غزل برائے اصلاح

الف عین
فلسفی ، خلیل الر حمن ، تابش صدیقی ، دیگر
-----------------
افاعیل مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن
--------------
خدا کی راہ جو چلا وہ زندگی کو پا گیا
یہ مقصدِ حیات ہے نبی ہمیں بتا گیا
---------------------------
بھٹک گیا جو راہ سے خدا سے دور ہو گیا
مرے تھا یہ نصیب میں ، درِ نبی پہ آ گیا
-----------------------
یہ زندگی طویل ہے ختم نہ ہو گی مر کے بھی
یہ زندگی کا راز ہے نبی ہمیں بتا گیا
----------------
کھے سبھی ہیں راستے ، ثواب کے عذاب کے
جو راستہ خدا کا ہے نبی ہمیں دکھا گیا
------------------
جہان میں جو کھو گیا ، اسے ملا نہ کچھ یہاں
نظر تھی جس کی حشر پر،امان وہ ہی پا گیا
------------------------
نبی ملا ہمیں ہے جو،عزیز ہے وہ جان سے
خدا سے ہم تو دور تھے ، خدا سے وہ ملا گیا
--------------------
 

فلسفی

محفلین
خدا کی راہ جو چلا وہ زندگی کو پا گیا
یہ مقصدِ حیات ہے نبی ہمیں بتا گیا
یہ یوں بہتر نہیں لگے گا؟

خدا کی راہ جو چلے وہ زندگی کو پا گئے
یہ مقصدِ حیات ہے نبیؐ ہمیں بتا گئے

لیکن پہلے مصرع میں مقصد آنا چاہیے اور دوسرے کے ساتھ کچھ ربط جیسے فلاح کا راستہ خدا کے بتائے ہوئے طریقوں میں ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وصلم ہمیں بتا گئے ہیں۔
 

عظیم

محفلین
خدا کی راہ جو چلا وہ زندگی کو پا گیا
یہ مقصدِ حیات ہے نبی ہمیں بتا گیا
---------------------------دوسرے مصرع تھوڑا بے ادبی کے زمرے میں آ جاتا ہے، نبی (ص) کہنے کے بجائے کچھ اور کہیں تو کام بن سکتا ہے۔ لیکن پہلا مصرع بھی بیان کے اعتبار سے نامکمل لگتا ہے ۔ مثلاً زندگی کا راز پانا' کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے

بھٹک گیا جو راہ سے خدا سے دور ہو گیا
مرے تھا یہ نصیب میں ، درِ نبی پہ آ گیا
-----------------------دونوں مصرعوں کا اختتام 'گیا' پر ہو رہا ہے اس لیے پہلے کو بدلنے کی ضرورت ہے جیسے 'خدا سے دور جا پڑا' وغیرہ
اور
یہ تھا مرے نصیب میں . . .

یہ زندگی طویل ہے ختم نہ ہو گی مر کے بھی
یہ زندگی کا راز ہے نبی ہمیں بتا گیا
----------------ختم کا تلفظ غلط باندھا گیا ہے درست تلفظ میں ت پر جزم ہے اس کو آپ
نہ ختم ہو گی مر کے بھی. کر سکتے ہیں

کھے سبھی ہیں راستے ، ثواب کے عذاب کے
جو راستہ خدا کا ہے نبی ہمیں دکھا گیا
------------------ثواب کے ساتھ گناہ لے کر آئیں، عذاب دو الگ الگ چیزیں ہو جاتی ہیں ۔ اور الفاظ بدل کر روانی بھی بہتر کی جا سکتی ہے
مثلاً
کھلے ہیں سب ہی راستے ، ثواب کے گناہ کے
لیکن دوسرے مصرع میں وہی مطلع والا معاملہ آ جاتا ہے

جہان میں جو کھو گیا ، اسے ملا نہ کچھ یہاں
نظر تھی جس کی حشر پر،امان وہ ہی پا گیا
------------------------اس میں بھی الفاظ کی نشست بدل کر روانی بہتر بنائی جا سکتی ہے ۔ آپ خود بھی الفاظ آگے پیچھے کر کے دیکھا کریں کہ کس طرح پڑھنے میں رواں محسوس ہو رہا ہے
مثلاً
جو کھو گیا جہان میں، ملا نہ اس کو کچھ یہاں

