افتخار عارف غزل۔ حامی بھی نہ تھے منکرِ غالب بھی نہیں تھے ۔ افتخار عارف

عدیل ہاشمی

محفلین
حامی بھی نہ تھے منکر غالبؔ بھی نہیں تھے
ہم اہل تذبذب کسی جانب بھی نہیں تھے

اس بار بھی دنیا نے ہدف ہم کو بنایا
اس بار تو ہم شہہ کے مصاحب بھی نہیں تھے

بیچ آئے سر قریۂ زر جوہر پندار
جو دام ملے ایسے مناسب بھی نہیں تھے

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے

لو دیتی ہوئی رات سخن کرتا ہوا دن
سب اس کے لیے جس سے مخاطب بھی نہیں تھے

افتخار عارف
 
Top