غزہ پر میلی آنکھ۔۔۔۔ کالم نگار | احمد جمال نظامی

غزہ پر میلی آنکھ۔۔۔۔

کالم نگار | احمد جمال نظامی

19 نومبر 2012


اتنا ظلم کہ خدا کی خدائی بھی کانپ اٹھی۔ بچے، بوڑھے اور خواتین بھی زیرعتاب آ گئے۔ ہر طرف بموں کی بارش نے انسانیت پر عرصہ حیات تنگ کر دیا مگر انسانی حقوق اور عالمی امن کے تمام ٹھیکیدار خاموش ہیں۔ میڈیا بھی وہ کردار ادا نہیں کر رہا جو مسلمان میڈیا کو کرنا چاہیے۔ اس قدر بے حسی ہے کہ ہرطرف خاموشی نے آج کے فرعون کو اپنی فرعونیت کا مظاہرہ کرنے میں آزاد کر دیا۔ غزہ پٹی میں اب تک اسرائیلی جارحیت جاری ہے۔ فضائی حملوں کے دوران 40 سے زائد افراد جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ہر طرف ایک شہید کی میت اٹھ رہی ہے اور اقوام متحدہ تو خاموش ہے ہی امریکہ نے بھی اسرائیل کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلا دیا ہے۔ امریکی صدر باراک اوبامہ جو کہتے نہیں تھکتے کہ دنیا میں دہشت گردی کا خاتمہ ان کی اولین ترجیح ہے وہ دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں۔ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کوئی نئی بات نہیں۔ فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم و ستم کا ہی نتیجہ ہے کہ حماس معرض وجود میں آئی اور اگر آج حماس نہ ہوتی تو اسرائیلی جارحیت کے کیا خوفناک رنگ روپ ہوتے اس کا اندازہ بھی نہیںلگایا جا سکتا۔ غزہ کی پٹی میں اسرائیل کو کیا جواز حاصل ہے کہ وہ بے گناہوں پر بمباری کرے۔ بے گناہ اور نہتے شہریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جائیں اور پھر بچوں خواتین اور بوڑھوں تک کی تمیز نہ کی جائے۔ کیا اقوام متحدہ اس پر اپنی خاموشی توڑنے کی جرات نہیں کر سکتا اور اگر ایسا ہے توپھر تمام اسلامی ممالک کس خوش فہمی میں اور وہ اقوام متحدہ کے مصنوعی جال سے باہر کیوں نہیں نکلتے۔ اقوام متحدہ سے پہلے دوسری جنگ عظیم میں اقوام عالم ایسی ہی حرکات وسکنات کی بناءپرناکام ہوا اور پوری دنیا میں جنگ چھڑ گئی۔ عالمی امن تباہ ہو گیا۔ امریکہ یہودی صیہونی لابی کے اشاروںپر عراق میں موجود ہے۔ افغانستان کی طالبان حکومت کا تختہ الٹ کر افغانستان میں جنگ کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور غزہ میں اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے۔ کیا یہ سب مسلمانوں کے خلاف وہ جنگ نہیں جس کا اشارہ سابق امریکی صدر جارج بش نے ایک مرتبہ جوش خطابت کے دوران کہہ دیا تھا کہ ہم صلیبی جنگ لڑنے جا رہے ہیں۔ جارج بش اول نے بھی دنیا کا امن تہہ و بالا کیا تھا اور صلیبی جنگ کے نام پر ان کی شہرت انسانیت کے لئے شرم کا باعث ہے۔ آج وہ امریکہ جس کی معیشت دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کی آڑ میں تباہ ہوتی چلی جا رہی ہے اور اس امریکہ کا کوئی اپنا سٹیٹ بینک نہیں اسے یہودی صیہونی لابی چلاتی ہے اس امریکہ نے اپنے آپ کو دنیا کا ٹھیکیدار بنانے کے لئے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے وہ پہاڑ توڑ رکھے ہیں کہ ہر طرف سے مسلمان آہ و فغاں میں مصروف ہیں مگر افسوس اسلامی ممالک کے حکمران بیدار ہونے کو تیار نہیں۔ آج اسرائیل جب غزہ پٹی پر اپنی بدترین جارحیت کا ایک مرتبہ پھر مظاہرہ کر رہا ہے اور اسرائیلی وزیراعظم نے تمام جمہوری تقاضوں کو پس پشت ڈال کر دھمکی دی ہے کہ وہ غزہ میں خوف پیدا کر دیں گے تو امریکی صدر باراک اوبامہ اسرائیل کی مکمل حمایت کا اعلان کر رہے ہیں۔ اسرائیل غزہ میں ڈرون طیاروںکو بھی استعمال کر رہا ہے۔ کیا یہ اقوام متحدہ کے قوانین کی صریحاً خلاف ورزی نہیں اور جن مہلک ہتھیاروں کو اسرائیل استعمال کر رہا ہے اس پر اقوام متحدہ اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے جیسے سلامتی کونسل اور سلامتی کونسل کے مستقل اراکین حرکت میں کیوں نہیں آتے۔ ان کو اسرائیل کے ساتھ کون سی ایسی ہمدردی ہے۔ امریکہ بھی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے اور چاہتا ہے کہ چین کے مقابلے میں بھارت کو بھی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت دلوا دی جائے اور ظاہری سی بات ہے جو ملک سلامتی کونسل کا رکن ہو گا اسے ویٹو پاور بھی حاصل ہو جائے گی۔ چین نے ماضی قریب میں کئی مرتبہ ہمارا مقبوضہ کشمیرکے مسئلے پر امریکہ کی طرف سے بھارت کی حمایت پر اپنی ویٹوپاور استعمال کر کے ساتھ دیا ہے۔ ان دنوں مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوج کی جارحیت ایک مرتبہ پھر اپنے نکتہ عروج پر ہے۔ ہماری وزیرخارجہ حنا ربانی کھر نے بھی کہہ دیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر بھارتی مظالم اب بھی جاری ہیں۔ لہٰذا یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکہ اور اسرائیل پوری دنیا میں ہر اس ملک کی حمایت کرتے ہیں جو مسلمانوں کے خلاف ہوں۔ غزہ کی پٹی میںاسرائیلی جارحیت قابل مذمت ہے۔ ترکی،لبنان اور مصر نے اس کے خلاف بھرپور مظاہرے جاری ہیں۔ پوری دنیا کے مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ اٹھی ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کے خلاف عالم اسلام میں نفرت کی ایک نئی اور تازہ لہر نے جنم لیا ہے۔ اللہ کرے کہ یہی لہر مسلمان ممالک کے حکمرانوںکی صفوں میں بیدار ہو اور پھر او آئی سی کا پلیٹ فارم استعمال کیا جائے یا پھر کوئی بھی طریقہ کار یا حکمت عملی وضع کی جائے اسکے تحت اسرائیل کی جارحیت کے خلاف کا بھرپور مظاہرہ کیا جانا ضروری ہے۔ اگر اسرائیل کے خلاف ایران کے صدراحمدی نژاد ڈٹ سکتے ہیں اور امریکہ بھی اپنی تمام تر گیدڑ بھبھکیوں اور سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کی خواہش کے باوجود کچھ نہیں کر سکتا توپھر دیگر اسلامی ممالک کیوں نہیں حرکت میں آ سکتے۔ پاکستان کا عالم اسلام میں بڑا اہم مقام ہے۔ اس وقت پاکستان واحد اسلامی مملکت ہے جسے ایٹمی مملکت خداداد ہونے کا شرف حاصل ہے یہ ملک اللہ تعالیٰ نے قائم کروایا تھا یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تو فلسطین میں بچوں نے بھنگڑے ڈالے۔حماس میں خوشی کی لہر دوڑ اٹھی مگر آج اس پاکستان کے حکمران غزہ میں ہونے والے اسرائیلی حملوں پر خاموش کیوں ہیں۔ مسلمان کو ایک جسم کی مانند قرار دیا گیا ہے مگر کیا وجہ ہے کہ فلسطین میں اسرائیلی بے گناہ مسلمان بچوں عورتوں جوانوں اور بوڑھوں کا قتل عام کر رہا ہے مگر عالم اسلام کے حکمران بے حسی کی نیند سے بیدار ہونے کو تیار نہیں۔ ہمارے وزیرداخلہ رحمن ملک کہتے ہیںکہ پارلیمنٹ انسداد دہشت گردی قانون بنانے میں ناکام ہو گئی۔ کاش ہماری پارلیمنٹ عالمی دہشت گردی کے خلاف کوئی واضح لائحہ عمل یا پھر مذمتی قرارداد ہی منظورکر کے عالم اسلام کو کوئی پلیٹ فارم مہیا کرنے میں کامیاب ہو جاتی۔ بھٹوکے جانشین ماضی میںپاکستان میں منعقد کی جانے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کی یاد تازہ کرنے کی جرات ایمانی کیوں نہیں کرتے۔ کیا آج ایوان صدر اور وزیراعظم ہا¶س میںاتنی آسائشیں ہیںکہ انہیں مسلمانوں کا بہتا ہوا لہو بھی نظر نہیں آتا۔ آخر ہم کب تک بے معنی دہشت گردی کی جنگ کی آڑ میں اپنے ملک کے اندر ہی فساد برپا رکھیں گے اور دشمنان اسلام دنیا بھرمیںمسلمانوں کا خون بہاتے رہیں گے۔ مصر کے صدر اسی ماہ ہمارے ملک کا دورہ کرنے آ رہے ہیں۔ 37سال بعدمصرکا کوئی حکمران ہمارے ملک آ رہا ہے۔ مصرکے صدرہماری پارلیمنٹ سے بھی خطاب کریں گے۔ پارلیمنٹ میں بیٹھے سیاست دانوں پر کڑی ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ مصلحتی اور سیاسی بنیادوں سے بالا ترہو کر اپنی حقیقت کے عین مطابق اس دوران غزہ میں ہونے والی اسرائیلی جارحیت پر اپنا کردار ادا کریں۔ حکمران امریکی صدر کو دیکھتے ہیں توانہیں دیکھنے دیا جائے کہ ان کی آنکھ میلی ہے۔
بشکریہ: نوائے وقت
 

