسے ہیں فرمایا ان کے پاس تعداد ، بہادری ، سختی اور جنگ سب کچھ ہے ۔ سلیمان رحمہ اللہ نے پوچھا کہ آپ کی جنگ کیسی رہی ؟ فرمایا اللہ کی قسم میں نے کبھی اپنا جھنڈا پیچھے ہٹتے نہیں دیکھا ۔ میں چالیس سال کی عمر میں جنگوں میں کودا تھا اب اسی سال کا ہوگیا ہوں مگر میں نے کبھی مسلمانوں کو شکست کھاتے نہیں دیکھا پھر موسیٰ بن نصیر رحمہ اللہ نے فرمایا اے امیر المؤمنین میں نے وہ دن دیکھے ہیں جب [ مال غنیمت کی کثرت کی وجہ سے ] ایک ہزار بکریاں ایک سو درہم کی اور ایک اونٹنی دس درہم کی بکی تھی اور لوگ گائے کے پاس سے گزر جاتے تھے او ر اسے دیکھتے تک نہ تھے اور میں نے شاطر انگریز کو اس کی بیوی بچوں سمیت پچاس درہم میں فروخت ہوتے دیکھا ہے ۔
بطل اسلام حضرت مہلب بن ابی صفرہ رحمہ اللہ
ان کی بہادری کے عجیب و غریب واقعات مشہور ہیں ان کے بعض واقعات پیچھے گزر چکے ہیں ۔
بطل اسلام حضرت ابن فتحون رحمہ اللہ
آپ کی بہادری اور شجاعت کا اعتراف دشمن تک کرتے تھے یہاں تک مشہور ہے کہ اگر کوئی رومی سپاہی اپنے گھوڑے کو پانی پلاتا اور گھوڑا پانی نہ پیتا تو وہ کہتا تھا کیا تو نے ابن فتحون کو پانی میں دیکھ لیا ہے ؟ خلیفہ مستعین باللہ نے ان کی بہادری کے اعتراف میں ان کے لیے بہت بڑا وظیفہ مقرر کر رکھا تھا اور اپنے ہاں بلند مقام دے رکھا تھا مگر حاسدوں نے ابن فتحون کو کسی طرح خلیفہ کی نظروں سے گرا دیا ایک بار خلیفہ مستعین باللہ رومیوں سے جہاد کے لیے نکلا تو لڑائی سے پہلے ایک رومی میدان میں آیا اور اس نے مسلمانوں کو مقابلے کی دعوت دی ایک مسلمان آگے بڑھا تو رومی نے اسے شہید کر ڈالا یہ دیکھ کر رومی خوشی سے چیخنے چلانے لگے جبکہ مسلمانوں کو سخت صدمہ پہنچا ۔ پھر اس رومی نے مقابلے کی دعوت دی ایک اور مسلمان نکلا مگر وہ بھی شہید ہوگیا اور اسی طرح یکے بعد دیگرے تین مسلمان شہید ہو گئے اب وہ رومی میدان میں اکڑتا پھر رہا تھا اور کہہ رہا تھا میرے مقابلے میں ایک ، دو ، تین تک مسلمان آسکتے ہیں مگر اسلامی لشکر پر خاموشی چھائی ہوئی تھی اور مسلمان سخت پریشانی میں مبتلا تھے خلیفہ نے کہا کہ سوائے ابن فتحون کے اور کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ابن فتحون کو بلایا گیا ۔ خلیفہ نے کہا تم نے نہیں دیکھا کہ مسلمانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ۔ ابن فتحون نے کہا یہ سب میری آنکھوں کے سامنے ہے خلیفہ نے کہا اب اس کا علاج کیا ہے ؟ ابن فتحون نے کہا آپ کیا چاہتے ہیں خلیفہ نے کہا اس شخص کے شر سے مسلمانوں کی حفاظت چاہتا ہوں ۔ ابن فتحون نے کہا انشاء اللہ تھوڑی دیر میں آپ کی یہ خواہش پوری ہو جائے گی ۔ پھر انہوں نے اون کا ایک کھلی آستینوں والا کرتہ پہنا اور بغیر اسلحہ لئے صرف ایک لمبی رسی والا کوڑا لے کر میدان میں نکلے اور کوڑے کی رسی کو گول حلقے کی شکل میں گرہ دیکر ایک پھندا سا بنا لیا رومی آپ کو بغیر اسلحے دیکھ کر حیران رہ گئے جب دونوں کا مقابلہ ہوا اور رومی نے اپنا نیزہ ابن فتحون کو مارا تو وہ اچھل کر اپنے گھوڑے کی گردن سے لٹک کر اتر گئے ۔ اور رومی کا نیزہ ان کی خالی زین پر لگا پھر ابن فتحون نے سنبھل کر اپنا کوڑا رومی کی گردن پر مار کر اس کی گردن کو پھندے میں لے لیا اور اسے اس کی زین سے اچک کر اٹھا لیا اور خلیفہ مستعین کے قدموں میں لا کر ڈال دیا تب مستعین کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس نے ابن فتحون کے لیے اس کا مقام اور انعام بحال کر دیا ۔
بطل اسلام معتصم باللہ رحمہ اللہ
خلیفہ معتصم باللہ بہت طاقتور اور بہادر جوان تھا اور اپنے پاؤں کے ساتھ ایک ہزار رطل پیتل باندھ کر چل لیتا تھا وہ درہم اور دینار کو اپنی انگلیوں کے درمیان لیکر دباتا تھا تو ان کے اوپر کندی ہوتی تحریر مٹ جاتی تھی ۔ [ اس کا جسم اتنا سخت تھا کہ کوئی دانتوں سے اسے نہیں کاٹ سکتا تھا ] وہ زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا اور اچھی طرح لکھ بھی نہیں سکتا تھا ایک بار رومیوں کے حکمران نے اسے ایک سخت خط لکھا اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ میں ایسی فوج تمھاری خلاف لاؤں گا جس کا اگلا حصہ تمھارے پاس اور پچھلا حصہ قسطنطنیہ میں ہوگا ۔ معتصم نے حکم دیا کہ اسے جواب لکھو ، کئی لوگوں نے جواب لکھے مگر کوئی جواب بھی معتصم کو پسند نہ آیا اس نے کہا خلیفہ بھی ان پڑھ ہے اور اس کے کاتب بھی ان پڑھ ہیں ۔ رومی کو لکھ دو کہ تم اپنے خط کا جواب پڑھو گے نہیں اپنی آنکھوں سے دیکھو گے اور کافر جان لیں گے کہ آخرت کا گھر کس کے لیے ہے پھر اس نے لشکروں کو کوچ کا حکم دیا اور شاندار کارنامے سر انجام دیئے ۔
