جوش قدم انساں کا راہِ دہر میں‌ تھرّا ہی جاتا ہے - جوش ملیح آبادی

کاشفی

محفلین
غزل
جوش ملیح آبادی

قدم انساں کا راہِ دہر میں‌ تھرّا ہی جاتا ہے
چلے کتنا ہی کوئی بچ کے، ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے

نظر ہو خواہ کتنی ہی حقائق آشنا، پھر بھی
ہجومِ کش مکش میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے

خلافِ مصلحت میں بھی سمجھتا ہوں، مگر ناصح!
وہ آتے ہیں تو چہرہ پر تغیّر آ ہی جاتا ہے

ہوائیں زور کتنا ہی لگائیں آندھیاں بن کر!
مگر جو گھِر کے آتا ہے وہ بادل چھا ہی جاتا ہے

شکایت کیوں اسے کہتے ہو یہ فطرت ہے انساں کی
مصیبت میں‌ خیالِ عیشِ رفتہ آ ہی جاتا ہے

شگوفوں پر بھی آتی ہیں بلائیں، یوں تو کہنے کو
مگر جو پھول بن جاتا ہے وہ کمھلا ہی جاتا ہے

سمجھتی ہیں مآلِ گل، مگر کیا زورِ فطرت ہے
سحر ہوتے ہی کلیوں کو تبسّم آ ہی جاتا ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ کاشفی صاحب جوش کی خوبصورت غزل شیئر کرنے کیلیے۔


قدم انسان کا راہِ دہر میں‌ تھرّا ہی جاتا ہے
چلے کتنا ہی کوئی بچ کے ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے


پہلے مصرعے میں انساں ہونا چاہیئے۔




نظر خواہ کتنی ہی حقائق آشنا، پھر بھی
ہجومِ کش مکش میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے


پہلے مصرعے میں کچھ محذوف ہے، شاید نظر اور خواہ کے درمیان 'ہو' ہے۔




سمجھتی ہیں مآلِ گل میں کیا زورِ فطرت ہے
سحر ہوتے ہی کلیوں کو تبسّم آ ہی جاتا ہے


پہلے مصرعے میں کچھ محذوف ہے!

کیا آپ پلیز ری چیک کر سکتے ہیں اور اپنی غزل میں بھی درست کر دیں، شکریہ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
نقوش غزل نمبر سے تصدیق کرنے کے بعد پہلے دو مصرعوں میں تو تبدیلیاں ویسی ہی ہیں جو میں نے اوپر لکھیں، تیسرے یعنی آخری شعر میں ایک لفظ کا تغیر ہے، 'میں' کی جگہ اصل 'مگر' ہونے سے یہ شعر میر کے الفاظ آسمان پر پہنچ جاتا ہے، واہ واہ واہ

سمجھتی ہیں مآلِ گُل، مگر کیا زورِ فطرت ہے
سحر ہوتے ہی کلیوں کو تبسّم آ ہی جاتا ہے
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
نظر ہو خواہ کتنی ہی حقائق آشنا، پھر بھی
ہجومِ کش مکش میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے

سمجھتی ہیں مآلِ گل، مگر کیا زورِ فطرت ہے
سحر ہوتے ہی کلیوں کو تبسّم آ ہی جاتا ہے


واہ
خوبصورت انتخاب کاشفی بھائی
 

کاشفی

محفلین
Top