قبلہ کی تاریخی بحث

صرف علی

محفلین
قبلہ کی تاریخی بحث


یہ بات متواتر اور قطعی ہے کہ خانہٴِ کعبہ کے بانی حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے اور اس کے بعد اطرافِ کعبہ میں رہنے والے ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام اور قبائل عین میں سے ایک قوم بنا "جرہم" تھی۔ خانہٴِ کعبہ کی عمارت تقریباً مربع کی صورت میں بنائی گئی جس کا ہر کونہ چاروں سمتوں (شمال، جنوب، مشرق اور مغرب) میں سے ہر ایک سمت کی طرف تھا، اس کی طرز تعمیر کچھ اس طرح کی تھی کہ ہوا جس طرف کی ہو، جس قدر بھی شدید ہو، اسے نقصان نہ پہنچا سکے، بلکہ اس تک پہنچنے کے ساتھ اس کا زور ٹوٹ جائے۔
حضرت ابراہیم کی بناکردہ یہ عمارت اپنی اسی حالت پر برقرار رہی یہاں تک کہ "عمالقہ" نے اسے ازسر نو تعمیر کیا اور پھر دوسری مرتبہ بنو جرہم نے (یا پہلے جرہم نے اور بعد میں عمالقہ نے) اسے بنایا۔
جب امورِ کعبہ کی زمام پیغمبرِ اکرم کے جد امجد جناب قصیٰ بن کلاب کے ہاتھوں تک پہنچی (ہجرت سے دو سو سال قبل) تو قضیٰ نے اسے گرا کر از سر نو تعمیر کیا اور اسے پہلے سے زیادہ مستحکم کیا، "دوم" (کھجور کے درخت سے ملتا جلتا درخت) کی شاخوں اور کھجور کی شاخوں سے اس پر چھت ڈالی، کعبہٴِ مکرمہ کے ساتھ ہی ایک اور عمارت بنام "دارالندوہ" تعمیر کی جو درحقیقت ان کی حکومت اور اپنے ساتھیوں سے صلاح و مشورے کا مرکز تھی۔ پھر کعبہ کی اطراف کو قریش کے مختلف قبائل کے درمیان تقسیم کر دیا کہ ہر قبیلہ نے اس کے اطراف میں "مطاف" (مقام طواف) کے کنارے اپنے اپنے مکان بنا لئے جن کے گھروں کے دروازے مطاف کی طرف کھلتے تھے۔
بعض روایات کے مطابق بعثتِ نبوی سے پانچ سال پہلے ایک زبردست سیلاب آیا جس کی وجہ سے خانہٴِ کعبہ منہدم ہو گیا اور قریش کے قبائل نے اس کی تعمیر کا کام اپنے ذمہ لیا۔ اس کی تعمیر کا کام ایک رومی باشندہ بنام "یاقوم" نے سرانجام دیا اور مصر کے ایک "بڑھئی" نے اس میں اس کا ہاتھ بٹایا۔ جب تعمیر اس مرحلہ پر پہنچی جہاں "حجراسود" کو نصب کرنا تھا تو ان کے قبائل کے درمیان جھگڑا کھڑا ہو گیا کہ یہ شرف کون سا قبیلہ حاصل کرے! آخرکار سب کا متفقہ فیصلہ ہوا کہ اسے (حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی نصب کریں جبکہ اس وقت آپ کی عمر مبارک ۳۵ سال کی تھی، اور ان لوگوں کو آپ کی عقلمندی و محکم سوچ کا پختہ یقین ہو چکا تھا۔
چنانچہ آنحضرت نے حکم دیا کہ ایک چادر بچھائی جائے، اس پر حجر اسود کو رکھ دیا جائے اور قبائل کو حکم دیا کہ اس چادر کے چاروں کونوں کو پکڑ کر اٹھائیں اور حجر اسود کو اپنی جگہ یعنی کعبہ کے مشرقی رکن تک لے جائیں۔ جب حجر اسود کو اسی جگہ تک لے جایا گیا تو آپ ہی نے اسے اٹھا کر وہیں پر نصب فرما دیا۔
چونکہ خانہ کعبہ کی تعمیر کے اخراجات کافی سنگین تھے جس کی وجہ سے ان لوگوں کی ہمتیں جواب دے گئیں، لہٰذا اس کی بلندی کو اسی جگہ تک ہی رہنے دیا جو اس وقت ہے اور سابقہ عمارت کے حصہ سے حجر اسماعیل کی طرف سے ایک حصہ تعمیر ہونے سے رہ گیا جو حجر اسماعیل ہی کا حصہ بن گیا کیونکہ اسے سابقہ عمارت سے چھوٹا بنایا گیا تھا۔
