فوڈ پوائزننگ کے ۷ جھوٹ

food-poisoning-300x336.png
ایک بار مشہور امریکی باکسر، محمدعلی فوڈپوائزننگ دیا (غذائی سمیّت) کا شکار ہوگئے۔ لوگ اسے معمولی بیماری سمجھتے ہیں، لیکن یہ جسے چمٹے، تکلیف کا ماجرا وہی جانتا ہے۔ چنانچہ محمد علی بھی ایک ہفتہ صاحبِ فراش رہے اور ان کے تمام مقابلے ملتوی ہوگئے۔ فوڈ پوائزننگ، آلودہ غذا کھانے سے چمٹتی ہے، ایسا کھانا جس میں جراثیم خوب پرورش پا چکے ہوں۔ اب ماہرین طب نے دریافت کیا ہے کہ انسان اکثر اس ’’معمولی‘‘ بیماری کا نشانہ بنے، تو وہ طویل المیعاد طور پر کئی بیماریوں میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ مثلاً گنٹھیا، امراض بول، ذیابیطس اور گردوں و آنکھوں کی بیماریاں۔​
۲۰۱۰ء میں کینیڈا کے صوبہ اونٹاریو میں ۱۵؍مردوزن نے ایک کنوئیں کا آلودہ پانی پیا تو غذائی سمیّت کا شکار ہو گئے۔ تب کینیڈین ڈاکٹروں نے یہ تحقیق کی کہ فوڈ پوائزننگ طویل المیعاد لحاظ سے انسانوں پر کیسے اثرات مرتب کرتی ہے۔ نتیجہ خاصا ڈرائونا تھا: غذائی سمیّت کا شکار لوگ عام انسانوں کی نسبت ہائی بلڈپریشر، امراض قلب اور گردوں کی بیماریوں میں ۵۰ تا ۱۰۰؍فیصد زیادہ گرفتار ہوتے ہیں۔​
ماہرین طب کا کہنا ہے کہ مردوزن کی اکثریت اس وجہ سے فوڈپوائزننگ کا نشانہ بنتی ہے کہ اس بیماری کے متعلق کئی غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ اگر عام و خاص کو صحیح معلومات مل جائیں، تو مریضوں کی تعداد کم ہوجائے گی۔ ذیل میں غذائی سمیّت سے تعلق رکھنے والے ایسے ۷؍جھوٹ پیش ہیں جنھیں بدقسمتی سے سچ سمجھ لیا گیا۔​
گھر کا کھانا ریستوران کے کھانے سے بہتر ہے۔​
حقیقت: ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے باورچی خانے صاف ستھرے ہیں اور مائیں بہنیں بھی دیکھ بھال کر کھانا پکاتی ہی۔لیکن سچ یہ ہے کہ (اچھے) ریستورانوںمیں تربیت یافتہ اورتجربہ کار عملہ غذائیں تیار کرتا ہے۔ انھیں غذا تیار اورمحفوظ کرنے کا طریقہ آتا ہے۔پھر ہر اچھے ریستوران میں صفائی ستھرائی کا بڑا اہتمام کیا جاتا ہے، کیونکہ فوڈ پوائزننگ کا ایک بھی کیس کاروبار تباہ کر سکتا ہے۔​
اگر گرم کھانا فریج میں رکھا جائے، تو وہ خراب ہوجائے گا۔
حقیقت:سچ یہ ہے کہ وہ یوں محفوظ ہوجاتا ہے۔ دراصل کھانا پکا کر اگر اُسے کمرے کے درجہ حرارت میں چھوڑ دیا جائے، تو اس میں جراثیم خوب پلتے بڑھتے ہیںکیونکہ انھیں سازگار ماحول مل جاتا ہے۔ اگر پکا کھاناطویل عرصہ یونہی پڑا رہے، تو آلودہ ہونے میں دیر نہیں لگاتا۔ لیکن فریج میں رکھا جائے، تو ٹھنڈک جراثیم کی افزائش سست کر دیتی ہے۔​

