ن

نامعلوم اول

مہمان
محمد اسامہ سَرسَری
کاشف عمران
ملک عدنان احمد
معافی خطا پے مجھے مانگنی ہے
تیری بزم میں اب گزارا نہیں ہے
تمہیں علم و فن میں ملی برتری ہے
کہا ٹھیک کامل نےہوں مبتدی میں
بدل کر میں اک شعر لکھنے لگا ھوں
اگر ھو سکے توسمجھ لو اسامہ
"بنا کر ادیبوں کا ہم بھیس مانی
تماشائے اہلِ سخن دیکھتے ہیں "

بہت خوب مقطع یہ تم نے بنایا
اسے میں نے پایا ہے پُر از معانی
تماشا ئے اہلِ سخن دیکھنے سے
بہت فائدے تم اٹھاؤ گے مانی
مگر پھر بھی اچھا لگے گا عزیزم
لکھو گے بھی کچھ کچھ گر اپنی کہا نی
 

الف عین

لائبریرین
میاں فکر کیوں ہے جو ‘غلطی‘ ہوئی ہے
کہ ’غلطی‘ کی ’غلطی‘ بھی میں کر رہا ہوں
یہاں سب جو کہتے ہیں کہتے رہیں گے
اس طرح ایک مثنوی بن رہی ہے
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
اس دھاگہ پہ جب سے نظر پڑ گئی ہے
(نظر میں ہے جب سے یہ دھاگا ہماری)
کتابیں پڑی ہیں کلاسیں چھٹی ہیں
نہیں لگ رہا دل پڑھائی میں میرا
جی کہ رہا وقت گزارو اسی میں
(یہیں پر رہوں اب یہ دل کہہ رہا ہے)
مگر مجھکوکالج جانا ہی پڑے گا
(مگر مجھکوکالج تو جانا پڑے گا)
کہ ٹیچر ہے خبطی ،کمینی رذیلا

بری بات، ٹیچر کو ایسے پکارا
"خبردار جو میری مانو کو مارا"
 
کچھ کتابیں بتائیں ائے اسامہ بھائی
ہو باتاں جس میں عروضاں کی کوئی

کتابیں، رسالے، جریدے، مجلے
یہ سب ہی ہیں بے کار و بے سود واللہ
فعولن اگر سیکھنا ہے تو پھر تم
یہ گانا سنو ایک، دو بار اور پھر
اسی دھن میں ہر شعر کو گنگناؤ
فعولن بھی آجائے گا تم کو آخر۔
مگر جو مزید آپ کو سیکھنا ہو
تو نیچے مری دستخط کو بھی دیکھو۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
میاں فکر کیوں ہے جو ‘غلطی‘ ہوئی ہے
کہ ’غلطی‘ کی ’غلطی‘ بھی میں کر رہا ہوں
یہاں سب جو کہتے ہیں کہتے رہیں گے
اس طرح ایک مثنوی بن رہی ہے
مگر مثنوی ہے بلا قافیہ یہ
قوافی کی تم نے ہے اچھی سنائی
مرے دل میں ہے اک نئی بات آئی