بطل اسلام امیر المؤمنین ہادی رحمہ اللہ
آپ بہت بہادر خلیفہ تھے ایک بار بغیر اسلحہ کے باغ میں اپنے دوستوں کے ساتھ تفریح کے لیے نکلے تو پہرے داروں نے بتایا کہ فلاں خارجی کو گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ ہادی رحمہ اللہ نے اسے پیش کرنے کا حکم دیا اسے دو مسلح پہرے دار لیکر آئے جب وہ ہادی کے قریب پہنچا تو اس نے حملہ کرکے ایک پہرے دار کی تلوار چھین کر دوسرے کو قتل کر دیا اور ہادی کی طرف بڑھا یہ دیکھ کر اس کے دوست بھاگ گئے اور ہادی کے پاس نہ تو بھاگنے کے لیے گھوڑا تھا نہ لڑنے کے لیے اسلحہ اور نہ چھپنے کی جگہ ۔ جب خارجی بالکل اس کے پاس پہنچ کر وار کرنے لگا تو ہادی رحمہ اللہ نے کہا اس کی گردن اڑا دو ۔ خارجی نے سمجھا کہ پیچھے کوئی ہے چنانچہ وہ جلدی سے پیچھے کی طرف متوجہ ہوا تو ہادی رحمہ اللہ نے چھلانگ لگا کر اسے دبا لیا اور اس کی تلوار چھین کر اسے قتل کر دیا ۔ اس کے دن کے بعد اس نے کبھی بیت الخلاء میں بھی اسلحہ اپنے جسم سے نہیں ہٹایا ۔
بطل اسلام خلیفہ امین الرشید
ایک بار وہ اپنے محل میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شیر زنجیر توڑ کر اندر داخل ہو گیا ۔ امین کے پاس اسلحہ نہیں تھا جب شیر نے اس پر حملہ کیا تو اس نے اپنا تکیہ شیر کے منہ میں رکھ دیا اور گھوم کر اس کی دم پکڑ کر کھینچی اور شیر کی کمر توڑ دی اس لڑائی میں امین کی انگلیاں اپنی جگہ سے ہت گئیں جو طبیبوں نے ٹھیک کر دیں۔
بطل اسلام احمد بن اسحاق بخاری السرماری رحمہ اللہ
آپ مشہور عابد ، مشہور زاہد ، مشہور محدث ، اور بے مثال بہادر تھے آ پ امام بخاری رحمہ اللہ کے استاذ ہیں۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ ہم نے ان جیسا نہ جاہلیت میں کوئی دیکھا ہے اور نہ اسلام میں۔
ایک بار آپ جیغویہ کے ہاں ثمرقند میں مہمان تھے کہ وہاں ایک شخص آیا جس کا جیغویہ نے بہت اکرام کیا امام سرماری رحمہ اللہ نے پوچھ یہ کون ہے انہوں نے کہا یہ بہادر شہسوار ہے جو ایک ہزار شہسواروں کے برابر سمجھا جاتا ہے ۔ امام سرماری رحمہ اللہ نے فرمایا میں اس کا مقابلہ کروں گا جب جیغویہ کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے کہا شاید یہ آدمی نشے میں ایسی بات کہہ رہا ہے ۔ اس نے کہا : ٹھیک ہے کل دیکھیں گے ! گلے دن اس شخص اور امام سرماری رحمہ اللہ کا مقابلہ ہوا آپ نے اپنے ہاتھ میں خیمے کی چوب لے رکھی تھی اور آپ اکثر اسی سے لڑتے تھے مقابلہ شروع ہوتے ہی امام سرماری نے پسپا ہونا شروع کر دیا اور وہ بہادر آپ کا پیچھا کرتا رہا جب آپ لشکر سے دور ہوگئے تو آپ نے اسے خیمے کی چوب سے ہلاک کر دیا اور خود مسلمانوں کے علاقے کی طرف فرار ہو گئے ۔ جیغویہ نے آپ کو پکڑنے کے لیے پچاس شہسوار بھیج دیئے ۔ جب یہ شہسوار امام سرماری رحمہ اللہ کے قریب پہنچے تو وہ ایک ٹیلے کے نیچے چھپ گئے جب یہ پچاس گھڑ سوار آگے نکل گئے تو آپ نے ان کے پیچھے سے حملہ کر دیا اور خیمے کی چوب سے ایک ایک کو گراتے گئے اور ان میں سے جو سب سے آگے تھے اسے احساس تک نہ ہوا جب آپ نے انچاس کو قتل کر دیا تو اس ایک کو پکڑ کر اس کے ناک کان کاٹ کر اسے جیغویہ کے پاس واپس بھیج دیا تاکہ وہ اسے اپنے بہادر شہسواروں کا حال سنا سکے ۔ ( تذہیب التہذیب )
عبید اللہ بن واصل کہتے ہیں کہ ایک بار امام سر ماری رحمہ اللہ نے اپنی تلوار نکال کر فرمایا کہ مجھے یقین ہے کہ میں اس سے اب تک ایک ہزار کافروں کو قتل کر چکا ہوں اگر میں زندہ رہا تو ایک ہزار اور بھی قتل کروں گا اور اگر مجھے بدعت کا خطرہ نہ ہوتا تو میں اس تلوار کو اپنے ساتھ دفن کرنے کی وصیت کرتا ۔
محمد مطوعی کہتے ہیں کہ سرماری رحمہ اللہ کی چوب ہم میں سے اٹھارہ آدمی کے برابر تھی جب وہ بوڑھے ہو گئے تو وہ بارہ آدمیوں کے برابر تھی اور وہ چوب سے لڑا کرتے تھے۔
محمود بن سہل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک لڑائی کے دوران امام سرماری رحمہ اللہ نے دیکھا کہ دشمنوں کا سردار ایک چبوترے پر بیٹھا ہے تو انہوں نے اسے ایک تیر مارا سردار نے ہاتھ سے تیر نکالنے کا اشارہ کیا تو انہوں نے دوسرا تیر اس کے ہاتھ میں مارا اس کافر نے ہاتھ کا تیر نکالنے کی کوشش کی تو آپ نے اس کی گردن میں تیر مار کر اسے ہلاک کر دیا اور پورا لشکر اس کی موت کے بعد بھاگ گیا اور مسلمانوں کو فتح ہوئی۔