ساجد

محفلین
ایک اور صدائے احتجاج ۔
گو کہ فلسطینی کاز کے لئے میرے جذبات بھی کالم نگار جیسے ہیں لیکن اس کالم میں لکھی بعض باتیں حقائق سے میل نہیں کھاتیں۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

مختلف اردو فورمز پر غزہ کی صورت حال کے حوالے سے رائے اور تجزيے پڑھنے کے بعد يہ واضح ہے کہ امريکی حکومت کی جانب سے اسرائيل فلسطين کے کئ دہائيوں پر محيط تنازعے کے خاتمے کے ضمن ميں کی جانے والی کوششوں اور اس حوالے سے امريکی حکومت کے موقف اور پاليسی کے حوالے سے غلط فہمی اور ابہام پايا جاتا ہے۔

امريکی حکومت مغربی کنارے اور غزہ ميں ايک آزاد فلسطينی رياست کے قيام اور 1967 سے فلسطينی علاقوں پر اسرائيلی تسلط کے ضمن ميں فلسطينی عوام کے موقف کی مکمل حمايت کرتی ہے۔ امريکی حکومت کے مشرق وسطی کے حوالے سے نقطہ نظر کو عرب ليگ کی بھی حمايت حاصل ہے۔ اس ضمن ميں امريکی حکومت تمام متعلقہ فريقين سے مکمل رابطے ميں ہے اور ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ بے گناہ شہريوں کی حفاظت کو يقينی بنايا جائے

