غزل: جذبۂِ دل میں یہ کمال توہے

ن

نامعلوم اول

مہمان
جذبۂِ دل میں یہ کمال توہے
اسے میرا بھی کچھ خیال توہے​
نہ سہی انتہائے شامِ فراق
آرزوئے شبِ وصال تو ہے​
میرے گھر آئے ہو رقیب کے ساتھ
اِس میں پوشیدہ کوئی چال تو ہے​
قطعہ​
اُن سے اک روز یہ کہا میں نے
مجھ کو اس بات کا ملال تو ہے​
آپ کا حسن لازوال نہیں
ہنس کے بولے کہ بے مثال تو ہے​
خوش ہوں کاملؔ اگرچہ کم ہی سہی
اسے میرا بھی کچھ خیال تو ہے​
 
Top