241ھ میں سرماری نامی بستی میں آپ نے انتقال فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔۔
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم اس باب کو سات بہادروں کے ایک عجیب و غریب واقعے پر ختم کرتے ہیں ۔
 
سات خوش قسمت ترین بہادر مسلمانوں کا واقعہ جو پہلے ڈاکو تھے ۔
حسن بصری کے زمانے میں اہل بغداد سات چوروں کی وجہ سے سخت تکلیف میں تھے ۔ خلیفہ وقت نے ان ڈاکوؤں کو پکڑنے کی بہت کوشش کی مگر وہ ان پر قابو نہ پا سکا۔ اسی زمانے میں ایک دن حضرت حسن بصری رحمہ اللہ اندھیرے میں مسجد تشریف لے جا رہے تھے کہ راستے میں آپ نے سات آدمیوں کو دیکھا ان میں سے چھ نے تو تلواریں ہاتھوں میں لے رکھی تھیں اور وہ دیوار کے ساتھ کھڑے تھے ۔ جبکہ ساتوان آدمی راستے کے درمیان میں اپنے پاؤں کو پکڑے بیٹھا تھا ۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا تم لوگ اسلحہ لے کر کہاں جا رہے ہو ۔ زمین پر بیٹھے ہوئے شخص نے کہا اے ابو سعید میں فلاں چور ہوں اور یہ میرے ساتھی ہیں ۔ خلیفہ وقت اور بصرہ کے لوگوں کو ہمیں پکڑنے کی کوشش کرتے ہوئے آج پورے دس سال ہو چکے ہیں مگر وہ ہم پر ہاتھ نہیں ڈال سکے ۔ ہم ایک دکان پر نقب زنی کے لیے نکلے تھے جب ہم یہاں پہنچے تو میرا پاؤں ایک جلتے ہوئے انگارے پر آگیا جس سے میرا پاؤں جل گیا لیکن میں نے اپنے پاؤں سے زیادہ اپنے دل میں جلن محسوس کی اور میں نے سوچا کہ میں یہاں پر دنیا کی حقیر سی آگ کو برداشت نہیں کر سکتا تو میں آخرت کی آگ کیسے برداشت کروں گا ۔ اے ابو سعید میں آپ کو گواہ بنا کر اعلان کر تا ہوں کہ میں نے آج سے سچے دل سے توبہ کر لی ہے اور میں آئندہ وہ کام نہیں کروں گا جو میں اب تک کر رہا تھا ۔ یہ کہہ کر وہ اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا میں ابھی تھوڑی دیر پہلے تک چوری چکاری کی برائی میں تمھارے ساتھ شریک تھا مگر اب میں توبہ کر چکا ہوں ۔ تمھاری مرضی جہاں چاہو چلے جاؤ اس کے ساتھیوں نے جواب دیا کہ تو اب تک اللہ تعالٰی کی نافرمانی والے کاموں میں ہمارا سردار تھا ۔ اب اللہ تعالٰی کی فرمانبرداری کے معاملے میں بھی تو ہمارا سردار بن جا ۔ ہم بھی سچے دل سے توبہ کر رہے ہیں کہ آئندہ ان برائیوں میں نہیں پڑیں گے جن میں اب تک مبتلا تھے ۔ ان کے سردار نے کہا اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو پھر مجھے بصرہ کی جامع مسجد لے چلو تاکہ ہم امیر بصرہ کے ساتھ فجر کی نماز اداء کریں ۔ نماز کے بعد میں کھڑا ہو جاؤں گا اور کہوں گا کہ اے میرے امیر شہر ! میں فلاں چور ہوں اور یہ میرے ساتھی ہیں آپ لوگ دس سال سے ہماری تلاش میں تھے مگر آپ کو کامیابی نہیں ملی اب ہم نے توبہ کرلی ہے اور اللہ تعالٰی کی رضا کے لیے برائیوں کو چھوڑ دیا ہے اب ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہیں آپ کی مرضی ہمارے ہاتھ کاٹیں ، ہمیں کوڑے لگائیں ، سولی پر چڑھائیں ، قید رکھیں یا اللہ کے لیے معاف کر دیں ۔ اس کے ساتھی یہ سن کر راضی ہو گئے اور سارے مسجد کی طرف روانہ ہوئے ۔ نماز کے بعد ان کے سردار نے کھڑے ہو کر وہی اعلان کیا جس کا اس نے اپنے ساتھیوں سے تذکرہ کیا تھا امیر شہر یہ اعلان سن کر رو پڑے اور فرمانے لگے کہ اللہ تعالٰی توبہ قبول فرمانے والا ہے ۔ جاؤ میں نے تم سب کو اللہ کے لیے معاف کر دیا سردار نے یہ سن کر کہا کہ اے امیر شہر ہماری کچھ مدد کیجئے تاکہ ہم طرسوس پہنچ کر جہاد کر سکیں ۔ امیر شہر نے ان میں سے ہر ایک کو گھوڑا مکمل اسلحہ اور پچاس پچاس دینا دیئے اور انہیں رخصت کر دیا یہ ساتوں طرسوس پہنچ کر دو مہینے تک وہاں رہے اس دوران خبر آگئی کہ روم کے عیسائیوں نے مملکت اسلامیہ پر حملے کے لیے لشکر بھیج دیا ہے اس لشکر میں دو بڑی صلیبیں ہیں اور ہر صلیب کے ساتھ دس ہزار جنگجو ہیں ۔ اور یہ لشکر طرسوس کے قریب پہنچ چکا ہے ۔ مسلمانوں کا لشکر بھی دفاع کے لیے اپنے امیر کی سر کردگی میں روانہ ہوا اور یہ سارے حضرات بھی لڑائے کے لیے نکل کھڑے ہوئے ۔ جب دونوں لشکر آمنے سامنے صف آراء ہوگئے تو یہ ساتوں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ہم جب اللہ تعالٰی کے نافرمان تھے اور چوری کرتے تھے اس وقت ہم کسی کے محتاج نہیں ہوئے تو کیا اللہ تعالٰی کی فرماں برداری والے عمل جہاد میں ہم لوگوں کے سہارے لڑیں گے ؟ حالانکہ ہمارے نیچے بہترین گھوڑے ہیں ہمارے پاس خطرناک اسلحہ ہے اور ہماری نیتیں بھی خالص اللہ کے لیے ہیں چلو ہم لشکر سے الگ ہو جاتے ہیں ۔ جب دونوں طرف سے گھمسان کی لڑائی شروع ہو جائے گی تو ہم ساتوں مشرکین پر یکبار گی حملہ کر دیں گے فتح یا شہادت میں سے ایک تو ہمارا مقدر ضرور بنے گی یہ طے کرکے وہ لشکر سے الگ ہوگئے جب لڑائی شروع ہو گئی تو ان ساتوں نے اچانک پیچھے سے مشرکین [ عیسائیوں ] پر حملہ کر دیا اور ان کے لشکر کو کاٹ کر رکھ دیا ۔ جب یہ شکست خوردہ لشکر بادشاہ روم کے سامنے پہنچا تو اس نے کار گزاری سن کر پوچھا کہ پیچھے سے کس نے تم پر حملہ کیا تھا ۔ لشکر والوں نے کہا وہ سات آدمی تھے جنہوں نے ہمارے لشکر کی صفوں کو توڑ دیا جس سے ہمیں شکست ہوئی ۔ رومی بادشاہ نے ایک اور صلیب نکالی اور اپنے ایک جرنیل کو دے کر کہنے لگا کہ یہ تیرے پاس تین صلیبیں ہیں اور تیس ہزار کا پیادہ اور گھڑ سوار لشکر ۔ جاؤ اور طرسوس پر لشکر کشی کرو جب یہ لشکر روانہ ہوا تو اس کی اطلاع طرسوس میں پہنچ گئی ۔ مسلمانوں کا لشکر بھی مقابلے کے لیے نکل کھڑا ہوا یہ ساتوں جانباز بھی نکلے اور انہوں نے آپس میں مشورہ کرکے پہلے جیسی حکمت عملی طے کی ۔ چنانچہ جب دونوں لشکروں میں گھمسان کی لڑائی شروع ہو گئی تو ان ساتوں نے پیچھے سے حملہ کرکے عیسائیوں کے لشکر کو تتر بتر کر دیا عیسائیوں کا لشکر شکست کھا گیا اور اس کے بچے کھچے سپاہی جان بچا کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ بادشاہ روم نے جب ان سے کار گزاری سنی تو وہ گالیا بکنے لگا اور کہنے لگا تیس ہزار کا مسلح لشکر جسے ہم نے اپنے ملکوں کا سرمایہ کھلا کر پالا اور ہر طرح کی سہولتیں انہیں دیں سات آدمیوں نے اس لشکر کو کاٹ ڈالا ؟ بادشاہ نے اس جرنیل کو معزول کر کے ایک اور جرنیل کو بلوایا اور اسے چار صلیبیں اور چالیس ہزار کا لشکر جرار دیا اور اسے کہا جاؤ طرسوس پر چڑھائی کرو اگر تم فتح یاب ہو جاؤ تو شہر میں داخل ہو کر تمام مردوں کو قتل کر دینا اور وہاں کی عورتوں کو اور بچوں کو قیدی بنا کر لے آنا ۔ اگر شہر فتح نہ کر سکو تو کوشش کر نا کہ ان سات آدمیوں کے سر کاٹ کر لے آنا جنہوں نے میرے دو لشکروں کو شکست دی ہے اور اگر تم نے انہیں قیدی بنا لیا تو پھر انہیں لیکر میرے پاس آجانا یہ جرنیل جب طرسوس کے قریب پہنچا تو اس نے ایک صلیب کے ساتھ دس ہزار آدمی پہاڑوں میں چھپا دیئے اور خود وہاں سے کچھ آگے جاکر رک گیا ۔ مسلمان حسب سابق مقابلے کے لیے نکلے وہ سات جانباز اپنی سابقہ حکمت عملی کے ساتھ میدان سے ہٹ کر پیچھے پہنچ گئے جب لڑائی شروع ہوئی انہوں نے پیچھے سے حملہ کر دیا اور دشمن کو کافی نقصان پہنچایا مگر اچانک ان سات کے پیچھے سے دس ہزار کا چھپا ہوا لشکر نکل آیا ۔ اس طرح یہ ساتوں جانباز گھیرے میں آگئے اور بالآخر قید کر لیے گئے ۔ رومی لشکر واپس پہنچا ۔ جرنیل نے بادشاہ کے دربار میں پہنچ کر سجدہ کیا اور کہا کہ میں آپ کے پاس ان ساتوں کو پکڑ کر لے آیا ہوں ۔ بادشاہ نے اپنے مصاحبین سے مشورہ کیا کہ میں ان ساتوں کو کس طرح قتل کروں ۔ ان میں سے ایک انے کہا کہ انہیں درمیان سے کاٹ کر درختوں پر لٹکا دیجئے ۔ ایک نے کہا کہ ان کی گردنیں کاٹ دیجئے ۔ مگر بعض عقلمند جرنیلوں نے نے مشورہ دیا کہ انہیں قتل نہ کیا جائے بلکہ انہیں مال و دولت دے کر اپنا ہم مذہب بنایا جائے تاکہ جس طرح انہوں نے اپنی بہادری سے ہمیں ذلیل کیا اسی طرح عیسائی ہوکر یہ اپنی بہادری سے ہمیں عزت بخشیں ۔ بادشاہ نے اسی مشورے کو نہایت پسندیدگی سے منظور کر لیا ۔ اور اس نے ان ساتوں کے امیر کو بلا کر پوچھا کہ کیا یہ چھ آدمی تیرے ساتھی ہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں ! بادشاہ نے کہا میری کئی بیٹیاں ہیں اگر تو ہمارا دین اختیار کر لے تو میں اپنی ایک بیٹی سے تیری شادی کر وں گا اور تجھے مال و دولت کے بھرے ہوئے سو اونٹ اور سو باغات دوں گا ۔ یہ سن کر وہ امیر رونے لگا اور کہنے لگا مجھے نہ تیری بیٹی کی ضرورت ہے نہ مال کی میں ان چیزوں کی وجہ سے ہر گز اسلام کو نہیں چھوڑ سکتا ۔ بادشاہ نے اسے الک ایک کونے میں بٹھا کر باقی چھ کو ایک ایک کر کے بلایا اور ہر کسی کے سامنے اپنی پیشکش دہرائی مگر ان میں سے ہر ایک نے ایک ہی جواب دیا کہ ہم اسلام چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ بادشاہ نے اپنے جرنیلوں کو بتایا کہ ہماری تدبیر ناکام ہو چکی ہے ۔ اب انہیں گمراہ کرنے کی کیا تدبیر اختیا کی جائے ۔ ایک جرنیل نے کہا آپ ایک دیگ میں تیل ڈال کر اس کے نیچے آگ جلا دیجئے جب تیل کھولے تو ان میں سے ایک کو اس میں اوندھےمنہ کمر تک ڈال دیجئے ممکن ہے ایک دو کے مرنے کے بعد باقی کے دلوں پر اس دہشت ناک طریقے سے آنے والی موت کا خوف سوار ہوجائے اور وہ اسلام کو چھوڑ دیں ۔ چنانچہ دیگ میں تیل بھر کر نیچے آگ جلا دی گئی بادشاہ نے ان ساتوں کو بلا کر ایک صف میں بٹھا دیا ان کے امیر نے جب نظر اٹھائی تو اسے اوپر چھت پر سات حسین لڑکیاں نظر آئیں ۔ جنہوں نے زرد رنگ کا خوبصورت لباس پہن رکھا تھا اور ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک سبز رومال تھا ۔ امیر نے دل میں سوچا کہ اس ملعون بادشاہ نے ہمیں بددین کرنے کے لیے انتظام کیا ہے اور اپنی بیٹیاں بٹھا دی ہیں اور نیچے یہ عذاب جلا دیا ہے ۔ تاکہ ہم اس کھولتی دیگ سے ڈر کر اور لڑکیوں کے حس نے مرغوب ہو کر دیگ میں مرنے کی بجائے لڑکیوں کو پانا پسند کریں اور اپنا دین چھوڑ دیں ۔ امیر نے دل ہی دل میں دعاء کی کہ کاش میری ساتھیوں کی نظر ان لڑکیوں پر نہ پرے تاکہ وہ گمراہ نہ ہوجائیں ۔ دیگ میں تیل جوش کھانے لگا بادشاہ کے حکم سے دو جرنیل کود کر آگے بڑھے اور انہوں نے ان ساتوں میں سے ایک کو اٹھا کر دیگ میں الٹا دیا ۔ وہ شخص آخری وقت میں پکار کر کہنے لگا میرے دوستوں ! تم پر سلامتی ہو تم گھبرانا نہیں یہ تھوڑی دیر کی تکلیف ہے جبکہ دوزخ کا عذاب دائمی ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالٰی کے رسول ہیں ۔
جرنیلوں نے اسے کمر تک تیل میں ڈال دیا اس کا یہ آدھا حصہ جل گیا اوپر بیٹھی ہوئی ساتوں لڑکیوں میں سے ایک اڑتی ہوئی آئی اور دیگ میں داخل ہو گئی اس نے سبز رومال میں کچھ ڈالا اور آسمان کی طرف اڑ گئی امیر نے جب یہ دیکھا تو دل میں کہنے لگا کہ یہ لڑکیاں تو حور عین ہیں بادشاہ کی بیٹیاں نہیں ۔ عیسائیوں نے اس جلے ہوئے شخص کو دیگ سے نکال کر ان باقی چھ کے سامنے ڈال دیا ۔ بادشاہ نے کہا اگر تم نے اپنا دین چھوڑ کر عیسائیت قبول نہ کی تو تم سب کو بھی اسی طرح قتل کردوں گا اور اگر تم نے میری بات مان لی تو پھر تمھارے لیے ہر طرح کا اعزاز و اکرام ہوگا ۔ وہ کہنے لگے تو ہمیں جلا کر مار یا تلواروں سے کاٹ ہم اپنے دین کو نہیں چھوڑیں گے ۔
بادشاہ نے ایک ایک کرکے باقی چھ میں سے پانج کو اسی دیگ میں جلا کر شہید کیا اور ہر ایک کے ساتھ ایک ایک لڑکی دیگ میں داخل ہو کر سبز رومال میں کچھ ڈال کر آسمان پر جاتی رہی ۔ اب صرف ایک لڑکی باقی تھی ۔ اچانک وزیر اعطم آگے بڑھا اور وہ بادشاہ سے کہنے لگا کہ یہ شخص مجھے دے دیجئے ۔ بادشاہ نے پوچھا کہ تم اس کے ساتھ کیا کرو گے ؟ وزیر نے کہا میں اسے اپنے گھر لے جاؤں گا اور اپنی اس لڑکی کو اس کی خادمہ بنادوں گا جس سے آپ نکاح کرنا چاہتے تھے مگر میں نے آپ کی زیادہ بیویوں کی وجہ سے انکار کر دیا تھا ۔ ممکن ہے وہ اس کے دل کو موہ لے اور یہ اپنا دین چھوڑ کر عیسائی ہو جائے تب میں اپنی لڑکی سے اس کی شادی کر دوں گا اور اپنے مال میں سے اسے حصے دار بنادوں گا بادشاہ نے کہا لے جاؤ میں نے یہ شخص تمھیں دے دیا جب یہ واقعہ ہوا تو چھت پر بیٹھی ہوئی حور کھڑی ہوئی اور خالی ہاتھ آسمان کی طرف پرواز کر گئی ۔ یہ دیکھ کر امیر کہنے لگا یہ میری بد قسمتی کی وجہ سے ہوا ۔
بادشاہ نے اسے کہا تم میرے اس وزیر کے ساتھ چلے جاؤ ۔ امیر نے کہا میں صرف اس شرط پر اس کے ساتھ جاؤں گا کہ میں اس کے گھر میں مسجد بناؤں گا جہاں بلند آواز سے پانچ وقت اذان دوں گا ۔ شراب نہیں پئیوں گا اور خنزیر نہیں کھاؤں گا ۔ بادشاہ نے وزیر اعظم سے پوچھا کہ اب کیا خیال ہے ؟ وزیر نے کہا اس کی ساری شرطیں منظور ہیں ۔