نبی ملا ہمیں ہے جو،عزیز ہے وہ جان سے
خدا سے ہم تو دور تھے ، خدا سے وہ ملا گیا
--------------------اس میں بھی الفاظ کی ترتیب روانی کو متاثر کر رہی ہے ۔ لیکن اس غزل میں جو اصل مسئلہ مجھے محسوس ہوا وہ یہ ہے کہ الفاظ کے چناؤ میں احتیاط نہیں برتی گئی۔ جس کی وجہ شاید ردیف (گیا) ہو سکتی ہے۔ اس لیے 'ملا گئے' 'بتا گئے' 'دکھا گئے' کی جگہ 'ملا گیا' وغیرہ استعمال میں لایا گیا ہے
 
اسلام علیکم ۔ یہی نقطہ فلسفی بھائی نے بھی اُٹھایا ہے ۔ترتیب بدل کر دوبارا لکھتا ہوئی۔امید ہے آئندہ بھی آپ مشوروں سے نوازتے رہیں گے ۔ شکریہ
 
الف عین،عظیم، فلسفی
----------------
دوبارا نئی ترتیب کے ساتھ
---------------------
جو راہِ حق پہ چل پڑے ، فلاح کو وہ پا گئے
یہ مقصدِ حیات ہے جو انبیاء بتا گئے
------------------------
خدا سے دور ہو گئے ، بھٹک گئے جو راہ میں
جنہیں خدا کا خوف تھا ، نبی کے در پہ آ گئے
------------------------
حیات تو طویل ہے ، نہ ختم ہو گی مر کے بھی
یہ زندگی کا راز ہے ، حضورﷺ جو بتا گئے
-------------------
کُھلے ہیں سب ہی راستے ،ثواب کے گناہ کے
جو راستہ فلاح کا ہے ،انبیاء دکھا گئے
---------------------
جو کھو گئے جہان میں ،ملا نہ اُن کو کچھ یہاں
نظر تھی جن کی حشر پر ،امان میں وہ آ گئے
-----------------------
حضور کا غلام ہوں ، عزیز تر ہیں جان سے
خدا سے ہم تو دور تھے ، خدا سے وہ ملا گئے
-------------------
جنہیں ملا نبی کا در ، شکر کریں خدا کا وہ
نبیﷺ کے جو غلام تھے ، وہ عاقبت بنا گئے
--------------------
قدم نبی کے چوم لوں، ملیں مجھے جو خواب میں
ہزار بار چوم لوں ، اگر کبھی وہﷺ آ گئے
-----------------------
 
اسلام علیکم ۔ یہی نقطہ فلسفی بھائی نے بھی اُٹھایا ہے ۔ترتیب بدل کر دوبارا لکھتا ہوئی۔امید ہے آئندہ بھی آپ مشوروں سے نوازتے رہیں گے ۔ شکریہ
عظیم بھائی اور فلسفی بھائی استادِ محترم سے پہلے آپ دونوں احباب چیک کر لیں تاکہ استاد جی کے دیکھنے سے پہلے تبدیلیاں کر لوں ۔
 

عظیم

محفلین
جو راہِ حق پہ چل پڑے ، فلاح کو وہ پا گئے
یہ مقصدِ حیات ہے جو انبیاء بتا گئے
------------------------بابا (الف عین) چھوٹی موٹی غلطیوں پر زیادہ غور نہیں فرماتے، میں اصلاح نہیں مشورہ دے سکتا ہوں اس لیے سمجھ نہیں پاتا کہ کون سی غلطی کو چھوٹا سمجھ کر چھوڑ دوں یا اس کی نشاندہی کروں
مطلع میں سمجھتا ہوں کہ قبول کر لیا جائے گا

خدا سے دور ہو گئے ، بھٹک گئے جو راہ میں
جنہیں خدا کا خوف تھا ، نبی کے در پہ آ گئے
------------------------'بھٹک گئے جو راہ میں' یہ ٹکڑا پہلے آنا چاہیے ۔ اگر دونوں مصرعوں کا اختتام 'گئے' پر ہونے کا خطرہ کے تو یوں کر سکتے ہیں
بھٹک گئے جو راہ میں خدا سے دور ہیں وہ لوگ
لیکن دوسرا مصرع بھی بے ربط لگ رہا ہے ۔ اچانک نبی کے در پر آنا سمجھ میں نہیں آتا

حیات تو طویل ہے ، نہ ختم ہو گی مر کے بھی
یہ زندگی کا راز ہے ، حضورﷺ جو بتا گئے
-------------------اس شعر کے پہلے مصرع کی پہلی صورت ہی بہتر تھی ۔ حیات تو میں ت کی تکرار بھی ہو گئی ہے
اس شعر میں بھی دونوں مصرعوں میں ربط سمجھ نہیں آتا، پچھلی بار میں نے صرف روانی وغیرہ کی بات کی تھی پورے شعر کے حوالے سے شاید کم ہی کہا تھا

