غزل برائے اصلاح: ادا ہوتا نہیں صدقہ دکھاوے کی سخاوت سے

جناب محترم الف عین صاحب، اور دیگر اساتذہ اکرام، آپ حضرات سے اصلاح کی گذارش ہے۔

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
ادا ہوتا نہیں صدقہ دکھاوے کی سخاوت سے
خدا ملتا نہیں ہرگز بناوٹ کی عبادت سے
جنازے روز اٹھتے ہیں کبھی دیکھا نہ عبرت سے
اٹھا کر بوجھ میت کا دیا کندھا بھی غفلت سے
سمجھتے کیوں نہیں ہیں ہم معین موت کا دن ہے
بچا ہے آج تک کوئی اجل جیسی حقیقت سے ؟
مشابہ چاند کے جو تھا غزالی آنکھ تھی جس کی
اسی چہرے پہ ڈالی ہے یہ مٹی آج حسرت سے
منوں مٹی تلے جا کر وہ شاید سو رہا ہوگا
ملی ہے اب رہائی جو یہ جینے کی مشقت سے
گزاری زندگی ساری گناہوں کے کمانے میں
امیدیں اب لگائی ہیں دمِ آخر انابت سے
مرے مولا کرم کرنا دعا میری ہے اتنی سی
بچا لینا مجھے سارے گناہوں کی غلاظت سے
 

عاطف ملک

محفلین
منوں مٹی تلے جا کر وہ شاید سو رہا ہوگا
ملی ہے اب رہائی جو یہ جینے کی مشقت سے
گزاری زندگی ساری گناہوں کے کمانے میں
امیدیں اب لگائی ہیں دمِ آخر انابت سے
مرے مولا کرم کرنا دعا میری ہے اتنی سی
بچا لینا مجھے سارے گناہوں کی غلاظت سے
زبردست! زبردست! زبردست!
بہت اعلیٰ کلام!
فنی باریکیاں اساتذہ بتائیں گے لیکن بہت سی داد آپ کے لیے۔
سبھی اشعار خوب ہیں اور آخری تین اشعار تو :in-love:
گرچہ مجھے خود روانی کی خاص سمجھ بوجھ نہیں ہے لیکن یہ لگ رہا ہے کہ روانی بہتر ہو سکتی ہے:p
 
زبردست! زبردست! زبردست!
بہت اعلیٰ کلام!
فنی باریکیاں اساتذہ بتائیں گے لیکن بہت سی داد آپ کے لیے۔
سبھی اشعار خوب ہیں اور آخری تین اشعار تو :in-love:
گرچہ مجھے خود روانی کی خاص سمجھ بوجھ نہیں ہے لیکن یہ لگ رہا ہے کہ روانی بہتر ہو سکتی ہے:p
بہت شکریہ عاطف بھائی، میں روانی والی بات پر غور کرتا ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
مسلسل غزل ہے یہ اور لگتا ہے کہ کسی کی تدفین کے بعد ، اللہ کرے کہ ایسا نہ ہوا ہو، وجود میں آئی ہے!!!
درست ہے، ویسے تو ہر شعر بہتر ہو سکتا ہے۔ طویل بحور میں کبھی کبھی بھرتی کے الفاظ لانے کی مجبوری بھی ہوتی ہے۔ مختصر بحر میں کہا کرو تو بات مکمل نہ بھی ہو، اور سمجھ میں آ جائے تو اچھی لگتی ہے۔
 
