فوٹو گرافی

faqintel

محفلین
میرے پیارے بھائی!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وبعد:
ہم آپ کے لیے اور اپنے لیے اللہ تعالی سےراہ راست کی طرف ہدایت اور پھر اس پر استقامت کی دعا کرتے ہیں۔ اللہ تعالی کی آخری کتاب قرآن مجید میں بہت سی آیات اور حدیث کی کتابوں میں رسول کریمۖ کے بہت سےفرامین ملتے ہیں جو تصویر سازی کے حرام ہو نے پردلالت کرتے ہیں۔ رسول اکرمۖ ارشاد فرماتے ہیں:
"قیامت کے دن تصویریں بنانے والوں کو سب سے زیادہ عذاب دیا جائےگا"۔
نیزآپۖ کایہ بھی فرمان ہے:
"ہرتصویر ساز جہنم میں جائےگا۔ وہاں اس کے لیے دنیا میں اس کی بنائی ہوئی ہر ایک تصویر کے بدلے میں ایک جسم تیار کیا جائے گا جو اسے جہنم میں عذاب دے گا۔ (حضرت عبد اللہ بن عباس نے یہ مسئلہ پو چھنے والے سے فرمایا) اگرتم ضرور تصویر بنا نا ہی چاہتے ہو تو بے جان چیزوں مثلا درختوں وغیرہ اور قدرتی مناظر کی بنا سکتے ہو"۔
میرے بھائی اللہ سے ڈرجاؤ اور اپنے نفس کی خواہشات کی مخالفت کرو تا کہ تم اللہ کی نعمتوں والی جنت میں مزے کر سکو۔
 

arifkarim

معطل
فوٹوگرافی تو عکس بندی ہے۔ اسے تصویر کشی کے زمرے میں کیوں دیکھا جائے جیسا کہ مغربی پینٹرز کرتے ہیں؟
 