اب وہ مسلمان قیدی وزیر کے گھر آگیا اور داخل ہوتے ہی مسجد بنانے میں لگ گیا ۔ وزیر نے اپنی بیٹی سے کہا میں نے عربوں میں اس سے زیادہ بہادر اور خوبصورت کوئی اور شخص نہیں دیکھا ۔ میں اسے بادشاہ کی سزائے موت سے چھڑا کر لایا ہوں ۔ میں چاہتا ہوں کہ اگر یہ عیسائی ہو جائے تو میں تیری شادی اس کے ساتھ کردوں اور اسے اپنا آدھا مال دوں ۔ اب یہ ہمارے گھر میں رہے گا اور رات دن اس کا تمھارے علاوہ کوئی خادم نہیں ہوگا ۔ لڑکی نے یہ ذمہ داری قبول کی اور ہر دن زرق برق لباس اور طرح طرح کے زیور پہن کر آتی اور اس شخص کے سامنے اپنے جسم کی نمائش کرتی میں اس بندہ خدانے کوئی توجہ نہ کی اور نہ کبھی اس لڑکی کو کوئی کام بتایا ۔ وہ جو کچھ لے آتی وہ لے لیتا تھا ۔ ایک دن عصر کی نماز پڑھ کر وہ مسجد میں بیٹھا تھا کہ لڑکی اسے کہنے لگی ۔ کیاتم انسان نہیں ہو ؟ کیا تم میں مردانگی نہیں ہے ؟ تم اپنا دین چھوڑ کر عیسائی ہو جاؤ میرا باپ ہم دونوں کی شادی کر دے گا اور تجھے مالا مال کرا دے گا ۔ امیر نے کہا ہلاک ہو جا تو نے میری نماز خراب کردی ۔ مجھے نہ تو تیری ضرورت ہے اور نہ تیرے مال کی ۔ وزیر نے تو لڑکی کو اس مرد مؤمن کے پیچھے اس لیے لگایا تھا تاکہ وہ اس کے دل کو موہ لے اور اس کی دل میں اپنی محبت ڈال دے ۔ لڑکی تو یہ نہ کرسکی البتہ اس مرد مؤمن کی شان بےنیازی نے لڑکی کے دل کو موہ لیا اور وہ خود اس کی محبت میں گرفتار ہوگئی اور کہنے لگی کیا تم مجھ سے شادی نہیں کرو گے ؟ امیر نے کہا نہیں ۔ لڑکی نے کہا کیوں ؟ تم ناپاک کافرہ ہو امیر نے برجستہ جواب دیا ۔ لڑکی کہنے لگی اگر آپ اپنا دین نہیں چھوڑتے تو پھر میں اپنا دین چھوڑ دیتی ہوں آپ مجھے مسلمان کیجئے تاکہ میں آپ سے شادی کر سکوں ۔ امیر نے کہا اے لڑکی یہ کافروں کا ملک ہے یہاں میں تجھ سے شادی نہیں کر سکتا ہاں اگر اللہ تعالٰی نے توفیق دی اور ہم یہاں سے بھاگ کر مسلمانوں کے ملک پہنچ گئے تو میں ضرور تجھ سے شادی کرلوں گا اور تیرے ہوتے ہوئے دوسری شادی نہیں کروں گا ۔ اور نہ باندی رکھوں گا لڑکی نےکہا اگر ایسا ہے تو پھر دس دن بعد عیسائیوں کا تہوار ہے ۔ اس میں بادشاہ سمیت سب لوگ باہر نکلتے ہیں البتہ بیمار لوگ گھروں میں رہ جاتے ہیں جب تہوار میں دو چار دن رہ جائیں گے تو میں بیمار بن جاؤ ں گی چنانچہ میرا باپ مجھے تیر ے پاس چھوڑ جائے گا تب ہم دونوں بھاگ نکلیں گے ۔ تہوار سے دو دن پہلے وہ لڑکی بیمار بن گئی تہوار کے دن وزیر نے پوچھا کہ بیٹی تم ہمارے ساتھ نہیں جاؤ گے ۔ اس نے کہا نہیں میں بیمار ہو ۔ وزیر نے کہا کوئی بات نہیں اب تم دونوں اس گھر میں بالکل تنہا رہ جاؤ گے اگر یہ تمھارے ساتھ حرام فعل کرنا چاہے تو تم مت روکنا ممکن ہے اس طرح سے یہ اپنا دین چھوڑ کر عیسائی ہو جائے تب تم دونوں کی شادی کر دی جائے گی ۔ لڑکی نے کہا ابا حضور میں اس کے لیے حاضر ہوں۔ البتہ آپ دو گھوڑے چھوڑ جائیں ۔ ممکن ہے اگر میں اسے بدلنے میں کامیاب ہو گئی تو میں اسے لے کر آپ کے پاس تہوار کے سات دنوں میں کسی نہ کسی دن پہنچ جاؤں گی ۔ تہوار کے دن دوپہر کے وقت لڑکی نے کہا وہ لوگ تہوار کی جگہ پہنچ چکے ہوں گے اب شہر میں کوئی نہیں ہوگا کیا تم مسلمانوں کے ملک کا راستہ جانتے ہو ؟ امیر نے کہا ہاں مجھے راستہ معلوم ہے ۔ لڑکی نے اسلحہ نکالا اور کافی سارے ہیرے جواہرات بھی لے لیے اور خود مردوں کا لباس اور اسلحہ پہن لیا ۔ امیر نے بھی اسلحہ زیب تن کیا اور وہ دونوں طرسوس کی طرف بڑھے یہاں سے طرسوس کا فاصلہ تیس منزل کا تھا ۔
سفر میں انہیں دوسرا دن تھا اور انہوں نے ابھی صرف تین منزلیں طے کی تھیں ۔ تو انہوں نے دور سے غبار اٹھتا ہوا دیکھا امیر نے لڑکی سے کہا تمھاری نظر زیادہ تیز ہے دیکھو یہ غبار کیسا ہے ؟ وہ کہنے لگی مجھے چھ گھڑ سوار نظر آرہے ہیں ان کے نیچے اعلٰی قسم کے گھوڑے ہیں ۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ چھ گھڑ سوار ان دونوں کے پاس پہنچ گئے جب امیر نے انہیں دیکھا تو حیران رہ گیا ۔ یہ اس کے وہ چھ شہید ساتھی تھے ۔ جنہیں بادشاہ نے جلا کر شہید کیا تھا ۔ اس نے انہیں اور انہوں نے اسے پہچانا امیر نے انہیں کہا تمہیں تو بادشاہ روم نے شہید کر دیا تھا ۔ وہ کہنے لگے کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا کہ ہر شہید زندہ ہوتا ہے اور صبح شام اللہ کی دی ہوئی روزی سے کھاتا پیتا ہے ۔ امیر نے کہا آپ لوگ کہا جارہے ہیں کیا اپنے گھروں کی طرف ؟ وہ کہنے لگے ہمیں گھروں سے کیا ؟ یہاں ان پہاڑوں میں اللہ تعالٰی کا ایک ولی انتقال فرما گیا اور یہاں کوئی آدمی قریب میں نہیں جو اس کو کفن و دفن کر سکے ۔ اللہ تعالٰی نے ہمیں اس کے دفن کی سعادت کے لیے منتخب فرمایا ہے ۔ ہم اپنے ساتھ کفن اور جنت کی خوشبو لائے ہیں ۔ اب ہم جاکر اسے عسل دیں گے پھر کفنا کر قبر میں دفن کرکے واپس چلے جائیں گے ۔ امیر نے انہیں کہا تم لوگوں نے اللہ تعالٰی سے شہادت مانگی تھی جو اللہ تعالٰی نے تمہیں عطاء فرما دی جبکہ میں محروم رہا ۔ حالانکہ میں تمھارا امیر تھا ۔ یہ میرے ساتھ وزیر کی بیٹی ہے اسلام اس کے دل میں گھر کر چکا ہے یہ بھی میرے ساتھ بھاگ آئی ہے تم لوگ دعاؤں کے ذریعے میری مدد کرو تاکہ اللہ تعالٰی مجھے طرسوس پہنچا دے ۔