چلو اب کریں کچھ قوافی کی باتیں
جوانی کے دن ہیں مرادوں کی راتیں

اسی طرح اک مثنوی بن چلے گی
عجب طرح کی شاعری بن چلے گی

اگرچہ نئے لکھنے والے ڈریں گے
مریں گے ڈریں گے،ڈریں گے مریں گے

مگر ہم تو استادِ فن ہیں، ڈریں کیوں
قوافی کے ڈر سے بھلا ہم مریں کیوں

الف عین بھی ایک صاحب ادب ہیں
جنابِ اسامہ بھی گویا غضب ہیں

بہت صاحب ِ طرز شاعر ہیں آسی
چھڑے گی عجب ایک جنگِ پلاسی

مزمل بھی بسمل ہے لیکن جواں ہے
جواں ہے، رواں ہے، دواں ہے، کہاں ہے؟

تو آؤ شروع کرتے ہیں مثنوی ہم
سکھاتے ہیں بچوں کو اب شاعری ہم

محمد اسامہ سَرسَری، محمد یعقوب آسی، الف عین، مزمل شیخ بسمل
 
صریرِ خامۂ وارث
اردو محفل پر ایک سوال پوچھا گیا تھا کہ علامہ اقبال کے درج ذیل خوبصورت شعر کی بحر کیا ہے اور اسکی تقطیع کیسے ہوگی، اسکے جواب میں خاکسار نے بحرِ مُتقَارِب کا مختصر تعارف لکھا تھا، اس کو قطع و برید اور ترمیم کے ساتھ یہاں لکھ رہا ہوں۔

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

یہ شعر بحر
مُتَقارِب مثمن سالم
میں ہے۔ مثمن کا مطلب آٹھ یعنی اس بحر کے ایک شعر میں آٹھ رکن اور ایک مصرعے میں چار۔ سالم کا مطلب ہے کہ اس بحر میں جو رکن ہے وہ مکمل ہے اور کہیں بھی اس میں تبدیلی نہیں کی گئی۔ اسے متقارب کیوں کہتے ہیں اسکی تفصیل چھوڑتا ہوں۔
یہ بحر ایک
مفرد بحر
ہے، مفرد کا مطلب ہے کہ اس بحر میں اصل میں ایک ہی رکن ہے اور اسکی بار بار تکرار ہے، یہ مثمن ہے تو مطلب ہوا کہ اس بحر کے ایک شعر میں ایک ہی رکن کی آٹھ بار تکرار ہے۔ مفرد کے مقابلے میں مرکب بحریں ہوتی ہیں جن میں ایک سے زائد ارکان ہوتے ہیں۔

اس بحر کا رکن ہے '
فَعُولُن
' یعنی فَ عُو لُن یعنی 1 2 2 ہے اور اس بحر میں اسی ایک رکن کی بار بار تکرار ہونی ہے۔ اسکے مقابلے میں آپ
بحرِ متدارک دیکھ چکے ہیں

کہ اسکا رکن 'فاعلن' ہے، کیا آپ فعولن اور فاعلن میں کوئی مماثلت دیکھ سکتے ہیں۔

فعولن یا 1 2 2

اب اگر پہلے ہجائے کوتاہ کو اٹھا کر پہلے ہجائے بلند کے بعد رکھ دیں یعنی 2 1 2 تو یہ وزن فاعلن ہے، متقارب اور متدارک میں بس اتنا ہی فرق ہے، ان دونوں میں یہ مماثلت اس وجہ سے ہے کہ دونوں بحریں ایک ہی دائرے سے نکلی ہیں، تفصیل کسی اچھے وقت کیلیے اٹھا رکھتا ہوں۔