مسلسل غزل ہے یہ اور لگتا ہے کہ کسی کی تدفین کے بعد ، اللہ کرے کہ ایسا نہ ہوا ہو، وجود میں آئی ہے!!!
:) جی ایسی کوئی بات نہیں، بس ایک ہی موضوع پر یعنی عشقیہ اشعار لکھ لکھ کرعجیب سا لگ رہا تھا، اس لیے موضوع بدل دیا۔
درست ہے، ویسے تو ہر شعر بہتر ہو سکتا ہے۔ طویل بحور میں کبھی کبھی بھرتی کے الفاظ لانے کی مجبوری بھی ہوتی ہے۔ مختصر بحر میں کہا کرو تو بات مکمل نہ بھی ہو، اور سمجھ میں آ جائے تو اچھی لگتی ہے۔
جی بہتر ہے، میرا خیال تھا طویل بحر میں بات زیادہ آسانی سے واضح ہو جاتی ہے جو شاید زیادہ مناسب ہے۔
 

سید عمران

محفلین
جناب محترم الف عین صاحب، اور دیگر اساتذہ اکرام، آپ حضرات سے اصلاح کی گذارش ہے۔

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
ادا ہوتا نہیں صدقہ دکھاوے کی سخاوت سے
خدا ملتا نہیں ہرگز بناوٹ کی عبادت سے
جنازے روز اٹھتے ہیں کبھی دیکھا نہ عبرت سے
اٹھا کر بوجھ میت کا دیا کندھا بھی غفلت سے
سمجھتے کیوں نہیں ہیں ہم معین موت کا دن ہے
بچا ہے آج تک کوئی اجل جیسی حقیقت سے ؟
مشابہ چاند کے جو تھا غزالی آنکھ تھی جس کی
اسی چہرے پہ ڈالی ہے یہ مٹی آج حسرت سے
منوں مٹی تلے جا کر وہ شاید سو رہا ہوگا
ملی ہے اب رہائی جو یہ جینے کی مشقت سے
گزاری زندگی ساری گناہوں کے کمانے میں
امیدیں اب لگائی ہیں دمِ آخر انابت سے
مرے مولا کرم کرنا دعا میری ہے اتنی سی
بچا لینا مجھے سارے گناہوں کی غلاظت سے
بہترین۔۔۔
اگر موت کے لقمہ کی کڑواہٹ کا احساس ہوجائے۔۔۔
تو ساری بدمستیاں ناک کے راستے نکل جائیں!!!
 
جناب محترم الف عین صاحب، میں نے اپنی ناقص فہم کے مطابق ترتیب بدل دی ہے، اس طرح کچھ بہتری کے آثار ہیں؟ (یقین جانیے ابھی تک روانی کو سمجھنے سے قاصر ہوں یہ شاید اس وقت سمجھ آئے گی جب روانی کا زمانہ گزر جائے گا جیسے جوانی بڑھاپے میں جا کر سمجھ آتی ہے (n))

ادا ہوتا نہیں صدقہ دکھاوے کی سخاوت سے
خدا ہرگز نہیں ملتا بناوٹ کی عبادت سے
جنازے روز اٹھتے ہیں کبھی دیکھا نہ عبرت سے
اٹھا کر بوجھ میت کا دیا کندھا بھی غفلت سے
سمجھتے کیوں نہیں یہ ہم معین موت کا دن ہے
بچا ہے آج تک کوئی اجل جیسی حقیقت سے ؟
مشابہ چاند کے جو تھا غزالی آنکھ تھی جس کی
اسی چہرے پہ ڈالی ہے یہ مٹی آج حسرت سے
منوں مٹی تلے جا کر سکوں کی نیند سوئے گا
رہائی مل گئی اس کو
یہ جینے کی مشقت سے
گزاری زندگی ساری گناہوں کے کمانے میں
دمِ آخر امیدیں اب لگائی ہیں انابت سے
مرے مولا کرم کرنا دعا میری ہے اتنی سی
مجھے سارے گناہوں کی بچا لینا غلاظت سے
 

الف عین

لائبریرین
میرے مشورے
سمجھتے کیوں نہیں یہ ہم معین موت کا دن ہے
سمجھتے کیوں نہیں ہم، موت کا اک دن معین ہے
رہائی مل گئی اس کو یہ جینے کی مشقت سے
رہائی مل گئی اب سانس لینے کی مشقت سے
یا
رہائی مل گئی اب اس کو جینے کی مشقت سے
مجھے سارے گناہوں کی بچا لینا غلاظت سے
پچھلا مصرع ہی بہتر تھا۔
باقی تو درست ہیں۔
 