انہوں نے امیر کو یہ دعاء کہلوائی اور غائب ہو گئے ۔
یا صمداً لا یظلم ، یا قیوم لا ینام ، یا ملکا لا یرام ، یا عزیزًا
لا یضام ، یا جبارًا لا یظلم ، یا محتجبا لایری ، یا سمیعا
لا یشک ، یا عادلاً لا یجور ، یا دائما لا یزول ، یا حلیماً لا یلھو،
یا قیوماً لا یفتر ، یا غنیاً لا یفتقر ، یا منیعاً لا یغلب ، یا شدیدًا
لا یضعف ، یا صادقا لا یخلف ، یا باسط البدین بالجود یامن ھو
فی ملکہ محمود یا علی المکان یا رفیع الشان یا لاالہ الا انت ،
یا لا الہ الا انت ۔

اے وہ بے نیاز جو ظلم نہیں کرتا ، اے وہ قیوم جو نہیں سوتا ، اے وہ بادشاہ
جس کی بادشاہی دائمی ہے ۔ اے وہ غالب جو مجبور نہیں کیا جا سکتا ۔ اے وہ
بگڑی بنانے والے جو ظلم نہیں کرتا ۔ اے وہ پوشیدہ جسے دیکھا نہیں جا سکتا ۔
اے خوب سننے والے جو شک میں نہیں پڑتا ۔ اے انصاف کرنے والے جو
زیادتی نہیں کرتا ۔ اے وہ دائم جس کے لیے فنا نہیں ۔ اے وہ بردباد جو لہو
نہیں فرماتا ۔ اے تھامنے والے جو نہیں تھکتا ۔ اے وہ غنی جو کبھی محتاج
نہیں ہوتا ۔ اے وہ غالب جس پر کوئی غالب نہیں ہوتا ۔ اے وہ طاقت والے
جو کمزور نہیں ہوتا ۔ اے وہ سچے جو وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔اے
سخاوت کے ہاتھ [ ہر کسی پر ] پھیلانے والے اے وہ ذات جو اپنی سلطنت
محمود ہے ۔ اے اونچے مکان والے ۔ اے بلند شان والے ۔ اے وہ جس
کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ اے وہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔
امیر نے ابھی یہ دعاء پڑھی ہی تھی کہ اس کی نظر ایک چرواہے پر پڑی جو چشمے سے پانی پی کر نماز کے لیے کھڑا ہو گیا ۔ امیر نے اسے کہا اے چرواہے یہ کافروں کا ملک ہے کیا تو ان کے درمیان کھلم کھلا نماز پڑھنے سے نہیں ڈرتا ۔ چرواہے نے کہا کیا تو پاگل ہو گیا ہے ؟ اس علاقے میں کافروں کا کیا کام ؟
امیر نے کہا کیا تو ملک روم میں نہیں ہے ؟ چرواہے نے کہا سامنے دیکھو کیا تمہیں طرسوس کی دیوار نظر نہیں آ رہی ۔ امیر نے دیکھا تو واقعی اس نے خود کو طرسوس کے قریب پایا ۔ وہاں پہنچتے ہی اس نے لڑکی کو اسلام کی تلقین کی ۔ لڑکی نے اسی چشمے پر غسل کیا اور وہ دونوں شہر میں داخل ہوگئے جہاں مسلمانوں نے ان کا استقبال کیا وہاں ان دونوں کی شادی ہوئی اور اللہ تعالٰی نے انہیں سات بیٹے عطاء فرمائے ۔ ( جامع لفنون )
 
[ بزدلی اور کمزور دلی بے شک ایک عیب ہے ، ایک بیماری ہے اور ایک مصیبت ہے اسی لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر تاکید کے ساتھ اس سے پناہ مانگا کرتے تھے اور صحابہ کرام کا بھی معمول تھا کہ وہ اس مرض سے پناہ مانگتے تھے اور بعض صحابہ کرام کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں تو باقاعدہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعاء کی درخواست کی یہ یارسول اللہ میرے لیے دعاء فرما دیجئے کہ اللہ تعالٰی مجھ سے بزدلی اور زیادہ سونے کے مرض کو دور کر دے۔
رات دن بزدلی کے شر سے اللہ کی پناہ پکڑنے اور اس مرض سے بچنے کے لیے مسلسل دعائیں کرنے کی برکت سے اللہ تعالٰی نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں سے اس بیماری کو نکال دیا چنانچہ وہ روم سے ڈرے نہ فارس سے ۔ انہیں نہ منافق دبا سکے نہ کافر وہ اکیلے تھے نہتے تھے مگر وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور اس سے ایک شوشہ برابر دستبردار نہ ہوئے بڑی بڑی مسلح فوجوں نے انہیں گھیر ا مگر وہ گھبرانے اور ڈرنے کی بجائے شیروں کی طرح للکارتے ہوئے اپنی ٹوٹی ہوئی تلوار یں لے کر میدانوں میں نکلے اور انہوں نے ان لشکروں اور فوجوں کو کاٹ کر رکھ دیا ۔ جنگل کے درندے اگر ان کے راستے میں آئے تو انہوں نے انہیں بھی للکارا اور بالآخر اپنا حکم ماننے پر مجبور کر دیا خوفناک گہرائی والے سمندر اور دریا ان کے راستے میں آئے تو انہوں نے بلا خطر اپنے گھوڑے ان میں ڈال دیئے ۔ یہ ان کی شجاعت اور دلیری ہی تھی کہ انہوں نے میدان جنگ میں ہاتھی دیکھے تو زندگی میں پہلی بار دیکھے جانے والے اس ٹینک نما جانور سے ڈرنے کی بجائے وہ اس سے بھی نبرد آزما ہوگئے ۔ انہوں نے سروں پر عمامے اور جسم پر پیوند لگی لنگیاں باندھ رکھی تھیں مگر پھر بھی انہوں نے روم و فارس کے شاہانہ عسکری جاہ و جمال کو روند کر رکھ دیا ۔ مگر آج بزدلی کا مرض مسلمانوں میں ایک وبا کی طرح پھیل چکا ہے اور افسوس یہ ہے کہ اب اسے مرض نہیں نزاکت طبع سمجھا جاتا ہے آج بزدلی کو عیب نہیں بلکہ عقلمندی شمار کیا جاتا ہے چنانچہ بظاہر عقلمند اور حقیقت میں بزدلی کے گندے مرض میں مبتلا لوگ رات دن مسلمانوں کو کافروں سے ڈراتے رہتے ہیں اور انہیں کافروں کی طاقت سے مرعوب کرنے کی مذموم کوشش کرتے رہتے ہیں یہ لوگ اپنے لچے دار باتوں اور چرب زبانی کے ذریعے جہاد کو فساد اور اور مجاہدین کو فسادی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے بزدلی کے مرض پر پردہ ڈالنے کے لیے مجاہدین کی برائیاں بیان کرتے ہیں یہ وہ بد قسمت لوگ ہیں جن کے دل میں کبھی جہاد کا خیال ہی نہیں آیا ۔ اور نہ انہوں نے خود یا اپنی اولاد کو جہاد میں بھیجنے کی کبھی نیت کی ہے لیکن وہ اپنے اس روحانی روگ کو چھپاتے ہیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آج کل کہیں بھی شرعی جہاد نہیں ہو رہا یا آج کل مخلص مجاہدین موجود نہیں ہیں یا اب فلاں عمل جہاد کا قائم مقام بن چکا ہے چنانچہ ہم فلاں فلاں دینی کام کرکے مجاہدین سے بھی افضل ہیں ان لوگوں کے دل اسلام کی عظمت کے احساس سے خالی اور دنیا سے کفر کو مٹانے کے جذبے سے محروم ہیں ۔ یہ لوگ اپنے سائے سے بھی ڈرتے ہیں اور وہ مجاہدین کی حمایت بھی اس لیے نہیں کرتے کہ کہیں انہیں وقت سے پہلے موت نہ آجائے ان لوگوں کی زبانیں بہت چلتی ہیں مگر ان کے دلوں سے بزدلی کی بد بو آتی ہے یہ بزدل لوگ اسلام کے لیے کچھ قر بان کرنے لیے تیار نہیں ہوتے وہ مساجد کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کرتے وہ مظلوم مسلمانوں کی مدد کی نیت تک نہیں کرتے ، اور قرآن مجید کی اس پکار پر لبیک نہیں کہتے جو اس نے مظلوموں کی مدد کے لیے بلند کی ہے ۔ یہ لوگ ناقابل اعتبار ہوتے ہیں کیونکہ وہ جان کے خوف سے کبھی بھی گمراہی کے گڑھے میں گر سکتے ہیں یا دنیاوی لالچ میں پڑھ کر دین کو بدلنے کی ناجائز کوشش کر سکتے ہیں ۔
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کی محبت کے لیے اسی لیے منتخب فرمایا کہ وہ جان دینے والے تھے اور حق کی خاطر لڑنے والے تھے ۔ ورنہ کوئی بزدل شخص جو بزدلی کو مرض بھی نہ سمجھتا ہو اس قابل نہیں ہوتا کہ کسی نبی کی صحبت میں رہ سکے ۔ کیونکہ اسی طرح کا ڈر پوک شخص تو ہر مشکل وقت میں صرف جان ہی بچائے گا جبکہ نبی اور ان کے رفقاء جان دے کر ایمان بچاتے ہیں اور وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ۔
اے مسلمانو ! آج کے ماحول نے کم و بیش ہم سب میں بزدلی کے اس مرض کو عام کر دیا ہے اور ہم اللہ کے شیروں کی اولاد ہو کر بزدل گیدڑ جیسی زندگی گزار رہے ہیں اور دنیاوی اشیاء کے غلام بنتے جا رہے ہیں ہمیں سب سے پہلے یہ معمول بنانا چاہئے کہ روزانہ پانچ وقت کی نماز کے بعد بزدلی اور کم ہمتی کے مرض سے پناہ مانگا کریں اور اللہ تعالٰی سے ان امراض کے ازالے کی دعاء کیا کریں ۔ دوسرا کام ہمیں یہ کرنا چاہئے کہ ہم اپنے اسلاف خصوصاً حضرات صحابہ کرام اور امت کے مجاہدین کے واقعات بکثرت پڑھا کریں اور انہیں بیان کریں ۔ بے شک ان حضرات کا تذکرہ ہی دلوں سے بزدلی کو باہر نکال پھینکتا ہے ۔
اسی طرح ہمیں اپنے اوپر جبر کرکے خود کو گھمسان کی لڑائیوں میں لے جانا چاہئے یہ وہ عمل ہے جو بہت جلد بزدلی کا خاتمہ کر دیتا ہے ۔
یا د رکھئے بزدلی ایک شرم ناک مرض ہے جو انسان کے لیے دنیا آخرت میں شرمندگی کا باعث ہے ۔ اس لیے ہمیں اس بات سے شرم کرنی چاہئے کہ ہم اللہ تعالٰی کے حضور اس حال میں پیش ہوں کہ ہمار ے اندر اللہ کے لیے جان دینے کا جذبہ نہ ہو ۔ بلکہ ہم بذدلی میں مبتلہ رہے ہوں ۔
یا اللہ ہمیں قیامت کے دن کی شرمندگی سے بچا اور ہمیں بزدلی کے مرض سے نجات عطاء فرما اور ہمیں شجاعت ، دلیری ، جانبازی اور سر فروشی کی نعمت عطاء فرما۔ آمین ثم آمین ]
 

فرخ منظور

لائبریرین
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے
پھونک ڈالے یہ زمین و آسماں مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے
اگر تو آپ اپنی قوم میں جاں‌پیدا کر سکے پھر ہی صداقت کے لیے مرنے کا کچھ فائدہ ہوگا - اور اگر ایسا نہ ہوا تو کمزور قوموں کے لیے صرف ہلاکت ہوتی ہے چاہے وہ جتنی بھی بہادر ہوں -

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
 
Top