بحرِ متقارب کا وزن ہے
فعولن فعولن فعولن فعولن
(یہ بات نوٹ کریں کہ جب بحر کا نام لکھتے ہیں تو ایک مکمل شعر میں جتنے رکن ہوتے ہیں انکی تعداد بتائی جاتی ہے لیکن جب وزن لکھتے ہیں تو صرف ایک مصرعے کا لکھتے ہیں، یہ مثمن بحر ہے یعنی آٹھ رکن ایک شعر میں ہیں لیکن جب وزن لکھا تو صرف ایک مصرعے کا کیونکہ دوسرا مصرع ہو بہو پہلے کا عکس ہوتا ہے۔)
اب اس شعر کی تقطیع دیکھتے ہیں
سِ تا رو - 1 2 2 - فعولن (یاد رکھنے کی ایک بات کہ نون غنہ کا وزن نہیں ہوتا سو اسے تقطیع میں بھی شمار نہیں کرتے، اس لیئے ستاروں کا نون غنہ تقطیع میں نہیں آرہا اور نہ ہی اسکا کوئی وزن ہے)
سِ آ گے - فعولن 1 2 2 (یاد رکھنے کی دوسری بات، حرف علت الف، واؤ یا یے کو ضرورت شعری کے وقت وزن پورا کرنے کیلیئے لفظ سے گرا کر اور اسے اضافت یعنی زیر، زبر، پیش سے بدل کر اسکا وزن ختم کر سکتے ہیں کیونکہ اضافتوں کا بھی کوئی وزن نہیں ہوتا۔ وجہ یہ ہے کہ بولنے میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور فائدہ یہ کہ وزن پورا ہو جاتا ہے، یہاں 'سے' کو 'سِ' یعنی س کے نیچے زیر لگا کر سمجھا جائے گا تا کہ وزن پورا ہو اور اسی کو اخفا کہتے ہیں جسے اس بلاگ کے قاری بخوبی جانتے ہیں۔
جَ ہا او - فعولن 1 2 2 (جہاں کا نون غنہ پھر محسوب نہیں ہو رہا کہ اس کا کوئی وزن نہیں)۔)
ر بی ہے - فعولن 1 2 2 (یاد رکھنے کی اگلی بات کہ دو چشمی ھ کا بھی شعر میں کوئی وزن نہیں ہوتا اس لیئے بھی کو بی سمجھتے ہیں)
اَ بی عش - 1 2 2 - فعولن
ق کے ام - 1 2 2 - فعولن
ت حا او - 1 2 2 - فعولن
ر بی ہے - 1 2 2 - فعولن
بلاگ کے قارئین کیلیے ایک اور شعر کی تقطیع
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں
ت ہی زن - 1 2 2 - فعولن
د گی سے - 1 2 2 - فعولن
ن ہی یہ - 1 2 2 - فعولن
ف ضا ئے - 1 2 2 - فعولن
ی ہا سے - 1 2 2 - فعولن
ک ڑو کا - 1 2 2 - فعولن (سینکڑوں میں جو نون ہے اس کو مخلوط نون کہا جاتا ہے یعنی وہ نون جو ہندی الفاظ میں آتا ہے اور اسکا وزن نہیں ہوتا)۔
ر وا او - 1 2 2 - فعولن
ر بی ہے - 1 2 2 - فعولن
متقارب بہت خوبصورت بحر ہے اور اردو شاعری میں کافی استعمال ہوتی ہے، اسی بحر میں علامہ کی ایک اور خوبصورت غزل ہے۔
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
اور ایک اور خوبصورت غزل
نہ آتے، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
اور غالب کی انتہائی خوبصورت غزل
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارَم دیکھتے ہیں
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشۂ اہلِ کرم دیکھتے ہیں
اور مرزا رفیع سودا کی یہ خوبصورت غزل دراصل سودا کی اسی زمین میں غالب نے اوپر والی غزل کہی ہے۔
غرَض کفر سے کچھ نہ دیں سے ہے مطلب
تماشائے دیر و حرَم دیکھتے ہیں
زمینِ چمن گُل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
اور اب اگر اس بحر میں کہے ہوئے مزید کلام کی تلاش ہے تو خواجہ الطاف حسین حالی کی 'مدّ و جزرِ اسلام' المعروف بہ 'مسدسِ حالی' کے سینکڑوں اشعار دیکھ لیں۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا ماویٰ
یتمیوں کا والی، غلاموں کا مولیٰ
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
اسامہ نے یہ کیا ستم کر دیا ہے​
سبق لا کے پورا یہاں دھر دیا ہے​
"فعولن" سے باہر ہیں یہ ساری باتیں​
نہیں مجھ کو منظور یہ وارداتیں​
سبق کی یہاں اب ضرورت نہیں ہے​
لڑی آپ ہی یہ بڑی دلنشیں ہے​
سکھا دے گی خود مبتدی کو ترانہ​
فعولن فعولن کا آیا زمانہ​
یہ بحرِ "مثمن" نہیں کوئی مشکل​
اسے بحر جانو نہ تم، یہ ہے ساحل​
خدا کے لیے منتظم کوئی آئے​
اسا مہ کے پیغام کو حذف کر دے​
 