بہت شکریہ محترم الف عین صاحب
سمجھتے کیوں نہیں ہم، موت کا اک دن معین ہے
گستاخی معاف اس میں موت کا "ت" بحر کے دوسرے حصے میں آرہا ہے، کیا یہ مناسب رہے گا؟
رہائی مل گئی اب سانس لینے کی مشقت سے
اس مصرعے میں بھی سانس کا دوسرا "س" بحر کے دوسرے حصے میں ہے۔
رہائی مل گئی اب اس کو جینے کی مشقت سے
اس مصرعے میں جملہ کو کچھ حصہ بحر کے دوسرے حصے میں جا رہا ہے یعنی "اس کو"

گستاخی معاف صرف سیکھنے کی غرض سے سوال کررہا ہوں کہ یہ باتیں اور اصول "محفل" پر ہی سیکھیں ہیں۔
پچھلا مصرع ہی بہتر تھا۔
جی بہتر ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
نہیں۔ یہ بحر دو حصوں میں منقسم نہیں۔ یہ چار حصوں میں منقسم ہے۔ چاروں مفاعیلن۔ اس میں بات مکمل ہونے جانے کا اصول کا اطلاق نہیں ہوتا۔
 
نہیں۔ یہ بحر دو حصوں میں منقسم نہیں۔ یہ چار حصوں میں منقسم ہے۔ چاروں مفاعیلن۔ اس میں بات مکمل ہونے جانے کا اصول کا اطلاق نہیں ہوتا۔
بہت شکریہ وضاحت کے لیے۔ تمام بحروں کے حوالے سے یہ تقسیم کہیں سے مل سکتی ہے؟
 
بہت شکریہ وضاحت کے لیے۔ تمام بحروں کے حوالے سے یہ تقسیم کہیں سے مل سکتی ہے؟
جن بحروں کا پہلا، تیسرا اور دوسرا چوتھا رکن ایک ہی ہوں وہ دو ٹکڑوں میں ہوتی ہیں. مثال کے طور پر
فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن( ہزج مثمن اشتر)
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن ( مضارع مثمن اخرب)
 
آخری تدوین:
جن بحروں کا پہلا، تیسرا اور دوسرا چوتها رکن ایک ہی ہوں وہ دو ٹکڑوں میں ہوتی ہیں. مثال کے طور پر
فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن( ہزج مثمن اشتر)
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن ( مضارع مثمن اخرب)
بہترین، اب سمجھ آئی بات۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ میں بات سمجھنے کے معاملے میں بالکل کی پیدل ہوں (n) ۔ بہت شکریہ، الف عین صاحب اور محمد ریحان قریشی صاحب۔
 

صدام نیازی

محفلین
ﺍﮎ ﺩﻥ ﻣﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ
ﮐﺮ ﻟﮯ ﺟﻮ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ

ﺳﺮﮐﺸﯽ ﺯﯾﺮ ﻓﻠﮏ ﺯﯾﺒﺎ ﻧﮩﯿﮟ
ﺩﯾﮑﮫ ! ﺟﺎﻧﺎ ﮨﮯ ﺗﺠﮭﮯ، ﺯﯾﺮ ﺯﻣﯿﮟ
ﺟﺐ ﺗﺠﮭﮯ ﻣﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺍﮎ ﺩﻥ ﺑﺎﻟﯿﻘﯿﻦ
ﭼﮭﻮﮌ ﻓﮑﺮ ﺍﯾﮟ ﻭ ﺁﮞ ﮐﺮ ﻓﮑﺮ ﺩﯾﮟ

