غزل برائے اصلاح :- جس جگہ پہنچنا تھا ، وہیں آ گیا

سر الف عین و دیگر اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے۔ ایک پرانی غزل آج نظر سے گزری۔
افاعیل:- فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن

جس جگہ پہنچنا تھا ، وہیں آ گیا
یا کہیں اور تو میں نہیں آ گیا؟

پھر مسافت طے صفر سے کرنا پڑی
میں جہاں سے بڑھا تھا وہیں آ گیا

اک اڑان آسماں کو بھری تھی میں نے
پاؤں کیوں میرا زیرِ زمیں آ گیا

دل میں کھٹکا ہوا ، بھاگ کر میں اٹھا
کھولا دروازہ ، وہ تو نہیں آ گیا

کہنے کو تو وہ خالی مکاں تھا مگر
جو مرے گھر میں بن کر مکیں آ گیا

ہاتھ پیارے ترے چومنے تھے مجھے
آگے لے کر تو اپنی جبیں آ گیا

اب نہ عمران خود پر بھروسہ رہا
اور اسے آج مجھ پر یقیں آ گیا

شکریہ۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
شروع کے تینوں اشعار میں کچھ خامی ہے، باقی درست ہیں
جس جگہ پہنچنا تھا ، وہیں آ گیا
یا کہیں اور تو میں نہیں آ گیا؟
۔۔۔ پہنچنا۔ پہ۔ چنا تقطیع ہو رہا ہے۔ فاعلن۔ درست تلفظ ہ متحرک اور چ ساکن ہے، فاعلن

پھر مسافت طے صفر سے کرنا پڑی
میں جہاں سے بڑھا تھا وہیں آ گیا
۔۔۔پہلا مصرع بحر سے خارج۔ صفر بر وزن درد، فعل درست ہے۔ طے کی ے کا اسقاط بھی غلط ہے (اگر ہے تو)

اک اڑان آسماں کو بھری تھی میں نے
پاؤں کیوں میرا زیرِ زمیں آ گیا
میں نے محض 'منے' تقطیع ہو رہا ہے
 
شروع کے تینوں اشعار میں کچھ خامی ہے، باقی درست ہیں
جس جگہ پہنچنا تھا ، وہیں آ گیا
یا کہیں اور تو میں نہیں آ گیا؟
۔۔۔ پہنچنا۔ پہ۔ چنا تقطیع ہو رہا ہے۔ فاعلن۔ درست تلفظ ہ متحرک اور چ ساکن ہے، فاعلن

پھر مسافت طے صفر سے کرنا پڑا
میں جہاں سے بڑھا تھا وہیں آ گیا
۔۔۔پہلا مصرع بحر سے خارج۔ صفر بر وزن درد، فعل درست ہے۔ طے کی ے کا اسقاط بھی غلط ہے (اگر ہے تو)

اک اڑان آسماں کو بھری تھی میں نے
پاؤں کیوں میرا زیرِ زمیں آ گیا
میں نے محض 'منے' تقطیع ہو رہا ہے
اب سر الف عین

جس جگہ تھا پہنچنا ، وہیں آ گیا
یا کہیں اور تو میں نہیں آ گیا؟

صفر سے طے مسافت کو کرنا پڑی
میں جہاں سے بڑھا تھا وہیں آ گیا

اک اڑان آسماں کو بھری تھی مگر
پاؤں کیوں میرا زیرِ زمیں آ گیا

دل میں کھٹکا ہوا ، بھاگ کر میں اٹھا
کھولا دروازہ ، وہ تو نہیں آ گیا

کہنے کو تو وہ خالی مکاں تھا مگر
جو مرے گھر میں بن کر مکیں آ گیا

ہاتھ پیارے ترے چومنے تھے مجھے
آگے لے کر تو اپنی جبیں آ گیا

اب نہ عمران خود پر بھروسہ رہا
اور اسے آج مجھ پر یقیں آ گیا
 

الف عین

لائبریرین
صفر سے ہی مسافت کرنا ضروری ہے؟ اگر یوں ہو تو
ابتدا سے سفر مجھ کو کرنا پڑا؟
نئے شعر میں زیرو پسند نہیں آیا ۔الفاظ بدلو۔
 
صفر سے ہی مسافت کرنا ضروری ہے؟ اگر یوں ہو تو
ابتدا سے سفر مجھ کو کرنا پڑا؟
نئے شعر میں زیرو پسند نہیں آیا ۔الفاظ بدلو۔
جس جگہ تھا پہنچنا ، وہیں آ گیا
یا کہیں اور تو میں نہیں آ گیا؟

یاد آیا دوبارہ کیا تھا سفر
صفر جب 'نو' کے آگے کہیں آ گیا

ابتدا سے سفر مجھ کو کرنا پڑا
میں جہاں سے بڑھا تھا وہیں آ گیا

اک اڑان آسماں کو بھری تھی مگر
پاؤں کیوں میرا زیرِ زمیں آ گیا

دل میں کھٹکا ہوا ، بھاگ کر میں اٹھا
کھولا دروازہ ، وہ تو نہیں آ گیا

کہنے کو تو وہ خالی مکاں تھا مگر
جو مرے گھر میں بن کر مکیں آ گیا

ہاتھ پیارے ترے چومنے تھے مجھے
آگے لے کر تو اپنی جبیں آ گیا

اب نہ عمران خود پر بھروسہ رہا
اور اسے آج مجھ پر یقیں آ گیا
 
Top