مزمل شیخ بسمل
محفلین
غزل
(مزمل شیخ بسملؔ)
قانونِ حق کو بسملؔ ٹھکرانا زندگی کا
ہے خواہشوں کی پوجا بت خانہ زندگی کا
کرنا پڑے گا خالی یہ خانہ زندگی کا
کب تک رہے گا آخر دیوانہ زندگی کا
آئے تھے جس جہاں سے جاتے ہیں اس جہاں میں
سمجھا نہ اس سفر میں افسانہ زندگی کا
آئےتھےکس لئےہم، کیاکررہےہیں جگ میں
مطلب نکل رہا ہے روزانہ زندگی کا
ہے جان بھی اسے کی، اپنا بتاؤ کیا ہے
دینا پڑے گا اک دن ہرجانہ زندگی کا
دنیا میں وقت کھویا تو نیند بھر کے سویا
بیداری میں نہ لٹتا یہ خانہ زندگی کا
مدت سے پٹ رہے ہیں، پٹ پٹ کے مٹ رہے ہیں
اب آئے دور کوئی مردانہ زندگی کا