فرانس دھماکے۔۔۔اہلِ مغرب، اہلِ مشرق سے عبرت حاصل کریں!

نذر حافی

محفلین
فرانس دھماکے۔۔۔اہلِ مغرب، اہلِ مشرق سے عبرت حاصل کریں!

نذر حافی

خاموش اکثریت اور گنگ زبانیں بڑے بڑے حادثات کو جنم دیتی ہیں۔ایک زمانہ تھا کہ جب ہمارے ہاں کسی فرقے کے لوگ قتل ہوتے تھے تو عام لوگوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی تھی،ہمارے ہاں کی اکثریت تو اس بارے میں کچھ بولنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتی تھی۔

پھر یہ معمولی سی بات غیرمعمولی بنتی گئی،شیعوں کی گردن پر تیز کیا گیاخنجر اہلِ سنّت والجماعت کی شہ رگ کو بھی کاٹنے لگا،امام بارگاہوں پر آزمائے گئے بم، اولیائے کرام کے مزارات کو بھی نشانہ بنانے لگے ،ذاکرین کو قتل کرنے والوں نے قاری سعید چشتی جیسے قوال کو بھی موت کے گھاٹ اتار ا،مسجدوں میں خود کش دھماکے کرنے والوں نے چرچ بھی اڑائے ،عیسائیوں کو ستانے والوں نے اسماعیلیوں کو بھی خون میں نہلایا،عبادت گاہوں میں خود کش دھماکے کرنے والوں نے بازاروں میں بھی دھماکے کئے،گاڑیوں سے مسافروں کو اتار کرقتل کرنے والوں نے پاکستان آرمی کے جوانوں کے گلے بھی کاٹے،اہلِ تشیع کو کافر کہنے والوں نے اہلِ سنّت والجماعت کو بھی مسلمان نہیں سمجھا،پاکستان کو کافرستان اور قائدِ اعظم کو کافرِ اعظم کہنے والوں نے پاک فوج کو ناپاک فوج بھی کہا،جلسے اور جلوسوں کو حرام اور بدعت کہہ کر دہشت گردی کا نشانہ بنانے والوں نے پشاور کے آرمی پبلک سکول میں ننھے مُنھے بچوں کو بھی خون میں نہلایا اور یوں ظلم و ستم کی ایک بھیانک تاریخ رقم کرکے اہلیانِ پاکستان کو یہ پیغام دیا کہ ہم صرف شیعہ یا سنّی کے دشمن نہیں بلکہ انسانیت کے دشمن ہیں۔

انسانیت کے ان دشمنوں نے جس طرح پاکستان میں قائداعظم ریزیڈنسی پر حملہ کیا اسی طرح افغانستان میں آثارِ قدیمہ کو مسمار کیا ۔انہوں نے بری امامؒ،حضرت داتا گنج بخش اور رحمٰن باباجیسے مزارات سے لے کر مدینے میں جنت البقیع اور شام میں موجود صاحبہ کرام ؓ کے مزارات کوبھی اپنے ظلم کانشانہ بنایا لیکن ہمارے ہاں کی اکثریت خاموش ہی رہی۔۔۔

ابھی چند روز پہلے انسانیت کے ان دشمنوں نے یعنی 13” نومبر 2015ء کی شام کو فرانس کے دار الحکومت پیرس اور سینٹ-ڈینس میں مرکزی یورپی وقت کے مطابق 21:16 پر تین علیحدہ علیحدہ دھماکے اورچھ جگہوں پر اجتماعی شوٹنگ کی۔نیز اسی دوران سینٹ ڈینس کے شمالی مضافات میں فرانسیسی سٹیڈیم کے قریب بھی تین بم دھماکے بھی کئے۔

یاد رہے کہ دھماکوں کے وقت سٹیڈیم میں فرانس اور جرمنی کے درمیان فٹبال میچ ہو رہا تھا اور میچ دیکھنے کے لیے فرانس کے صدرفرانسوا اولاند اور وزیر اعظم بھی موجود تھے۔اسی دوران مسلح افراد نے 100 سے زائد افراد کو یرغمال بنانے کے بعد گولیاں مارکرہلاک کردیا۔

اب تک کی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق “اس واردات میں کل 128 افراد ہلاک اور 250 زخمی ہوئے،زخمیوں میں سے 99 افراد شدید زخمی ہیں۔“[1]

وحشت ،دہشت اور قتل و غارت کے لحاظ سے یہ دوسری جنگ عظم کے بعد فرانس میں پیش آنے والا سب سے زیادہ دلخراش سانحہ ہے۔

اس سانحے کی سنگینی کا اندازہ آپ اس سے کرلیں کہ ۷۱ برس کے بعد پہلی مرتبہ فرانس کے کسی شہر میں کرفیو لگایا گیاہے۔

اب لطف کی بات یہ ہے کہ ۱۳ نومبر کو یہ واقعہ پیش آیا اور ۱۴ نومبر کو داعش نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرلی۔جس کے بعد مغربی میڈیا نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا ہے۔[2]

اب آئیے تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں:۔

“گزشتہ سال نومبر میں فرانس نے مقبوضہ فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا جسے صیہونی میڈیا نے اسرائیل کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے سے تعبیر کیا،اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے فیصلے کو فرانس کی سنگین غلطی قرار دیتے ہوئے نتائج کیلئے تیار رہنے کی بھی دھمکی دی، اسرائیلی وزیراعظم کی دھمکی کے بعد فرانس مسلسل دہشتگردی کا شکار ہے۔

اس وقت یہاں پر یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ فرانس نے ہمیشہ مسئلہ فلسطین کا حل ایک خود مختار، جمہوری ریاست قرار دیا ہے، فرانسیسی صدر فرانسواں میٹرینڈ François Mitterrand پہلے صدر تھے جنہوں نے انیس سو بیاسی میں اسرائیلی پارلیمنٹ میں فلسطین کی حمایت میں بیان دیا جبکہ فرانس ہی وہ پہلا ملک تھا جس نے یہودی بستیوں کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا، دو ہزار آٹھ میں فرانس نے فلسطینی عوام کیلئے چار سو ملین یوروز امداد بھی دی ہے“۔[3]

اب گزشتہ نومبر میں نیتن یاہو کی فرانس کو دھمکی ،اس نومبر میں فرانس میں دہشت گردی کی وحشتناک کاروائی،پھر اس کاروائی کی ذمہ داری داعش کی طرف سے قبول کرنا اور پھر یورپی میڈیا کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنا۔۔۔ان ساری چیزوں سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ دہشت گرد گروہ کس کے ایجنٹ ہیں !داعش والےکس کے مقاصد کی تکمیل کررہے ہیں ! سب سے بڑھ کر ہمیں اس سلسلے میں بولنا ہوگا کہ سعودی عرب اور امریکہ داعش کی پشت پناہی کرکے دنیا میں کونسااسلام نافذکرنا چاہتے ہیں؟!

