غزلِ ظہیر کاشمیری - "وہ اکثر باتوں باتوں میں اغیّار سے پُوچھا کرتے ہیں"

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
ظہیرکاشمیری

وہ اکثر باتوں باتوں میں اغیّار سے پُوچھا کرتے ہیں
یہ سر بہ گریباں دیوانے کس شے کا تقاضا کرتے ہیں

اک دن تھا، کہ ساحل پر بیٹھے طُوفاں پہ تبسّم کرتے تھے
اب مایوسی کے عالم میں ساحل کا تماشا کرتے ہیں

خطرہ ہے وفا کے لٹنے کا، مجبُورئِ دل بھی لازم ہے
جینے کی تمنّا کرتے ہیں، مرنے کا تقاضا کرتے ہیں

معصوم ستمگر کی باتیں، مظلوم ادا کے افسانے
یوں رات بسر ہوجاتی ہے، یوں دل کا مداوا کرتے ہیں

جب نادانی کا عالم تھا حاصل کی تمنّا کرتے تھے
اب دل میں آگ لگاتے ہیں شعلوں کا تماشا کرتے ہیں

اپنے میں رہے تو رُسوائی، اپنے سے گئے تو سودائی
ہم مُدّت سے دیوانگئِ دُنیا کا تماشا کرتے ہے

ظہیرکاشمیری
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
جب نادانی کا عالم تھا حاصل کی تمنّا کرتے تھے
اب دل میں آگ لگاتے ہیں شعلوں کا تماشا کرتے ہیں

عمدہ انتخاب
 
Top