قصے چشمے اور ٹوپی کے، مرزا یاسین بیگ

qissay-chashmay-aur-topi-k-670.jpg
ہمارے چند بزرگان دین ٹوپیاں سی سی کر اپنا گزارا کیا کرتے تھے ۔ اس ضمن میں ایک مغل بادشاہ کا بھی نام لیا جاتا ہے مگر تحقیق سے ثابت ہوا کہ یہ ان کے انفارمیشن سیل کی ڈس
انفارمیشین تھی اور ٹیکس ادا نہ کرنے کا بہانہ۔ —. اللسٹریشن: جمیل خان​
چشمہ ہو یا ٹوپی ، شخصیت کو نیا روپ دیتی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے چاول میں دال ڈالو تو کھچڑی اور گوشت ڈالو تو بریانی بن جاتی ہے۔ آئیے آج آپ کو چشمے اور ٹوپی سے ملوائیں :
چشمہ پانی کا ہو یا آنکھوں کا، صاف ہو تو بھلا دکھائی دیتا ہے۔ چشمے کو عینک کہہ کر پکارنے ہی سے اس کی دو ٹانگوں اور ناک کی گدّی کی صحیح شبیہہ ابھرتی ہے۔ دنیا کا پہلا چشمہ مرد نے لگایا ہوگا تاکہ عورت کو گندی نظر سے دیکھنا چھوڑ کر صاف صاف دیکھے۔​
میرے ایک دوست کے چہرے پر ایک ہی چیز اچھی ہے اور وہ ہے اس کا چشمہ۔ وہ چشمہ جو آپ ڈاکٹر کی مدد کے بغیر پہن لیں اسے دھوپ کا چشمہ کہتے ہیں۔ ناک،کان اور آنکھوں میں جو قدرتی اندرونی کنکشن ہوتا ہے اس کی بیرونی منظرکشی ایک چشمہ ہی کرتا ہے۔​
عورت چشمہ لگائے تو بوڑھی اور مرد سوبر لگتا ہے۔ ان پڑھ اسے کہتے ہیں جو چشمہ لگا کر بھی پڑھ نہ سکے مگر بعض ان پڑھ حسین چہرے پڑھ کر یہ کسر ، کثرت (کسرت نہیں) سے پوری کرلیتے ہیں۔ دنیا میں جتنی آنکھیں ہیں اس سے کہیں زیادہ اس کے ڈاکٹر اور چشمے۔​
آنکھوں کا ڈاکٹر بھی اپنے آپ کو چشمے سے بچا نہیں پاتا۔یہ وہ بیماری ہے جو ایک بار لگ جائے تو اسی وقت پیچھا چھوڑتی ہے جب آپ دنیا چھوڑتے ہیں۔​
کوئی بھی شخص ماں کے پیٹ سے سیکھ کر اور چشمہ لگا کر نہیں آتا۔ جانور سمجھتے ہیں کہ وہ چشمہ لگالیں تو انسان کہلائیں گے اس ڈر سے جانور چشمہ نہیں لگاتے۔
گہرے رنگ کے چشمے وہ پہنتے ہیں جن کے اندر گہرائ اور اعتماد نہیں ہوتا جیسے….اب میں نام لونگا تو بہت سارے چشمے ابل پڑیں گے۔​
چشمہ اتارنا اور غریب کی عزت اتارنا ہمارے ملک میں دو آسان ترین کام سمجھے جاتے ہیں۔​
چشمے اور بچے والی عورت صرف شوہر کو پیاری لگتی ہے۔​
چشموں اور مکھی کو پروا نہیں ہوتی کہ وہ کس کی ناک پر بیٹھنے جارہے ہیں۔ چشموں کی بڑھتی آبادی کو کنٹرول کرنے کیلئے کونٹیکٹ لینس کی گولیاں ایجاد کی گئی ہیں۔​
چشموں کی تین قسمیں ہیں۔ دور کا چشمہ،نزدیک کا چشمہ اور دھوپ کا چشمہ اور ان تینوں کی آپس میں نہیں بنتی۔​
عورت دھوپ کا چشمہ لگائے تو چاند،نظر کا چشمہ لگائے تو ماند۔ تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ ہر شخص کی زندگی میں ایک چشمہ ضرور آتا ہے،چاہے وہ کہیں پڑا ہوا کیوں نہ ملے۔​
