فارسی شاعری قطعاتِ اقبال مع ترجمہء انور

پیوستہ مزید ۔۔۔۔۔۔

بہ این ہمہ ترجمہ ترجمہ ہوا کرتا ہے، وہ اصل کا بدل نہیں ہو سکتا۔ اپنے کئے ہوئے دوتراجم (اصل اشعار کے ساتھ) پیش کرتا ہوں:​
حافظ شیرازی:​
غنیمتے شمر اے شمع وصلِ پروانہ​
کہ این معاملہ تا صبح دم نخواہد ماند​
ترجمہ (مختلف زمین میں):​
شمع! پروانیاں نوں لا لے سینے​
سویر آئی تے پھر ایہناں نہ رہنا​
غنی بحوالہ اقبال:​
غنی روزِ سیاہِ پیرِ کنعان را تماشا کن​
کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشمِ زلیخا را​
ترجمہ (اسی زمین میں):​
نصیبا ویکھ توں یعقوب دے کنعان وچ نھیرا​
تے چمکے مصر دے محلاں چ اُس دی اکھ دا تارا​
شذرہ: بجلی اجازت دیتی ہے تو جناب پروفیسر انور مسعود کے کئے ہوئے تراجم پر چھوٹے منہ سے بڑی بات کہنے کی جسارت کروں گا۔​
 
اعتذار ۔۔۔
میرے ساتھ ہوا یہ ہے کہ پہلے تو بجلی نے خوب تنگ کیا اور پھر پتہ نہیں اس سائٹ کو کیا ہوا کہ کچھ پوسٹ ہی نہیں ہو رہا تھا۔
بہر حال جیسے تیسے ٹوٹے کر کے پوسٹ ہو گیا۔
براہ کرم جواب نمبر 19، 20 اور 21 کو اکٹھا پڑھئے گا۔
 
جناب منیب احمد فاتح اور جناب عاطف بٹ کی گفتگو کی روشنی میں ۔۔۔

1۔ حجاز اور مکتب کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ مکتب کے کتنے ہی معانی ہیں! گفتگو کا لفظ مکتب کا حاصل بھی ہے اور جب زمزم کہہ دیا تو زمزم تو ہے ہی حجاز میں۔ اس ضمن میں ایک تو میں عرض کر چکا کہ ترجمہ ترجمہ ہوتا ہے، اصل کا بدل نہیں ہو سکتا۔ اور دوسرے کہ پروفیسر صاحب کا اور فارسی کا زندگی بھر کا ساتھ ہے۔ مجھ جیسا شخص جو یہاں طفلِ مکتب سے بھی کم تر ہے کیا عرض کرے گا۔
اقبال کا مصرع کہتا ہے کہ ’’ملا کے حجاز کی ریت میں زمزم نہیں ہے‘‘ ۔۔۔ ملا نے حجاز کو ویسا سمجھا ہی نہیں، جیسا سمجھنا چاہئے تھا، سو اسے زمزم کی قدر کیا معلوم ہو۔ یہاں اصلِ اصول ’’زمزم‘‘ ہے اور اس کے پیچھے تسلیم و رضا کی زندہ جاوید مثال ہے۔ یہ بات پروفیسر صاحب کے ہاں آ گئی ہے۔ کسی طور حجاز کی معنویت جیسے وہاں اجاگر ہے یہاں بھی ہو جاتی تو سونے پر سہاگہ ہوتا۔

2۔ نہ نیروے خودی را آزمودے ۔۔۔ مصرع تو واضح ہے کہ انسان اگر خودی کی طاقت کو کام میں نہ لاتا۔ بٹ صاحب نے حوالہ بھی دے دیا، تاہم اگر کوئی اِشکال ہو تو کسی دوسرے ذریعے سے بھی اس مصرعے کے متن کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ مناسب بات ہے۔
 
بہ این ہمہ اقبال اقبال ہے۔ بقول انور مسعود:

وقت سمندر جد تک ڈِگسن ورھے ورھے دیاں ندیاں​
سن ستتر تے اک پاسے ساریاں تیریاں صدیاں​
یہ شعر انہوں نے 1977 میں کہا۔ سلسلہ: اقبال کا صد سالہ یومِ پیدائش
 
اور وہ جو فیض نے کہا تھا، اقبال کے معترضین کے بارے میں کہ: وہ (اقبال) تو پہاڑ ہے، یہ گلہریاں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔

اقبال کے کلام کا منظوم ترجمہ کوئی آسان کام ہے؟ اپنی تو نثری ترجمے سے جان جاتی ہے۔
 