کُھلے ہیں سب ہی راستے ،ثواب کے گناہ کے
جو راستہ فلاح کا ہے ،انبیاء دکھا گئے
---------------------مطلب سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں
یوں سمجھ لیجیے کہ دونوں مصرعوں میں ربط نہیں بن پایا، دو الگ الگ باتیں ہیں

جو کھو گئے جہان میں ،ملا نہ اُن کو کچھ یہاں
نظر تھی جن کی حشر پر ،امان میں وہ آ گئے
-----------------------پہلا مصرع تو بہتر ہو گیا ہے لیکن دوسرے مصرع کا دوسرا ٹکڑا بے ربط ہو رہا ہے ۔ اور کچھ واضح بھی نہیں کہ کس کی امان میں؟

حضور کا غلام ہوں ، عزیز تر ہیں جان سے
خدا سے ہم تو دور تھے ، خدا سے وہ ملا گئے
------------------عزیز تر میں تر اضافی لگ رہا ہے 'عزیز ہیں جو جان سے' لیکن اس میں 'جُ جان' اچھا نہیں لگے گا کچھ اور سوچ لیں

جنہیں ملا نبی کا در ، شکر کریں خدا کا وہ
نبیﷺ کے جو غلام تھے ، وہ عاقبت بنا گئے
--------------------یہ ایک شعر میں سمجھتا ہوں کہ درست ہے

قدم نبی کے چوم لوں، ملیں مجھے جو خواب میں
ہزار بار چوم لوں ، اگر کبھی وہﷺ آ گئے
-----------------------ملیں جو مجھ کو خواب میں' کر لیں
'ہزار بار چوم لوں' کی جگہ بھی کچھ اور لے کر آئیں پہلے میں یہ بات کی جا چکی ہے تو دوسرے میں غیر ضروری لگ رہی ہے اور اس کے علاوہ کسی طرح 'جو خواب میں وہ آ گئے' لے کر آئیں
 

الف عین

لائبریرین
عظیم سے متفق ہوں اگرچہ انہوں نے کچھ اشعار کو درست کہا ہے
مطلع ہی مجھے قبول نہیں
جو راہِ حق پہ چل پڑے ، فلاح کو وہ پا گئے
یہ مقصدِ حیات ہے جو انبیاء بتا گئے
... 'چل پڑے' سے لگتا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے اتفاق سے ہی اس راہ پر لگ گئے!
اسی طرح 'فلاح کو پانا' بھی درست نہیں
میں اسے ترجیح دوں گا
جو راہ حق پہ چل سکے تھے، وہ فلاح پا گئے
یا
جو راہ حق پہ چل سکے، وہی فلاح ....
لیکن دوسرے مصرعے میں مقصد حیات کسے کہا گیا ہے، یہ واضح نہیں ۔ فلاح پانا، یا راہ حق؟
اسے بھی عظیم نے درست کہا ہے
جنہیں ملا نبی کا در ، شکر کریں خدا کا وہ
نبیﷺ کے جو غلام تھے ، وہ عاقبت بنا گئے
شکر کا تلفظ غلط باندھا گیا ہے درست ک پر جزم کے ساتھ ہے، اس ٹکڑے کر
خدا کا شکر ادا کریں
کر سکتے ہیں
لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ نبی کا غلام ہونا اور نبی کا در ملنا کیا الگ الگ ہے؟
باقی عظیم کی باتوں سے متفق ہوں
 

عظیم

محفلین
بابا میں مشورہ دیتے وقت صرف تکنیکی باتوں کو ذہن میں رکھ رہا ہوں ۔ معنوی باریکیوں کو میں یہ سمجھ کر چھوڑ گیا تھا کہ کہیں مزید الجھن مت پیدا کر دوں۔ شکر والے شعر میں یہ لفظ واقعی دیکھنے سے رہ گیا۔ اب ان شاء اللہ معنوی اعتبار سے بھی کوشش کروں گا کہ کچھ مشورہ دے سکوں
 
