غزم : ایک نئی صنف سخن

محمداحمد

لائبریرین
معذرت کے ساتھ، لیکن آپ کا نام سنتے ہی مابدولت چونک پڑے تھے۔ کچھ دنوں سے "شکیل بن حنیف" پر وبال مچا ہوا تھا۔

آج کل یہ رجحان بہت زیادہ چل رہا ہے۔

کسی سے بھی دشمنی نکال کر اُ س کے نام سے جعلی آئی ڈیز اور پیجز بنائے جاتے ہیں اور پھر اُس کی طرف سے فرضی گستاخیاں کی جاتی ہیں اور اس بنیاد پر اُس پر فتوے لگا دیے جاتے ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اس صنف کو قبول عام تبھی ملے گا جب آپ اس میں اتنا زیادہ اور اتنا عمدہ کلام پیش کریں گے کہ اساتذہ اسے نظرانداز نہ کر سکیں
 

قیصرانی

لائبریرین
آج کل یہ رجحان بہت زیادہ چل رہا ہے۔

کسی سے بھی دشمنی نکال کر اُ س کے نام سے جعلی آئی ڈیز اور پیجز بنائے جاتے ہیں اور پھر اُس کی طرف سے فرضی گستاخیاں کی جاتی ہیں اور اس بنیاد پر اُس پر فتوے لگا دیے جاتے ہیں۔
اس سے زیادہ خطرناک رحجان یہ بھی دیکھا ہے کہ اگلے آئی ڈیز تقسیم کر رہے ہوتے ہیں کہ یہاں فلاں بندے کی پرانی تصاویر موجود ہیں اور دیگر رشتہ داروں کو بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس رحجان کا اگلا قدم کیا ہوگا؟
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
فی الحال وقت ذرا کم ہے ۔ لنچ کے وقفے میں کچھ سطور لکھ رہا ہوں ۔
مجھے تو یہ غزم کا خیال قطعی نہیں بھایا ۔ جیسا کہ شکیل حنیف صاحب نے لکھا کہ ایک موزوں شعر کے ساتھ نثری نظم کا حاشیہ لگائیں تو وہ غزم ہوجاتی ہے ۔ موزوں شعر کے ساتھ نثری حاشیہ ؟؟!! میری سمجھ سے بالاتر ہے ۔ بھائی آپ یہ دوددھ میں پانی ملانے پر کیوں تل گئے ہیں آخر؟
ہاں اگر نثری نظم کے بجائے یہ آزاد نظم ہے تو پھر مسئلہ ختم ۔ پھر تو یہ نئی صنف بھی نہ ہوئی بلکہ آزاد نظم ہی ہوئی ۔ آزاد نظم میں کوئی بھی دو یا تین یا چار مصرع ہموزن ہوسکتے ہیں ۔ آزاد نظم میں ہموزن مصاریع لانے پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔ دوسری بات یہ کہ تشریح سے آپ کی کیا مراد ہے؟؟ تشریح تو شعر کا مزا کرکرا کردیتی ہے ۔ شاعری کا تو لطف ہی اختصار اور اشارے کنائے میں ہے ۔ یعنی اس غزم کے ذریعے آپ دریا کو واپس کوزے سے نکالنا چاہتے ہیں ۔ یہ تو شاعری کے ساتھ زیادتی ہوجائے گی ۔
 

سید ذیشان

محفلین
میرے خیال میں غزم، نزل، وزل وغیرہ جیسے اصناف اختراع کرنے سے بہتر ہے روایتی شاعری کو ہی استعمال کیا جائے۔ یا پھر اس سطح پر پہنچ جائیں کہ اس طرح کا اجتہاد کریں اور آپ کی بات کو آسانی سے رد نہ کیا جاسکے۔ مصرعے اوپر نیچے کرنے سے یا نثر اور نظم کے ملاپ سے کوئی اعلیٰ چیز نہیں نکلنے والی۔

پس نوشت: ہمارے فزکس کے ایک استاد ریسرچ کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ آپ بہت زیادہ محنت کرکے کئی سال لگا لیں اور دنیا کا سب سے بڑا پرائم نمبر معلوم کر لیں۔ ہے تو یہ بھی جدت کہ کسی نے ایسا کام نہیں کیا ہوگا۔ لیکن یہ ایسا کام ہے کہ جو کمپیوٹر بآسانی کر سکتا ہے (اور کر رہا ہے)، اور آپ کے لئے بالکل بے سود کام ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میرے خیال میں غزم، نزل، وزل وغیرہ جیسے اصناف اختراع کرنے سے بہتر ہے روایتی شاعری کو ہی استعمال کیا جائے۔ یا پھر اس سطح پر پہنچ جائیں کہ اس طرح کا اجتہاد کریں اور آپ کی بات کو آسانی سے رد نہ کیا جاسکے۔ مصرعے اوپر نیچے کرنے سے یا نثر اور نظم کے ملاپ سے کوئی اعلیٰ چیز نہیں نکلنے والی۔

پس نوشت: ہمارے فزکس کے ایک استاد ریسرچ کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ آپ بہت زیادہ محنت کرکے کئی سال لگا لیں اور دنیا کا سب سے بڑا پرائم نمبر معلوم کر لیں۔ ہے تو یہ بھی جدت کہ کسی نے ایسا کام نہیں کیا ہوگا۔ لیکن یہ ایسا کام ہے کہ جو کمپیوٹر بآسانی کر سکتا ہے (اور کر رہا ہے)، اور آپ کے لئے بالکل بے سود کام ہے۔
پس نوشت کے ساتھ متفق
 