برگر، چپس وغیرہ میں سب سے خطرناک عنصر مایونیز ہے۔
حقیقت: ماہرین غذائیت کا کہنا ہے کہ برگر و چپس میں موجود کباب، انڈے یا آلو کی وجہ سے عموماً غذائی سمیّت چمٹتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ بازار میں فروخت ہونے والی مایونیز عمل پاسچری سے گزار کر تیارکی جاتی ہے۔ یہ عمل بیشتر جراثیم مار ڈالتا ہے۔ مزیدبرآں ان میں شامل تیزاب جراثیم کو آسانی سے پھلنے پھولنے نہیں دیتے۔ لہٰذا گھر میں کچے انڈوں سے تیار کردہ مایونیز کی نسبت اچھی کمپنی کی تیار کردہ مایونیز بہتر ہے۔​
مرغی، گوشت وغیرہ پر لگایا جانے والا دہی و مسالہ جات کا مرکب تیزابی اور جراثیم کش ہوتا ہے۔ چنانچہ بھنی جانے والی غذائوں پر یہ مرکب لگانا مفید ہے۔
حقیقت: جراثیم کمرے کے درجہ حرارت میں تیزی سے بڑھتے ہیں۔ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ مرغ یا بڑے گوشت پر مسالہ جات و دہی وغیرہ لگا کر فریج میں رکھا جائے۔ اگر غذا کھلی چھوڑ دی جائے، تو اس میں جراثیم جنم لے کر اُسے آلودہ کر سکتے ہیں۔​
اگر پھلوں یا سبزیوں کو چھیلنے کا پروگرام ہے، تو انھیں دھونے کی ضرورت نہیں۔
حقیقت: اگر پھلوں یا سبزیوں کو کاٹنے سے قبل دھویا نہ جائے، تو عموماً انھیں کاٹتے وقت بیرونی سطح سے جراثیم اندرونی حصے میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ ماہرین غذائیات کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے پھل یا سبزی کا گلاسڑا حصہ کاٹ دیجیے۔ پھر نلکے کے بہتے پانی میں دھوئیں۔
تربوز اور دیگر موٹی جلد والے پھل و سبزیاں صاف برتن میں رکھ کر دھوئیے۔ بعدازاں کسی صاف کپڑے سے انھیں خشک کر لیجیے۔​
یہ ضروری ہے کہ مرغ، سرخ گوشت اور مچھلی وغیرہ کو پکانے سے قبل پانی میں کھنگال لیا جائے​
حقیقت: گوشت کوئی بھی ہو، اُسے زیادہ دھونا نقصان دہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اگر وہ جراثیم سے آلودہ ہو، تو دھونے کے دوران گندے پانی کی چھینٹیں سنک اور دوسری چیزوں کو بھی جراثیم زدہ کر دیتی ہیں۔ گوشت کے جراثیم مارنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اُسے درست درجہ حرارت پر پکایا جائے۔ اگر گوشت کچا رہے یا زیادہ پک جائے، تو دونوں صورتوں میں غذائی سمیّت پیدا کرتا ہے۔​
اگر زمین پر گری کوئی بھی غذا پانچ سیکنڈ کے اندر اندر اٹھالی جائے، تو اُسے کھایا جا سکتا ہے۔
حقیقت: اس دیو مالا کو تو ایک برطانوی ہائی سکول کے طالب علم، جولین کلارک نے غلط ثابت کر دکھایا۔ تجربے سے قبل کلارک نے فوڈپوائزننگ پیدا کرنے والے عام جرثومے، ای۔ کولی (E. Coli) فرش پر گرا دیے۔ اس نے پھر فرش پر بسکٹ، توس اور ٹافیاں گرائیں اور پانچ سیکنڈ بعد اٹھالیں۔ جب اس نے بذریعہ خوردبین انھیں دیکھا، تو تمام غذائوں کو جراثیم میں لت پت پایا۔​
امریکا کے سائنس دانوں نے بھی غذائی سمیّت پیدا کرنے والے مشہور جرثومے سالمونیلا پر تجربات کرکے دریافت کیا کہ وہ فرش، لکڑی اور قالین پر چار ہفتے زندہ رہتا ہے۔ نیز جب ڈبل روٹی اور کیک کے ٹکرے قالین پر گرا کر فوراً اٹھائے گئے، تو معلوم ہوا کہ سالمونیلا ان سے چمٹ چکے ہیں۔​
ربط​
 

فہیم

لائبریرین
کہتے ہیں کہ معدہ درست تو بندہ درست۔
ویسے خود میں معدے کو لے کر بھی وہم میں نہیں پڑتا
اور زبان کے چٹخاروں کے ساتھ زیادہ انصاف کرتا ہوں :)
 
کہتے ہیں کہ معدہ درست تو بندہ درست۔
ویسے خود میں معدے کو لے کر بھی وہم میں نہیں پڑتا
اور زبان کے چٹخاروں کے ساتھ زیادہ انصاف کرتا ہوں :)
یہ زبان کا چٹکارہ ہی انسان کو بیمار کرتا ہے مگر کیا کریں چھٹتی ہی نہیں کافر منہ کو لگی ہوئی
 
Top