دلِ ملّا گرفتارِ غمے نیست
نگاہے ہست در چشمش نمے نیست
ازاں بگریختم از مکتبِ او
کہ در ریگِ حجازش زمزمے نیست
”میں واعظ کی گفتگو سے بھاگتا ہوں کہ اِس واعظ کی ریت میں زمزم نہیں۔“
معنی شناس جانتے ہیں کہ یہ ترجمہ جامع ہے یا نہیں۔​
اے معنی شناسو! کیا واعظ کے لفظ سے تم ملا کے لفظ کے پیچھے چھپے مکتبہ فکر تک پہنچ جاتے ہو؟ نہیں پہنچ پاتے؟ میں بھی نہیں پہنچ پاتا۔​
اے معنی شناسو! کیا کسی شخص سے بھاگنا - خواہ وہ واعظ ہو یا ملا - اُس کے مکتب سے بھاگنے کے مترادف ہے؟ نہیں ہے؟ میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ نہیں ہے۔
اے معنی شناسو! جانتے ہو کہ واعظ کی ریت میں زمزم نہیں ہے۔ کیا؟ ہنستے ہو کہ مہمل بکتا ہوں؟
ہاں اے معانی ناآشنا، ہنستے ہیں! اس لئے کہ مترجم نے اولا ملا کو واعظ سے بدل کر غضب ڈھایا اور پھر ملا یعنی مولویوں کے مکتبہ فکر سے بھاگنے کے بجائے واعظ کی ذات سے بھاگا۔ اور اب آگے سنو۔ اس لئے بھی ہنستے ہیں کہ شاعر نے تو کہا کہ ان مولویوں کو حجاز کی خاکِ شفا سے نسبت تو ہے مگر ان کا حجاز وہ ہے کہ جہاں زمزم نہیں یعنی وہ ابراھیمی ایندھن جس سے چراغِ مصطفوی روشن ہوا اس کی کیمیا کی الف بے بھی یہ مولوی نہیں جانتے۔ اور دینِ ابراھیمی کو انہی نے مذہب بنا کر زمزم سے محرومی اپنے اوپر واجب کی۔
شکریہ معنی شناسو! تم صحیح ہنستے تھے۔ میں جان گیا کہ ترجمہ پست ہے اور اصل سے دور کا تعلق بھی اس کو حاصل نہیں۔ بجا ہے کہ ترجمہ اصل کا متبادل نہیں ہوتا مگر بجا تر ہے کہ اصل سے نقل (ترجمہ) کی قرابت ہی اس کے معیار کا تعین کرتی ہے کہ وہ پست ہے یا بلند۔
بہرحال معنی شناسو! آج بہت وقت لیا تمہارا۔ لیکن جاتے جاتے کچھ کہنا چاہو گے؟
ہاں اے معانی ناآشنا! یاد رکھنا،
؎ فکر ہر کس بقدر ہمت اوست​
 
دلِ ملّا گرفتارِ غمے نیست
نگاہے ہست در چشمش نمے نیست
ازاں بگریختم از مکتبِ او
کہ در ریگِ حجازش زمزمے نیست
”میں واعظ کی گفتگو سے بھاگتا ہوں کہ اِس واعظ کی ریت میں زمزم نہیں۔“
معنی شناس جانتے ہیں کہ یہ ترجمہ جامع ہے یا نہیں۔​
اے معنی شناسو! کیا واعظ کے لفظ سے تم ملا کے لفظ کے پیچھے چھپے مکتبہ فکر تک پہنچ جاتے ہو؟ نہیں پہنچ پاتے؟ میں بھی نہیں پہنچ پاتا۔​
اے معنی شناسو! کیا کسی شخص سے بھاگنا - خواہ وہ واعظ ہو یا ملا - اُس کے مکتب سے بھاگنے کے مترادف ہے؟ نہیں ہے؟ میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ نہیں ہے۔
اے معنی شناسو! جانتے ہو کہ واعظ کی ریت میں زمزم نہیں ہے۔ کیا؟ ہنستے ہو کہ مہمل بکتا ہوں؟
ہاں اے معانی ناآشنا، ہنستے ہیں! اس لئے کہ مترجم نے اولا ملا کو واعظ سے بدل کر غضب ڈھایا اور پھر ملا یعنی مولویوں کے مکتبہ فکر سے بھاگنے کے بجائے واعظ کی ذات سے بھاگا۔ اور اب آگے سنو۔ اس لئے بھی ہنستے ہیں کہ شاعر نے تو کہا کہ ان مولویوں کو حجاز کی خاکِ شفا سے نسبت تو ہے مگر ان کا حجاز وہ ہے کہ جہاں زمزم نہیں یعنی وہ ابراھیمی ایندھن جس سے چراغِ مصطفوی روشن ہوا اس کی کیمیا کی الف بے بھی یہ مولوی نہیں جانتے۔ اور دینِ ابراھیمی کو انہی نے مذہب بنا کر زمزم سے محرومی اپنے اوپر واجب کی۔
شکریہ معنی شناسو! تم صحیح ہنستے تھے۔ میں جان گیا کہ ترجمہ پست ہے اور اصل سے دور کا تعلق بھی اس کو حاصل نہیں۔ بجا ہے کہ ترجمہ اصل کا متبادل نہیں ہوتا مگر بجا تر ہے کہ اصل سے نقل (ترجمہ) کی قرابت ہی اس کے معیار کا تعین کرتی ہے کہ وہ پست ہے یا بلند۔
بہرحال معنی شناسو! آج بہت وقت لیا تمہارا۔ لیکن جاتے جاتے کچھ کہنا چاہو گے؟
ہاں اے معانی ناآشنا! یاد رکھنا،
؎ فکر ہر کس بقدر ہمت اوست​
حیران کن! ایسی نثر کوئی بیس سو تیرہ میں بیٹھ کر لکھے۔ مدلل اور مضبوط!
 

