غزل برائے ارباب ذوق و نقد و تبصرہ

فاخر

محفلین
غ۔۔۔۔۔۔۔زل
افتخاررحمانی (فاخر)
صہبا سمجھ کے اشک کو ہرشام پیتا ہوں
انڈیل کے میں رنج کو ہر شام پیتاہوں
قادر نہیں کہ تجھ کو صدا دوں میں دم بدم
آئینہء ہلال کو ہرشام پیتا ہوں
آواز دے رہا ہے مجھے واعظ شہر
جھٹلا کے اس کے قول کو ہرشام پیتا ہوں
تمثال مے گسار ہے تیری ذات سن
ہونٹوں سے جام ناب کو ہر شام پیتا ہوں
شعلہ نَفس ہو تم ، تو میں شعلہ خیال ہوں
موج شرر و فکر کو ہر شام پیتا ہوں
”حافظ“ کے شعر میں تو ، رباب نہاں میں تو
فاخر میں امتزاج کو ہر شام پیتا ہوں
 
اچھی کاوش ہے۔
کچھ مشاہدات
ردیف میں پیتا ہوں کی جگہ پیتَ ہوں پڑھا جا رہا ہے۔
آواز دے رہا ہے مجھے واعظ شہر
شہر کا واز فاع ہے ۔ ہ ساکن ہے۔
تمثال مے گسار ہے تیری ذات سن
وزن میں مسئلہ ہے۔
موج شرر و فکر کو ہر شام پیتا ہوں
وزن کا مسئلہ ہے۔ موجِ شرر و فکر کی سمجھ نہیں آئی۔
 

فاخر

محفلین
اس غزل کا وزن عروض ڈاٹ کام کے لحاظ سےمفعول،فاعلات،مفاعیل،فاعلن ہے۔ اس کی تقطیع کچھ یوں ہے : آواز=مفعول۔دے رہاہے =فاعلات،مجھے واع=مفاعیل،ظے شہر=فاعلن۔ ویسے آپ تمام حضرات اہل علم ہیں اپنے لحاظ سے اس کا کوئی اور بھی وزن مقرر کرسکتے ہیں ۔
 
اس غزل کا وزن عروض ڈاٹ کام کے لحاظ سےمفعول،فاعلات،مفاعیل،فاعلن ہے۔ اس کی تقطیع کچھ یوں ہے : آواز=مفعول۔دے رہاہے =فاعلات،مجھے واع=مفاعیل،ظے شہر=فاعلن۔ ویسے آپ تمام حضرات اہل علم ہیں اپنے لحاظ سے اس کا کوئی اور بھی وزن مقرر کرسکتے ہیں ۔
پیارے بھائی شہر کا یہ وزن میرا طے کردہ نہیں ہے۔
ویسے عروض پر بھی درست وزن ہی آ رہا ہے۔
ظے شہر کا وزن مفعول ہے، فاعلن نہیں۔
Screenshot_2018-09-02-14-59-38-68.png
 

وجاہت حسین

محفلین
ماشاء اللہ۔ بہت اچھی کاوش ہے۔ خوبصورت خیالات ہیں۔

لفظ شہر سے متعلق جو محمد تابش بھائی نے کہا وہ درست ہے۔ اہلِ علم لفظ کا تلفظ خود سے مقرر نہیں کر تے۔ جو اصل تلفظ ہے وہی چلتا ہے۔ شاعری کی ابتدا میں یہ غلطی بہت عام ہے۔ مگر محنت کے ساتھ ساتھ انسان سیکھتا جاتا ہے۔

اور جہاں تک عروض ڈاٹ کام کا سوال ہے۔ وہ یقیناً ایک بہترین سائیٹ ہے۔ مگر اس کو حتمی نہ مانا جائے بلکہ ابتدائی چیک کے لئے استعمال کیا جائے۔ کیونکہ اس میں تقطیع پروگرام کی مدد سے ہوتی ہے۔ جو لفظ تو دیکھتا ہےمگر معانی نہیں۔

مثال کے طور پر دو مصرع گھڑتے ہیں۔
’’نفس ہے اگر پاک تیرا، اے مسلم!
لہو کاموں سے دور رہ! دور رہ!تُو‘‘

اس شعر میں میں نے لفظ نَفْس استعمال کیا ہے جس کا وزن ہے فاع۔ اس سے مراد ہے بری خصلتیں ۔ مگر سائٹ نے اس کی تقطیع ’’نَفَس (فَعَل)‘‘ کی ہے جس سے مراد سانس ہوتا ہے۔ وہ اس لیے کہ سائٹ کو نہیں پتا کہ میں نَفس استعمال کر رہا ہوں یا نَفَس۔ مزید دوسرے مصرع میں میں نے لفظ استعمال کیا ’’لَہْو (فاع)‘‘ جس کا معنی ہے فضول کام۔ مگر سائٹ نے تقطیع کی ’’لَہُو (فَعَل)‘‘ یعنی خون۔ اس شعر کو سائٹ پر ڈالیں تو وزن برابر نظر آئے گا۔