ہم خطے ميں ايک مربوط امن معاہدے کے لیے کوشاں ہيں جس ميں فلسطين کے عوام کی اميدوں کے عين مطابق ايک خودمختار اور آزاد فلسطينی رياست کے قيام کا حصول شامل ہے۔ اس ايشو کے حوالے سے امريکہ پر زيادہ تر تنقید اس غلط سوچ کی بنياد پر کی جاتی ہے کہ امريکہ کو دونوں ميں سے کسی ايک فريق کو منتخب کرنا ہو گا۔ يہ تاثر بالکل غلط ہے کہ امريکہ اسرائيل کی غيرمشروط حمايت کرتا ہے۔

ہم نے تمام فريقين پر واضح کيا ہے کہ بے گناہ شہريوں کی حفاظت کو يقینی بنايا جائے اور ہم کشيدگی ميں کمی کے ليے کيے جانے والے اقدامات کی حمايت کر رہے ہيں۔

ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے ممبر کی حيثيت سے ميں اسرائيل يا کسی اور ملک کے فوجی اقدامات کی توجيحات يا ان کی حمايت اور ترجمانی نہيں کروں گا۔

جو رائے دہندگان امريکہ کی جانب سے اسرائيل کو اسلحہ فراہم کرنے کا سوال اٹھاتے ہيں وہ صرف ايک پہلو پر توجہ مرکوز کيے ہوئے ہيں۔ حقيقت يہ ہے کہ امريکہ دنيا کے بہت سے ممالک کی افواج کو اسلحے کے ساتھ ساتھ فوجی سازوسامان اور تربيت فراہم کرتا ہے۔ ان ميں اسرائيل کے علاوہ اسی خطے ميں لبنان، سعودی عرب اور شام سميت بہت سے ممالک شامل ہيں۔

اسی ضمن ميں آپ کو يہ بھی باور کروانا چاہتا ہوں کہ امريکی حکومت نے پاکستان اور بھارت، دونوں کو فوجی امداد کے علاوہ تعمير وترقی اور معاشی حوالے سے مستقل بنيادوں پر امداد فراہم کی ہے، باوجود اس کے کہ دونوں ممالک کے درميان کئ بار جنگيں ہو چکی ہيں۔ اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ امريکہ دونوں ممالک ميں سے کسی ايک کو دوسرے پر فوقيت ديتا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

عاطف بٹ

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

مختلف اردو فورمز پر غزہ کی صورت حال کے حوالے سے رائے اور تجزيے پڑھنے کے بعد يہ واضح ہے کہ امريکی حکومت کی جانب سے اسرائيل فلسطين کے کئ دہائيوں پر محيط تنازعے کے خاتمے کے ضمن ميں کی جانے والی کوششوں اور اس حوالے سے امريکی حکومت کے موقف اور پاليسی کے حوالے سے غلط فہمی اور ابہام پايا جاتا ہے۔

امريکی حکومت مغربی کنارے اور غزہ ميں ايک آزاد فلسطينی رياست کے قيام اور 1967 سے فلسطينی علاقوں پر اسرائيلی تسلط کے ضمن ميں فلسطينی عوام کے موقف کی مکمل حمايت کرتی ہے۔ امريکی حکومت کے مشرق وسطی کے حوالے سے نقطہ نظر کو عرب ليگ کی بھی حمايت حاصل ہے۔ اس ضمن ميں امريکی حکومت تمام متعلقہ فريقين سے مکمل رابطے ميں ہے اور ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ بے گناہ شہريوں کی حفاظت کو يقينی بنايا جائے

ہم خطے ميں ايک مربوط امن معاہدے کے لیے کوشاں ہيں جس ميں فلسطين کے عوام کی اميدوں کے عين مطابق ايک خودمختار اور آزاد فلسطينی رياست کے قيام کا حصول شامل ہے۔ اس ايشو کے حوالے سے امريکہ پر زيادہ تر تنقید اس غلط سوچ کی بنياد پر کی جاتی ہے کہ امريکہ کو دونوں ميں سے کسی ايک فريق کو منتخب کرنا ہو گا۔ يہ تاثر بالکل غلط ہے کہ امريکہ اسرائيل کی غيرمشروط حمايت کرتا ہے۔