اسامہ نے یہ کیا ستم کر دیا ہے​
سبق لا کے پورا یہاں دھر دیا ہے​
"فعولن" سے باہر ہیں یہ ساری باتیں​
نہیں مجھ کو منظور یہ وارداتیں​
سبق کی یہاں اب ضرورت نہیں ہے​
لڑی آپ ہی یہ بڑی دلنشیں ہے​
سکھا دے گی خود مبتدی کو ترانہ​
فعولن فعولن کا آیا زمانہ​
یہ بحرِ "مثمن" نہیں کوئی مشکل​
اسے بحر جانو نہ تم، یہ ہے ساحل​
خدا کے لیے منتظم کوئی آئے​
اسا مہ کے پیغام کو حذف کر دے​
مجھے اتفاق اس سے بالکل نہیں ہے
یہ دھاگا ہے میرا تو میری چلے گی
زبردستیوں سے نہ گھبراؤں گا میں
نئے لوگ جو ہیں انھیں ہے سکھانا
نہ خود پر قیاس اب کرو سب کو کاشف
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
مجھے اتفاق اس سے بالکل نہیں ہے
یہ دھاگا ہے میرا تو میری چلے گی
زبردستیوں سے نہ گھبراؤں گا میں
نئے لوگ جو ہیں انھیں ہے سکھانا
نہ خود پر قیاس اب کرو سب کو کاشف

نہیں بس کہ ہرگز نہیں مثنوی یہ​
مجھے تو لگی بات کافی بری یہ​
بجا تم ہی ہو اس لڑی کے لڑی دار​
مگر مجھ کو بھی جانتے ہیں سبھی یار​
رہا دور اقلیمِ شعر و ادب سے​
کوئی دس برس بد دلی کے سبب سے​
مگر یاد مجھ کو رہا ہے فعولن​
تو ثابت ہوا سخت آساں ہے یہ فن​
جو مشکل یہ ہوتا تو میں بھول جاتا​
کہاں سے یہ درِّ سخن لے کر آتا​
خدا کے لیے نثر کو سب مٹا دو​
کہ درویش ہوں تم مری اب دعا لو​
نہیں چیز اچھی یہ ضد مان جاؤ​
نئے لکھنے والوں کو یوں مت ڈراؤ​
 
نہیں بس کہ ہرگز نہیں مثنوی یہ​
مجھے تو لگی بات کافی بری یہ​
بجا تم ہی ہو اس لڑی کے لڑی دار​
مگر مجھ کو بھی جانتے ہیں سبھی یار​
رہا دور اقلیمِ شعر و ادب سے​
کوئی دس برس بد دلی کے سبب سے​
مگر یاد مجھ کو رہا ہے فعولن​
تو ثابت ہوا سخت آساں ہے یہ فن​
جو مشکل یہ ہوتا تو میں بھول جاتا​
کہاں سے یہ درِّ سخن لے کر آتا​
خدا کے لیے نثر کو سب مٹا دو​
کہ درویش ہوں تم مری اب دعا لو​
نہیں چیز اچھی یہ ضد مان جاؤ​
نئے لکھنے والوں کو یوں مت ڈراؤ​
ڈرا میں نہیں ، تم ڈرا اب رہے ہو
بلاقافیہ کو مقفی میں لکھ کر
چلو ایسا کرلو نیا دھاگا کھولو
ہو جس میں فعولن فعولن مقفی
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
ڈرا میں نہیں ، تم ڈرا اب رہے ہو
بلاقافیہ کو مقفی میں لکھ کر
چلو ایسا کرلو نیا دھاگا کھولو
ہو جس میں فعولن فعولن مقفی
نہیں میں تو ہر گز نہیں یہ کروں گا​
نئی چال ہے کیوں بھلا میں پھنسوں گا​

مجھے اس زمیں پر مزہ آ رہا ہے​
یہیں پر،یہیں پر مزہ آ رہا ہے​
اگرچہ نہیں ہوں ذرا بھی خجل میں​
مگر اس قدر بھی نہیں سخت دل میں​
چلو قافیے کے بنا بات کر لیں​
رہیں بحر میں، مثنوی ترک کر دیں​
 
