غبار خاطر صفحہ نمبر197

ذیشان حیدر

محفلین
صفحہ نمبر197
روز صبح روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہاتھ میں لے کر نکل جاتے ہیں اور صحن میں جا کھڑے ہوتے ہیں پھر جہاں تک حلق کام دیتا، آ، آ، آ کرتے جاتے اور ٹکڑے فضاء کو دکھا دکھا کر پھینکتے رہتے۔ یہ صلائے عام میناؤں کو تو ملتفت نہ کرسکی البتہ شہر ستانِ ہوا کے دریوازہ گران ہر جائی یعنی کو وں نے ہر طرف سے ہجوم شروع کردیا ۔ میں نے کووں کو شہرستان ہو ا کا دریوزہ گراس لیے کہا کہ کبھی انہیں مہمانوں کی طرح کہیں جاتے دیکھا نہیں؛ طفیلیوں کے غول میں بھی بہت کم دکھائی پڑے؛ ہمیشہ اسی عالم میں پایا کہ فقیروں کی طرح ہر دروازے پر پہنچے، صدائیں لگائی اور چل دئیے۔
فقیرانہ آئے، صدا کر چلے!۱۰؎
بہرحال محمود صاحب آ، آ، کے تسلسل سے تھک کر جونہی مڑتے یہ دریوازہ گرانِ کوتہ آستین فوراً بڑھتے اور اپنی درازستیوں سے دستر خوان صاف کرکے رکھ دیتے۔
(۳۲۳)
اے کوتہ آستینان ! تاکے دراز دستی۱۱؎
صحن کے شمالی کنارے میں نیم کا ایک تناور درخت ہے ۔ اس پر گلہریوں کے جھنڈ کودتے پھرتے ہیں۔ انہوں نے جو دیکھا کہ :
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے۱۲؎
تو فوراً لبیک لبیک اور ''مرحمت عابی زیاد'' کہتے ہوئے اس دستر خوانِ کرم پر ٹوٹ پڑیں:
(۳۲۴)
یاران ! صلائے عام ست گرمے کنید کارے۱۳؎
کووں کی دراز دستیوں سے جو کچھ بچتا ، ان کو تاہ دستوں کی کامجوئیوں کا کھا جا بن جاتا۔پہلے روٹی کے ٹکڑوں پر منہ مارتیں پھر فوراً گردن اُٹھا لیتیں۔ ٹکڑا چباتی جاتیں اور سر ہلا ہلا کر کچھ اشارے بھی کرتی جاتیں۔ گویا محمود صاحب کو دادِضیافت دیتے ہوئے بہ طریقِ حسِ طلب یہ بھی کہتی جاتی ہیں کہ :
(۳۲۵)
گرچہ خوب است و لیکن قدرے بہتر ازیں ۱۴؎
خیر بیچاری گہریوں کا شمار تو اسفرئہ کرم کے زیرہ چینوں میںہوا، لیکن کوے جنہیں طفیلی سمجھ کر میزبان عالی ہمت نے چنداں تعرض نہیں کیا تھا ، اچانک اس قدر بڑھ گئے کہ
 
Top