غزل (2024 - 02 - 23)

غزل پیش ِخدمت ہے۔ اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

توڑ کر بت خوف کا چھوڑی ہے جب آہ و فغاں
تمکنت کا منکشف ہونے لگا سرِ نِہاں

جب کسی بھی باغ کا ہو جائے غافل باغباں
بن کے رہ جاتا ہے جنگل پھر وہ سارا گلستاں

مہ جبینوں کی بیاں تعریف میں کیسے کروں
وہ اگر ہوں سامنے تو لڑکھڑاتی ہے زباں

آس کی مشعل لیے ہے جب کیا پیہم عمل
تیرگیِ بخت چھَٹ کر ہو گئی ہے ضوفشاں

سینچتا ہے آفتوں کی فصل کو برسوں کوئی
کوئی آفت بھی نہیں ہوتی بلائے ناگہاں

بارگاہِ ایزدی میں ہیں اٹھائے ہاتھ جب
کر رہا مجھ کو پریشاں ہے مرا عجزِ بیاں

اُس جگہ تک نقشِ پا ہیں سرورِ کونین کے
جِس کے رستے میں پڑی ہے دھول بن کر کہکشاں
 

الف عین

لائبریرین
عزیزم ، اس غزل میں کوئی بہت خاص بات تو نظر نہیں آتی، اس طرح کی قافیہ پیمائی سے گریز کریں۔ سیدھے سادے نثر کے قریب انداز بیان کو چھوڑ کر مجہول طرز اختیار کرنا بھی بڑی غلطی ہے۔ بہر حال
غزل پیش ِخدمت ہے۔ اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

توڑ کر بت خوف کا چھوڑی ہے جب آہ و فغاں
تمکنت کا منکشف ہونے لگا سرِ نِہاں
واضح نہیں، کیوں چھوڑیں؟ اور تمکنت سے ان کا تعلق,

جب کسی بھی باغ کا ہو جائے غافل باغباں
بن کے رہ جاتا ہے جنگل پھر وہ سارا گلستاں
ٹھیک، لیکن غافل باغباں کو باغباں کی صفت بھی سمجھا جا سکتا ہے جب کہ غافل "ہو جائے" کا مفعول ہے

مہ جبینوں کی بیاں تعریف میں کیسے کروں
وہ اگر ہوں سامنے تو لڑکھڑاتی ہے زباں
ٹھیک، بس زبان لڑکھڑا رہی ہے

آس کی مشعل لیے ہے جب کیا پیہم عمل
تیرگیِ بخت چھَٹ کر ہو گئی ہے ضوفشاں
تیرگی ضو فشاں ہو گئی؟ بیانیہ بھی مجہول ہے

سینچتا ہے آفتوں کی فصل کو برسوں کوئی
کوئی آفت بھی نہیں ہوتی بلائے ناگہاں
ٹھیک

بارگاہِ ایزدی میں ہیں اٹھائے ہاتھ جب
کر رہا مجھ کو پریشاں ہے مرا عجزِ بیاں
مجہول بیانیہ

اُس جگہ تک نقشِ پا ہیں سرورِ کونین کے
جِس کے رستے میں پڑی ہے دھول بن کر کہکشاں
واضح نہیں ہوا، کس جگہ تک اور کس کے رستے میں؟ بظاہر تو سرور کونین کے رستے میں ہو
گی۔
 
عزیزم ، اس غزل میں کوئی بہت خاص بات تو نظر نہیں آتی، اس طرح کی قافیہ پیمائی سے گریز کریں۔ سیدھے سادے نثر کے قریب انداز بیان کو چھوڑ کر مجہول طرز اختیار کرنا بھی بڑی غلطی ہے۔ بہر حال
توڑ کر بت خوف کا چھوڑی ہے جب آہ و فغاں
تمکنت کا منکشف ہونے لگا سرِ نِہاں

واضح نہیں، کیوں چھوڑیں؟ اور تمکنت سے ان کا تعلق,
سر الف عین صاحب! آپ کے ارشادات کی روشنی میں دوبارہ کوشش کی ہے۔
مطلع اول اب نہیں رہا ۔ مطلع ثانی یعنی اگلا شعر ہی مطلع ہے۔
ہمتِ مرداں سے ہی ملتی خدا کی ہے مدد
اس جہاں میں تمکنت کا ہے یہی سرِ نِہاں
جب کسی بھی باغ کا ہو جائے غافل باغباں
بن کے رہ جاتا ہے جنگل پھر وہ سارا گلستاں

ٹھیک، لیکن غافل باغباں کو باغباں کی صفت بھی سمجھا جا سکتا ہے جب کہ غافل "ہو جائے" کا مفعول ہے
جب کسی بھی باغ کا ہوتا ہے غافل باغباں
بن کے رہ جاتا ہے جنگل پھر وہ سارا گلستاں
آس کی مشعل لیے ہے جب کیا پیہم عمل
تیرگیِ بخت چھَٹ کر ہو گئی ہے ضوفشاں

تیرگی ضو فشاں ہو گئی؟ بیانیہ بھی مجہول ہے
مانگنے سے حق اگر ملتا نہیں تو چھین لو
خوف کے بت توڑ دو اور چھوڑ دو آہ و فغاں
بارگاہِ ایزدی میں ہیں اٹھائے ہاتھ جب
کر رہا مجھ کو پریشاں ہے مرا عجزِ بیاں

مجہول بیانیہ
تُو عطا کر دے بنا مانگے مرادِ دل مجھے
مدعا اپنا بھی کر سکتا نہیں ہوں میں بیاں
اُس جگہ تک نقشِ پا ہیں سرورِ کونین کے
جِس کے رستے میں پڑی ہے دھول بن کر کہکشاں

واضح نہیں ہوا، کس جگہ تک اور کس کے رستے میں؟ بظاہر تو سرور کونین کے رستے میں ہوگی۔
عرش تک ہیں نقشِ پا اُس سرورِ کونین کے
جِس کے رستے میں پڑی ہے دھول بن کر کہکشاں
 

الف عین

لائبریرین
ہمتِ مرداں سے ہی ملتی خدا کی ہے مدد
"ہے" کی نشست اچھی نہیں، اگرچہ محاورہ ہمت مرداں، مدد خدا ہے لیکن..... ملتی ہے اللہ کی مدد... کیا جا سکتا ہے
باقی اشعار میں بہتری تو لگتی ہے لیکن جیسا کہ لکھ چکا ہوں کہ روانی اور بیانیہ کی خرابی
محسوس ہوتی ہے شاید غیر مردف ہونے کی وجہ سے
 
Top