غزل

دل کے لٹنے کا کوئی سوگ منانے آیا.
کون مسمار ہوئی آگ جلانے آیا.
مہرباں بھی ہوا تو کیا ہوا رونے پہ مرے.
اپنی یادوں کا ہر اک نقش مٹانے آیا.
وہ تو آیا تھا مجھے زندہ جلانے کے لئے.
میں نے سمجھا مجھے آنچل میں چھپانے آیا.
میری سانسوں کا سدا اس سے تعلق نکلا.
رات بھر خواب میں جو زخم دکھانے آیا.
وصل کی شب جو چنی گزری مری آنکھوں میں.
کب وہ اپنے کئے وعدوں کو نبھانے آیا.
خوب رکھا ہے بھرم اس نے وفاؤں کا بھی.
جب بھی آیا وہ تصور میں رلانے آیا.
میرا حاصل بھی یہاں حاصل حیرت ٹھہرا.
میرے جذبات کو جب زہر پلانے آیا.
رات ساری جو ستارا تھا تعاقب میں مرے.
دن کا سورج اسے کیوں مجھ سے چرانے آیا.
غیر کو ساتھ لئے کتنی رعونت سے تجھے.
دیکھ سجاد وہ پھولوں سے سجانے آیا.
 
Top