ہم نے تمام فريقين پر واضح کيا ہے کہ بے گناہ شہريوں کی حفاظت کو يقینی بنايا جائے اور ہم کشيدگی ميں کمی کے ليے کيے جانے والے اقدامات کی حمايت کر رہے ہيں۔

ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے ممبر کی حيثيت سے ميں اسرائيل يا کسی اور ملک کے فوجی اقدامات کی توجيحات يا ان کی حمايت اور ترجمانی نہيں کروں گا۔

جو رائے دہندگان امريکہ کی جانب سے اسرائيل کو اسلحہ فراہم کرنے کا سوال اٹھاتے ہيں وہ صرف ايک پہلو پر توجہ مرکوز کيے ہوئے ہيں۔ حقيقت يہ ہے کہ امريکہ دنيا کے بہت سے ممالک کی افواج کو اسلحے کے ساتھ ساتھ فوجی سازوسامان اور تربيت فراہم کرتا ہے۔ ان ميں اسرائيل کے علاوہ اسی خطے ميں لبنان، سعودی عرب اور شام سميت بہت سے ممالک شامل ہيں۔

اسی ضمن ميں آپ کو يہ بھی باور کروانا چاہتا ہوں کہ امريکی حکومت نے پاکستان اور بھارت، دونوں کو فوجی امداد کے علاوہ تعمير وترقی اور معاشی حوالے سے مستقل بنيادوں پر امداد فراہم کی ہے، باوجود اس کے کہ دونوں ممالک کے درميان کئ بار جنگيں ہو چکی ہيں۔ اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ امريکہ دونوں ممالک ميں سے کسی ايک کو دوسرے پر فوقيت ديتا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
فواد، تم لوگوں کا خبثِ باطن تو اسی بات سے عیاں ہوجاتا ہے کہ تم درندگی، بربریت اور وحشیانہ پن کی مذمت کے لئے بھی ایک لفظ نہیں بول سکتے۔ تمہاری حکومت کیا کرتی پھرتی ہے اور اس کا آپریشن پِلر آف کلاؤڈ سے کیا لینا دینا ہے اس کے لئے یہ لو گھر کی گواہی!
اب یہ مت کہنا کہ گلوبل ریسرچ اور پروفیسر چوسوڈوسکی ہیں ہی باطل قوتوں کے آلہء کار، اس لئے امریکہ اور صیہونیوں کے خلاف ایسی لغویات چھاپتے اور لکھتے رہتے ہیں۔
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

مختلف اردو فورمز پر غزہ کی صورت حال کے حوالے سے رائے اور تجزيے پڑھنے کے بعد يہ واضح ہے کہ امريکی حکومت کی جانب سے اسرائيل فلسطين کے کئ دہائيوں پر محيط تنازعے کے خاتمے کے ضمن ميں کی جانے والی کوششوں اور اس حوالے سے امريکی حکومت کے موقف اور پاليسی کے حوالے سے غلط فہمی اور ابہام پايا جاتا ہے
.....................,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,
اسی ضمن ميں آپ کو يہ بھی باور کروانا چاہتا ہوں کہ امريکی حکومت نے پاکستان اور بھارت، دونوں کو فوجی امداد کے علاوہ تعمير وترقی اور معاشی حوالے سے مستقل بنيادوں پر امداد فراہم کی ہے، باوجود اس کے کہ دونوں ممالک کے درميان کئ بار جنگيں ہو چکی ہيں۔ اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ امريکہ دونوں ممالک ميں سے کسی ايک کو دوسرے پر فوقيت ديتا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
اگر میں اسرائیل میں مین پوری اور گٹکوں کا کاروبار کرکے ان کو کینسر اور اس جیسے دیگر موذی امراض کی طرف دھکیلوں تو کیا امریکی حکومت میری حوصلہ افزائی کرے گی؟؟؟:laugh:
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


جو رائے دہندگان اس بات پر بضد ہيں کہ صدر اوبامہ نے اسرائيل کی غير مشروط حمايت کا اعلان کيا ہے بصد احترام ميں ان سے درخواست کروں گا کہ غزہ کے حوالے سے صدر اوبامہ کا بيان دوبارہ پڑھيں۔ انھوں نے کسی بھی موقع پر ايسے کسی بھی اقدام کی حمايت يا توثيق نہيں کی جو بے گناہ انسانوں کی ہلاکت کا سبب بنے۔