ﺍﮎ ﺩﻥ ﻣﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ
ﮐﺮ ﻟﮯ ﺟﻮ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ

ﺑﮩﺮ ﻏﻔﻠﺖ ﯾﮧ ﺗﺮﯼ ﮨﺴﺘﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﺩﯾﮑﮫ ! ﺟﻨﺖ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺳﺴﺘﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﺭﮦ ﮔﺬﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺑﺴﺘﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﺟﺎﺋﮯ ﻋﯿﺶ ﻭ ﻋﺸﺮﺕ ﻭ ﻣﺴﺘﯽ ﻧﮩﯿﮟ

ﺍﮎ ﺩﻥ ﻣﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ
ﮐﺮ ﻟﮯ ﺟﻮ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ

ﻋﯿﺶ ﮐﺮ ﻏﺎﻓﻞ، ﻧﮧ ﺗﻮ ﺁﺭﺍﻡ ﮐﺮ
ﻣﺎﻝ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ، ﻧﮧ ﭘﯿﺪﺍ ﻧﺎﻡ ﮐﺮ
ﯾﺎﺩ ﺣﻖ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺻﺒﺢ ﻭ ﺷﺎﻡ ﮐﺮ
ﺟﺲ ﻟﺌﮯ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ، ﻭﮦ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ

ﺍﮎ ﺩﻥ ﻣﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ
ﮐﺮ ﻟﮯ ﺟﻮ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ

ﻣﺎﻝ ﻭ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﺎ ﺑﮍﮬﺎﻧﺎ ﮨﮯ ﻋﺒﺚ
ﺯﺍﺋﺪ ﺍﺯ ﺣﺎﺟﺖ ﮐﻤﺎﻧﺎ ﮨﮯ ﻋﺒﺚ
ﺩﻝ ﮐﺎ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﮨﮯ ﻋﺒﺚ
ﺭﮦ ﮔﺬﺭ ﮐﻮ ﮔﮭﺮ ﺑﻨﺎﻧﺎ ﮨﮯ ﻋﺒﺚ

ﺍﮎ ﺩﻥ ﻣﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ
ﮐﺮ ﻟﮯ ﺟﻮ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ

ﻋﯿﺶ ﻭ ﻋﺸﺮﺕ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻧﺴﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ
ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮫ ﺗﻮ ﺑﻨﺪﮦ ﮨﮯ ﻣﮩﻤﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ
ﻏﻔﻠﺖ ﻭ ﻣﺴﺘﯽ ﺗﺠﮭﮯ ﺷﺎﯾﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ
ﺑﻨﺪﮔﯽ ﮐﺮ ﺗﻮ ﺍﮔﺮ ﻧﺎﺩﺍﻥ ﻧﮩﯿﮟ

ﺍﮎ ﺩﻥ ﻣﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ
ﮐﺮ ﻟﮯ ﺟﻮ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ

ﺩﻓﻦ ﺧﻮﺩ ﺻﺪ ﮨﺎ ﮐﺌﮯ ﺯﯾﺮ ﺯﻣﯿﮟ
ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻣﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺣﻖ ﺍﻟﯿﻘﯿﮟ
ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻏﺎﻓﻞ ﻧﮩﯿﮟ
ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﻋﺒﺮﺕ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﻧﻔﺲ ﻟﻌﯿﻦ

ﺍﮎ ﺩﻥ ﻣﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ
ﮐﺮ ﻟﮯ ﺟﻮ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ

ﯾﻮﮞ ﻧﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﮯ ﮐﺎﺭ ﺭﮐﮫ
ﺁﺧﺮﺕ ﮐﮯ ﻭﺍﺳﻄﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﺭﮐﮫ
ﻏﯿﺮ ﺣﻖ ﺳﮯ ﻗﻠﺐ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺯﺍﺭ ﺭﮐﮫ
ﻣﻮﺕ ﮐﺎ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﺍﺳﺘﺤﻀﺎﺭ ﺭﮐﮫ