ہم فرانس میں بے گنا انسانوں کے مارے جانے پر جہاں اہلِ فرانس کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کرتے ہیں وہیں پر اہلِ مغرب کو یہ پیغام بھی دیتے ہیں کہ اہلِ مشرق کے سکوت سے عبرت حاصل کریں،داعش کی پشت پر موجود امریکی و یورپی طاقتوں اور سعودی عرب جیسے ممالک کے خلاف متحد ہوکر اپنی زبان کھولیں بصورتِ دیگر عالمِ اسلام کی طرح دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات کے لئے اب تیار ہوجائیں،چونکہ یورپ، امریکہ ،اسرائیل اور سعودی عرب کاپالاہوا ناگ اب یورپ میں بھی پھنکارنے لگاہے۔

اگر اس ناگ سےاپنی آئندہ نسلوں،شہروں،باغات ،لوک ورثے اور ممالک کو بچاناہے تو پھر جان لیجئے کہ خاموش اکثریت اور گنگ زبانیں بڑے بڑے حادثات کو جنم دیتی ہیں۔


[1]بی بی سی،اے ایف پی،سی این این۔۔۔

[2]عالمی میڈیا

[3]استفادہ از:۔http://www.nawaiwaqt.com.pk/national/15-Nov-2015/429727
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


Kerryon_France_attack.jpg


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

USDOTURDU_banner.jpg
 

Fawad -

محفلین
! سب سے بڑھ کر ہمیں اس سلسلے میں بولنا ہوگا کہ سعودی عرب اور امریکہ داعش کی پشت پناہی کرکے دنیا میں کونسااسلام نافذکرنا چاہتے ہیں؟!


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آپ يہ کہنا چاہ رہے ہيں کہ امريکی حکومت نے آئ ايس آئ ايس کو تخليق کيا تا کہ خود ہمارے ہی شہريوں کو ہلاک کيا جا سکے اور خود ہمارے ہی اتحادی اور شراکت داروں کے خلاف خونی حملے کيے جا سکيں؟ آپ کو اس سے بہتر کہانی تخليق کرنے کی ضرورت ہے کيونکہ اس قسم کے مضحکہ خيز مفروضات ہم پہلے بھی پڑھ چکے ہيں اور ہم بارہا ايسی سوچ رکھنے والوں سے يہ دريافت کر چکے ہيں کہ وہ اپنی ان کہانيوں کے ضمن ميں کوئ قابل قبول ثبوت بھی تو پيش کريں مگر وہ جو کہتے ہيں نا کہ "جھوٹ کے پاؤں نہيں ہوتے"۔

سادہ سا سوال ہے۔ آپ اپنے اہم ترين اثاثوں کے ساتھ کيا سلوک روا رکھتے ہيں؟ کيا ان کی مدد کی جاتی ہے يا ان پر بم برسائے جاتے ہيں؟

اگر آّپ کے پيش کردہ خيالات درست ہوتے اور ہم آئ ايس آئ ايس کے پس پردہ حامی ہیں تو پھر ہم خطے ميں اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر آئ ايس آئ ايس کے محفوظ ٹھکانوں پر حملے کيوں کر رہے ہيں۔ آپ کی اطلاع کے ليے عرض ہے کہ گزشتہ برس سے اب تک امريکی فوج کی بمباری کے نتيجے ميں 12 ہزار کے قريب آئ ايس آئ ايس کے جنگجو ہلاک ہو چکے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

USDOTURDU_banner.jpg
 

نذر حافی

محفلین
سادہ سا سوال ہے۔ آپ اپنے اہم ترين اثاثوں کے ساتھ کيا سلوک روا رکھتے ہيں؟ کيا ان کی مدد کی جاتی ہے يا ان پر بم برسائے جاتے ہيں؟
میرے بھائی مافیا اسی طرح کرتا ہے۔فائدہ اٹھاتا ہے،استعمال کرتاہے اور مارتا ہے۔امریکہ کو دنیا اچھی طرح جان چکی ہے اورامریکہ کا چہرہ بے نقاب ہوچکاہے۔
 
شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور۔۔۔

یہ تحریر بھانمتی کا کنبہ ہے۔ اور اسی لئے تحریرکی گئی ہے کہ لوگ آپ کی غیر منطقی باتوں کا جواب دینے آئیں اور آپ کو توجہ مل سکے ..
ویسے میرا خیال ہے "ریٹینگ" کے یہ حربے خاصے پُرانے ہوچکے۔ اب تو ان پر ہنسی آتی ہے. :p
 

نذر حافی

محفلین
آپ کی اطلاع کے ليے عرض ہے کہ گزشتہ برس سے اب تک امريکی فوج کی بمباری کے نتيجے ميں 12 ہزار کے قريب آئ ايس آئ ايس کے جنگجو ہلاک ہو چکے ہيں۔
آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ یہ خبر گزشتہ روز کی ہے اور اس طرح کے انکشافات اہم شخصیات کی طرف سے آئے روز ہوتے رہتے ہیں،ان پر بھی توجہ دیا کریں:۔
روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ داعش کی مالی حمایت چالیس ملکوں سے ہو رہی ہے۔ ترکی کے شہر انطالیہ میں گروپ بیس کے اجلاس کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے روسی صدر نے کہا کہ داعش کے مالی اخراجات دنیا کے چالیس ملکوں سے پورے ہوتے ہیں، جن میں گروپ بیس کے ممالک بھی شامل ہیں۔
گروپ بیس میں امریکہ، یورپی یونین، فرانس، برطانیہ،جرمنی، اٹلی، چین، جاپان، روس، سعودی عرب، انڈونیشیا، اسڑیلیا، ترکی، برازیل، ارجنٹائن، کینیڈا، بھارت، جنوبی کوریا، جنوبی افریقہ اور میکسیکو شامل ہیں۔
آخر میں آپ سے انتہائی سادہ سا سوال یہ ہے کہ باقی جگہوں کو چھوڑیں صرف یہ بتادیں کہ شام میں داعش کی مدد کون کررہاہے؟
 

نذر حافی

محفلین
شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور۔۔۔

یہ تحریر بھانمتی کا کنبہ ہے۔ اور اسی لئے تحریرکی گئی ہے کہ لوگ آپ کی غیر منطقی باتوں کا جواب دینے آئیں اور آپ کو توجہ مل سکے ..
ویسے میرا خیال ہے "ریٹینگ" کے یہ حربے خاصے پُرانے ہوچکے۔ اب تو ان پر ہنسی آتی ہے.
ادب دوستی کے نام پر اتنی بڑی علم دشمنی۔سچ ہے تعصب کی دنیا میں کبھی اجالا نہیں ہوتا اور الفاظ کی جگالی کرنے سے انسان ادیب نہیں بن جاتا۔
 

Fawad -

محفلین
آ

آخر میں آپ سے انتہائی سادہ سا سوال یہ ہے کہ باقی جگہوں کو چھوڑیں صرف یہ بتادیں کہ شام میں داعش کی مدد کون کررہاہے؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آئ ايس آئ ايس کے حوالے سے ايک سوال جو اکثر فورمز پر تواتر کے ساتھ کيا جا رہا ہے وہ يہ ہے کہ تمام تر عالمی پابنديوں اور مذمتوں کے باوجود يہ تنظيم انتہائ فعال طريقے سے مالی لحاظ سے اتنی مضبوط کيسے ہے۔

