غزل : ان کے پہلو میں بھی کچھ کمی رہ گئی- فرحان محمد خان

لمبی غیر حاضری کے بعد ایک تازہ غزل​
میرے دل میں بھی اک یاد سی رہ گئی
ان کے پہلو میں بھی کچھ کمی رہ گئی

ایک بچہ جو دنیا کا باغی ہوا
ایک ماں جو اسے ڈانٹتی رہ گئی

گھر سے نکلے تو ہم پر کھلا بارہا
گھر کی دہلیز پر زندگی رہ گئی

زندگی بھر محبت ہی کرتے رہے
اور اس میں بھی شاید کمی رہ گئی

ایک بندِ قبا اپنی قسمت ہوا
اک گرہ جو کہ کھلتی ہوئی رہ گئی

اک محبت کہ محرومِ اظہار تھی
اک کلی باغ میں ادھ کھلی رہ گئی

ایک چہرہ جو آنکھوں میں اٹکا رہا
بات ایسی جو دل میں دبی رہ گئی

ایک تصویر ہے جس میں دو لوگ ہیں
زندگی میں یہی اک خوشی رہ گئی

کوئی رخصت ہوا ،دل یہ کہنے لگا
اپنے حصے میں اب شام ہی رہ گئی

اس کو دعوی تھا مڑ کر نہیں دیکھنا
اور دیکھا تو پھر دیکھتی رہ گئی

چار یار اور اک چائے کی میز تھی
اب وہاں پر فقط میز ہی رہ گئی
فرحان محمد خان​
 

فاخر رضا

محفلین
لمبی غیر حاضری کے بعد ایک تازہ غزل​
میرے دل میں بھی اک یاد سی رہ گئی
ان کے پہلو میں بھی کچھ کمی رہ گئی

ایک بچہ جو دنیا کا باغی ہوا
ایک ماں جو اسے ڈانٹتی رہ گئی

گھر سے نکلے تو ہم پر کھلا بارہا
گھر کی دہلیز پر زندگی رہ گئی

زندگی بھر محبت ہی کرتے رہے
اور اس میں بھی شاید کمی رہ گئی

ایک بندِ قبا اپنی قسمت ہوا
اک گرہ جو کہ کھلتی ہوئی رہ گئی

اک محبت کہ محرومِ اظہار تھی
اک کلی باغ میں ادھ کھلی رہ گئی

ایک چہرہ جو آنکھوں میں اٹکا رہا
بات ایسی جو دل میں دبی رہ گئی

ایک تصویر ہے جس میں دو لوگ ہیں
زندگی میں یہی اک خوشی رہ گئی

کوئی رخصت ہوا ،دل یہ کہنے لگا
اپنے حصے میں اب شام ہی رہ گئی

اس کو دعوی تھا مڑ کر نہیں دیکھنا
اور دیکھا تو پھر دیکھتی رہ گئی

چار یار اور اک چائے کی میز تھی
اب وہاں پر فقط میز ہی رہ گئی
فرحان محمد خان​
نصرت فتح زندہ ہوتے تو لے جاتے آپ سے
بہت خوب
 
Top