faqintel

محفلین
تصویر سازی بت پرستی کا پہلا زینہ

جب سے یہ دنیا معرض وجود میں آئی ہے ابلیس ملعون نے بنی نوع انسانیت کو گمراہ کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے اور آج تک وہ اس وعدہ کا پاس نبھانے کی تگ ودو میں مصروف نت نئے لائحہ عمل سوچ رہا ہے۔
کبھی تو وہ سونے چاندی کی چمک کولے کر میدان عمل میں کودتا ہے اور کبھی عہدہ ومنصب کی لذت کے ذریعہ انسان کو فتنہ میں مبتلا کرتا ہے اور کبھی عورتوں کے جال میں الجھانے کی سازش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
مذکورہ تمام طریقے تو فتنہ وفساد برپاکرنے کے عام طریقے ہیں‘ مگر ان سب سے خطرناک حربہ اور داؤ شیطان کا ”نوری داؤ“ ہے جس کے ذریعہ وہ بنی آدم کے سامنے گناہ اور گمراہیوں کو طاعت وعبادت کے لبادے میں چھپا کر پیش کرتا ہے‘ جس کی بدولت انسان روز بروز گمراہی کے گڑھے میں گرتا چلا جاتاہے‘ مگر اس کو اس کا ذرہ بھر احساس بھی نہیں ہوتا کہ میں نادانی میں اپنے ہی ہاتھوں اپنی تباہی کا سامان کررہا ہوں اور ہو بھی کیسے سکتا ہے‘ یہ احساس تو تب ہو جب وہ اس کو گناہ بھی سمجھے اور اگر وہ اس کو عبادت اور طاعت سمجھ کر کررہا ہو تو وہ کیسے اپنے آپ کو روک پائے گا۔نیز شیطان کے ایک داؤ میں سے یہ ہے کہ وہ ہر دم یہ کوشش کرتا ہے کہ انسان کو شرک میں مبتلا کردے اور اس کی خاطر وہ اپنے تمام ہتھکنڈے اور صلاحیتیں بروئے کار لے آتا ہے‘ قوم نوح وہ پہلی قوم ہے جس نے دنیا کے اندر شرک جیسے ناسور کی داغ بیل ڈالی اوران کو اس عظیم نقصان سے دوچار کرنے میں ابلیس لعین نے برسوں انتظار کی گھڑیاں کاٹیں‘ تب جا کر اس کو اپنے مقصد میں کامیابی ہوئی اور اس کامیابی کے پیچھے مال ودولت سبب بنا اور نہ منصب وحکمرانی اور نہ عورتوں کی زیب وزینت‘ بلکہ اس کامیابی کے لئے شیطان نے ایک بالکل انوکھا حربہ آزمایا اور قوم نوح اس قتنہ میں الجھ کررہ گئی۔
ہوا کچھ یوں کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت ادریس علیہ السلام تک اس کرہ ارض پر صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی جاتی تھی اور بنی آدم کے ذہن میں کسی دوسرے معبود کا تصور تک نہ تھا ‘ مگر حضرت ادریس علیہ السلام کے زمانہ کے بعد ان کی اولاد میں پانچ بزرگ نہایت نیک اور صالح تھے‘ جن کے نام ود‘ سواع‘ یغوث‘ یعوق اور نسر تھے اور ان کی صحبت کی برکت سے دیگر انسانوں کو بھی عبادت میں شوق اور دل جمعی نصیب ہوتی تھی‘ مگر رفتہ رفتہ یکے بعد دیگرے وہ دنیا سے رخصت ہوتے چلے گئے تو لوگوں کی بھی عبادت میں وہ لذت اور حلاوت برقرار نہ رہی‘ لہذا جب ان کا دل عبادت سے اچاٹ ہونے لگا تو وہ سب پریشان ہوگئے کہ اب کیا کریں‘ ان کی اس پریشانی کو دیکھ کر شیطان ایک نیک اور صالح انسان کی شکل میں ان کے پاس آیا اور ہمدردی جتاتے ہوئے ان سے کہنے لگا کہ: میں ان پانچ بزرگوں کے مجسمے بناکر تمہیں دوں گا‘ جب تم عبادت کیا کرو تو گھر میں ان مجسموں کو رکھنا تو تمہاری عبادت کی سابقہ کیفیت عود کر آئے گی۔چنانچہ ابلیس نے ایسا ہی کیا اور وہ لوگ بھی اس پر مطمئن ہو کر از سرنو عبادت میں مشغول ہوگئے‘ پھر ایک زمانہ بعد انہوں نے ان مجسموں کو عبادت خانے میں صفوں کے آگے رکھ دیا‘ تاکہ عبادت کے دوران وہ نگاہوں کے سامنے رہیں اور عبادت میں زیادہ لذت محسوس ہو۔