یہ عمارت اسی طرح اپنے حال پر باقی رہی یہاں تک کہ یزید بن معاویہ کے دور میں عبداللہ بن زبیر حجاز پر مسلط ہوا۔ یزید نے اس کی سرکوبی کے لئے حصین (بن نمبر) ملعون کی کمان میں ایک لشکر بھیجا۔ فریقین کے درمیان زوروں کی جنگ ہوئی جس کے نتیجہ میں یزید کے لشکر نے منجنیقوں کے ذریعہ شہرِ مکہ پر پتھر برسانے شروع کر دیئے۔ اس طرح خانہٴِ کعبہ کی تباہی ہوئی اور منجنیقوں کے ذریعہ شہر پر برسائی جانے والی آگ نے کعبہ کے پردے اور لکڑیوں کو جلا ڈلا۔
جب یزید کی ہلاکت کے بعد جنگ ختم ہو گئی تو ابنِ زبیر نے کعبہ کو ازسر نو تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے حکم کے مطابق یمن سے اعلیٰ قسم کا گچ (جپسم) منگئوایا گیا، اسے گچ سے تعمیر کیا گیا، حجر اسماعیل کو بھی خانہ کعبہ کا جزو بنا دیا گیا اور کعبہ کا دروازہ جو پہلے بلندی پر نصب تھا، اسے سطح زمین پر نصب کیا گیا۔ پھر پرانے دروازے کے بالمقابل ایک اور دروازہ رکھا گیا تاکہ لوگ ایک دروازے سے اندر آئیں اور دوسرے سے باہر نکل جائیں۔ کعبہ کی بلندی ستائیس ہاتھ (تقریبًا ساڑھے تیرہ میٹر) رکھی گئی اور جب کعبہ کی تعمیر سے فراغت ملی تو اسے مشک و عنبر کے ساتھ اندر و باہر سے معطر کر دیا گیا اس پر ریشم کا غلاف چڑھایا گیا اور ۱۷ رجب ۶۴ ھ میں اسے اس کام سے فراغت ہوئی۔
جب عبدالملک بن مروان تخت خلافت پر بیٹھا تو اس نے اپنے لشکر کے سردار حجاج بن یوسف کو حکم دیا کہ عبداللہ بن زبیر کی سرکوبی کے لئے مکہ جائے۔ چنانچہ حجاج نے اس شکست دی اور قتل کر دیا، پھر وہ خود بیت اللہ کے اندر گیا اور عبداللہ بن زبیر نے خانہ کعبہ کی جس قسم کی تعمیر کی تھی، اس نے اس سے عبدالملک کو اطلاع دی، عبدالملک نے حکم دیا کہ عبداللہ بن زبیر کی تعمیر کو ختم کرکے کعبہ کو اس کی پہلی صورت میں تعمیر کیا جائے۔ اس کے حکم کے مطابق حجاج کعبہ کی شمالی دیوار سے چھ ہاتھ اور ایک بالشت کے برابر گرا کر قریش کی رکھی ہوئی بنیاد تک جا پہنچا اور اپنی تعمیر کو اسی بنیاد پر استوار کیا، اس کے مشرقی دروازہ کو جسے ابن زبیر نے سطحِ زمین پر نصب کیا تھا، اوپر لے جا کر اس کی پہلی جگہ (سطحِ زمین سے تقریباً ڈیڑھ یا دو میٹر اوپر) نصب کیا، اس کے مقابل میں ابن زبیر کا رکھا ہوا مغربی دروازہ بھی اس نے بند کر دیا۔ اس کے بعد عمارت سے بچ جانے والے پتھروں سے کعبہ کی زمین کو فرش کر دیا۔
کعبہ کی یہی کیفیت سلطان سلیمان عثمانی (ترکی) کی حکومت تک باقی رہی۔ جب ۹۶۰ھ میں سلطان عثمانی برسرِ اقتدار آیا تو اس نے کعبہ کی چھت کو تبدیل کر دیا اور جب سلطان احمد عثمانی ۱۱۲۱ ھ برسراقتدار آیا تو اس نے کعبہ کی مرمت کی۔
پھر چونکہ ۱۰۳۹ ھ میں ایک بہت بڑے سیلاب نے اس کی شمالی و مشرقی و مغربی دیواروں کو کافی نقصان پہنچایا تھا اس لئے سلطان مراد چہارم، ایک عثمانی بادشاہ، کے حکم کے مطابق اس کی مرمت کی گئی۔ اس کے بعد سے ۱۳۷۵ ھ (مطابق ۱۳۳۵ شمسی) تک اس میں کسی اور قسم کی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔
خانہٴِ کعبہ کی شکل و صورت

