قائد اعظم پاکستان میں شرعی قوانین کا نفاذ چاہتے تھے۔ ڈاکٹر صفدر محمود کی گواہی۔

قائد اعظم کے تصور پاکستان اور فرمودات پر من پسند غلاف چڑھانے کا سلسلہ 1948میں ہی شروع ہو گیا تھا۔ لیکن اس وقت اس طرح کے نام نہاد روشن خیالوں اور دین بیزاروں کی تعداد بہت کم تھی۔ ویسے قائد اعظم کو بھی دنیا روشن خیال ہی سمجھتی ہے۔ جب قائد اعظم کو علم ہوا کہ کچھ سیکولر حضرات ان کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں تو بابائے قوم نے 25جنوری 1948کو عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر کراچی بار ایسوسی ایشن کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے علم میں یہ بات لائی گئی ہے کہ ’’کچھ حضرات جان بوجھ کر شرارت کر رہے ہیں اور یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت پر نہیں ہو گی۔ ہماری زندگی پر آج بھی اسلامی اصولوں کا اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو سال قبل ہوتا تھا۔ ‘‘ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت پر استوار ہو گی اور جو لوگ یہ پروپیگنڈہ کررہے ہیں وہ شرارتی اور منافق ہیں۔ قائد اعظم بابائے قوم تھے وہ تو ان سازشی حضرات کو شرارتی اور منافق کہہ سکتے تھے لیکن میں تو نہیں کہہ سکتا۔ میں انہیں صرف شرارتی کہہ سکتا ہوں۔ کچھ دانشور ان بیانات سے مذہبی ریاست کا مفہوم نکال کر لوگوں کو خوفز دہ کرتے ہیں۔ میں گزشتہ کالم میں واضح کر چکا ہوں کہ اسلامی ریاست ہرگز مذہبی ریاست (تھیا کریسی) نہیں ہوتی اور نہ ہی اسلام میں تھیو کریسی کا تصور موجود ہے۔ اسلامی ریاست تمام مذاہب کا احترام کرتی ہے، مکمل مذہبی آزادی دیتی ہے، اقلیتوں کو برابر کے حقوق دیتی ہے اور مذہب کو مسلط نہیں کرتی صرف مسلمانوں کو اپنے دین کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے اقدامات کرتی ہے جو سیکولر نظام میں ممکن نہیں ہوتا۔ افسوس سیکولر حضرات کے لئے قائد اعظم نے بدخبری 1944ُ میں قیام پاکستان سے قبل ہی دے دی تھی۔ انہوں نے 27جولائی 1944ء کو راولپنڈی کی ایک تقریب میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے واضح کیا ’’پاکستان میں شراب پر یقیناً پابندی ہوگی۔ ‘‘ (بحوالہ قائد اعظم کے شب و روز، خورشید یوسفی، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد ، صفحہ نمبر 10) ۔ پاکستان کے قیام کے بعد صوبائی حکومتوں نے اسلامی تعلیمات بورڈ تشکیل دیئے تھے جن کا مقصد حکومتوں کی راہنمائی تھا۔ اس حقیقت کا کم لوگوں کو علم ہے کہ ان کی سفارش پر 29ستمبر 1948کو صوبوں میں شراب پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ سرکاری اعلان قائد اعظم کی وفات کے اٹھارہ دن بعد 30ستمبر کو اخبارات میں چھپا جس کا ذکر پاکستان کرونیکل مرتبہ عقیل عباس جعفری میں بھی موجود ہے۔ میں نے اپنے 24؍ دسمبر کے کالم میں جنرل اکبر کے حوالے سے لکھا تھا کہ قائد اعظم کی منظوری کے بعد تمام فوجی میسوں میں شراب نوشی پر پابندی لگا دی گئی تھی (بحوالہ آخری منزل، صفحہ 281) ویسے آپس کی بات ہے کہ کبھی کبھی قائد اعظم مولویوں کی مانند بھی بات کر جاتے تھے۔ شاید اسی لئے دین بیزار دانشوروں نے ان کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے۔ ملاحظہ کیجئے قائد اعظم نے کیا کہا ’’میں نہ تو کوئی مولوی ہوں نہ مجھے دینیات پر مہارت کا دعویٰ ہے البتہ میں نے قرآن مجید اور اسلامی قوانین کے مطالعہ کی اپنے طور پر کوشش کی ہے۔ اس عظیم الشان کتاب میں اسلامی زندگی کے متعلق ہدایات کے بارے میں زندگی کا روحانی پہلو، معاشرت، سیاست غرض انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو قرآن کریم کی تعلیمات کے احاطے سے باہر ہو۔ ‘‘ قائد اعظم نے سینکڑوں بار کہا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس میں دین کو سیاست سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ پھر شیلانگ میں خواتین کے بہت بڑے جلسہ سے 4مارچ 1946کو خطاب کرتے ہوئے ’’مولویوں‘‘ والی بات کہہ دی۔ ’’ہر مسلمان کے پاس قرآن کریم کا ایک نسخہ ہونا چاہئے تاکہ وہ اپنی راہنمائی خود کر سکے۔ ‘‘ (بحوالہ قائد اعظم تقاریر و بیانات، جلد سوم، صفحات 474-73)۔ ہے نا مولویوں والی بات؟ تو پھر دین بیزار قائد اعظم سے ناراض کیوں نہ ہوں؟ میں ان حضرات کے لئے بھی دعا گو ہوں جو کہتے ہیں کہ ہم صرف قرارداد پاکستان (23مارچ نہیں دراصل 24مارچ 1940 ہے) کو مانتے ہیں، قائد اعظم کے بیانات اور تقریروں کو نہیں مانتے اور میں ان کے لئے بھی دعا گو ہوں جو فرماتے ہیں کہ قائد اعظم کی گیارہ اگست 1947 والی تقریر کا ان کی کسی اور تقریر سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے دستور ساز اسمبلی میں چودہ اگست کو بھی تقریر کی تھی اور جنوری 1948میں بحیثیت گورنر جنرل اور بابائے قوم کراچی بار ایسوسی ایشن جیسے اہم ادارے کو عید میلاد النبی ؐ کے مبارک موقعے پر خطاب کرتے ہوئے شریعت کے نفاذ کا عندیہ بھی دیا تھا۔ کیا اس وقت پاکستان کے گورنر جنرل، بانی پاکستان اور بابائے قوم نہیں رہے تھے کہ آپ ان کی یہ تقاریر نہیں مانتے۔ یہ خبث باطن ہے اور قائد اعظم سے بے انصافی ہے کہ ان کے فرمودات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جائے اور ان کی صرف ایک تقریر سے من پسند مفہوم اور معانی کشید کئے جائیں۔ عزیزان و برداران، قائد اعظم گیارہ اگست کو گورنر جنرل پاکستان نہیں تھے انہوں نے چودہ اگست کو گورنر جنرل کا حلف اٹھایا اس لئے ان کی چودہ اگست کے بعد کی تقریروں کی حیثیت سرکاری اور ریاستی پالیسیوں کی ہے۔ حیرت ہے کہ آپ پاکستانی ہو کر ان سے انکاری ہیں۔ایک بار پھر عرض کر رہا ہوں کہ میرا مقصد صرف اور صرف قائد اعظم کے فرمودات، تصورات اور ویژن کی وضاحت کرنا ہے اور جہاں جہاں ڈنڈی ماری جائے اسے بے نقاب کرنا ہے ورنہ پاکستان میں کس طرح کا نظام ہو گا اس کا فیصلہ بہرحال پاکستانی عوام کی ذمہ داری ہے۔ ساری بحث کا مرکزی نقطہ فقط یہ ہے کہ قائد اعظم پاکستان میں اسلامی جمہوری اور فلاحی نظام حکومت قائم کرنا چاہتے تھے مذہبی ہرگز نہیں۔ اسلامی ریاست اور مذہبی ریاست میں بڑا فرق ہوتا ہے اسے سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ اسلامی ریاست میں سیکولر حضرات وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم بھی بن سکتے ہیں لیکن مذہبی ریاست میں نہیں۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=159046
 

x boy

محفلین
الحمدللہ
میں کئی بار اس بات کو متفق کرچکا ہوں اور متعدد بار اسکالر ڈاکٹر اسرار احمد کی ویڈیوں خطاب براہ راست فیڈرل کیبنیٹ مین ہوا اسکو پیش کرچکا ہوں
لیکن کچھ تعصبی لوگ اس کو ماننے کو تیار نہیں، ان کی گنتی چند ہے ہوسکتا ہے تھوڑی دیر میں حملہ آور ہوجائیں۔
:)
 

ساقی۔

محفلین
پاکستان-کا-نظام-حکومت-۔-قائداعظم.jpg
 
Top