مگر جب اس طبقہ کا انتقال ہوگیا اور وہ مجسمے ان کے عبادت خانے میں ہی رہ گئے تو ابلیس ان کی آل واولاد کے پاس آیا اور کہا کہ یہ تم کس خدا کی عبادت میں لگے ہوئے ہو‘ تمہارے آباء واجداد تو ان بتوں کو پوجاکرتے تھے اور ان کے سامنے سجدہ ریز ہوتے تھے‘ اسی وجہ سے تو انہوں نے ان کو اپنی صفوف کے آگے جگہ دی تھی‘ لہذا یہ نئی نسل شیطان کے اس پروپیگنڈہ میں آگئی اور انہوں نے بتوں کو پوجنا شروع کردیا اور خدا وحدہ لاشریک کی عبادت سے غافل ہوتی چلی گئی۔
اگر آپ اس ساری صورتحال کا جائزہ لیں اور اس گمراہی کی ابتداء میں جھانکیں تو آپ کو اس کا بنیادی سبب اور پہلا زینہ جو نظر آئے گا وہ ”تصویر سازی“ ہے نہ شیطان ان بزرگوں کی شکل کے مجسمے بناتا اور نہ ان کے آباء واجداد ا س پر رضامندی کا اظہار کرتے‘ نہ ان کی اولاد شرک اور بت پرستی کے فتنہ میں ملوث ہوکر اپنے ہی ہاتھوں اپنی عاقبت برباد کرتی:
بت پرستی دین احمد میں کبھی آئی نہیں
اسی لئے تصویر جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں
درحقیقت تصویر سازی جرم ہی اتنا بڑا ہے کہ اس پر جو بھی سزا دی جائے وہ سمجھ میں آنی والی بات ہے‘ کیونکہ اس کے ذریعہ مصور در اصل اللہ تعالیٰ کی صفت خاصہ کو اپنے لئے ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے‘اسی وجہ سے اس عمل پر رسول اللہ ﷺ کی طرف سے شدید اور سخت وعیدیں بیان فرمائی گئی ہیں‘ تاکہ انسان سے یہ قبیح عمل کسی صورت سرزرد نہ ہونے پائے‘ چنانچہ آپ ا ارشاد فرماتے ہیں:
”ان الذین یصنعون ہذہ الصور یعذبون یوم القیامة یقال لہم: احیوا ما خلقتم“ (الترغیب والترہیب‘ج:۳‘ ص:۱۱۴
ترجمہ:․․․”جو لوگ یہ (جانداروں کی) تصویریں بناتے ہیں قیامت کے دن ان کو عذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ جو تصویریں تم نے بنائی ہیں ان میں جان ڈال کر زندہ کرو“۔
دوسری حدیث میں آپ ا کا ارشاد وارد ہوا ہے:
”اشد الناس عذابا یوم القیامة الذین یضاہون بخلق اللہ“ (الترغیب والترہیب‘ ج:‘ ۳‘ ص:۱۱۴
اب چونکہ بنی نوع انسان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے اور روز بروز نت نئی چیزیں وجود میں آتی جارہی ہیں اور انسانوں کا معیار زندگی یکسر تبدیل ہوچکا ہے‘ اسی کے پیش نظر شیطان نے بھی بنی آدم کو گمراہ کرنے کے نت نئے انداز اختیار کرلئے ہیں۔
گذشتہ زمانہ میں شیطان نے قوم نوح کو مجسمے بناکر گمراہی اور تباہی کے اندوہناک غار میں دھکیلا تھا‘ مگر اب چونکہ مجسمہ سازی کی صنعت رو بہ زوال ہے اور اس کی جگہ ڈیجیٹل کیمرے متداول ہیں‘ لہذا شیطان نے انہی آلات کی بدولت نوع انسانی کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے اور امت کو اسی بحث میں الجھا دیا ہے کہ آیا ان کیمروں سے لئے گئے عکس پر تصویر کا اطلاق ہوتا ہے یا یہ فقط آئینہ کی مانند منعکس ایک عکس ہے‘ لہذا امت کا ایک بڑا طبقہ ابھی تک اسی معمہ کے حل کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
اس مسئلہ کے اندر امت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے‘ بعض اس کو تصویر کہہ کر اس کی حرمت کے قائل ہیں جبکہ دوسروں کی رائے اس کے برعکس ہے‘ دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر دلیل پیش کرتے ہیں‘ میں ان دلائل کو ذکر نہیں کروں گا اور نہ ہی فریقین میں سے کسی ایک کی تصویب اور دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی جسارت کروں گا‘ کیونکہ یہ علماء کا کام ہے اور وہی اس کے اہل ہیں۔البتہ چند متفقہ قواعد کلیہ ضرور ذکر کرنا چاہوں گا‘ جس سے شاید کسی کو کچھ فائدہ پہنچ جائے:
۱- ابن نجیم (متوفی ۹۷۰ھ) فرماتے ہیں:
”اذا تعارض دلیلان احدہما یقتضی التحریم والآخر الاباحة قدم التحریم“۔