چشمہ آپ کہیں بھی اتار اور پہن سکتے ہیں۔ یہ بے شرمی نہیں کہلاتی۔​
فلاسفر کہتے ہیں کہ دنیا کو گندا کہنے سے پہلے اپنا چشمہ صاف کرلو۔​
چشمہ اپنے فریم سے پہچانا جاتا ہے۔کیمرے اور چشمے کے فریم میں ہر صورت فٹ نہیں بیٹھتی۔​
کالوں میں اگر کسی نے دنیا میں سب سے زیادہ نام کمایا تو وہ ہے کالا چشمہ جو ہر گوری شوق سے اپنے چہرے پر سجاتی ہے۔​
تھری ڈی فلموں کی وجہ سے اب نئی طرح کے چشمے سامنے آئے ہیں۔ کاش کوئی ایسا چشمہ بھی ایجاد ہوجائے جس سے بدصورت بھی خوبصورت نظر آئے اس طرح طلاق کی شرح میں حیرت انگیز کمی واقع ہوسکتی ہے۔​
چشمہ اور تکیہ، ایک کے بغیر آپ سو نہیں سکتے، دوسرے کے بغیر آپ جاگ نہیں سکتے۔ چشمہ ایسا کرشمہ ہے جس کے بدولت دنیا کی رنگینی پھیکی نہیں پڑتی۔​
ٹوپی بڑے کام کی چیز ہے۔ یہ تعارف حاصل کیے بغیر آپ کے بارے میں بہت کچھ بتادیتی ہے۔ ٹوپی دیکھ کر ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اسے پہننے والا کس طبیعت کا ہوگا۔​
مسلم گھرانوں میں ہر بچہ کم عمری ہی سے ٹوپی پہننے لگتا ہے۔عبادت کیلئے ٹوپی ضروری ہے۔ کہتے ہیں ٹوپی پہننے سے شیطان اور بیوی ٹھونگے نہیں مارپاتے۔​
ٹوپی کے اور بھی کئی مصرف ہیں۔ میرے ایک دوست اس لئے ٹوپی بہنتے ہیں کہ کوئی ان کے چار عدد بال نہ گن لے۔ بال اڑنے لگیں تو ٹوپی سر پہ رکھ لی جاتی ہے۔ موسم زیادہ گرم ہو یا زیادہ ٹھنڈا ٹوپی آپ کی مدد کرتی ہے۔ مسجد جاتے آتے ٹوپی کی ہمراہی ضروری ہوتی ہے۔​
کچھ نوجوان کنگھی کرنے کے بعد ٹوپی سے بال جمانے کا کام لیتے ہیں۔ مسجد میں نمازیوں کیلئے بید سے بنی مخصوص ٹوپیوں کا اہتمام ہوتا ہے۔ بعض لوگ ٹوپیوں میں چھوٹی موٹی چیزیں بھی چھپا لیتے ہیں۔​
ٹوپی آپ کے کلچر اور قبیلے سے تعلق کا بھی پتہ دیتی ہے۔ کچھ ٹوپیاں شخصیات کی وجہ سے بھی مقبول ہوجاتی ہیں۔ جیسے جناح کیپ،شہید ملٌت کی ٹوپی،ماؤزے تنگ کیپ جو بعد میں بھٹو کیپ بھی بنی۔ قذافی کی ٹوپی اور ملائیشیا کی ٹوپیاں بھی دور سے پہچانی جاتی ہیں۔ پھر سندھی ٹوپی،بلوچی ٹوپی، پٹھانی ٹوپی،کیلاش کی ٹوپی،آغا خانی ٹوپی اور بوہری ٹوپیاں بھی الگ الگ پہچان رکھتی ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف نے چونکہ کوئی ٹوپی نہیں پہنی اس لئیے پنجابی ٹوپی آج تک متعارف نہیں ہوسکی۔​
پنجابی ٹوپی پر تکیہ نہیں کرتے اور ننگے سر پھرنا مردانگی سمجھتے ہیں۔​
