حالی غزل: بڑھاؤ نہ آپس میں ملت زیادہ

بڑھاؤ نہ آپس میں ملت زیادہ
مبادا کہ ہوجائے نفرت زیادہ

تکلف علامت ہے بیگانگی کی
نہ ڈالو تکلف کی عادت زیادہ

کرو دوستو پہلے آپ اپنی عزت
جو چاہو کریں لوگ عزت زیادہ

نکالو نہ رخنے نسب میں کسی کے
نہیں اس سے کوئی رذالت زیادہ

کرو علم سے اکتسابِ شرافت
نجابت سے ہے یہ شرافت زیادہ

فراغت سے دنیا میں دم بھر نہ بیٹھو
اگر چاہتے ہو فراغت زیادہ

جہاں رام ہوتا ہے میٹھی زباں سے
نہیں لگتی کچھ اس میں دولت زیادہ

مصیبت کا ایک اک سے احوال کہنا
مصیبت سے ہے یہ مصیبت زیادہ

کرو ذکر کم اپنی داد و دہش کا
مبادا کہ ثابت ہو خست زیادہ

پھر اوروں کی تکتے پھرو گے سخاوت
بڑھاؤ نہ حد سے سخاوت زیادہ

کہیں دوست تم سے نہ ہوجائیں بد ظن
جتاؤ نہ اپنی محبت زیادہ

جو چاہو فقیری میں عزت سے رہنا
نہ رکھو امیروں سے ملت زیادہ

وہ افلاس اپنا چھپاتے ہیں گویا
جو دولت سے کرتے ہیں نفرت زیادہ

نہیں چھپتے عیب اتنی ثروت سے تیرے
خدا دے تجھے خواجہ ثروت زیادہ

ہے الفت بھی وحشت بھی دنیا سے لازم
نہ الفت زیادہ نہ وحشت زیادہ

فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

بکے مفت یاں ہم زمانہ کے ہاتھوں
پہ دیکھا تو تھی یہ بھی قیمت زیادہ

ہوئی عمر دنیا کے دھندوں میں آخر
نہیں بس اب اے عقل مہلت زیادہ

غزل میں وہ رنگت نہیں تیری حالیؔ
الاپیں نہ بس آپ دھُرپَت زیادہ

٭٭٭
مولانا الطاف حسین حالیؔ
 
کیسے کیسے حکیم ملے ہیں میری قوم کو۔ ایک ایک بات کانٹے میں تلی ہوئی۔ آبِ زر سے لکھنے کے لائق۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ان میں سے بہت سے سبق میں نے غیروں سے سیکھے اور پھر سمجھا کہ میرے بزرگ یہ حکمتیں دوسروں سے بہت پہلے جانتے تھے۔ سلام، مولوی حالی! :)
 
کیسے کیسے حکیم ملے ہیں میری قوم کو۔ ایک ایک بات کانٹے میں تلی ہوئی۔ آبِ زر سے لکھنے کے لائق۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ان میں سے بہت سے سبق میں نے غیروں سے سیکھے اور پھر سمجھا کہ میرے بزرگ یہ حکمتیں دوسروں سے بہت پہلے جانتے تھے۔ سلام، مولوی حالی! :)
بے شک
 
Top