(الاشباہ والنظائر‘ ص:۹۳ ط:دار الکتاب العلمیة)
یعنی جب کسی معاملہ میں علماء کی دو رائیں ہوں‘ ایک حلت کی اور دوسری حرمت کی تو احتیاط کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ انسان حرمت کے پہلو کو اختیار کرے( اگرچہ اس میں بظاہر کچھ نقصان ہوتا نظر آرہا ہو)۔
۲- جب ایک زمانہ سے امت تصویر کی حرمت پر اجماع کرچکی ہے تو آج بھی اس کی حرمت برقرار رہے گی‘ چاہے زمانہ کتنا ہی ترقی کیوں نہ کر جائے۔
۳- انسان کی گمراہی اور فتنہ سے بچنے کی واحد صورت یہ ہے کہ وہ امت کے متفقہ مسائل کی روشنی میں زندگی گذارے اور تفرد وشاذ آراء سے بچنے کی کوشش کرے۔
یہاں میں ایک بات کی طرف ضرور توجہ دلانا چاہوں گا کہ جو بعض علماء تصویر کی حلت کے قائل ہیں وہ بھی مطلق حلت کے قائل نہیں ہیں‘ بلکہ ان کے قول کا منشاء یہ ہے کہ آج جب ہر طرف سے کفار دین اسلام کے خلاف سازش کررہے ہیں اور اس سلسلہ میں میڈیا ان کا سب سے مؤثر ہتھیار ہے تو ان کفار کو ان ہی کے میدان میں شکست دینے کے لئے علماء کو بھی اہون البلیتین کے قاعدہ کی روسے میڈیا کو استعمال کرکے دنیا کے سامنے اسلام کی صحیح صورت پیش کرنی چاہئے۔ اہون البلیتین کا مطلب یہ ہے کہ دو مصیبتوں میں سے کم تر مصیبت کو اختیار کر لیا جائے۔ خدارا! اس حلت کے فتویٰ کا ہر گز یہ مطلب نہ لیا جائے کہ اب جس طرح چاہو تصویر سازی کرتے جاؤ کوئی گناہ نہیں ہے‘ نہیں‘ بلکہ یہ تصویر سازی کل بھی حرام تھی اور آج بھی حرام ہے‘ فرق صرف اتنا ہے کہ کل تک ہاتھ کے ذریعہ مجسمے بنائے جاتے تھے اور آج یہی کام کیمرے کے ذریعے بروئے کار لایا جارہا ہے۔
اسی فرق کو علامہ محمد ناصر الدین البانی الترغیب والترہیب کے حاشیہ میں اس طرح نقل کرتے ہیں:
”والتفریق بین الصورة الفوتوغرافیة والصور الیدویة ظاہریة عصریة ابتلی بہا کثیر من یدعی العلم ولم یتفقہوا بالسنة المحمدیة وما مثلہم الا مثل من یبیح الصنام والتماثیل التی صنعت بالآلة ولم تنحت بالید۔ (الترغیب والترہیب ۔ ج:۳‘ ص:۱۱۴ ط
خلاصہ: اس عبارت کا کچھ اس طرح ہے کہ: فوٹو گرافی اور مجسمہ سازی میں صرف زمانہ کا فرق ہے (ایک زمانہ میں مجسمہ سازی تھی اور اب فوٹو گرافی کا زمانہ ہے اور حکم دونوں کا ایک ہی ہے کہ دونوں ہی حرام ہیں) اور علم کے بہت سے دعوے دار اس میں الجھ کررہ گئے ہیں۔ اور جو فوٹو گرافی کو حلال سمجھتے ہیں‘ ان کی مثال اس طرح ہے کہ وہ ہاتھ کے بنے ہوئے مجسمے کو حرام کہتے ہیں اور کسی مشین یا آلات کی مدد سے بنائے گئے مجسمے کو حلال کہتے ہیں‘ اگر ہم اپنے گرد وپیش کا جائزہ لیں تو ہمیں ایسے افراد بکثرت نظر آئیں گے جو اس تصویر سازی کو حلال سمجھتے ہوئے اس میں منہمک ہیں اور شیطان ان کی اس عفت پر بغلیں بجا رہا ہے۔
لہذا امت کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم تو اسی غفلت میں مبتلا رہیں اور ا سکو حلال سمجھتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو جائیں اور ہمارے بعد آنے والی نسلیں شیطان کے اسی داؤ میں آجائیں جو داؤ اس نے قوم نوح پر آزمایا تھا اور ساری کی ساری انسانیت کو گمراہی میں مبتلا کردیا تھا۔
ہماری آئندہ نسلوں کی اصلاح وتربیت ہمارے اپنے اعمال سے منسلک ہے‘ اب ہم خود سوچ لیں کہ ہم اپنی نسلوں کی دین وایمان کی حفاظت کے لئے کیا صورت اپنائیں، آیا اس تصویر سازی میں مبتلا رہیں یا اس سے کنارہ کش ہوجائیں۔اللہ ہم سب کو صحیح سمجھ اور سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا ء فرمائیں اور ہماری نسلوں کے بھی دین وایمان کی حفاظت فرمائیں‘ آمین․
 

