قبر اور خنجر

qaral

محفلین
عمران کی زندگی میں شائید کوئی لمحہ ایسا آیا ہوجب اس نے خود کو بیکار محسوس کیا ہو! ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنے کی عادت، عادت نہیں بلکہ ضرورت کہلاتی ہے! بعض آدمیوں کا اعصابی نظام ہی کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ حرکت کے بغیر ان کو سکون نہیں ملتا. سکون سے بہتر لفظ تسکین ہوسکتاہے! لہذا ایسے آدمیوں کی کچھ نہ کچھ کرنے کی عادت کو ضرورت ہی کہیں گے.
عمران کو اس وقت کوئی کام نہیں تھا تو مکھیوں کے پیچھے پڑگیا تھا اس کے ہاتھ میں فلٹ کی پچکاری تھی اور وہ دیوار پر بیٹھنے والی مکھیوں پر تاک تاک کر نشانے لگا رہا تھا .
اچانک فون کی گھنٹی بجی اور عمران نے جھونک میں فلٹ کی دو چار بوچھاٹیں ٹیلی فون پر بھی دے ماریں پھر ریسیور اٹھا کر مردہ سی آواز میں بولا."ہیلو"
"ہیلو!.........ڈار...........لنگ! " دوسری طرف سے ایک سریلی سے آواز آئی اور عمران ریسیور تھام کر رہ گیا..... یہ وہی لڑکی تھی، جواکثر اسے فون پر چھیڑتی رہتی تھی عمران نہیں جانتا تھا کہ وہ کون ہے. کہان رہتی ہے............. اور اسکے پیچھے کیوں پڑ گئی ہے.
"ہیلو! ڈئیرسٹ........!" دوسری طرف سے پھر آواز آئی
"رانگ نمبر پلیز!" عمران نے بے ساختہ منہ بنا کر کہا." ھوسکتا ہے، کہ ڈارلنگ اور ڈئیرسٹ میرے پڑوسی ہوں! لیکن ان سے میری جان پہچان نہیں ہے !"
اس نے ریسیور رکھ دیا اور پھر فلٹ کی بو چھا ڑیں اکا دکا مکھیوں پر پڑ نے لگیں.اچانک اس کا ہاتھ دروازے سے دیوار میں گھوم گیا! اور فلٹ کی بوچھا ڑ اس کے نوکر سلما ن کے چہرے پر پڑی جو دروازے میں داخل ہو رہا تھا!
شاید اس کا منہ کھلا ہوا تھا اس لئے بچھا ڑ اس کو حلق میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی اور وہ کھا نس کر تھوکنے لگا
"ارد.......چہ!" اس نے پچکاری میز پر پھینک کر سلیمان کی پیٹھ ٹھونکنی شروع کر دی! "پھر بولا. ٹھہرو ٹھہرو!"
دوسرے ہی لمحے اس نے بڑی پھرتی سے کاغذ کی ایک بتی بنائی، اور سلیمان کے سر کو مضبوطی سے پکڑ کر ناک میں بتی کرنے لگا،...............اب اس بیچارے پر چھینکوں کا دورہ پڑگیا.
"یہ کیا صاحب .............ارے میرا ........آچھیں آچھیں!"
"نکلی کہ نہیں!" عمران نے بڑی سنجیدگی سے فرش پر کچھ تلاش کرتے ہوئے پوچھا.
" کیا نکلی؟"
"مکھی!" عمران سر ہلا کر بولا.
" آپ نے میرے حلق میں فلٹ مارا تھا."
"مکھی تھی سلیمان کے بچے....... مکھی."
"میرے حلق میں؟" سلیمان نے بسور کر بولا.
"یقینا تھی! ورنہ میرا ہاتھ دروازے کی طرف کیوں گھوم گیا تھا!" عمران نے احمقانہ انداز میں سر ہلا کر کہا.
"صاحب! میری ایک بات سن لیجئے!" سلیمان بولا.
"دو باتیں سناؤ! مگر ٹھہرو! پہلے مکھی نکل جانے دو! ورنہ وہ ایک بھی نہ سنانے دے گی."
"میں اب خود کشی کر لوں گا.......... "سلیمان پھر بسورنےلگا"
ابے اس سے زیادہ آسان نسخہ یہ رہے گا کہ جاسوسی ناول لکھنا شروع کر دے! "
" یا خود کشی کر لوں گا........ یا پھر نہ کروں گا."
" دوپہر کے کھانے سے پہلے تم خود کشی نہیں کر سکتے! سمجھے!" عمران نے غصیلی آواز میں کہا؛" اس کے بعد ہوسکتا ہے میں بھی تمہارا ساتھ دوں"
" آپ کیوں ساتھ دیں گے!"
" آجکل جیسا کھانا مل رہا ہے اس سے تو بہتریہی ہے کہ میں خود کشی کر لوں. نہ زندہ رہوں گا نہ کھانا کھاؤں گا. "
 
Top