بدقسمتی سے آئ ايس آئ ايس کی وسعت، اس تنظيم کی استعداد اور اصل اہداف کے حوالے سے متعلق بحث اکثر دانستہ يا غير دانستہ طور پر کچھ مبہم اخباری خبروں اور غير مصدقہ اطلاعات کی بنیاد پر سازشی کہانيوں اور الزام تراشيوں کا روپ دھار ليتی ہے۔

يہ نہيں بھولنا چاہيے کہ اس تنظيم کی جانب سے نئے جنگجوؤں کی بھرتی کے ليے مذہبی نعروں کا سہارا تو ليا جاتا ہے اور خود کو مسلم امہ کا نجات دہندہ ثابت کرنے کی انتھک کاوشيں بھی کی جاتی ہيں، تاہم آئ ايس آئ ايس کی دہشت گردی پر مبنی خونی مہم جوئ اور اصل محرک جو اس تنظيم کی جاری کاروائيوں کا موجب ہے وہ محض خوف، دہشت اور بربريت کے بل بوتے پر عوامی سطح پر زيادہ سے زيادہ سياسی اثر اور اختيار حاصل کرنا ہی ہے۔

عراق اور شام ميں مختلف علاقوں اور زمينوں پر قبضہ جمانے کے بعد يہ کوئ حيران کن امر نہيں ہے کہ آئ ايس آئ ايس نے مختصر سے عرصے ميں دنيا کی امير ترين دہشت گرد تنطيم کا "اعزاز" حاصل کر ليا ہے اور اس کی بڑی وجہ اس تنظيم کے زير تسلط علاقوں ميں منظم لوٹ مار اور وسائل پر بے دريخ قبضہ ہے جو ان کی حکمت عملی کا اہم حصہ رہا ہے۔

آئ ايس آئ ايس کی فنڈنگ کے متعدد ذرائع ہيں جن ميں عراق اور شام ميں کی جانے والی مجرمانہ کاروائياں سرفہرست ہيں۔ بينک ڈکيتی جيسا کہ سنٹرل بنک آف موصل ميں کی گئ واردات، بھتہ خوری، چوری چکاری، اسمگلنگ، اغوا برائے تاوان اور اس کے ساتھ ساتھ قبصوں اور ديہاتوں پر چڑھائ جيسے واقعات اس تنظيم کے کارناموں ميں شامل ہيں۔ اسی طرح آئ ايس آئ ايس شام ميں پيٹروليم کی کچھ تنصيبات پر بھی قابض ہے۔

يقینی طور پر آئ ايس آئ ايس کچھ بيرونی ذرائع سے بھی رقم حاصل کرتی ہے تاہم يہ ان وسائل کے مقابلے ميں کافی کم ہے جو اس تنظيم نے اپنی مجرمانہ اور دہشت گردی پر مبنی کاروائيوں سے حاصل کر رکھے ہيں۔

امريکہ اور عالمی مالياتی نظام ميں ديگر اہم کردار دہشت گردی کی مالی اعانت سے متعلق خطرات اور اس پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت سے پوری طرح آشنا ہيں۔ عالمی مالياتی نظام ميں اپنے جن شراکت داروں کے ساتھ ہم ان معاملات پر نظر رکھتے ہيں ان ميں ايف اے ٹی ايف (انٹر گورمينٹل فائنينشل ايکشن ٹاسک فورس) کے علاوہ معاشی محتسب، معاشی ادارے اور ان کے ايسے اعلی عہديدار شامل ہيں جو قواعد وضوابط پر عمل داری کو يقینی بناتے ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

USDOTURDU_banner.jpg
 
ملاء کا مذہب بہت ہی سادہ سا ہے۔ "اختلاف کی سزا موت" ۔۔ پھر طرفہ تماشہ یہ کہ ملاء کا اختلاف سب سے ہے۔ شیعہ سے سنی سے ، عیسائی سے ، ہندو سے ، مسلم سے ، یہودی سے ۔ یہ انسان دوست نہیں بلکہ دشمن انسانیت ہے ۔۔ دنیا صرف اس وقت امن کی شکل دیکھے گی جب ملاء کو اسی اصول سے انصاف دے گی ۔ ایسے تمام حملے جن میں ملاء شامل ہیں ۔ میں ان کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ بچوں کے قتل سے لے کر معصوم عوام کے قتل تک ۔ ان کے پاس صرف ایک پیمانہ ہے کہ "اختلاف کی سزا موت"
 

نذر حافی

محفلین
ایسے تمام حملے جن میں ملاء شامل ہیں ۔ میں ان کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ بچوں کے قتل سے لے کر معصوم عوام کے قتل تک ۔
کیا اگر غیر ملا یہی کام کرے یا غیر ملا،ملاکو اس کام کے لئے استعمال کرے تو اس کی مذمت نہیں کرنی چاہیے؟؟؟
 
فرانس کے دھماکے اور اہل مشرق کی معذرت خواہانہ نفسیات ... !

مارگریٹ بویکین
A Week Without Sorry
میں لکھتی ہے
I’ve always had a problem over-apologizing. At my first paid job at a talent agency, I apologized constantly for things outside of my control, assuming a more experienced assistant could have managed to get that exclusive reservation or forced that writer to send in their signed contract. Finally, when I was in the middle of apologizing for another minor error I hadn’t caused, my boss interrupted me.

“Stop. Stop apologizing for things that aren’t your fault,” he said. “Otherwise, you’ll just make people think everything’s your fault. And it’s not. Only a lot of it is. Okay?”

“Sorry,” I said, and he threw up his hands, defeated.

اگر آپ کے پڑوس میں کسی انتہائی امیر آدمی کے گھر میں ڈاکاا پڑ جاوے اور آپ دو دن کے فاقے سے ہوں تو شاید آپ لوگوں سے چھپنا اور کترانا شروع کر دیں کہ کہیں اس کا الزام آپ پر ہی نہ آجاوے .....
کسی کے لہجے کی گھگیا ہٹ اور ممیاہٹ در اصل یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ کس حد تک احساس کمتری کا شکار ہے ..........

سنتے ہیں کہ جنگل میں ایک چوہا گھبرایا گھبرایا پھر رہا تھا کسی نے پوچھا میاں چوہے آخر ہوا کیا تم کیوں اتنے پریشان ہوں کہنے لگا سنا ہے شیرنی کو کسی نے اغوا کر لیا ہے اور شک مجھ پر کیا جا رہا ہے .......

آئی ایس آئی ایس ایک ایسا گروہ ہے کہ جسے مسلمانوں میں کبھی بھی مقبولیت حاصل نہ ہو سکی بلکہ اپنی پیدائش سے لیکر اب تلک اس کا ہدف مسلمان ہی رہے ہیں اور موجودہ حملے کا ملبہ بھی مسلمانوں پر ہی گرنے والا ہے ....
دوسری جانب فرانس کی اسلام دشمنی کی تاریح بھی کچھ جدید نہیں چارلی ہیبڈو کی جانب سے نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صل الله علیہ وسلم کی ذات عالی کی شان میں مسلسل گستاخانہ دہشتگردی اس کی ایک مثال ہے آخر یہ چارلی ہیبڈو ہے کیا

What is Charlie Hebdo

Charlie Hebdo is a weekly, French satirical newsmagazine published since 1970 (although it had a long hiatus between 1981 and 1992), known for its cartoons lampooning targets of all sorts, especially religions and particularly Islam.