پانچ سال پہلے میں نے غزل اور نظم کے ملاپ سے غزم نامی نئی صنف سخن احباب کے سامنے پیش کی تھی۔ میری اس اختراع کو جہاں کچھ لوگوں نے سراہا تو بہت سے احباب نے یکسر مسترد کردیا تھا۔ لیکن ابھی پانچ سال بعد کوئی محترمہ اسے اپنی ایجاد بتارہی ہیں اور لوگ بھی اس صنف کی تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے غزم غزم کر رہے ہیں۔ یہ کیسا انصاف ہے۔
 
پانچ سال پہلے میں نے غزل اور نظم کے ملاپ سے غزم نامی نئی صنف سخن احباب کے سامنے پیش کی تھی۔ میری اس اختراع کو جہاں کچھ لوگوں نے سراہا تو بہت سے احباب نے یکسر مسترد کردیا تھا۔ لیکن ابھی پانچ سال بعد کوئی محترمہ اسے اپنی ایجاد بتارہی ہیں اور لوگ بھی اس صنف کی تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے غزم غزم کر رہے ہیں۔ یہ کیسا انصاف ہے۔ کمنٹ باکس میں اپنی چند غزمیں پیش کررہا ہوں۔
 
✍ *شکیل حنیف, مالیگاؤں (انڈیا)*
☄ *چلو قربان کر ڈالیں*☄
مہینہ ہم پہ قربانی کا
پھر سے سایہ افکن ہے
چلو قربان کر ڈالیں
انا کو, خود پسندی کو
عداوت کو, کدورت کو
جہالت اور نفرت کو
چلو قربان کر ڈالیں
دلوں کو بانٹنے والی
دلوں کو توڑنے والی
ہر اک بیکار عادت کو
چلو قربان کر ڈالیں
فقط اللہ کی خاطر
خدارا ایک ہو جائیں
مسلماں کو مسلماں سے
جو بانٹے ایسے مسلک کو
چلو قربان کر ڈالیں
*کہ قربانی علامت ہے خدا کو راضی کرنے کی*
*بدی کی ہر علامت کو چلو قربان کر ڈالیں*
*(شکیل حنیف)*
 
☄☄ *معلّم* ☄☄
معلم نام ہے جس کا
مقدس شخص ہوتا ہے
معلم علم دیتا ہے
معلم طرز دیتا ہے
معلم ہی تو ہے جو
بے ادب کو پارسا کر دے
معلم بے زبانوں کو
سخن کا ناخدا کردے
معلم کچی مٹی کو
اک عالیشان گھر کر دے
معلم مالی ہوتا ہے
جو پودوں کو ہرا کر دے
معلم ننھے بچوں کو
زمیں سے آسماں کر دے
معلم جو بھی کرتا ہے
یہ اس کا فرض ہوتا ہے
*معلم وہ نہیں جو بس نصابوں کو کرے پورا*
*معلم وہ ہے جوبچوں کو جینے کا ہنر دے دے*
ازقلم : شکیل حنیف,
مدرس اے ٹی ٹی ہائی اسکول , مالیگاؤں
www.hamaramalegaon.blogspot.com
 

La Alma

لائبریرین
پانچ سال پہلے میں نے غزل اور نظم کے ملاپ سے غزم نامی نئی صنف سخن احباب کے سامنے پیش کی تھی۔
یعنی ہائبرڈ شاعری
ابھی پانچ سال بعد کوئی محترمہ اسے اپنی ایجاد بتارہی ہیں اور لوگ بھی اس صنف کی تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے غزم غزم کر رہے ہیں۔ یہ کیسا انصاف ہے۔
آپ اپنی غزم کا ڈی این اے ٹیسٹ کروا لیں۔
 
✍ *شکیل حنیف, مالیگاؤں (انڈیا)*
☄ *چلو قربان کر ڈالیں*☄
مہینہ ہم پہ قربانی کا
پھر سے سایہ افکن ہے
چلو قربان کر ڈالیں
انا کو, خود پسندی کو
عداوت کو, کدورت کو
جہالت اور نفرت کو
چلو قربان کر ڈالیں
دلوں کو بانٹنے والی
دلوں کو توڑنے والی
ہر اک بیکار عادت کو
چلو قربان کر ڈالیں
فقط اللہ کی خاطر
خدارا ایک ہو جائیں
مسلماں کو مسلماں سے
جو بانٹے ایسے مسلک کو
چلو قربان کر ڈالیں
*کہ قربانی علامت ہے خدا کو راضی کرنے کی*
*بدی کی ہر علامت کو چلو قربان کر ڈالیں*
*(شکیل حنیف)*
بہت اچھی نظمیں ہیں۔
آپ کی نظمیں پڑھنے کے بعد بھی رائے 5 سال پرانی ہی رہی۔

کہ یہ آزاد نظم کی تعریف پر پورا اترتی ہے۔ اور عموماً نظموں میں بھی آخری مصارع بات کی تکمیل کر رہے ہوتے ہیں یا پوری نظم کا نچوڑ ہی بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کا الگ سے نام دینے کی کوئی خاص وجہ سمجھ نہیں آئی۔
اور غزل والی تو کوئی بات محسوس نہیں ہوتی اس نظم میں، کہ غزل کو بھی نام کا حصہ بنایا جائے۔
 
مجھے تو اس میں اور آزاد نظم میں کوئی خاص فرق معلوم نہیں ہوتا ... اس کو نئی صنف قرار دینا بڑا دعوی ہے ....
اردو محفل پر اس سے پہلے تو نظر سے نہیں گزری یہ صنف ... نہ ہی کسی اور کو اس کا کریڈٹ لیتے دیکھا ...
 
Top