الف عین
-------------
استادِ محترم کو مطلع پسند نہیں آیا اس لئے بدل دیا
------------------------
فلاح اُن کو مل گئی جو راہِ حق پہ آ گئے
یہ مقصدِ حیات تھا جو اس طرح سے پا گئے
-------------------------
خدا سے سب ہی دور تھے، جہالتوں کا راج تھا
جنہیں تلاش حق کی تھی ، درِ نبی پہ آ گئے
---------------
خدا کو ایک مان کر ،وہیں پہ سر جھکا دیا
جو شرک سے بچے رہے ، وہ عاقبت بنا گئے
----------------------
نبی کا در ملا اُنہیں ، تھا جن کے یہ نصیب میں
خدا کا شکر ادا کریں کہ اُن کے در پہ آ گئے
-----------------
وہ حکم تو خدا کا تھا، کلام بھی اسی کا تھا
خدا کا وہ پیام تھا ، نبی ہمیں سُنا گئے
------------------
جو کھو گئے جہان میں ملا نہ اُن کو کچھ یہاں
وہ بچ گئے عذاب سے ، جو راہِ حق پہ آ گئے
-----------------
یہ زندگی طویل ہے ، نہ ختم ہو گی مر کے بھی
یہ راز ہے حیات کا ، جو انبیاء بتا گئے ( تکرار سے بچنے کے لئے دوسرے مصرعے میں زندگی استمال نہیں کیا )
----------------
کُھلے ہیں سب ہی راستے ، ثواب کے گناہ کے
سزا بھی ہے ، جزا بھی ہے ، یہ انبیاء بتا گئے
----------------------
حضورﷺ کا غلام ہوں ،وہ جان سے عزیز ہیں
یہ کرم تو انہیں ﷺ کا ہے ، وہ راہِ حق دکھا گئے
------------------------
 

الف عین

لائبریرین
راہ حق تین اشعار میں دہرایا گیا ہے، کم از کم ایک عدد نکال دیں۔ مطلع درست ہو گیا ہے۔
خدا سے سب ہی دور تھے، جہالتوں کا راج تھا
جنہیں تلاش حق کی تھی ، درِ نبی پہ آ گئے
--------------- اب بھی دو، بلکہ سہ لخت لگ رہا ہے

خدا کو ایک مان کر ،وہیں پہ سر جھکا دیا
جو شرک سے بچے رہے ، وہ عاقبت بنا گئے
---------------------- یہ بھی دو لخت ہے

نبی کا در ملا اُنہیں ، تھا جن کے یہ نصیب میں
خدا کا شکر ادا کریں کہ اُن کے در پہ آ گئے
----------------- درست

وہ حکم تو خدا کا تھا، کلام بھی اسی کا تھا
خدا کا وہ پیام تھا ، نبی ہمیں سُنا گئے
------------------ درست

جو کھو گئے جہان میں ملا نہ اُن کو کچھ یہاں
وہ بچ گئے عذاب سے ، جو راہِ حق پہ آ گئے
----------------- اس شعر کو نکال دیا جائے، بات بنی نہیں

یہ زندگی طویل ہے ، نہ ختم ہو گی مر کے بھی
یہ راز ہے حیات کا ، جو انبیاء بتا گئے ( تکرار سے بچنے کے لئے دوسرے مصرعے میں زندگی استمال نہیں کیا )
---------------- یہ راز حیات تو نہیں! اس کے الفاظ بدل کر کوشش کریں
ایک مصرع جیسے
یہی وہ بات تھی کہ جس کو انبیاء بتا گئے

کُھلے ہیں سب ہی راستے ، ثواب کے گناہ کے
سزا بھی ہے ، جزا بھی ہے ، یہ انبیاء بتا گئے
---------------------- ہہاں بھی انبیاء کا بتانا دہرایا جا رہا ہے!
'سب ہی' بھرتی کا لگتا ہے. اس کی جگہ 'سارے' استعمال کر کے دیکھیں

حضورﷺ کا غلام ہوں ،وہ جان سے عزیز ہیں
یہ کرم تو انہیں ﷺ کا ہے ، وہ راہِ حق دکھا گئے
------------------- یہ بھی دو/سہ لخت لگ رہا ہے
کرم؟ یہاں ر ساکن باندھی گئی ہے! جو غلط تلفظ ہے
 

الف عین

لائبریرین
محترم ، کیا امریکہ سے واپس آ گئے ہیں۔ سفر اور محفلیں کیسی رہیں اپن دلوں موسم تو کافی خراب تھا ۔
نہیں بھائی یہیں سینٹا کلارا میں ہوں۔ موسم تو یہاں بھی سرد ہی ہے مگر یہ تو علم ہی ہو گا کہ اس طرف برفباری وغیرہ نہیں ہوتی
 
Top