چارلی ہیبڈو در اصل ایک قدیم جریدے (Hara-Kiri) (جاپانی طریقہ خودکشی ) کی ایک جدید شکل ہے جس کا کہنا ہے کہ

“Nothing is sacred. Principle No. 1. Not even your own mother, not the Jewish martyrs, not even people starving of hunger,” Mr. Cavanna wrote in 1982, as quoted by Paris researcher Jane Weston. “Laugh at everything, ferociously, bitterly, to exorcise the old monsters.”

اسے اس وقت بند کر دیا گیا تھا کہ جب فرانسیسی صدر (Charles de Gaulle) کی موت پر اس نے انتہائی تضحیک امیر لطیفہ لگایا تھا لیکن آج اسے مکمل حکومتی سپورٹ حاصل ہے کہ جب یہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی شان میں گستاخ کا ارتکاب کرتا ہے .....

دہشت گردی صرف دہشت گردی ہے چاہے وہ مذہب پسندوں کی جانب سے ہو یا لامزھبوں کی جانب سے چاہے وہ عملی ہو یا فکری چاہے اس کا شکار انسانی اجسام ہوں یا الہی افکار ہم ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں .....

لیکن ایسا معاملہ کہ " پتہ کھڑکا اور دل دھڑکا " عجیب ہے بلکہ عجیب تر ہے .....
 
کسی بھی معاملے کو اپنی مخصوص نگاہ سے دیکھنا یا پھر اسے ایک مخصوص رنگ دینا دو بنیادی سوالات کو جنم دیتا ہے

١ یا تو لکھاری کسی تعصب کا شکار ہے
٢ یا لکھنے والا کوئی خاص مقصود حاصل کرنا چاہتا ہے

یاد رہے کہ یہ صرف احتمالات ہیں جو تحریر میں موجود مختلف اشارات کی بنیاد پر پیدا ہوتے ہیں

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کسی خاص مذہبی گروہ کے عقیدت مند اور دوسرے مذہبی گروہ سے نالاں ہیں یا پھر انکا مقصود دو مذہبی گروہوں کے درمیان منافرت کا بیج بونا ہے

گو کہ یہ صرف ایک احتمال ہی ہے حقیقت نہیں لیکن اس اشتباہ کو دور کرنے کے لیے مصنف کا اپنے آپ کو واضح کرنا ضروری ہے

ایسے اشکالات یا احتمالات اسوقت پیدا ہوتے ہیں کہ جب مصنف کی اپنی تحریر پر گرفت کمزور ہو یا پھر جس عنوان پر وہ بات کر رہا ہے اس حوالے سے اس کی معلومات ناقص ہوں ......

مثال کے طور پر صاحب تحریر ایک جگہ فرماتے ہیں کہ

" ہم فرانس میں بے گنا انسانوں کے مارے جانے پر جہاں اہلِ فرانس کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کرتے ہیں وہیں پر اہلِ مغرب کو یہ پیغام بھی دیتے ہیں کہ اہلِ مشرق کے سکوت سے عبرت حاصل کریں،داعش کی پشت پر موجود امریکی و یورپی طاقتوں اور سعودی عرب جیسے ممالک کے خلاف متحد ہوکر اپنی زبان کھولیں بصورتِ دیگر عالمِ اسلام کی طرح دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات کے لئے اب تیار ہوجائیں،چونکہ یورپ، امریکہ ،اسرائیل اور سعودی عرب کاپالاہوا ناگ اب یورپ میں بھی پھنکارنے لگاہے "

اس بات سے تو انکار ممکن نہیں کہ سعودی عرب کا کردار بطور امت مسلہ کے روحانی و فکری مرکز کوئی خاص قابل تعریف نہیں رہا ہے لیکن یہ کہنا کہ آئی یس آئی ایس کی پیدائش میں انکا کوئی ہاتھ ہے موجودہ دور کے حالات، معروضی حقائق اور آس پاس کے مناظر سے شاید مکمل ناواقفیت کا شاخسانہ ہے یا پھر ہم دنیا کو کسی مخصوص عینک سے دیکھ رہے ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ تعصب کی عینک اتاری جاوے اور سچائی کا سامنا کیا جاوے .....

سعودی مفتی سعودی مفتی اعظم العربیہ نیوز کو بیان دیتے ہوے کہتے ہیں

ریاض ۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ ہفتہ 25 ذیعقدہ 1435ه۔ - 20 ستمبر 2014م

سعودی عرب کے مفتی اعظم اور علماء کونسل کے چیئرمین الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ نے شام اور عراق میں سرگرم عسکریت تنظیم"داعش" کو ایک مرتبہ پھر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ "داعشی عناصر خون خرابے کے سوا اور کچھ بھی نہیں جانتے ہیں اور وہ عصر حاضر کے خوارج ہیں۔"
ایک بیان میں سعودی مفتی اعظم کا کہنا تھا کہ اسلام امن وآشتی کا دین ہے، جس میں کسی بے گناہ انسان کے قتل کی کوئی گنجائش نہیں، لیکن داعش ایک ایسا گروپ ہے جو معصوم لوگوں کا خون بہاتا اور ہر طرف تباہی اور بربادی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ ان کی گمراہی کے بارے میں عوام الناس کو آگاہ کرنا اہل علم کی ذمہ داری ہے ورنہ وہ سادہ لوح شہریوں کو اپنے چنگل میں پھنساتے رہیں گے۔
الشیخ عبدالعزیز آل الشیخ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں مروجہ نصاب تعلیم میں کوئی نقص نہیں ہے۔ مملکت میں رائج نصاب تعلیم دراصل منہج کتاب سنت کو سامنے رکھ کر تیار کیا گیا ہے۔ بعض ممالک کی جانب سے سعودی عرب کے نظام اور نصاب تعلیم کو دہشت گردی کے فروغ کا باعث قرار دینا پرلے درجے کا جھوٹ ہے۔ ہمارا نصاب تعلیم شر اور فساد سے بچانے اور خیر اور بھلائی کی طرف لے جانے کا ذریعہ ہے۔

شام کی حربی تنظیم جبهة النصرة لأهل الشام جس کو سعودی عرب کی غیر سرکاری سپورٹ حاصل ہے اور یہ تنظیم طویل عرصے سے بشار الاسد کے غیر انسانی مظالم کے خلاف حربی تحریک چلا رہی ہے حقیقت میں آئی ایس آئی ایس کی دشمن اول ہے اور اس کے اولین قیادت آئی ایس آئی ایس کے ہاتھوں ماری جا چکی ہے ....

اس بات سے بھی لوگ لا علم نہیں کہ آئی ایس آئی ایس در حقیقت بعث پارٹی کی ان باقیات میں سے ہے جنہیں عراق پر امریکی غلبے کے بعد میدان میں لایا گیا تھا

أبو بكر البغدادي‎ جو اس دہشت گرد تنظیم کا امیر ہے اس کے حوالے سے کچھ حقائق ملاحظہ کیجئے

Bakr al-Baghdadi was arrested by US Forces-Iraq on 2 February 2004 near Fallujah and detained at Camp Bucca detention center under his name Ibrahim Awad Ibrahim al-Badry[22] as a "civilian internee" until December 2004, when he was recommended for release by a Combined Review and Release Board.[24][29][30] In December 2004, he was released as a "low level prisoner".[22]

A number of newspapers and cable news channels have instead stated that al-Baghdadi was interned from 2005 to 2009. These reports originate from an interview with the former commander of Camp Bucca, Colonel Kenneth King, and are not substantiated by Department of Defense records.[31][32][33] Al-Baghdadi was imprisoned at Camp Bucca along with other future leaders of ISIL.[34]

حوالہ

"U.S. Actions in Iraq Fueled Rise of a Rebel". The New York Times. 10 August 2014. Retrieved 23 December 2014.

