'قاتل سپاہی'(از گل 9خیز اختر)

ساقی۔

محفلین
دوپہر کے ساڑھے بارہ بجے ہیں۔ جون کا مہینہ ہے، سمن آباد میں ایک ڈاکیہ پسینے میں شرابور بوکھلایا بوکھلایا سا پھر رہا ہے محلے کو لوگ بڑی حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔۔ اصل میں آج اس کی ڈیوٹی کا پہلا دن ہے۔۔ وہ کچھ دیر ادھر ادھر دیکھتا ہے پھر ایک پرچون والے کی دکان کے پاس سائیکل کھڑی کر کے دکان دار کی طرف بڑھتا ہے
'قاتل سپاہی کا گھر کون سا ہے ' ؟ اس نے آہستہ سے پوچھا۔۔
دکان دار کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔۔ اس کی آنکھیں خوف سے ابل پڑیں۔۔
قق قاتل سپاہی۔۔ مم مجھے کیا پتا ؟ اس نے جلدی سے دکان کا شٹر گرا دیا۔۔
ڈاکیہ پھر پریشان ہو گیا۔۔ اس نے بہت کوشش کی کہ کسی طریقے سے قاتل سپاہی کا پتا چل جائے لیکن جو کوئی بھی اس کی بات سنتا چپکے سے کھسک جاتا۔۔ ڈاکیہ نیا تھا نہ جان نہ پہچان اور اوپر سے قاتل سپاہی کے نام کی رجسٹری آکر وہ کرے تو کیا کرے کہاں سے ڈھونڈھے قاتل سپاہی کو؟؟ اس نے پھر نام پڑھا نام اگرچہ انگلش میں تھا لیکن آخر وہ بھی مڈل پاس تھا، تھوڑی بہت انگلش سمجھ سکتا تھا بڑے واضح الفاظ میں۔۔
قاتل سپاہی "غالب اسٹریٹ" سمن آباد لکھا ہوا تھا۔۔ دو گھنٹے تک گلیوں کی خاک چھاننے کے بعد وہ ہانپنے لگا۔ پہلے روز ہی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔۔ اب وہ اپنے پوسٹ ماسٹر کو کیا منہ دکھائے گا۔۔ اس کا حلق خشک ہو گیا اور پانی کی طلب محسوس ہوئی وہ بے اختیار اٹھا اور گھر کے دروازے پر لگی بیل پر انگلی رکھ دی۔۔ اچانک اسے زور دار جٹھکا لگا۔۔ جھٹکے کی اصل وجہ یہ نہیں تھی کہ بیل میں کرنٹ تھا بلکہ بیل کے نیچے لگی ہوئی پلیٹ پر انگلش میں 'قاتل سپاہی' لکھا ہوا تھا۔۔
خوشی کی لہر اس کے اندر دور گئی۔۔ اتنی دیر میں دروازہ کھلا اور ایک نوجوان باہر نکلا۔۔ ڈاکیے نے جلدی سے رجسٹری اس کے سامنے کر دی۔۔
کیا آپ کا ہی یہ نام ہے ؟
نوجوان نے نام پڑھا اور کہا نہیں یہ میرے دادا ہیں۔۔
ڈاکیے نے جلدی سے پوچھا ۔۔ ''کیا نام ہے ان کا؟
نوجوان نے بڑے اطمینان سے کہا '' قتیل شفائی ''
Qatil Shiphai
( گل نوخیز کی No خیزیاں سے اقتباس )
 

ساقی۔

محفلین
آج کل میں اپنے آفس بوائے کو چوتھی دفعہ میٹرک کروا رہا ہوں اور یقین کامل ہے کہ یہ سلسلہ مزید پانچ چھ سال تک جاری رہے گا، ہر دفعہ وہ پوری تیاری سے پیپر دیتا ہے اور بفضل خدا، امتیازی نمبروں سے فیل ہوتا ہے- اس دفعہ بھی پیپرز میں وہ جو کچھ لکھ آیا ہے وہ یقینا تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا- اسلامیات کے پرچے میں سوال آیا کہ “مسلمان کی تعریف کریں؟” موصوف نے جواب لکھا کہ “مسلمان بہت اچھا ہوتا ہے، اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، وہ ہوتا ہی تعریف کے قابل ہے، اس کی ہر کوئی تعریف کرتا ہے، جو اس کی تعریف نہیں کرتا وہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے، میں بھی اٹھتے بیٹھتے ہر وقت اس کی تعریف کرتا رہتا ہوں، مسلمان کی تعریف کرنے سے بڑا ثواب ملتا ہے، ہم سب کو ہر وقت مسلمان کی تعریف کرتے رہنا چاہیے”-

اسی طرح مطالعہ پاکستان المعروف “معاشرتی علوم” کے پرچے میں سوال آیا کہ پاکستان کی سرحدیں کس کس ملک کے ساتھ لگتی ہیں، موصوف نے پورے اعتماد کے ساتھ لکھا کہ “پاکستان کے شمال میں امریکہ، مشرق میں افریقہ، مغرب میں دبئی اور جنوب میں ا

نگلستان لگتا ہے”-
سائنس کے پرچے میں سوال تھا کہ “الیکٹران اور پروٹان میں کیا فرق ہے؟” عالی مرتبت نے پورے یقین کے ساتھ جواب لکھا کہ “کچھ زیادہ فرق نہیں، سائنسدانوں کو دونوں کی ضرورت پڑتی رہتی ہے”-

اردو کے پرچے میں ساغر صدیقی کے اس شعر کی تشریح پوچھی گئی “زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے……جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں”- جواب میں لکھا “اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ویسے تو میں نے بہت سے جرم کیے تھے، چوری بھی کی، ڈاکا بھی ڈالا، دہشت گردی بھی کی، لڑکیوں کو بھی چھیڑا، دو تین بندے بھی قتل کیے، لیکن یہ جو مجھے جج صاحب نے سزا دی ہے اس کا مجھے بالکل بھی پتا نہیں چل رہا کہ یہ کون سے والے جرم کی سزا ہے؟

پرچے اور تماشے – تحریر:- گل نوخیز اختر
 
Top