ہمارے چند خلفاء اور بزرگان دین ٹوپیاں سی سی کر اپنا گذارا کیا کرتے تھے ۔ اس ضمن میں ایک مغل بادشاہ کا بھی نام لیا جاتا ہے مگر تحقیق سے ثابت ہوا کہ یہ ان کے انفارمیشن سیل کی ڈس
انفارمیشین تھی اور ٹیکس ادا نہ کرنے کا بہانہ۔​
قائد اعظم اچھے بھلے سیکولر انسان تھے اور ٹائی سوٹ کے ساتھ برصغیر کے انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان گرم جوشی پیدا کررہے تھے کہ ان کے کسی طالبانی دوست نے انھیں ٹوپی پہننے کا مشورہ دے دیا۔​
قائد ملٌت لیاقت علی خان کی ٹوپی ان کے بالوں کی کمزوری کا نتیجہ تھی۔ نواب بہادر یار جنگ کی پھدنے والی ٹوپی اور حسرت موہانی کی ٹوپی دیکھ کے امیر اور غریب کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔ اس زمانے کے اکثر رہنما تقریر اور ٹوپی کے شوقین تھے جیسے سردار عبدالرب نشتر، علامہ اقبال، مولانا حالی اور خواجہ ناظم الدین وغیرہ وغیرہ۔ ان کی دیکھادیکھی پنڈت جواہر لال نہرو نے بھی ٹوپی پہن لی تھی جو ان کی شخصیت کی طرح ٹیڑھی تھی۔ گاندھی جی ٹوپی کا تکلف کیا کرتے وہ تو لباس بھی پورا نہیں پہنتے تھے۔​
کہتے ہیں جو خود ٹوپی نہ پہنے وہ دوسروں کو ٹوپی پہناتا ہے۔ہمارے آج کے لیڈروں کو دیکھ کر یہی لگتا ہے۔ الطاف حسین کا جب سندھی خون جوش مارتا ہے وہ قوم کو سندھی ٹوپی پہنانے لگتے ہیں۔ عمران خان کے بیانات سے لگتا ہے کہ طالبان انہیں بہت جلد ٹوپی پہنادیں گے۔ زرداری اور رحمان ملک مل کر عوام، فوج، عدلیہ اور امریکہ کو ٹوپی پہنا رہے ہیں۔​
کچھ ٹوپیاں فیشنی ہوتی ہیں۔ ایسی ٹوپیاں دیکھنی ہوں تو کینیڈا تشریف لے آئیں۔ یہاں ٹوپیوں کا بازار گرم ہے۔ بعض عورتیں ایسی بھی پائی جاتی ہیں جو صرف ٹوپی اور ہیل والی جوتی پہن کر نکل پڑتی ہیں۔ اس سے کچھ بگڑے نہ بگڑے نوجوان بگڑ جاتے ہیں۔​
یہاں ہر سر لگتا ہے کہ کسی نہ کسی ٹوپی کے لیے بنا ہے۔ بعض گرل فرینڈ ایسی ہیں جو بوائے فرینڈ کو صرف ان کی ٹوپی کی وجہ سے پسند کرتی ہیں اور بعض محض نئی ٹوپی کی خاطر بوائے فرینڈ بدل لیتی ہیں۔​
غرض یہ کہ دنیا میں ٹوپی والوں ہی کا راج ہے۔ ملالہ کے معاملے کو بھی بعض لوگ ٹوپی ڈرامہ قرار دیتے رہے ہیں۔​
ہمارے ہاں ویسے بھی ٹوپی ڈراموں کی بہتات ہے۔ ہر ہفتے ایک نیا ٹوپی ڈرامہ لانچ ہوتا ہے اور پوری قوم اس کے پیچھے چل پڑتی ہے۔ ذرا غور کریں تو آج پوری دنیا کو امریکہ ٹوپی ہی تو پہنا رہا ہے۔ میر بہت پہلے کہہ گئے تھے:​
کوئی عاشق نظر نہیں آتا
ٹوپی والوں نے قتل عام کیا​
ربط​
 

شمشاد

لائبریرین
بہت خوب لکھا ہے اور بمع تصویر لکھا ہے تو مزہ دوبالا ہو گیا۔

ویسے میں چشمہ لگا کر سوتا ہوں تاکہ خواب صحیح سے نظر آ سکیں۔
 
Top