اور یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ عرب عراق دشمنی ہی عراق پر امریکہ کے اولین حملوں کی وجہ بنی تھی پھر قریب میں ہی سعودی عرب میں داعش کے حملے کون سی کہانی سناتے ہیں ہر زی عقل اور حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والا آسانی سے سمجھ سکتا ہے
 
اب آتے ہیں اس سوال کی جانب کہ کیا پاکستانی عوام یہ مختلف مذہبی اکائیوں سے منسلک علما اور افراد یا پھر یہاں کی حربی و عسکری قیادت یا یہاں کی کسی بھی سیاسی اجتماعیت کا اس دہشت گرد تنظیم سے قریب و دور کا کوئی بھی تعلق موجود ہے یا تھا تو ہم اسے شدید ترین مغالطہ ہی کہ سکتے ہیں معلوم نہیں اس تجاہل عارفانہ یا تغافل جاہلانہ کی وجوہات کیا ہیں ......

تاریخ کی ایک جماعت میں جب استاد نے یہ سوال کیا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ سومنات کا مندر کس نے توڑا تھا تو سامنے بیٹھے ہوے ببلو نے انتہائی خوف کے عالم میں گھگیاتے ہوے کہا

خدا کی قسم سر ! میں نے نہیں توڑا .....

پاکستان میں موجود فرقہ وارانہ دہشت گردی کی تاریخ اور وجوہات جانے بغیر کوئی بھی الزام دھر دینا انتہائی عجلت اور جلد بازی میں وہ جرم قبول کر لینے کے مترادف ہے کہ جو آپ نے کیا ہی نہ ہو ....

معلوم ہوتا ہے کہ مصنف طبقات وہابیہ (دیوبندی اہل حدیث اور جماعت اسلامی سے فکری طور پر منسلک افراد )
سے انتہائی نالاں ہیں اور پاکستان میں موجود ہر طرح کی دہشت گردی کی وجہ اشاروں کنایوں میں انہیں ہی قرار دینا چاہتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ طبقات خود بھی ان دہشت گردی کی کاروائیوں کا شکار رہے ہیں .....

مولانا یوسف لدھیانوی شہید سے لیکر مولانا اسلم شیخوپوری شہید تک ایک طویل فہرست ہے کہ جس میں مفتی نظام الدین شامزئی مفتی جمیل احمد لدھیانوی مولانا حبیب الله مختار مولانا حسن جان مفتی سعید احمد جلالپوری اور مفتی عتیق الرحمان ایسے علما دیوبند کے نام شامل ہیں تو دوسری جانب جماعت اسلامی سے فکری مناسبت رکھنے والے معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک اور حکیم محمود احمد برکاتی مرحوم کے ناموں کو کون بھول سکتا ہے پھر حکیم محمد سعید شہید اور اہل حدیث مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے مولانا احسان الہی ظہیر کی برسر منبر ایک پبلک جلسے میں بم دھماکے سے شہادت کس کو یاد نہیں اس کے علاوہ تبلیغی جماعت کے مراکز میں بم دھماکے اور ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی تنظیم اسلامی کے مرکز پر حملہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے دفتر پر حملہ جامعہ احسن العلوم کے طلبہ کی شہادت مولانا فضل الرحمان کے جلسے میں دھماکہ جامعہ تعلیم القرآن راجہ بازار پر دہشت گردی کوئی ڈھکی چھپی بات تو نہیں .........

دوسری طرف اگر آپ ان مذہبی طبقات کو مجرم قرار دیتے ہیں تو پھر آپ کی عسکری قیات اس سے کیسے بری ہو سکتی ہے ......

آئیے تاریخ پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہیں

اگر یہ کہا جاوے کہ شاہ ولی الله دھلوی رح کی فکر کے جانشین یہ فکر وہابیہ کے علمبردار ہی ہیں تو کچھ غلط نہ ہوگا تاریخ ہمیں بتلاتی ہے کہ شاہ صاحب مرحوم کی ایما پر ہی احمد شاہ ابدالی افغانستان سے ہندوستان آیا تھا اور اس نے مرہٹہ قوت کو پانی پت کی میدان میں تاراج کیا تھا ......
سید احمد شہید اور شاہ اسمعیل شہید رح کی تحریک جہاد کو کون فراموش کر سکتا ہے اور پھر اسی کا تسلسل تیتو میر کی تحریک حریت اورحاجی شریعت اللہ اور ان کے بیٹے محمد محسن عرف دودھو میاں کی فرائضی تحریک 1819 ء پھر ١٨٥٧ کی جنگ آزادی اسکے بعد مولانا محمود الحسن کی قیات میں تحریک ریشمی رومال مولانا آزاد کی تحریک خلافت اور مولانا عطا الله شاہ بخاری رح کی احرار غرض اگر کوئی فعال طبقہ تھا تو یہی تھا ..........

ہماری عسکری اور حربی قیادت اس امر سے بخوبی واقف تھی اسلیے چاہے وہ جہاد کشمیر ہو یا الشمس اور البدر کی ہندوستان کے خلاف پاکستانی فوج کے ساتھ شانہ بشانہ شمولیت جہاد افغانستان ہو یا پھر تشکیل طالبان اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ان گروہوں کو حربی تکنیکی اور فکری تربیت ہمارے ہی دامن سے ملی ہے آج بھی جیش محمد اور لشکر طیبہ جیسی تنظیموں کو ہماری عسکری قیادت کی مکمل حمایت حاصل ہے آج بھی ہم افغانستان میں جاری جنگ میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ثالث بننے کی پیش کش کرتے ہیں .......

سوال یہ ہے کہ اصل مجرم کون ہے یہ گروہ جو ایک طویل عرصے سے نان اسٹیٹ ایکٹرز کے طور پر اپنی جانیں دے رہے ہیں یا کوئی اور اور کس نے ان مدارس کو پچھلے پچاس سالوں میں عسکری رکروٹمنٹ کے اڈے بنائے رکھا ہے ... ؟!

جہاں تک بات ہے پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کی ابتداء کی تو اس کی تاریخ کچھ زیادہ پرانی نہیں ہے ہمیں تقسیم سے پہلے کسی ایسے واقعے کا تاریخی ثبوت نہیں ملتا کہ کسی ایک مذہبی اکائی نے کسی دوسری مذہبی اکائی کے خلاف کوئی تشدد پسندانہ کاروائی کی ہو بلکہ تقسیم کے بعد بھی ١٩٧٩ کے انقلاب ایران تک ایسا کوئی واقعہ ہمارے علم میں نہیں جبکہ دیوبندی بریلوی ، شیعہ سنی ، حنفی اہل حدیث نامی یہ گروہ پہلے بھی موجود تھے .........