ﺍﮎ ﺩﻥ ﻣﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ
ﮐﺮ ﻟﮯ ﺟﻮ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ

ﺗﻮ ﺳﻤﺠﮫ ﮨﺮ ﮔﺰ ﻧﮧ ﻗﺎﺗﻞ ﻣﻮﺕ ﮐﻮ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺟﺎﻥ ﺣﺎﺻﻞ ﻣﻮﺕ ﮐﻮ
ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻋﺎﻗﻞ ﻣﻮﺕ ﮐﻮ
ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮫ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﻏﺎﻓﻞ ﻣﻮﺕ ﮐﻮ

ﺍﮎ ﺩﻥ ﻣﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ
ﮐﺮ ﻟﮯ ﺟﻮ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ

ﺗﻮ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻋﺒﺮﺕ ﮐﺪﮦ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﮕﻦ
ﮔﻮ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺩﺍﺭﺍ ﻟﻤﺤﻦ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﺤﺰﻥ
ﻋﻘﻞ ﺳﮯ ﺧﺎﺭﺝ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺗﯿﺮﺍ ﭼﻠﻦ
ﭼﮭﻮﮌ ﻏﻔﻠﺖ ﻋﺎﻗﺒﺖ ﺍﻧﺪﯾﺶ ﺑﻦ

ﺍﮎ ﺩﻥ ﻣﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ
ﮐﺮ ﻟﮯ ﺟﻮ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ

ﯾﮧ ﺗﯿﺮﯼ ﻏﻔﻠﺖ ﮨﮯ ﺑﮯ ﻋﻘﻠﯽ ﺑﮍﯼ
ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﯽ ﮨﮯ ﻗﻀﺎ ﺳﺮ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﯼ
ﻣﻮﺕ ﮐﻮ ﭘﯿﺶ ﻧﻈﺮ ﺭﮐﮫ ﮨﺮ ﮔﮭﮍﯼ
ﭘﯿﺶ ﺁﻧﮯ ﮐﻮ ﮨﮯ اک ﻣﻨﺰﻝ ﮐﮍﯼ

ﺍﮎ ﺩﻥ ﻣﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ
ﮐﺮ ﻟﮯ ﺟﻮ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ

ﮔﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﭘﮧ ﺗﻮ ﭘﺮﻭﺍﻧﮧ ﻭﺍﺭ
ﮔﻮ. ﺗﺠﮭﮯ ﺟﻠﻨﺎ ﭘﮍﮮ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﮐﺎﺭ
ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﺩﻋﻮٰﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ ﮨﯿﮟ ﮨﻮﺷﯿﺎﺭ
ﮐﯿﺎ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﮨﻮﺷﯿﺎﺭﯼ ﮐﺎ ﺷﻌﺎﺭ

ﺍﮎ ﺩﻥ ﻣﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ
ﮐﺮ ﻟﮯ ﺟﻮ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ

ﺣﯿﻒ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﺗﻮ ﮨﻮ ﭘﺮﻭﺍﻧﮧ ﺗﻮ
ﺍﻭﺭ ﮐﺮﮮ ﻋﻘﺒﯽٰ ﮐﯽ ﮐﭽﮫ ﭘﺮﻭﺍ ﻧﮧ ﺗﻮ
ﮐﺲ ﻗﺪﺭ ﮨﮯ ﮨﮯ ﻋﻘﻞ ﺳﮯ ﺑﯿﮕﺎﻧﮧ ﺗﻮ
ﺍﺱ ﭘﮧ ﺑﻨﺘﺎ ﮨﮯ ﺑﮍﺍ ﻓﺮﺯﺍﻧﮧ ﺗﻮ
ﺍﮎ ﺩﻥ ﻣﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ
ﮐﺮ ﻟﮯ ﺟﻮ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﻮﺕ ﮨﮯ
 
Top