arifkarim

معطل
ہمم، مطلب اب بچوں کی کتب میں سے بھی تصاویر اور السٹریشنز نکال دینی چاہیے تاکہ وہ علوم جدیدہ کبھی نہ سیکھ پائیں:(
 

faqintel

محفلین
(حضرت عبد اللہ بن عباس نے یہ مسئلہ پو چھنے والے سے فرمایا) اگرتم ضرور تصویر بنا نا ہی چاہتے ہو تو بے جان چیزوں مثلا درختوں وغیرہ اور قدرتی مناظر کی بنا سکتے ہو"۔
اگر آپ اشاعت دین کے لیے ویڈیو یا پھر تصویر نگاری کر تے ہیں تو یہ جاز ہے
جمہور علامہ کا قول ہے
 

صرف علی

محفلین
اگر ایسا ہو تو پھر تمام علوم جدید کا کیا کرو گے جو تصویروں کا محتاج ہے جیسے طب وغیرہ
 

صرف علی

محفلین
اگر آپ اشاعت دین کے لیے ویڈیو یا پھر تصویر نگاری کر تے ہیں تو یہ جاز ہے جمہور علامہ کا قول ہے
اگر حرام ہے تو پھر سب چیزوں کے لئے حرام ہوگا اور کیا بات کی ہے اسلام خود ایک چیز کو حرام کرے پھر اس کو اپنے لئے حلال بھی کرے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟/
 

خرم

محفلین
(حضرت عبد اللہ بن عباس نے یہ مسئلہ پو چھنے والے سے فرمایا) اگرتم ضرور تصویر بنا نا ہی چاہتے ہو تو بے جان چیزوں مثلا درختوں وغیرہ اور قدرتی مناظر کی بنا سکتے ہو"۔
اگر آپ اشاعت دین کے لیے ویڈیو یا پھر تصویر نگاری کر تے ہیں تو یہ جاز ہے
جمہور علامہ کا قول ہے
یہی فقرہ بیان کرتا ہے کہ ہمارے "علماء" کو دین کی کس قدر سمجھ ہے۔ ویسے پہلا کیمرہ کس نے اور کب بنایا یہ معلوم ہے کسی "عالم" کو؟ بھائی کن چکروں میں پڑے ہو؟ دین اتنا تنگ نہیں جتنا چند کنوئیں کے مینڈکوں نے بنا لیا ہے۔ صرف یاددہانی کے لئے دو واقعے عرض کرتا ہوں۔ گزشتہ صدی کے اوائل میں جب "ٹم ٹم گاڑی" ہندوستان آئی تو فتوٰی دیا گیا کہ اس کا خریدنا حرام ہےاور اس پر غالباَ سواری کرنے والے کا نکاح‌فسخ ہوجاتا ہے۔ آج کتنے "علماء" کے نکاح باقی ہیں اس فتوے کی رو سے آپ خود ہی حساب لگا لیں۔ پھر جب لاؤڈ سپیکر آیا تو اسے "شیطانی ایجاد" کہا گیا اور اس کے استعمال کو "حرام" کہا گیا۔ آج کسی "عالم" کی مسجد سے لاؤڈ سپیکر اتار کر تو دیکھئے۔ سیدھے شہیدوں میں داخل ہو جائیے گا۔ دین متحرک ہے۔ ایک سمندر ہے، اسے گاؤں کا بدبودار جوہڑ ان لوگوں نے بنایا ہے جن کی سانسوں میں جوہڑ کی سڑاند بسی ہے۔ آپ تو اس سحر سے باہر نکلو۔ دین میں یہ حرام، وہ حرام۔ ارے کچھ حلال بھی ہے دین میں؟ کوئی کہے کُتا کان لئے جاتا ہے تو بھاگ لو کُتے کے پیچھے یہ دیکھے بغیر کہ کان کٹا بھی ہے کہ نہیں۔ ہر حکم کی ایک وجہ اور ایک پس منظر ہوتا ہے۔ اسے جانو میرے بھائی۔
 