حقیقت یہ ہے کہ انقلاب ایران کے بعد پہلی بار پاکستان میں دیواروں پر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا نعرہ دکھائی دیا جو کہ منطقی اعتبار سے انتہائی نامناسب تھا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مذہبی اقلیت کسی علاقے کی مذہبی اکثریت پر اپنی فقہ نافذ کر دے چشم تصور سے دیکھیے اگر ایران میں کوئی تحریک تحریک نفاز فقہ حنفی کی بات کرتا تو اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ......

دوسری جانب سعودی عرب تو اس نعرے سے خوف زدہ تھا ہی اس نے اپنے رفقاء کو پاکستان میں متحرک کر دیا اور عالم اسلام کی دو بڑی طاقتوں ایران اور سعودیہ عرب کی فرقہ وارانہ جنگ سر زمین پاکستان میں لڑی جانے لگی جبکہ اب بھی یہاں کی اکثریت اس مسلکی کشمکش سے نالاں اور الگ ہے .......

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے آئین کے مطابق یہاں اسلامی قانون کا نفاز کیا جاوے اور یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں کہ جس پر مذہبی طبقات متفرق ہوں بلکہ اس معاملہ پر مکمل اتفاق موجود ہے .....


محدث فورم

صفحہ اول شمارہ مئی 2010ء (337) ۳۱ علماے کرام کے بائیس نکات



اسلامی حکومت کے بنیادی اُصولوں کے حوالے سے ۱۹۵۱ء میں

جملہ مکاتب ِفکر کی طرف سے متفقہ طور پرمنظور کردہ

مدت ِ دراز سے اسلامی دستور ِ مملکت کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں لوگوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اسلام کاکوئی دستورِ مملکت ہے بھی یا نہیں؟ اگر ہے تو اس کے اُصول کیا ہیں اور اس کی عملی شکل کیا ہوسکتی ہے؟ اور کیااُصول اور عملی تفصیلات میں کوئی چیز بھی ایسی ہے جس پر مختلف اسلامی فرقوں کے علما متفق ہوسکیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے متعلق عام طور پر ایک ذہنی پریشانی پائی جاتی ہے اور اس ذہنی پریشانی میں ان مختلف دستوری تجویزوں نے اور بھی اضافہ کردیاہے جو مختلف حلقوں کی طرف سے اسلام کے نام پر وقتاً فوقتاً پیش کی گئیں۔

اس کیفیت کو دیکھ کر یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ تمام اسلامی فرقوں کے چیدہ اور معتمد علما کی ایک مجلس منعقد کی جائے اور وہ بالاتفاق صرف اسلامی دستور کے بنیادی اُصول ہی بیان کرنے پر اکتفا نہ کرے بلکہ ان اُصولوں کے مطابق ایک ایسا دستوری خاکہ بھی مرتب کردے جو تمام اسلامی فرقوں کے لیے قابل قبول بھی ہو۔

اس غرض کے لیے کراچی میں بتاریخ ۱۲،۱۳،۱۴ اور ۱۵ربیع الثانی ۱۳۷۰ھ بمطابق ۲۱،۲۲، ۲۳ اور ۲۴ جنوری ۱۹۵۱ء بصدارت مولاناسید سلیمان ندوی ایک اجتماع منعقد ہوا۔ اس اجتماع میں اسلامی دستور کے جو بنیادی اُصول بالاتفاق طے ہوئے، اُنہیں فائدہ عام کے لیے شائع کیا جارہا ہے۔

اسلامی مملکت کے بنیادی اُصول

اسلامی مملکت کے دستور میں حسب ِذیل اُصول کی تصریح لازمی ہے:

1. اصل حاکم تشریعی و تکوینی حیثیت سے اللہ رب العالمین ہے۔

2. ملک کا قانون کتاب و سنت پر مبنی ہوگا اور کوئی ایسا قانون نہ بنایا جاسکے گا، نہ کوئی ایسا انتظامی حکم دیا جاسکے گا، جو کتاب و سنت کے خلاف ہو۔

(تشریحی نوٹ) اگر ملک میں پہلے سے کچھ ایسے قوانین جاری ہوں جو کتاب و سنت کے خلاف ہو تو اس کی تصریح بھی ضروری ہے کہ وہ بتدریج ایک معینہ مدت کے اندر منسوخ یا شریعت کے مطابق تبدیل کردیئے جائیں گے۔

3. مملکت کسی جغرافیائی، نسلی، لسانی یا کسی اور تصور پر نہیں بلکہ ان اُصول و مقاصد پر مبنی ہوگی جن کی اساس اسلام کا پیش کیا ہوا ضابطۂ حیات ہے۔

4. اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگا کہ قرآن و سنت کے بتائے ہوئے معروفات کو قائم کرکے منکرات کو مٹائے اور شعائر اسلامی کے احیاء و اعلاء اور مسلّمہ اسلامی فرقوں کے لیے ان کے اپنے مذہب کے مطابق ضروری اسلامی تعلیم کاانتظام کرے۔

5. اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگاکہ وہ مسلمانان عالم کے رشتہ اتحاد و اخوّت کو قوی سے قوی تر کرنے اور ریاست کے مسلم باشندوں کے درمیان عصبیت جاہلیہ کی بنیادوں پرنسلی و لسانی علاقائی یا دیگر مادی امتیازات کے ابھرنے کی راہیں مسدود کرکے ملت اسلامیہ کی وحدت کے تحفظ و استحکام کا انتظام کرے۔

6. مملکت بلاامتیاز مذہب و نسل وغیرہ تمام ایسے لوگوں کی لابدی انسانی ضروریات یعنی غذا، لباس، مسکن، معالجہ اور تعلیم کی کفیل ہوگی جو اکتساب رزق کے قابل نہ ہوں، یا نہ رہے ہوں یاعارضی طور پر بے روزگاری، بیماری یادوسرے وجوہ سے فی الحال سعئ اکتساب پر قادر نہ ہوں۔

7. باشندگانِ ملک کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو شریعت اسلامیہ نے ان کو عطا کئے ہیں۔ یعنی حدود ِقانون کے اندر تحفط جان و مال و آبرو، آزادئ مذہب و مسلک، آزادئ عبادت ، آزادئ ذات، آزادئ اظہاررائے، آزادئ نقل و حرکت، آزادئ اجتماع، آزادئ اکتساب رزق، ترقی کے مواقع میں یکسانی اور رفاہی ادارات سے استفادہ کا حق۔

8. مذکورہ بالا حقوق میں سے کسی شہری کا کوئی حق اسلامی قانون کی سند ِجواز کے بغیر کسی وقت سلب نہ کیا جائے گا اور کسی جرم کے الزام میں کسی کو بغیر فراہمئ موقعۂ صفائی وفیصلہ عدالت کوئی سزا نہ دی جائے گی۔

9. مسلّمہ اسلامی فرقوں کو حدود ِ قانون کے اندر پوری مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ انہیں اپنے پیروؤں کو اپنے مذہب کی تعلیم دینے کا حق حاصل ہوگا۔ وہ اپنے خیالات کی آزادی کے ساتھ اشاعت کرسکیںگے۔ ان کے شخصی معاملات کے فیصلے ان کے اپنے فقہی مذہب کے مطابق ہوں گے اور ایسا انتظام کرنا مناسب ہوگا کہ انہیں کے قاضی یہ فیصلہ کریں۔

