غزل: جادۂ راہ ہے منزل تو نہیں

ن

نامعلوم اول

مہمان
جادۂ راہ ہے منزل تو نہیں
موت بھی موج ہے ساحل تو نہیں​
مجھ سے کہتے ہو کہ مر جاؤ تم
یہ بھی آسان ہے مشکل تو نہیں​
روک مت اشک کو بہہ جانے دے
قطرۂِ خوں ہی تو ہے دل تو نہیں​
روز کرتا تھا تِرا ذکرِ جفا
چارہ گر ہی کہیں قاتل تو نہیں​
جی کے بہلانے کو آ جاتا ہوں
ورنہ دل اب ترا مائل تو نہیں​
کس لیے آئے ہو خنجر لے کر
دل نئے زخم کا سائل تو نہیں​
جا رہا ہے کوئی صحرا کی طرف
جاؤ دیکھو کہیں کاملؔ تو نہیں​
 
روک مت اشک کو بہہ جانے دے
قطرۂِ خوں ہی تو ہے دل تو نہیں
واہ واہ کیا مضمون باندھا ہے
لطف آ گیا
مختصر بحر میں لکھنا بہت مشکل ہے
یہ وہ بھاری پتھر ہے جس کو بہت سے شُعراء ابتدا میں ہی چوم کر چھوڑ دیتے ہیں
اللہ کرے زورِ قلم زیادہ
شاد و آباد رہیں
 
Top