فوری انصاف کا قانون اور ۔۔۔۔

Sultan Hussain

محفلین
چھوٹی سی بات
سلطان حسین


فوری انصاف کا قانون اور ۔۔۔۔

کہاجاتا ہے کہ اپنے خیالات کی حفاظت کریں کیونکہ یہ آپ کے الفاظ بن جاتے ہیں ۔اپنے الفاظ کی حفاظت کریں کہ یہ آپ کے اعمال بن جاتے ہیں اپنے اعمال کی حفاظت کریں کیونکہ یہ آپ کے کردار بن جاتے ہیں اپنے کردار کی حفاظت کریں کیونکہ یہ آپ کی پہچان بن جاتے ہیںاگر ہم اپنے الفاظ 'خیالات 'اعمال ' کرداراور پہچان پر نظر دوڑائیں توایک سوالیہ نشان نظر آتا ہے؟؟ یہ دوسال پہلے کی بات ہے جب ہر طرف شرپسندوں کا راج تھا ہر روز بے گناہ لوگوں کا خون ہورہا تھا لیکن حکومت تماشائی بنی ہوئی تھی سیاستدان تقسیم تھے مذہبی جماعتیں اپنی ہی ڈگر پر چل رہی تھیںایسے میں 16 دسمبر کواے پی ایس کا سانحہ پیش آیا جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیایہ ایسا سانحہ تھا جس کی شدت پوری دنیا میں محسوس کی گئی ایسے میں جب مجرموں کو فوری سزا کا مطالبہ کیا جانے لگا تھاتوبڑی لے دے کے بعد قومی اسمبلی سے فوری سزا دینے کے لیے ایک قانون دوسال کے لیے پاس کیا گیا جس کے تحت مجرموں کے ٹرائل کے لیے فوری سماعت کی فوجی عدالتوںپر اتفاق کیا گیااس وقت یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ قانون حکومت کی کوششوں سے بناکسی دباؤ کے تحت منظور نہیں کیاگیا لیکن دوسال بعد حکومت کے ہی ایک ایسے اتحادی نے اس کا بھانڈہ پھوڑ دیا جو حکومت کے ہر اقدام کی حمایت اپنا فرض اولین سمجھتا ہے مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ اس وقت یہ قانون دباؤ کے تحت منظور کیا گیا تھاانہوں نے یہ تو نہیں کہا کہ یہ دباؤ کس کا تھا تاہم پاکستانی قوم جانتی ہے کہ یہ دباؤ کس کا تھا ؟؟جیسے ہی ان عدالتوں کی مدت ختم ہوئی اور ''دباؤ ''والی شخصیت نہ رہی نہ صرف مولانا صاحب بلکہ زر داری صاحب کوبھی ''تکلیف '' شروع ہوگئی ان کی دیکھا دیکھی دیگر نے بھی ان کا ساتھ دیا اور فوجی عدالتوں کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگیں اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جب ملک میں سول عدالتیں موجود ہوں تو فوجی عدالتوں کی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن یہ وہاں بہتر ہوتا ہے جہاں سول عدلتیں ستا اور فوری انصاف فراہم کریں ہمارے ملک میں تو انصاف کی فراہمی کا یہ انظام اس قدر ''ستا اور فوری '' ہے کہ انصاف کے لیے آنے والا اپنی زندگی سے گزر جاتا ہے لیکن اسے انصاف نہیں ملتا بلکہ بعض اوقات تو اس کی کئی نسلیں انصاف کی راہ تکتے رہ جاتی ہیں اس نظام میں ایک خامی یہ بھی ہے کہ طاقتور انصاف کو موم کی طرح اپنی مرضی کے مطابق ڈال لیتا ہے یہاں انصاف خریدا بھی جاتا ہے ۔انگریز سے ورثے میں ملے ہوئے اس قانون میںکچھ تو پہلے سے ہی اس قدر خامیاں تھیں کہ فوری انصاف ایک خواب بن کر رہ گیا ہے پھر اس میں حکمرانوں نے اپنے مفادات کا تحفط کرتے ہوئے اتنی تبدیلیاں کیں کہ اب یہ ''نہ اِدھر کے رہے نہ اْدھرکے''والا معاملہ بن گیا ہے عام حالات میں یہ قانون لوگوں کو انصاف فراہم کرنے میں تاخیر کا سبب بن رہا ہے تو ایمر جنسی میںیہ قانون کیسے وقت کا ساتھ دے سکتا ہے ان حالات میں جبکہ ملک میں ہزاروں لوگ اپنے پیاروں کے قاتلوںکو تختہ دار پر دیکھنے کے متمنی ہوںاوراپنی مدت میں فوری انصاف کی عدالتوں کے فیصلوں کے باوجود سول عدالتوں میں اپیلوں کی وجہ سے کئی مجرموں کی سزائیں لٹکی ہوئی ہوںتو کیا یہ انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ نہیں؟؟؟عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال ابھر رہا ہے کہ آخر عوام کے یہ منتخب نمائندئے ان عدالتوں کی مخالفت کیوں کررہے ہیں ؟اس حوالے سے سوشل میڈیا بھی بڑا ایکٹیو ہے اگر ایک حلقہ اس کی مخالفت کر رہا ہے تو دوسرا اس کے حق میں ڈٹ چکا ہے مختلف آرا سامنے آرہی ہیں جس میں اکثریت ان عدالتوں کی حمایت کررہی ہے اس حوالے سے صرف ایک پوسٹ مثال کے طور پر پیش کر رہا ہوں ایک بلاگر نے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ دی ہے جس پر دلچسپ تبصرے کئے گئے ہیں ہم یہاں صرف ان کی پوسٹ آپ سے شیئر کررہے ہیں اس پوسٹ میں لکھا گیا ہے '' ذرا سی برفباری ہوئی پورا ملک جام ہوگیا فوج کو بلانا پڑ گیا کہا گیا آؤ راستے کھول دو تمام ادارے ناہل ہیں' زلزلہ آیا امدادی کام کے لیے فوج کو بلاو'بارشوں سے تباہی آئی فوج کو بلاو'سیلاب آیا فوج کو بلاو'دہشتگردوں کو پکڑنا ہے (جو سول اداروں کا م ہے) فوج کو بلاو'دشمن کو جواب دینا ہے فوج کو آگے کروجو اس کا اصل کام ہے اور وہ یہ کام بخوبی کررہی ہے لیکن ہم فوج سے سول اداروں کا کام بھی لے رہے ہیںپھر اسی فوج کے خلاف باتیں بھی کرتے ہیںیہ ہے اس ملک کا حال ہے پھر کہتے ہیں ترقی ہوررہی ہے ساراکام فوج نے کرنا ہے تو باقی ادارے کیا جھک مارنے کے لیے عوام کے ٹیکسوں سے حرام کی تنخواہیں لیے بیٹھے ہیں '' ہمارے ملکی اداروں کا یہ حال ہے اس کے باوجود جب تیز تر انصاف کی فراہمی کی بات ہو تو پھر یہ سب بڑے اور حکمران فوج کے خلاف ایک ہوجاتے ہیں اور ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے لگتے ہیں اور اس طرح یہ لوگ دشمن کا کام آسان کرتے ہیں ۔کیا ان لوگوں کو ملک اور عوام کا خیر خواہ کہا جاسکتا ہے ؟اگر ہمارے ملک میں انصاف کا نظام بہتر ہوتا تو فوری انصاف کی عدالتیں قائم ہی کیوںہوتیںسوشل میڈیا پر اس پوسٹ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عام آدمی کیا چاہتا ہے اور ان کے اپنے ملک کے ''بڑوں''کے بارے میں کیا خیالات ہیںکسی عمل یا قانون کی مخالفت اس وقت کی جاتی ہے جب کسی کے دل میں چور ہو اور وہ اس سے متاثر ہورہا ہویا پھر اس سے عام بے گناہ آدمی متاثر ہورہا ہوجبکہ ایسا نہیں ہے عام آدمی کا ان عدالتوں سے تو وسطہ ہی نہیں پڑتا تو پھر ان عدالتوں کی مخالفت کیوں کی جارہی ہے صاف ظاہر ہے کہ بعض لوگوں کے دل میں چور ہے اور وہ اس قانون کو اپنے لیے خطرہ محسوس کررہے ہیں بعض سیاستدانوں نے فوجی عدالتوں کے قانون کی منظوری کے وقت ہی اسی خدشے کا اظہار کردیا تھا اسی لیے اب جب کہ اس قانون کی مدت ختم ہو چکی ہے تو وہ اس کے خلاف کھل کر سامنے آگئے جبکہ حکومت نے بھی اس پر مکمل خاموشی اختیار کر لی اور اب خصوصی عدالتوں کی بات کررہی ہے حکومت خود بھی یہی چاہتی ہے کہ فوری انصاف کا یہ قانون دوبارہ نہ آئے اسی لیے نظر یہی آرہا ہے کہ یہ قانون دوبارہ لاگو نہیں ہو سکے گا کیوں کہ اس پر اب ہر طرف سے مکمل خاموشی ہے یہ الگ بات ہوگی کہ اگر کوئی ''دباؤ ''آیا اور حکمرانوں نے اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے تو اس کی منظوری ہوجائے ۔
 

یاز

محفلین
ہمیں لگتا ہے کہ یہ مضمون درست زمرے میں پوسٹ نہیں کیا گیا۔ منتظمین ہی اس کو درست زمرے میں پہنچا سکتے ہیں اب۔
 
Top