جوش فکر ہی ٹہری تو دل کو فکر خوباں کیوں نہ ہو

فکر ہی ٹہری تو دل کو فکر خوباں کیوں نہ ہو
خاک ہونا ہے تو خاک ِ کوئے جاناں کیوں نہ ہو

زیست ہےجب مستقل آوارہ گردی ہی کانام
عقل والو! پھر طوافِ کوئے جاناں کیوں نہ ہو

مستیوں سے جب نہیں مستوریوں میں بھی نجات
دل کھلے بندوں غریقِ بحر عصیاں کیوں نہ ہو

اِک نہ اک ہنگامہ پر موقوف ہے جب زندگی
میکدے میں رندِ رقصاں و غزل خواں کیوں نہ ہو

جب خوش و نا خوش کسی کے ہاتھ میں دینا ہے ہاتھ
ہمنشیں! پھر بیعتِ جام ِ زر افشاں کیوں نہ ہو

جب بشر کی دسترس سے دور ہے جبل المتیں
دست وحشت میں پھر اک کافر کا داماں کیوں نہ ہو

اک نہ اک رفعت کے آگے سجدہ لازم ہے تو پھر
آدمی محوِ سجود ِ سروخوباں کیوں نہ ہو

اک نہ اک ظلمت سے وابستہ رہنا ہے تو جوش
زندگی پرسایہء زلفِ پریشان کیوں نہ ہو
 
Top