غزل: اور اک بار ہو گئے زندہ (مہدی نقوی حجازؔ)

غزل

ہو کے بیزار ہو گئے زندہ
اور اک بار ہو گئے زندہ

لوگ مرتے ہیں سولیوں پر اور
ہم سرِ دار ہو گئے زندہ

ہو گئی رنج و یاس کی تدفین
اور قدح خوار ہو گئے زندہ

صور پھونکا گیا تو سب کی طرح
ہم بھی ناچار ہو گئے زندہ

حسن جاگا تو کتنے سوئے ہوئے
نازبردار ہو گئے زندہ

راگ کی لے میں رقص کرتے ہوئے
ساز کے تار ہو گئے زندہ

کچھ انوکھے شہید گردن سے
چھو کے تلوار ہو گئے زندہ

میں جو زندہ ہوا تو ساتھ ہی ساتھ
میرے کچھ یار ہو گئے زندہ

ٹھوکریں کھا کے میرے قدموں تلے
کتنے مردار ہو گئے زندہ

غالبؔ و جوشؔ و جونؔ و فیضؔ و فرازؔ
مر کے مئے خوار ہو گئے زندہ

رنگ بھرنے لگا حجازؔ اور پھر
اس کے اشعار ہو گئے زندہ

مہدی نقوی حجازؔ
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہ
کیا کہنے حضور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
رنگ بھرنے لگا حجازؔ اور پھر
اس کے اشعار ہو گئے زندہ
 

امر شہزاد

محفلین
پوری غزل ہی قابلِ داد ہے ۔


صور پھونکا گیا تو سب کی طرح
ہم بھی ناچار ہو گئے زندہ

سیدھا سیدھا دل پہ نشانہ کرتا ہے یہ شعر
بہت زبردست شعر۔ لا جواب
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
کمال ہی کمال ہے ،،، واااہ ،،، یاد رکھنے کا شکریہ عزیزم :) :) ،،، بس پوچھنے ہی والا تھا کہ بھائی مصرع کہاں سے لیا :) :)
 
Top