خانہٴِ کعبہ تقریباً مربع شکل کا ایک مکان ہے جو نیلے رنگ کے ٹھوس پتھروں سے بنایا گیا ہے اس کی بلندی سولہ میٹر ہے جبکہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اس سے کہیں کم بلندی تھی فتحِ مکہ کی روایات سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کو اپنے کندھوں پر سوار کرکے اس میں موجود بتوں کو تڑوایا جو چھت کے ساتھ تھے، اور یہ ہمارے اس مدعا کو ثابت کرتی ہے۔
اس کا شمالی حصہ جہاں پر میزابِ رحمت اور حجرِ اسماعیل ہے، اسی طرح اس کے مقابل میں اس کا جنوبی حصہ دس میٹر اور دس سینٹی میٹر لمبے ہیں، جبکہ مشرقی حصے کی لمبا ئی جس میں کعبہ کا دروازہ بھی دو میٹر کی بلندی پر نصب ہے اور اس کے مقابل کے مغربی حصے کی لمبائی بارہ میٹر ہے۔ حجرِ اسود مطاف سے ڈیڑھ میٹر کی بلندی پر اس کے جنوبی حصے کی ابتدا میں نصب ہے۔ حجر اسود ایک ٹھوس، بھاری اور بیضوی شکل کا غیرتراشیدہ سرخی مائل سیاہ رنگ کا پتھر ہے۔ اس میں رنگ کے داغ اور زرد رنگ کی رگیں دکھائی دیتی ہیں، جو خودبخود جوش کھانے کی وجہ سے دراڑیں بن چکی ہیں
خانہٴِ کعبہ کے چاروں کونے قدیم الایام سے چار ارکان کے نام سے موسوم چلے آ رہے ہیں، شمالی رکن کو "رکن عراقی" کہتے ہیں مغربی رکن کو "رکنِ شامی" کہتے ہیں، جنوبی رکن کو "رکنِ یمانی" اور رکنِ شرقی کو کہ جس میں حجر اسود نصب ہے، "رکنِ اسود" کہتے ہیں۔ خانہ کعبہ کے دروازے سے لے کر حجر اسود تک کی درمیانی منزل کو "ملتزم" کہتے ہیں کیونکہ کعبہ کا زائر اور طواف کرنے والا دعا و استغاثہ کرتے وقت اسی حصے سے متوسل ہوتا ہے۔
شمالی حصے کی دیوار پر پرنالہ کو "میزابِ رحمت" (یا رحمت کا پرنالہ) کہتے ہیں۔ سب سے پہلے حجاج بن یوسف نے اسے ایجاد کیا اور بعد میں عثمانی بادشاہ سلطان سفیان ترکی نے اسے ۹۵۴ میں وہاں سے ہٹا کر چاندی کا پرنالہ لگایا۔ پھر عثمانی بادشاہ سلطان احمد نے ۱۰۲۱ ھ میں اس کی جگہ چاندی کا میناکاری شدہ پرنالہ لگایا۔ اس پر گہرے نیلے رنگ کی میناکاری کی گئی تھی اور اس کے فاصلوں میں سونا لگایا گیا تھا۔ ۱۲۷۳ ھ کے آخر میں سلطان عبدالمجید عثمانی (ترکی) نے اسے یکسر سونے میں تبدیل کر دیا، آج تک وہی پرنالہ اپنی جگہ پر موجود ہے۔
اسی پرنالے کے مقابل میں قوس نما ایک دیوار ہے جسے "حطیم" کہتے ہیں۔ حطیم نیم دائرہ میں ہے یہ اس عمارت کا حصہ ہے جس کے دونوں اطراف اس کے شمالی (شرقی و جنوبی () اور مغربی کونے پر جا کر ختم ہو جاتے ہیں۔ البتہ یہ ودونوں اطراف مذکورہ زاویہ سے متصل نہیں ہیں، بلکہ وہاں تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ اس کے دونوں اطراف سے دو راہرو ہیں جن کی لمبائی دو میٹر اور تیس سینٹی میٹر ہے۔ اس قوسی دیوار کی بلندی ایک میٹر اور چوڑائی ڈیڑھ میٹر ہے۔ اس کے اندر نقش و نگار سے مزین پتھر لگے ہوئے ہیں۔ اس قوس نما دیوار کا درمیانی فاصلہ اندر سے لے کر کعبہ کی دیوار کے درمیان تک ۸ میٹر اور ۴۴ سینٹی میٹر ہے۔
حطیم اور اس قوس نما دیوار کی درمیانی فضا کو "حجر اسماعیل" کہتے ہیں جس کا تقریباً تین میٹر کا حصہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بنائے ہوئے کعبہ میں شامل تھا لیکن بعد میں اسے اس سے باہر نکال دیا گیا۔ اسی لئے اسلام میں واجب ہے کہ خانہٴِ کعبہ کا طواف کرتے وقت حجر اسماعیل کو بھی اسی میں شامل کیا جائے تاکہ حضرت ابراہیم کے زمانہ کا پورا کعبہ طواف میں شامل ہو جائے۔
اس فضا کا بقیہ حصہ حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ کی گوسفندوں کا باڑہ ہوتا تھا۔ بعض حضرات کے بقول یہی جگہ حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ کا مدفن ہے۔
یہ تھا خانہٴِ کعبہ کا ہندسہ کے لحاظ سے ایک تفصیلی جائزہ۔ وہ تبدیلیاں جو اس میں رونما ہوتی رہیں اور وہاں پر انجام پانے والی رسومات، جو اسلام سے پہلے رائج تھیں، چونکہ ہمارے موضوع سے ان کا تعلق نہیں ہے، لہٰذا انہیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
حوالہ میزان الحکمہ مصنف محمدی ری شہری
 
Top