غذائ بحران

میرے سر پر ایک بھاری گٹھڑی تھی جسے صبح ہونے سے پہلے پہلے ٹھکانے لگانا تھا- دراصل یہ سیاہ رنگ کا ایک بوری سائز کا شاپر تھا جسے “کِیس اسود” کہتے ہیں- یہ “کِیس” اتنا مظبوط ہے کہ کوّا بھی ٹھونگ مارے تو نہ پھٹّے
کِیس میں جوس کے دس پندرہ بھرے ہوئے ڈبّے ، آٹھ دس کلو بریانی جس کے چاول محبوب کی آنکھ جتنے لمبے تھے ، اسٹم فرائ روسٹ ران مرغ ، کلیجی کا سالن ، دو درجن ابلے ہوئے انڈے ، فول یعنی لوبیے کے سالن سمیت بے شمار اشیائے خوردونوش کا متنجن بنا ہوا تھا
کچرا کنڈی کے پاس آ کر میں نے “کِیس اسود” کسی گناہ کی طرح اندر پھینکا- آٹھ دس بلیاں چیاؤں چیاؤں کرتی ادھر ادھر بھاگ نکلیں
رات کے دو بج رہے تھے- واپس دفتر میں آ کر مجھے وہ 50 عدد نان بھی ٹھکانے لگانے تھے جنہیں کسی نے چکھا تک نہ تھا- یوں لگ رہا تھا گویا کسی بارات نے آنا تھا اور عین وقت پر شادی منسوخ ہو گئ- میں رزق کی بے حرمتی پر نوحہ کناں تھا مگر یہ بے حرمتی میری پیشہ ورانہ مجبوری تھی- شیخ کا بیان تھا کہ صفائ نصف ایمان ہے
دفتر کے مرکزی فریج میں فروٹ کی ایک جہازی سائز ٹوکری نجانے کون رکھ کر بھول گیا ہے- فروٹ گل سڑ چکے مگر کسی نے کھانے کی زحمت نہیں کی- چار پانچ کولڈ ڈرنکس بھی کسی نے گھونٹ چڑھا کر چھوڑ دی ہیں- سبزی بھی خراب ہو رہی ہے- مجھے باس کے آنے سے پہلے پہلے فریج کی “باس” بھی ختم کرنی ہے
میں نے روٹیوں کو شاپروں سے نکالا أور باریک باریک توڑ کر انہیں اٹھائے گودی کی طرف چلا گیا تاکہ مچھلیوں کو ڈال سکوں- وہاں جا کر معلوم ہوا کہ مچھلیاں تو کھا پی کر کب کی سو چکیں
میں شاپر اٹھائے ھانپتا کانپتا واپس دفتر پہنچا- روٹی کا وقار قائم رکھنے کےلیے اگلے روز تقریباً تیس نان بستے میں ڈال کر بنگلے پر لے گیا- ان کو توڑ توڑ کر مزید باریک کیا پھر تھوڑی سی خوراک کھڑکی کا شیشہ کھول کر باہر رکھ دی کہ چڑیاں کبوتر ہی کھا لیں
تیسرے ہی روز کسی بنگالی نے مسؤول بنگلہ جات کو کمپلین درج کرائ کہ اوپر والی منزل پر کوئ بدمست پرندوں کو کھانا ڈالتا ہے جس کی وجہ سے گندگی پھیل رہی ہے
اگلے دن مسؤول نے مجھے سمجھایا کہ قطری پرندوں کو خوراک کی کوئ کمی نہیں- آپ خواہ مخواہ تعفن پھیلا رہے ہیں- براہ کرم بنگلے پر روٹیاں مت لایا کیجئے
رات گئے میں نے تمام روٹیاں کچرا کنڈی میں جا کر پھینک دیں
یہ صرف ایک دن کی کہانی نہیں روز کا المیہ تھا- دفتر میں تین بندوں کا کھانا منگوانا مطلوب ہوتا تو آرڈر دس کا دیا جاتا بچا کھچا کالے رنگ کی بوری میں ، بوری میرے سر پر اور مونہہ میرا کچرا کنڈی کی طرف
مجھے قطر میں غذائ بحران کا لطیفہ مت سنائیے- ہاں کالے شاپروں کا بحران ضرور پیدا ہو سکتا ہے- ترکی نے شاید “کیس اسود” کی کھیپ ہی بھیجی ہو

ازقلم…. ظفر اقبال محمّد
 
Top