تیشہ

محفلین
یہی فقرہ بیان کرتا ہے کہ ہمارے "علماء" کو دین کی کس قدر سمجھ ہے۔ ویسے پہلا کیمرہ کس نے اور کب بنایا یہ معلوم ہے کسی "عالم" کو؟ بھائی کن چکروں میں پڑے ہو؟ دین اتنا تنگ نہیں جتنا چند کنوئیں کے مینڈکوں نے بنا لیا ہے۔ صرف یاددہانی کے لئے دو واقعے عرض کرتا ہوں۔ گزشتہ صدی کے اوائل میں جب "ٹم ٹم گاڑی" ہندوستان آئی تو فتوٰی دیا گیا کہ اس کا خریدنا حرام ہےاور اس پر غالباَ سواری کرنے والے کا نکاح‌فسخ ہوجاتا ہے۔ آج کتنے "علماء" کے نکاح باقی ہیں اس فتوے کی رو سے آپ خود ہی حساب لگا لیں۔ پھر جب لاؤڈ سپیکر آیا تو اسے "شیطانی ایجاد" کہا گیا اور اس کے استعمال کو "حرام" کہا گیا۔ آج کسی "عالم" کی مسجد سے لاؤڈ سپیکر اتار کر تو دیکھئے۔ سیدھے شہیدوں میں داخل ہو جائیے گا۔ دین متحرک ہے۔ ایک سمندر ہے، اسے گاؤں کا بدبودار جوہڑ ان لوگوں نے بنایا ہے جن کی سانسوں میں جوہڑ کی سڑاند بسی ہے۔ آپ تو اس سحر سے باہر نکلو۔ دین میں یہ حرام، وہ حرام۔ ارے کچھ حلال بھی ہے دین میں؟ کوئی کہے کُتا کان لئے جاتا ہے تو بھاگ لو کُتے کے پیچھے یہ دیکھے بغیر کہ کان کٹا بھی ہے کہ نہیں۔ ہر حکم کی ایک وجہ اور ایک پس منظر ہوتا ہے۔ اسے جانو میرے بھائی۔




میں بہت خوش ہوئی یہ پڑھکر ۔۔ :battingeyelashes:
مجھے خود بہت چڑِ ہے کہ لوگ اندھا دھند ہر بات کو لے کر ، بغیر سوچے سمجھے مذہب میں لے آتے ہیں ۔۔
تبھی تو پاکستان ترقی نہ کرسکا ( جب لوگوں کی سوچ کنواں کے مینڈک جیسی ہوگی ملک کا بھی حال ایسا ہی رکھیں گے ۔ :chatterbox:
 

فا ر و ق

محفلین
محمد بن قاسم کا قصور ہے :(

محمد بن قاسم کا کیا قصور ہے کیا اس نے کیمرا ایجاد کیا تھا معضرت کے ساتھ

http://en.wikipedia.org/wiki/History_of_the_camera:thumbsdown::thumbsdown:
The first photograph was made in 1814 by Joseph Nicéphore Niépce using a sliding wooden box camera made by Charles and Vincent Chevalier in Paris, the photograph was not permanent though and it faded. Niépce built on a discovery by Johann Heinrich Schultz (1724): a silver and chalk mixture darkens under exposure to light. While this was the introduction of photography, the history of the camera can be traced back much further. Photographic cameras were a development of the camera obscura, a device dating back to the Book of Optics (1021) of the Iraqi Arab scientist Ibn al-Haytham (Alhacen),[1] which uses a pinhole or lens to project an image of the scene outside onto a viewing surface.