اس کے برخلاف انھوں نے اپنے موقف ميں يہ واضح کيا ہے کہ غزہ ميں خون ريزی کو مستقل بنيادوں پر روکنے کے ليے يہ ضروری ہے کہ تمام فريقين باہمی مذاکرات اور ڈائيلاگ کا راستہ اختيار کريں۔ حقيقت يہی ہے کہ فلسطين کے عوام کی خواہشات کی تکميل جنگ کے ذريعے نہيں بلکہ مذاکرات کے ذريعے ہی ممکن ہے۔

امريکہ فلسطين کی ناموس اور اپنی آزادانہ مملکت کے جائز مطالبہ پر ان کی حمايت ترک نہيں کرے گا۔ ليکن اس کے ساتھ ساتھ فلسطينيوں کو بھی تشدد کا راستہ تبديل کرنا ہو گا جو بے گناہ انسانوں کی ہلاکت کا سبب بنتا ہے اور اپنے موقف کے لیے اخلاقی جواز بھی کھو جاتا ہے۔ حماس کو تشدد کا خاتمہ کر کے گزشتہ معاہدوں کا پاس کرنا ہو گا اور اسرائيل کے وجود کو تسليم کرنا ہوگا۔

ماضی ميں ميں نے امريکہ کی جانب سے مغربی کنارے اور غزہ کے مکينوں کی بحالی اور بہتر زندگی کے ليے مصمم ارادے اور اس ضمن ميں اٹھائے جانے والے اقدامات اور مہيا کی جانے والی بيش بہا مدد کی تفصيلات گاہے بگاہے پيش کی ہيں جو فلسطين کے عوام کے ساتھ ہماری يکجہتی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس حوالے سے مزيد تفصيلات بھی موجود ہيں جو ايک مضبوط فلسطينی رياست کے قيام کے عمل ميں امريکی حمايت کو اجاگر کرتی ہيں۔

قارئين کی ياد دہانی کے ليے واضح کر دوں کہ ماضی ميں بھی امريکہ نے سيکورٹی کونسل کی ايسی بے شمار قراردادوں کی حمايت کی ہے جن کا مقصد دوران جنگ فوری، ديرپا اور باہم احترام پر مبنی جنگ بندی کا حصول رہا ہے۔ ايسی بے شمار قراردادوں کی حمايت بھی ريکارڈ کا حصہ ہے جن کے ذريعے فريقين کے مابين مستقل اور مفصل امن معاہدہ ممکن ہو سکے۔

صدر اوبامہ نے يقين دلايا ہے کہ امريکہ اپنی پاليسياں ان کے ساتھ منسلک کرے گا جو امن کے خواہ ہيں۔ ان ميں وہ اسرائيلی اور فلسطينی بھی شامل ہيں جو دو رياستوں ميں امن اور حفاظت کے ساتھ رہنے کے مستحق ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
مرحوم ڈاکٹر محمد اقبال جو کہ مسلمانوں کے خیر خواہ اور حقیقی امن کے علمبردار تھے۔ ان کے بارے میں ایک تحریر سہ ماہی ”پیغامِ آشنا“ جولائی تا ستمبر 2009 میں ملتی ہے۔ چونکہ اس صیہونی ریاست کا قیام بعد میں عمل میں آیا۔ اور اقبال پہلے ہی فوت ہو گئے تھے۔ لیکن اس ناپاک منصوبے پر عمل پہلے ہی سے جاری تھا۔ اقبال کے مؤقف کے مطابق اگر اپنا علاقہ چھوڑ کر چلے جانے والے یہودیوں اگر فلسطین میں اپنا قبضہ جمانے کا حق رکھتے ہیں تو مسلمان عرب بھی سپین (اندلس) پر حکومت کرنے کے حق دار ہیں۔
ہے خاکِ فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا
 
Top