نہیں میں تو ہر گز نہیں یہ کروں گا​
نئی چال ہے کیوں بھلا میں پھنسوں گا​

مجھے اس زمیں پر مزہ آ رہا ہے​
یہیں پر،یہیں پر مزہ آ رہا ہے​
اگرچہ نہیں ہوں ذرا بھی خجل میں​
مگر اس قدر بھی نہیں سخت دل میں​
چلو قافیے کے بنا بات کر لیں​
رہیں بحر میں، مثنوی ترک کر دیں​
بہت شکریہ آپ کا پیارے بھائی!
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
بہت شکریہ آپ کا پیارے بھائی!
نہیں شکریے کی ضرورت ذرا بھی
کہ دھا گا تمہارا ہے ، مرضی تمہاری
اگر میں یہاں ضد سے کچھ کام لیتا
تو مجھ کو برا سب سمجھتے یہاں پر
اسی واسطے ترک کر کے قیافی
کیا میں نے پھر سے ہے وردِ فعولن

بنا قافیوں کے بنا مثنوی کے
کروں گا جو باتیں تو آ جائیں گے سب
عروضی بھی، شاعر بھی، سب مبتدی بھی
یہی تھا تمہارا بھی مقصد، اسامہ
اسی واسطے تم نے کھولی لڑی تھی
کہ سیکھیں نزاکت فعولن کی بچے

مگر بات اچھی رہی مثنوی بھی
سمجھ جائیں گے اہلِ فن کم سے کم یہ
کہ ہم ہیں اگر قافیوں سے گریزاں
تو اپنی رضا سے کیا ہے یہ ہم نے
وگرنہ اگر چاہتے مثنوی میں
ہزاروں برس تک بھی ہم بات کرنا
تو مشکل خدا کی قسم یہ نہ ہوتا

اور اب بھی جہاں جی کرے گا ہمارا
کریں گے قیافی کے پردے میں باتیں
 
نہیں شکریے کی ضرورت ذرا بھی
کہ دھا گا تمہارا ہے ، مرضی تمہاری
اگر میں یہاں ضد سے کچھ کام لیتا
تو مجھ کو برا سب سمجھتے یہاں پر
اسی واسطے ترک کر کے قیافی
کیا میں نے پھر سے ہے وردِ فعولن

بنا قافیوں کے بنا مثنوی کے
کروں گا جو باتیں تو آ جائیں گے سب
عروضی بھی، شاعر بھی، سب مبتدی بھی
یہی تھا تمہارا بھی مقصد، اسامہ
اسی واسطے تم نے کھولی لڑی تھی
کہ سیکھیں نزاکت فعولن کی بچے
مگر بات اچھی رہی مثنوی بھی
سمجھ جائیں گے اہلِ فن کم سے کم یہ
کہ ہم ہیں اگر قافیوں سے گریزاں
تو اپنی رضا سے کیا ہے یہ ہم نے
وگرنہ اگر چاہتے مثنوی میں
ہزاروں برس تک بھی ہم بات کرنا
تو مشکل خدا کی قسم یہ نہ ہوتا
اور اب بھی جہاں جی کرے گا ہمارا
کریں گے قیافی کے پردے میں باتیں
قیافی نہیں یہ ، قوافی ہے بھائی
 

مانی عباسی

محفلین
بہت خوب مقطع یہ تم نے بنایا
اسے میں نے پایا ہے پُر از معانی
تماشا ئے اہلِ سخن دیکھنے سے
بہت فائدے تم اٹھاؤ گے مانی
مگر پھر بھی اچھا لگے گا عزیزم
لکھو گے بھی کچھ کچھ گر اپنی کہا نی

ترقی میں نے خاک کرنی ہے اے کامل
الف بے بھی نہیں آتی شاعری کی
مگر داد کے بدلےاتنا کہوں گا
شکریہ نوازش شکریہ نوازش ۔۔۔۔۔۔۔
 
Top