محمد تابش صدیقی
منتظم
ایک پرانی غزل مکمل ہونے کے بعد استادِ محترم کی رضامندی کے ساتھ احبابِ محفل کے ذوق کی نذر:
خالق سے رشتہ توڑ چلے
ہم اپنی قسمت پھوڑ چلے
طوفان کے آنے سے پہلے
ہم اپنے گھروندے توڑ چلے
کچھ تعبیروں کے خوف سے ہی
ہم خواب ادھورے چھوڑ چلے
اب کس کی معیت حاصل ہو
جب سایہ ہی منہ موڑ چلے
شاید کہ تمہیں یاد آئیں پھر
ہم شہر تمہارا چھوڑ چلے
غفلت کی نیند میں ہے تابشؔ
کوئی اس کو بھی جھنجھوڑ چلے
٭٭٭
محمد تابش صدیقی
ہم اپنی قسمت پھوڑ چلے
طوفان کے آنے سے پہلے
ہم اپنے گھروندے توڑ چلے
کچھ تعبیروں کے خوف سے ہی
ہم خواب ادھورے چھوڑ چلے
اب کس کی معیت حاصل ہو
جب سایہ ہی منہ موڑ چلے
شاید کہ تمہیں یاد آئیں پھر
ہم شہر تمہارا چھوڑ چلے
غفلت کی نیند میں ہے تابشؔ
کوئی اس کو بھی جھنجھوڑ چلے
٭٭٭
محمد تابش صدیقی