10. غیر مسلم باشندگان مملکت کو حدود ِ قانون کے اندر مذہب و عبادت، تہذیب وثقافت اورمذہبی تعلیم کی پوری آزادی حاصل ہوگی اور انہیں اپنے شخصی معاملات کافیصلہ اپنے مذہبی قانون یارسم و رواج کے مطابق کرانے کا حق حاصل ہوگا۔

11. غیر مسلم باشندگان مملکت سے حدودِ شریعہ کے اندر جو معاہدات کئے گئے ہوں ان کی پابندی لازمی ہوگی اور جن حقوق شہری کاذکر دفعہ نمبر ۷ میں کیا گیا ہے ان میں غیر مسلم باشندگانِ ملک اور مسلم باشندگانِ ملک سب برابر کے شریک ہوں گے۔

12. رئیس مملکت کا مسلمان مرد ہونا ضروری ہے جس کے تدین، صلاحیت اور اصابت ِرائے پر ان کے جمہوری منتخب نمائندوں کو اعتماد ہو۔

13. رئیس مملکت ہی نظم ِ مملکت کا اصل ذمہ دار ہوگا۔ البتہ وہ اپنے خیالات کا کوئی جزو کسی فرد یا جماعت کو تفویض کرسکتا ہے۔

14. رئیس مملکت کی حکومت مستبدانہ نہیں بلکہ شورائی ہوگی یعنی وہ ارکان ِ حکومت اور منتخب نمائندگان ِ جمہور سے مشورہ لے کر اپنے فرائض انجام دے گا۔

15. رئیس مملکت کو یہ حق حاصل نہ ہوگا کہ وہ دستور کو کُلاً یا جزواً معطل کرکے شوریٰ کے بغیر حکومت کرنے لگے۔

16. جو جماعت رئیس مملکت کے انتخاب کی مجاز ہوگی وہی کثرت آراء سے اسے معزول کرنے کی بھی مجاز ہوگی۔

17. رئیس مملکت شہری حقوق میں عامۃ المسلمین کے برابر ہوگا اور قانونی مواخذہ سے بالاتر نہ ہوگا۔

18. ارکان و عمال حکومت اور عام شہریوں کے لیے ایک ہی قانون و ضابطہ ہوگا اور دونوں پر عام عدالتیں ہی اس کو نافذ کریں گی۔

19. محکمہ عدلیہ، محکمہ انتظامیہ سے علیحدہ اور آزاد ہوگا تاکہ عدلیہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ہیئت ِانتظامیہ سے اثر پذیر نہ ہو۔

20. ایسے افکار و نظریات کی تبلیغ و اشاعت ممنوع ہوگی جو مملکت اسلامی کے اساسی اصول و مبادی کے انہدام کا باعث ہوں۔

21. ملک کے مختلف ولایات و اقطاع مملکت واحدہ کے اجزاء انتظامی متصور ہوں گے۔ان کی حیثیت نسل، لسانی یاقبائلی واحدہ جات کی نہیں محض انتظامی علاقوں کی ہوگی جنہیں انتظامی سہولتوں کے پیش نظر مرکز کی سیادت کے تابع انتظامی اختیارات سپرد کرنا جائز ہوگا۔مگر انہیںمرکز سے علیحدگی کا حق حاصل نہ ہوگا۔

22. دستور کی کوئی ایسی تعبیر معتبر نہ ہوگی جو کتاب وسنت کے خلاف ہو۔

اسماے گرامی حضرات شرکاے مجلس

1. (علامہ) سلیمان ندوی (صدر مجلس ہذا)

2. (مولانا) سیدابوالاعلیٰ مودودی (امیر جماعت اسلامی پاکستان)

3. (مولانا) شمس الحق افغانی (وزیر معارف، ریاست قلات)

4. (مولانا) محمد بدر عالم (اُستاذ الحدیث، دارالعلوم الاسلامیہ اشرف آباد، ٹنڈوالہ یار، سندھ)

5. (مولانا)احتشام الحق تھانوی (مہتمم دارالعلوم الاسلامیہ اشرف آباد، سندھ)

6. (مولانا) محمد عبدالحامد قادری بدایونی (صدر جمعیۃ العلمائے پاکستان، سندھ)

7. (مفتی) محمد شفیع (رکن بورڈ آف تعلیمات اسلام مجلس دستور ساز پاکستان)

8. (مولانا) محمد ادریس (شیخ الجامعہ، جامعہ عباسیہ، بہاولپور)

9. (مولانا) خیر محمد (مہتمم، مدرسہ المدارس، ملتان شہر)

10. (مولانامفتی) محمد حسن (مہتمم مدرسہ اشرفیہ، نیلاگنبد، لاہور)

11.(پیر صاحب) محمدامین الحسنات (مانکی شریف، سرحد)

12.(مولانا)محمد یوسف بنوری (شیخ التفسیر، دارالعلوم الاسلامیہ ، اشرف آباد ، سندھ)

13. (حاجی) خادم الاسلام محمد امین (خلیفہ حاجی ترنگ زئی، المجاہد آباد، پشاور صوبہ سرحد)

14. (قاضی) عبدالصمد سربازی (قاضی قلات، بلوچستان)

15. (مولانا) اطہر علی (صدر عامل جمعیۃ علماے اسلام ،مشرقی پاکستان)

16. (مولانا) ابوجعفر محمد صالح (امیرجمعیت حزب اللہ، مشرقی پاکستان)

17. (مولانا) راغب احسن (نائب صدر جمعیۃ العلماء اسلام، مشرقی پاکستان)

18. (مولانا)محمد حبیب الرحمن (نائب صدر جمعیۃ المدرسین، سرسینہ شریف،مشرقی پاکستان)

19. (مولانا) محمد علی جالندھری (مجلس احرارِ اسلام پاکستان)

20. (مولانا) داؤد غزنوی (صدر جمعیۃ اہلحدیث، مغربی پاکستان)

21. (مفتی) جعفر حسین مجتہد (رکن بورڈ آف تعلیمات اسلام، مجلس دستور ساز پاکستان)

22. (مفتی حافظ) کفایت حسین مجتہد (ادارہ عالیہ تحفظ ِحقوقِ شیعہ پاکستان لاہور)

23. (مولانا) محمد اسماعیل سلفی (ناظم جمعیت اہلحدیث پاکستان گوجرانوالہ)

24. (مولانا) حبیب اللہ (جامعہ دینیہ دارالہدیٰ، ٹیڑھی، خیرپور میر)

25. (مولانا) احمد علی (امیر انجمن خدام الدین، شیرانوالہ دروازہ، لاہور)

26. (مولانا) محمد صادق (مہتمم مدرسہ مظہر العلوم، کھڈہ، کراچی)

27. (پروفیسر) عبدالخالق (رکن بورڈ آف تعلیماتِ اسلام، مجلس دستور ساز پاکستان)

28. (مولانا) شمس الحق فریدپوری (صدر مہتمم مدرسہ اشرف العلوم، ڈھاکہ)

29. (مفتی) محمد صاحبداد عفی عنہ (سندھ مدرسۃ الاسلام، کراچی)

30. (مولانا) محمد ظفر احمدانصاری (سیکرٹری بورڈ آف تعلیمات اسلام، مجلس دستورساز پاکستان)

31.(پیرصاحب) محمد ہاشم مجددی (ٹنڈو سائیں داد، سندھ)


مذکورہ بالا تفصیل دیکھ کر یہ حقیقت ہم پر بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کی اصل وجہ مذہبی طبقات نہیں بلکہ ہماری مقتدر اشرافیہ کی وہ غفلت ہے کہ جس نے اس مملکت کو ایک حقیقی فلاحی اسلامی مملکت بننے ہی نہ دیا اور آج ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو اس جانب متوجہ کیا جاوے ناکہ بیرونی واقعات سے متاثر ہوکر اپنے گھر کی جڑیں ٹٹولنا شروع کر دی جاویں ...

