غزل برائے اصلاح : ہمیشہ سے چاند یوں دکھائی دیا مجھے

سر الف عین و دیگر اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے۔
افاعیل:-
فعولن مفاعلن فعولن مفاعلن

ہے میرے وجود میں پگھلتا ہوا دیا
حیاتی ہے ہاتھ سے نکلتا ہوا دیا

ہمیشہ سے چاند یوں دکھائی دیا مجھے
کہیں دور جھونپڑی میں جلتا ہوا دیا

ترے خوابوں کے محل ، یہ سب کچھ جلا دے گا
ہے یہ وقت ہاتھ سے پھسلتا ہوا دیا

چلا تھا میں روشنی کے پیچھے اندھیرے میں
اندھیرے میں میں بنا ہوں چلتا ہوا دیا

مجھے ڈھانپتے ہوئے ، جلے دونوں ماں کے ہاتھ
میں تھا تیز آندھیوں میں پلتا ہوا دیا

شکریہ۔۔۔
 
معروف بحر میں نہیں، میں اسی کو غلطی سمجھتا ہوں۔
اوکے سر شکریہ۔۔۔ کوشش کروں گا کسی اور بحر میں لکھوں۔۔۔ کچھ شاعر حضرات نے اس بحر میں کہا ہے اس لئے کوشش کی۔ سر مزمل شیخ بسمل نے بھی مستعمل بحروں میں شمار کیا ہے۔۔۔
اس لئے اس میں طبع آزمائی کی۔
 
سر الف عین بحر تبدیل کر دی ہے اب نظر ثانی کریں۔۔۔
فعلن مفاعلن فعلاتن مفاعلن
یا
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
یہ زندگی ہے ایک پگھلتا ہوا دیا
ہے میرے ہاتھ سے جو نکلتا ہوا دیا
یوں چاند کیوں ہمیشہ دکھائی دیا مجھے
ہو دور جھونپڑی میں وہ جلتا ہوا دیا
یہ خوابوں کے محل ترے سب کچھ جلا دے گا
یہ وقت ہاتھ سے ہے پھسلتا ہوا دیا
میں روشنی کے پیچھے چلا تھا اندھیرے میں
میں بن گیا اندھیرے میں چلتا ہوا دیا
ہاتھوں سے ڈھانپتے ہوئے ماں کے جلے تھے ہاتھ
تھا تیز آندھیوں میں ، میں پلتا ہوا دیا
 
سر الف عین اس شعر مقطع بنا دیا ہے۔ میں میں کی تکرار کچھ درست نہیں لگ رہی تھی۔۔۔
ہاتھوں سے ڈھانپتے ہوئے ماں کے جلے تھے ہاتھ
تھا تیز آندھیوں میں ، میں پلتا ہوا دیا

ہاتھوں سے ڈھانپتے ہوئے ماں کے جلے تھے ہاتھ
عمران آندھیوں میں تھا پلتا ہوا دیا
 

الف عین

لائبریرین
سر الف عین اس شعر مقطع بنا دیا ہے۔ میں میں کی تکرار کچھ درست نہیں لگ رہی تھی۔۔۔
ہاتھوں سے ڈھانپتے ہوئے ماں کے جلے تھے ہاتھ
تھا تیز آندھیوں میں ، میں پلتا ہوا دیا

ہاتھوں سے ڈھانپتے ہوئے ماں کے جلے تھے ہاتھ
عمران آندھیوں میں تھا پلتا ہوا دیا
مجھے بھی تکرار کا خیال آیا تھا لیکن پھر چھوڑ دیا ۔ یہ مقطع ضرور بہتر ہو گا
 
Top