عاطف بٹ

محفلین
مجھ سے بطورِ ثبوت مصرع کی سند میں عکس پیش کرنے پر شکرگزاری اور باقی بحث کے لئے بےزاری قبول فرمائیے۔
دلِ ملّا گرفتارِ غمے نیست
نگاہے ہست در چشمش نمے نیست
ازاں بگریختم از مکتبِ او
کہ در ریگِ حجازش زمزمے نیست
”میں واعظ کی گفتگو سے بھاگتا ہوں کہ اِس واعظ کی ریت میں زمزم نہیں۔“
معنی شناس جانتے ہیں کہ یہ ترجمہ جامع ہے یا نہیں۔​
اے معنی شناسو! کیا واعظ کے لفظ سے تم ملا کے لفظ کے پیچھے چھپے مکتبہ فکر تک پہنچ جاتے ہو؟ نہیں پہنچ پاتے؟ میں بھی نہیں پہنچ پاتا۔​
اے معنی شناسو! کیا کسی شخص سے بھاگنا - خواہ وہ واعظ ہو یا ملا - اُس کے مکتب سے بھاگنے کے مترادف ہے؟ نہیں ہے؟ میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ نہیں ہے۔
اے معنی شناسو! جانتے ہو کہ واعظ کی ریت میں زمزم نہیں ہے۔ کیا؟ ہنستے ہو کہ مہمل بکتا ہوں؟
ہاں اے معانی ناآشنا، ہنستے ہیں! اس لئے کہ مترجم نے اولا ملا کو واعظ سے بدل کر غضب ڈھایا اور پھر ملا یعنی مولویوں کے مکتبہ فکر سے بھاگنے کے بجائے واعظ کی ذات سے بھاگا۔ اور اب آگے سنو۔ اس لئے بھی ہنستے ہیں کہ شاعر نے تو کہا کہ ان مولویوں کو حجاز کی خاکِ شفا سے نسبت تو ہے مگر ان کا حجاز وہ ہے کہ جہاں زمزم نہیں یعنی وہ ابراھیمی ایندھن جس سے چراغِ مصطفوی روشن ہوا اس کی کیمیا کی الف بے بھی یہ مولوی نہیں جانتے۔ اور دینِ ابراھیمی کو انہی نے مذہب بنا کر زمزم سے محرومی اپنے اوپر واجب کی۔
شکریہ معنی شناسو! تم صحیح ہنستے تھے۔ میں جان گیا کہ ترجمہ پست ہے اور اصل سے دور کا تعلق بھی اس کو حاصل نہیں۔ بجا ہے کہ ترجمہ اصل کا متبادل نہیں ہوتا مگر بجا تر ہے کہ اصل سے نقل (ترجمہ) کی قرابت ہی اس کے معیار کا تعین کرتی ہے کہ وہ پست ہے یا بلند۔
بہرحال معنی شناسو! آج بہت وقت لیا تمہارا۔ لیکن جاتے جاتے کچھ کہنا چاہو گے؟
ہاں اے معانی ناآشنا! یاد رکھنا،
؎ فکر ہر کس بقدر ہمت اوست​
 

mohsin ali razvi

محفلین
عید مبارک
عیدتان مبروک باد ای مسلمین
روحتان آباد باد ای مومنین
فرض قر
بانی بجا آری کنون
یاد ابراهیم بپا داری کنون
کُشتن حیوان چون آسانت بود
رفتن کعبه اصول دین بود
فرض ابراهیم را فراموشش مکن
نفس قربانی بو د کار عظیم
کشتن و گشتن نباشد عین دین
عاملا مُلا مشو عیبت نهند
کار هر انسان نباشد وصل دین
عامل شیرازی
 
Top