حسیب احمد حسیب
 

نذر حافی

محفلین
١ یا تو لکھاری کسی تعصب کا شکار ہے
٢ یا لکھنے والا کوئی خاص مقصود حاصل کرنا چاہتا ہے
آپ نے بجا فرمایا کہ بظاہر تحریر کا سطحی مطالعہ کرنے سے ایسے ہی لگتا ہے البتہ میں چونکہ رائے عامہ کو طاقت سمجھتا ہوں اور میرا ناقص مطالعہ یہ کہتا ہے کہ فوج کو شکست دی جاسکتی ہے لیکن عوام کو نہیں ،رائے عامہ کو دبایاتو جاسکتا ہے لیکن سرنگوں نہیں کیا جاسکتا۔
قومی معاملات پر ہماری عوام کی رائے اور دلچسپی ہمیشہ سے کمزور رہی ہے اور اس کا فائدہ ہماری دشمن طاقتوں کو ہوا ہے۔
باقی جہاں تک اآپ نے یہ کہا ہے "دہشت گردی صرف دہشت گردی ہے چاہے وہ مذہب پسندوں کی جانب سے ہو یا لامزھبوں کی جانب سے چاہے وہ عملی ہو یا فکری چاہے اس کا شکار انسانی اجسام ہوں یا الہی افکار ہم ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں ....."
اس کے بعد کسی تبصرے کی گنجائش ہی نہیں رہتی ،ظالم خواہ کسی بھی مکت اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو وہ صرف ظالم ہے اور وہ پوری انسانیت کا دشمن ہے۔
البتہ مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ آپ اس حقیقت سے کیوں فرار کررہے ہیں کہ پاکستان میں داعشی فکر کے پیروکار اور علمبردار موجود ہیں کیا آپ نہیں جانتے کہ لال مسجد اسلام آباد کے مولانا عبداُلعزیز نے 13 دسمبر کو ایک نجی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا کہ ”جمہوریت کُفر کا نظام ہے۔ پاکستان کے 85 فیصد لوگ پاکستان میں قُرآن و سُنّت کا نظام اور خلافت چاہتے ہیں اور وہ اس کے لئے طالبان ¾ القاعدہ اور اب داعش کی طرف دیکھ رہے ہیں“۔
لال مسجد سے ملحقہ مولانا عبداُلعزیز کی اہلیہ ماجدہ یونس المعروف اُمّ حسّان کی پرنسپل شِپ میں سرگرم جامعہ حفصہ کی طالبات کی طرف سے مُلّا عُمر کو ”امیراُلمومنین“ اور داعش کے سربراہ ابُوبکر بُغدادی کو ”خلیفہ“ تسلیم کئے جانے کی ویڈیو جاری کئے جانے پر ¾ مولانا عبداُلعزیز نے کہا کہ”جامعہ حفصہ کی طالبات نے مُلّا عُمر اور ابُوبکر بُغدادی کے لئے صِرف دُعائیں کر کے اُن کے لئے نیک تمناﺅں کا اِظہار کِیا ہے“۔

مولانا عبداُلعزیز نے یہ نہیں بتایا کہ” عوام کس مذہبی فِرقے کے مطابق قُرآن و سُنّت کا نظام اور خلافت کا قیام چاہتے ہیں؟

اینکر پرسن نے مولانا عبداُلعزیز سے پُوچھا کہ” جن جمہوریت پسند عُلمائے کرام نے 1973 ءکے آئین پر دستخط کئے اُن کے بارے میں آٰپ کا کیا خیال ہے؟“ تو انہوں نے کہا کہ ”1973 ءکا آئین غیر اسلامی ہے اورہمارے ہاں بعض عُلماءبھی نیک نہیں ہیں“۔ 8 دسمبر کو بیگم اُمِ حسّان نے جامعہ حفصہ کی طالبات کی طرف سے ”داعش“ کی حمایت کی توثیق کرتے ہُوئے کہا تھا کہ” ہم اب بھی مُلّا عُمر کو امیر اُلمومنین اور ابُوبکر اُلبغدادی کو اپنا خلیفہ سمجھتے ہیں۔ جامعہ حفصہ کی طالبات بطور امیر المومنین مُلّا عُمر کی اب بھی بہت عِزّت کرتی ہیں اور ابُوبکر بغدادی کواِس لئے خلیفہ تسلیم کرتی ہیں کہ وہ عالمی اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں“۔
میں اس امر کی طرف آپ کی توجہ ایک مرتبہ پھر مبذول کراناچاہوں گا کہ اینکر پرسن نے مولانا عبداُلعزیز سے پُوچھا کہ” جن جمہوریت پسند عُلمائے کرام نے 1973 ءکے آئین پر دستخط کئے اُن کے بارے میں آٰپ کا کیا خیال ہے؟“ تو انہوں نے کہا کہ ”1973 ءکا آئین غیر اسلامی ہے اورہمارے ہاں بعض عُلماءبھی نیک نہیں ہیں“۔
جن کے نزدیک ہمارا آئین غیر اسلامی اور دستخط کرنے والے علما غیر صالح ہیں یہ لوگ ااپ کو نظر کیوں نہیں آتے۔۔۔؟
 
آخری تدوین:
پہلی بات تو جو میں نے عرض کی تھی کہ یہ چند احتمالات پیدا ہوتے ہیں لیکن آپ کی وضاحت کے بات ابہام ختم ہو جاتا ہے

دوسری بات دا عش پوری امت کے نزدیک ایک مردود گروہ ہے اسلیے اگر کوئی منفرد اس سے متاثر ہوتا ہے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں

تیسری بات جہاں تک معاملہ ہے مولانا عبدلعزیز صاحب کا تو مجھے نہیں معلوم ہزاروں معصوم بچیوں کا خون بہانے کے بعد موصوف کو ہمارے وردی والے اور کالے کوٹ والوں نے کیوں آزاد چھوڑا ہوا ہے اور تو اور لال مسجد بھی دوبارہ سے انکے حوالے فرما دی گئی ہے اور اگر یہی کرنا تھا تو پھر پہلی بار اتنا سخت آپریشن کیوں ہوا .........

یہ تو پورا معاملہ ہی ایک گورکھ دھندا ہے جس کا سرا ا ب تلک ہاتھ نہ آ سکا .......

بہتر ہے یہ سوال پاکستان کی اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ کے سامنے رکھا جاوے ........
 
Top