غبار خاطر صفحہ نمبر194

ذیشان حیدر

محفلین
صفحہ نمبر194
''اینا کارنینا'' سے کم دلپذیر نہیں ہیں اور دراصل ان دونوں افسانوں میں بھی اس کی انانیت ہی کی صدائیں ہم سن رہے ہیں ۔ زمانہ اس کی قلم کاریوں کا رنگ و روغن ابھی تک مدھم نہیں کرسکا۔ پچھلی جنگ کے زمانہ میںلوگ ''وار اینڈ پیس'' از سر نو ڈھونڈھنے لگے تھے اور اب پھر ڈھونڈ رہے ہیں۔
موجودہ عہد میںٹالشائی کی عظمت بحیثیت اور ایک مفکر کے بہت ''کم'' ۲۵؎ دماغوں کی متوجہ کرسکے گی۔ یورپ اور امریکہ کے دماغی طبقوں میں بہت کم لوگ ایسے نکلیں گے جو اس کے معاشرتی، فلسفی اور جمالیاتی(Aesthetics)افکار کو اس نظر سے دیکھنے کے لیے طیار ہوں، جس نظر سے اس صدی کے ابتدائی دور کے لوگ دیکھا کرتے تھے۔ تاہم اس کی انانیتی ادبیات کی دلپذیری سے اب بھی کوئی انکار نہیںسکتا۔ اس کی عجیب زندگی کا معمہ بھی بحث و نظر کا ایک دل پسند موضوع ہے۔ ہر دوسرے تیسرے سال کوئی نہ کوئی نئی کتاب نکلتی رہتی ہے۔
پچھلی صدی کے آخری اوراس صدی کے ابتدائی دور میں بکثرت خود نوشتہ سوانح عمریاں لکھی گئیں ۔ کہا جاسکتا ہے کہ اس عہدکے ہر چوتھے مصنف نے ضروری سمجھا کہ اپنی گزری ہوئی زندگی کو آخر عمر میں پھر ایک مرتبہ دہرالے۔ دنیا کے کتب خانوں نے ا سب کو اپنی الماریوں میں جگہ دی ہے ، لیکن دنیا کے دماغوں میں بہت کم کے لیے جگہ نکل سکی۔
میں نے ابتدائی سطور ''ایغو'' ۲۶؎کا لفظ استعمال کیا تھا ۔ یہ وہی یونانی (Ego)کی تعریف ہے جو ارسطو کے عربی مترجموں نے ابتدا ہی میں اختیار کر لی تھی اور پھر فارابی۲۷؎ اور ابن رشد۲۸؎ وغیرہ ہما برابر استعمال کرتے رہے۔ میں خیال کرتا ہوں کہ فلسفیانہ مباحث میں ''انا'' کی جگہ ''ایغو'' کا استعمال زیادہ موزوں ہوگا۔ یہ براہ راست فلسفیانہ اصطلاح کو رونما کردیتا ہے اور ٹھیک وہی کام دیتا ہے جو یورپ کی زبانوں میں ''ایگو'' ۲۹؎ دے رہاہے۔ یہ اس اشتباہ کو بھی دور کردے گا جو ''انا'' مصصلحہ فلسفہ اور ''انا'' مصطلحہ تصوف میں باہم وگر پیدا ہوجاسکتا ہے ۔ اردو میں ہم ''ایگو'' بجنسہ لے سکتے ہیں کیونکہ ہمیں گاف سے احتراز کرنے کی ضرورت نہیں۔
 
Top