Before the invention of photographic lapel processes there was no way to preserve the images produced by these cameras apart from manually tracing them. The earliest cameras were room-sized, with space for one or more people inside; these gradually evolved into more and more compact models such as that by Niépce's time portable handheld cameras suitable for photography were readily available. The first camera that was small and portable enough to be practical for photography was built by Johann Zahn in 1685, though it would be almost 150 years before such an application was possible.​
 

خرم

محفلین
تو قصور ہے ابن الہیثم کا اور اس وقت کے علماء کا جنہوں نےاس "غیر اسلامی" کام کو ہونے سے روکا نہیں۔ ویسے ابن سینا نجانے کیسے بغیر اشکال کے طب کے طلباء کو اس علم کے اسرار و رموز سمجھاتے ہوں گے؟
 

فا ر و ق

محفلین
تو قصور ہے ابن الہیثم کا اور اس وقت کے علماء کا جنہوں نےاس "غیر اسلامی" کام کو ہونے سے روکا نہیں۔ ویسے ابن سینا نجانے کیسے بغیر اشکال کے طب کے طلباء کو اس علم کے اسرار و رموز سمجھاتے ہوں گے؟

بڑے تعجب کی بات ہے ہے نہ
 

وجی

لائبریرین
تو قصور ہے ابن الہیثم کا اور اس وقت کے علماء کا جنہوں نےاس "غیر اسلامی" کام کو ہونے سے روکا نہیں۔ ویسے ابن سینا نجانے کیسے بغیر اشکال کے طب کے طلباء کو اس علم کے اسرار و رموز سمجھاتے ہوں گے؟

شاید پی ٹی وی کے تاریخ پر مبنی ڈرامے آپ نے نہیں دیکھے ورنہ یہ بات آپ سوچ سمجھ کر کرتے
بھائی تاریخ کی کچھ کتابیں پڑھ لیں جس میں کافی تفصیل بیان کی جاتی ہے
اردو ہی کی بات لے لیں‌کہ اکثر ایسا سننے کو ملتا ہے کہ "واہ جناب لکھنے والے نے کیا خاکہ کھینچا ہے کہ پوری تصویر سامنے آگئی "
تو کیا ابن الہیثم اس انداز بیان کو استعمال نہیں کرسکتے تھے ؟؟
 

فا ر و ق

محفلین
شاید پی ٹی وی کے تاریخ پر ممبنی ڈرامے آپ نے نہیں دیکھے ورنہ یہ بات آپ سوچ سمجھ کر کرتے
بھائی تاریخ کی کچھ کتابیں پڑھ لیں جس میں کافی تفصیل بیان کی جاتی ہے
اردو ہی کی بات لے لیں‌کہ اکثر ایسا سننے کو ملتا ہے کہ "واہ جناب لکھنے والے نے کیا خاکہ کھینچا ہے کہ پوری تصویر سامنے آگئی "
تو کیا ابن الہیثم اس انداز بیان کو استعمال نہیں کرسکتے تھے ؟؟

آپ کی بات میں بہی وزن تو ہے بہت خوب :rollingonthefloor:
 

arifkarim

معطل
تو قصور ہے ابن الہیثم کا اور اس وقت کے علماء کا جنہوں نےاس "غیر اسلامی" کام کو ہونے سے روکا نہیں۔ ویسے ابن سینا نجانے کیسے بغیر اشکال کے طب کے طلباء کو اس علم کے اسرار و رموز سمجھاتے ہوں گے؟

ہاہاہا، شاید آپ بھول گئے ہیں کہ ابن الہیشم اور دوسرے مسلمان سائنسدانوں کی بنائی گئی انسانی اعضاءکی تصاویر ہی کی مدد سےمغربیوں نے کیمرے اور دوسری ایجادات کیں۔ جبکہ ہم حرام حرام کی رٹ لگا کر یہیں بیٹھے ہیں۔:yawn:
 
Top