بس بتانا یہ مقصود تھا کہ سائٹ وہ لفظ چنتی ہے جو مصرع کو وزن پر پورا کر دے۔ اس کی معنی سے اس کو کوئی سروکار نہیں۔ یہ کام فی الحال انسان ہی کر سکتا ہے۔ لہذا سائٹ کو فقط ابتدائی چیک کے لیے استعمال کرنا مناسب ہے۔

لفظ شہر کی میرؔ کے اس شعر میں تقطیع دیکھیے ذرا۔
دیکھے کہاں ہیں زلف تری مردمان شہر
سودا ہوا ہے کہنے لگے اس جواں کے تیں
(میر تقی میرؔ)

غالب کا شعر بھی ملاحظہ ہو۔
شہر گویا نمونۂ گلزار
باغ گویا نگارخانۂ چیں
 

فاخر

محفلین
ماشاء اللہ۔ بہت اچھی کاوش ہے۔ خوبصورت خیالات ہیں۔

لفظ شہر سے متعلق جو محمد تابش بھائی نے کہا وہ درست ہے۔ اہلِ علم لفظ کا تلفظ خود سے مقرر نہیں کر تے۔ جو اصل تلفظ ہے وہی چلتا ہے۔ شاعری کی ابتدا میں یہ غلطی بہت عام ہے۔ مگر محنت کے ساتھ ساتھ انسان سیکھتا جاتا ہے۔

اور جہاں تک عروض ڈاٹ کام کا سوال ہے۔ وہ یقیناً ایک بہترین سائیٹ ہے۔ مگر اس کو حتمی نہ مانا جائے بلکہ ابتدائی چیک کے لئے استعمال کیا جائے۔ کیونکہ اس میں تقطیع پروگرام کی مدد سے ہوتی ہے۔ جو لفظ تو دیکھتا ہےمگر معانی نہیں۔

مثال کے طور پر دو مصرع گھڑتے ہیں۔
’’نفس ہے اگر پاک تیرا، اے مسلم!
لہو کاموں سے دور رہ! دور رہ!تُو‘‘

اس شعر میں میں نے لفظ نَفْس استعمال کیا ہے جس کا وزن ہے فاع۔ اس سے مراد ہے بری خصلتیں ۔ مگر سائٹ نے اس کی تقطیع ’’نَفَس (فَعَل)‘‘ کی ہے جس سے مراد سانس ہوتا ہے۔ وہ اس لیے کہ سائٹ کو نہیں پتا کہ میں نَفس استعمال کر رہا ہوں یا نَفَس۔ مزید دوسرے مصرع میں میں نے لفظ استعمال کیا ’’لَہْو (فاع)‘‘ جس کا معنی ہے فضول کام۔ مگر سائٹ نے تقطیع کی ’’لَہُو (فَعَل)‘‘ یعنی خون۔ اس شعر کو سائٹ پر ڈالیں تو وزن برابر نظر آئے گا۔

بس بتانا یہ مقصود تھا کہ سائٹ وہ لفظ چنتی ہے جو مصرع کو وزن پر پورا کر دے۔ اس کی معنی سے اس کو کوئی سروکار نہیں۔ یہ کام فی الحال انسان ہی کر سکتا ہے۔ لہذا سائٹ کو فقط ابتدائی چیک کے لیے استعمال کرنا مناسب ہے۔

لفظ شہر کی میرؔ کے اس شعر میں تقطیع دیکھیے ذرا۔
دیکھے کہاں ہیں زلف تری مردمان شہر
سودا ہوا ہے کہنے لگے اس جواں کے تیں
(میر تقی میرؔ)

غالب کا شعر بھی ملاحظہ ہو۔
شہر گویا نمونۂ گلزار
باغ گویا نگارخانۂ چیں
بہت بہت شکریہ !!!! آپ نے بھی بہت ہی عمدہ بات کہی ہے،اللہ آپ کو بھی جزائے خیر عطا فرمائے آمین !!!
 

الف عین

لائبریرین
بنیادی غلطی کی نشاندہی بھائی محمد خلیل الرحمٰن نے کر دی ہے غزل کے لیے ضروری ہے کہ اس کا فارم درست ہو جس میں بحر ردیف اور قافیہ شامل ہیں ۔ رردیف تو درست ہو گئی 'کو ہر شام پیتا ہوں' '[اگرچہ 'پیتا' کا الف ساقط ہو گیا ہے] مگر اس کے پہلے کے الفاظ میں قافیہ ہونا چاہیے تھا جو غائب ہے
 
Top